اداریہ
منافقت
ایوب بیگ مرزا
اگر کوئی منافقت کو اُس کی بدترین صورت میں دیکھنا چاہے تو وہ اُسے مغرب اور امریکہ کی اشرافیہ میں نظر آئے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس اشرافیہ کے اذہان اور قلوب پر صہیونی اپنے پنجے بُری طرح گاڑھ چکے ہیں۔ لہٰذا صہیونی نظریات کے زیر اثر یہ اشرافیہ بھی انسانوں کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مغربی یورپ اور امریکہ میں عام شہری، ذرائع ابلاغ اور معیشت پر اس اشرافیہ کے مکمل اور جابرانہ تسلط کی وجہ سے تمام تر سیاسی، معاشی بلکہ معاشرتی سطح پر بھی خود کو اس اشرافیہ کے سپرد کر چکا ہے۔ لہٰذا وہ اسی میں اپنی عافیت سمجھتا ہے اور اُسے جو تحفظ درکار ہے وہ یہ اشرافیہ اُسے فراہم کرتی ہے۔ چنانچہ وہ لکیر کا فقیر ہے اور اُس نے زندگی کی تمام جدوجہد کو محض اپنی نجی زندگی کی مادی ضروریات کی تکمیل تک محدود کر لیا ہے۔ ہر چار یا پانچ سال بعد وہ ووٹ ڈال کر ہاتھوں کے بدلنے یا نہ بدلنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ وہ نظام کو نہیں بدل سکتا، وہ اُس قبضہ سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا جو اُس کے دل اور ذہن پر اُس اشرافیہ یا مافیا نے مختلف ذرائع سے حاصل کیا ہوا ہے۔ اُس کے اس کنٹرول کا اہم ترین ذریعہ وہ معاشی نظام ہے جس کی جکڑ بندیوں میں ایک دنیا کو اُنہوں نے باندھا ہوا ہے۔ اُسے سرمایہ دارانہ نظام کہا جاتا ہے۔
اس نظام کے ذریعے یہ اشرافیہ اپنوں سمیت دنیا کی کثیر آبادی کا خون چوس رہا ہے۔ لیکن اس کی انتہائی بدصورت اور کریہہ شکل کو عام انسانوں کی نظروں سے اوجھل رکھنے کے لیے اس پر جمہوریت کے نام سے ایک خوشنما اور دیدہ زیب غلاف چڑھا دیا گیا ہے۔ سارا ظاہری کام اور پروپیگنڈا اس جمہوریت کے نام سے کیا جاتا ہے اور عملی طور پر اُس ظالمانہ، سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت دی جاتی ہے۔ اور وہ تمام امور سر انجام دیئے جاتے ہیں جس سے سرمائے کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس انسانیت دشمن اور بدترین استحصالی نظام کی ڈھال یا پردہ کو مزید خوشنما اور خوبصورت بنانے کے لیے عالمی سطح پر بہت سی تناظیم قائم کی گئی ہیں۔ مثلاً انسانی حقوق کی تنظیم، آزادی تحریر و تقریر، عورتوں کے حقوق کی تنظیم اور صحافیوں کے حقوق وغیرہ وغیرہ بلکہ جانوروں اور جنگلی درندوں کے حقوق کی تناظیم وغیرہ قائم کرکے عام انسانوں کی آنکھوں پر ایسی عینک چڑھا دی گئی ہے جس سے وہی کچھ نظر آتا ہے جو کچھ مذکورہ اشرافیہ لوگوں کو دکھانا چاہتی ہے۔ ہم آغاز میں عرض کر چکے ہیں کہ اس اشرافیہ پر صہیونیوں کا قبضہ ہے جن کا دنیا بھر میں گردش کرنے والے سرمائے میں بہت بڑا حصہ ہے۔ لہٰذا سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں اور صہیونیوں کا ایک Page پر ہونا منطقی بات ہے چنانچہ سرمائے کی بنیاد پر حاصل ہونے والی قوت کو صہیونی مفادات کے تحفظ میں بھرپور طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر اُن کے سیاسی مفادات کے تحفظ میں بھرپور انداز میں یہ قوت استعمال ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر دنیا میں کسی جگہ اگر ایک ایسا انسان قتل ہو جاتا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام یا صہیونی سوچ سے مطابقت رکھتا تھا تو دنیا بھر میں ایسا طوفان اٹھایا جائے گا کہ کئی حکومتوں اور ریاستوں کے وجود کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ لیکن اگر ناجائز اسرائیلی ریاست کی سرحدوں کو زیادہ محفوظ بنانے کے لیے بلکہ محض خطرہ کو دور رکھنے کے لیے ایک عذر تراش کر عراق میں انسانوں کی لاشوں کے ڈھیر لگا دیئے جائیں، سارے ملک کی صنعت کو بمباری سے تباہ و برباد کر دیا جائے اور بعد میں خود ہی تسلیم کر لیا جائے کہ اس وحشت ناکی کے لیے تراشا گیا عذر سچا نہیں بلکہ جھوٹا تھا تو ان لاکھوں انسانوں کے خون سے کسی کے سفید دامن پر داغ بھی نہیں پڑتا۔ اس سے زیادہ ردعمل تو کسی بلی یا کتے کی موت پر آجاتا ہے اور اس درندگی پر ایسے sorry کہہ دیا جاتا ہے جیسے ٹریفک کی چھوٹی سی غلطی سے جس سے کوئی بڑا نقصان بھی نہ ہوا ہو، ایک شہری دوسرے کو کہہ دیتا ہے اور بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اس اشرافیہ کا، بھارت فکری اور فطری اتحادی ہے لہٰذا پون صدی سے کشمیر میں استصواب رائے کی قرار داد ردی کی ٹوکری کی زینت بنی ہوئی ہے اور بھارت کے جبر سے کشمیریوں کو آزادی حاصل نہیں ہو رہی۔ لیکن مشرقی تیمور کا معاملہ جھٹ منگنی پٹ بیاہ کے مصداق دنوں میں سلامتی کونسل کے ذریعےحل ہو جاتا ہے اورانڈونیشیا سے علیحدگی حاصل کرکے ایک عیسائی ریاست وجود میں آجاتی ہے۔ اسی کشمیر میں بھارت دن رات درندگی کا مظاہرہ کرتا ہے اور انسانی جانوں اور عزتوں سے کھیل رہا ہے لیکن انسانی حقوق کی تناظیم کو اُدھر دیکھنے کی ابھی فرصت نہیں ہے۔
گزشتہ پون صدی میں ایسے درجنوں بلکہ سینکڑوں واقعات ہوئے ہیں ہم نے تو محض چاولوں کی دیگ سے ایک دانہ چکھا ہے۔ اشرافیہ کو سپورٹ کرنے والا سعودی عرب کا صحافی اگر ترکی میں قتل ہو جائے تو سعودی شاہی خاندان کی حکومت ہی نہیں زندگی بھی خطرے میں پڑ جائے اور اُن کی ٹانگیں ہی نہ کانپیں بلکہ شاہی محلات میں زلزلہ آجائے لیکن اگر فلسطینی صحافی خاتون شیرین ابو عاقلہ کو باقاعدہ نشانہ پر لے کر قتل کر دیا جائے پھر اُس کے جنارے پر بھی وحشیانہ حرکت ہو تو اس پر چند مذمتی بیانات کافی سمجھے جاتے ہیں۔ اس اشرافیہ کے کارندے اس ظالمانہ نظام کے سر پرست لوگوں کو بدکاری اور جنسی دہشت گردی کی طرف بھی نہ صرف مائل کرتے ہیں اور ایسے گندے افعال کی ترغیب دیتے ہیں بلکہ اس کے حق میں قانون سازی کے لیے بھی دنیا بھر میں کوشاں نظر آتے ہیں۔ مثلاً LGBTQ+ وغیرہ وغیرہ کے لیے فضا ہموار کرنے کے لیے پوری محنت اور مشقت سے کام ہو رہا ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ کسی مشن کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ہمیں یہ بات سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر اُنہیں لوگوں کو بدکاری اور غیر فطری جنسی وحشت ناک افعال کی طرف مائل کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب انسان اخلاقی طور پر بدترین گراوٹ کا شکار ہو جاتا ہے تو وہ ہر لحاظ سے کمزور پڑ جاتا ہے۔ اُس کی زندگی کا اخلاقی جواز ختم ہو جاتا ہے۔ پھر وہ ایک آسان شکار بن جاتا ہے۔ جس سے ہر قسم کا کام لیا جا سکتا ہے۔ وہ جائز ناجائز، اخلاقی اور غیر اخلاقی معاملات میں تمیز کھو دیتا ہے۔ وہ ایسا جانور بن جاتا ہے جسے خواہشات کی تکمیل کے لیے کوئی بدترین فعل بھی معیوب نظر نہیں آتا ۔ گویا اب اُس کے گلے میں پٹہ ہے اور زنجیر اس اشرافیہ کے ہاتھ میں ہے۔
سوال یہ ہے کہ مسلمان جو آج دنیا میں بالکل بے بس نظر آتے ہیں، کب تک یوں اپنے مسلمان بھائیوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر خاموش تماشائی بنے رہیں گے۔ مسلمان تعداد میں کم نہیں ہیں پھر یہ کہ اکثر مسلمان ممالک زبردست مالی وسائل رکھتے ہیں۔ یہ افرادی قوت اور مادی وسائل کب مسلمانوں کو حقیقی آزادی دلانے میں مدد کریں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اپنے اخلاقی انحطاط کو ختم کریں۔ مسلم دشمن قوتوں پر اپنا انحصار ختم کریں اور باہمی اتحاد قائم کرکے ہر قسم کے احساس کمتری سے چھٹکارا حاصل کریں۔ مسلمانوں کے حکمران دنیوی آقاؤں کی غلامی ترک کرکے اللہ تعالیٰ کی غلامی اختیار کریں تو کوئی دنیوی قوت اُن پر تسلط حاصل نہیں کر سکے گی۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025