(زمانہ گواہ ہے) پاکستان کے جوہری اثاثے اور بین الاقوامی طاقتوں سے تعلقات - محمد رفیق چودھری

10 /

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان بنا جمہوریت کے ذریعے تھا مگر

اس کی بنیاد نظریہ اسلام تھا، ہم نے نہ جمہوریت کو ٹھیک طریقے سے

اپنایا اور نہ ہی اسلام کی طرف پیش رفت کی : ایوب بیگ مرزا

IAEAکا پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کا دورہ انتہائی تشویشناک ہے ، پاکستان

کا ماسکو کانفرنس میں شریک نہ ہونا اچھا پیغام نہیں تھا : رضاء الحق

پاکستان کے جوہری اثاثے اور بین الاقوامی طاقتوں سے تعلقات کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

ڈاکٹر حافظ محمد حسیب اسلم

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: ادارہ IAEA (انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی)کے بارے میں بتائیے اورحال ہی میں اس ادارے کے ڈی جی نے پاکستان کا دورہ کیا ہے۔ اس حوالے سے کافی چہ میگوئیاں کی گئی ہیں کچھ نے اس کو بہت زیادہ تشویشناک انداز سےاور کچھ نے اس کو ایک routine matter کے طور پر دیکھا ہے۔ آپ اس کو کیسے دیکھتے ہیں؟
رضاء الحق:اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے کچھ درینہ خواہشات ہیںاور جب پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا اس وقت سے لے کر ایٹمی دھماکے کرنے تک ، اس پورے دورانیے میںامریکہ نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ہر موقع پر سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے ،اس دوران پاکستان کے ایٹمی سائنسدان جن میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سرفہرست ہیں، انہوں نے اپنا کام جاری رکھا اور کسی بھی صورت میں سمجھوتہ نہیں کیا ۔ ہم نے دیکھا کہ اس دوران پاکستان کے ایٹم بم کو اسلامی بم قراردیا جاتارہا ۔اس کے بعد ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کم از کم دو مرتبہ اسرائیلی انٹیلی جنس اور ایئرفورس نے باقاعدہ انڈیا کے ساتھ مل کر ہماری ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان کو بہرحال بروقت اطلاع مل گئی جس کی وجہ سے وہ ناکام ہو گئے ۔ جب پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا تو اس کے بعد سے اب تک امریکہ کی یہی کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کر دیا جائے۔ ابھی حال ہی میں IAEAکے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریا نوانے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کا دورہ کیا ہے ، اس سے قبل IAEAکے سابق ڈائریکٹر جنرل نے 2014ء اور 2017ء میں پاکستانی ایٹمی تنصیبات کا دورہ کیا تھا ۔ لیکن حالیہ دور ہ میں جتنی بڑی تعداد میں اہم لوگوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں اور جس انداز کا ایٹمی تنصیبات کا اب دورہ ہوا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا ۔ انہوں نے ہمارے وزیر خارجہ اور سیکرٹری خارجہ سمیت دیگر کئی اہم عہدیداروں ، خصوصاً پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرمین ، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین کے ساتھ ملاقات کی اور بہت اہم ایٹمی تنصیبات کا دورہ کیا جوکہ فکر والی بات ہے ۔
سوال:کچھ لوگ کہتے ہیں کہIAEAکا مقصد غیر فوجی تنصیبات کا دورہ کرنا ہوتاہے ، کیا ایسا ہی ہے ؟
رضاء الحق:وزارت خارجہ نے جو پریس ریلیز جاری کی ہے اس سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ انہوں نے ان تنصیبات کا بھی دورہ کیا ہے جو نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے دائرے میں آتی ہیں ۔ ان میں عسکری اور غیرعسکری دونوں شامل ہیں ۔بہرحال وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف پہلے بھی کوششیں کرتے رہے ہیں ، چاہے وہ بلاواسطہ یا بالواسطہ کوششیں ہوں لیکن اب وہ خاص طور پر پاکستان کے معاشی حالات کی وجہ سے ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ ہماری اس کمزوری کی بڑی وجہ کرپشن اور سودی معیشت ہے اور ایک خاص اشرافیہ کا مسلط ہو جانا جو ملکی دولت کو لوٹ کر باہر لے جاتے ہیں ۔ ہمارے خود غرض حکمرانوں نے ملکی پیداوار پر کوئی توجہ نہیں دی ، ملک کے اندر صنعت اور زراعت کو کوئی ترقی نہیں دی جس کی وجہ سے آج ملک معاشی بحران میں مبتلا ہے ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ہم جن ممالک کے مقروض ہیں وہ بھی ہم پر پریشر ڈالتے ہیں کہ ایٹمی اثاثوں میں تخفیف کرو ۔ پھر آئی ایم ایف بھی پریشر ڈالتا ہے اور شرائط رکھتا ہے کہ پٹرولیم کی قیمتیں بڑھاؤ ، سبسڈیز ختم کرو ، ٹیکس بڑھاؤ۔ ان سب شرائط کے ساتھ ان کی نظر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر بھی ہوتی ہے ۔ ڈینیل مارکی جون ہاپکنز یونیورسٹی میں ریسرچ فیلو رہے ہیں۔ انہوںنے اپنی کتاب "No exit from Pakistan"میں مختلف امریکی انتظامیہ کے ثاثرات بیان کیے ہیں کہ :’’ہم فیصلہ کر چکے ہیں کہ پاکستان کو مسلم دنیا کی قیاد ت اور ترقی نہیں کرنے دینا ۔ ہم پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے جو اقدامات کر رہے ہیں ان میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم پاکستان کے لیڈروں کو خریدتے ہیں۔ ‘‘اورپھرانہوں نے ایسا کرنے کی تین وجوہات بیان کی ہیں۔ (1)۔ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے جو کہ ہمارے لیے قابل برداشت نہیں ہے۔ (2)۔ پاکستان دنیا کا واحد مسلم ملک ہے جو چین کے ساتھ تعلقات رکھتاہے۔ (3)۔ پاکستان ایک بڑی فوج کا حامل ملک ہے، ایسی منظم بڑی فوج جو مستقبل میں خطے کے لیے بھی اورپوری دنیا کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہےقابل قبول نہیں ہے ۔
سوال: پاکستان کو ایٹمی اثاثوں یا چائنا کے ساتھ تعلقات کی وجہ سےاگر ٹارگٹ کیا جارہا ہے تو یہ سلسلہ پاکستان میں رجیم چینج کے بعد تیز تر ہوا ہے ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں اس کی کیا وجوہات ہیں اور اس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں ؟
ایوب بیگ مرزا: ہر ملک کے دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات اپنے مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔ جب پاکستان بنا تھا تو اس وقت دنیا دو حصوں میں تقسیم تھی۔ ایک طرف سوویت یونین تھا اور دوسری طرف امریکہ۔ چونکہ بھارت کے تعلقات روس کے ساتھ تھے اس لیے فطری طور پر پاکستان نے امریکہ کا رُخ کیا ۔لیکن امریکہ دیکھ رہا تھا کہ پاکستان کی ایک خاص جغرافیائی اہمیت ہے اور پھر یہ کہ نظریاتی ملک ہے لہٰذا اس نے شروع سے پاکستان پر نظر رکھنی شروع کردی اور اس کو اپنی قربت میں رکھنا مناسب سمجھا ۔ پاکستان تو امریکہ دوستی میں مخلص تھا لیکن امریکہ کی پالیسی دوست کشی کی تھی ۔ قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ میں لکھا ہے کہ امریکہ اورسوویت یونین ایک دوسرے کے دشمن ہونے کے باوجود پاکستان کے خلاف بعض معاملات میں ایک تھے ۔ امریکہ اپنے مقاصد کے لیے پاکستان سے دوستی رکھے ہوئے تھا لیکن حقیقت میں وہ پاکستان کا دشمن تھا جیسا کہ اب ظاہر بھی ہو چکا ہے ۔ آج سے 35سال قبل پاکستان کے ایک بڑے صحافی مجیب الرحمان شامی نے ڈاکٹر اسراراحمد ؒ سے ملاقات کی ۔ ڈاکٹر صاحب نے شامی صاحب سے سوال کیا کہ آپ کے خیال میں انڈیا پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہے یا امریکہ ۔ شامی صاحب حیران ہوئے کہ یہ کیسا سوا ل ہے ، امریکہ تو پاکستان کا دوست ہے جبکہ سب جانتے ہیں کہ انڈیا پاکستان کا بڑا دشمن ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا : آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ امریکہ ہی پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہے ۔ آج یہ ثابت ہوگیا ہے ۔ امریکہ نے تو پاکستان سے دشمنی کرنی ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ایٹمی ملک ہے اور اس کی ایک بڑی فوج ہے اس لیے یہ کل امریکہ یا اسرائیل کے لیے مسئلہ بن سکتا ہے لہٰذا امریکہ جب بھی پاکستان سے دوستی کرے تو کسی بڑی دشمنی کے لیے کرے گا ۔ IAEAہو یا IMFہو ، ان سب کو امریکہ کنٹرول کرتاہے ۔ IAEAکا دورہ بھی تشویشناک ہے تاہم اس سے بڑھ کر تشویشناک یہ خبر ہے کہ ہمارے وزیراعظم صاحب کی روتھ چائلڈ فیملی کی کمپنی کے بعض لوگوں سے ملاقات ہوئی ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ روتھ چائلڈ فیملی کیا ہے ۔ یہ سمجھ لیجئے کہ وہ دنیا پر حکمرانی کرے والے اصل گروہ سے ہیں ۔ جس طرح امریکہ اور برطانیہ ہمارے اوپر حکومت کرتے ہیں اسی طرح روتھ چائلڈ فیملی امریکہ اور برطانیہ پر حکومت کرتے ہیں اور ان کو حکم دیتے ہیں ۔ وہ ہم جیسے غریب، کمزور، مفلوج، مقروض ملکوں کو تو منہ بھی نہیں لگانا چاہتے، وہ براہ راست امریکہ کے ذریعے دنیا کو کنٹرول کرتے ہیں ۔ ہمارے وزیراعظم سمیت تیسرے دنیا کے حکمرانوں میں سے کوئی بھی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ انہیں روتھ چائلڈ فیملی ملاقات کے لیے وقت دے دے ۔ اگر ان کی کمپنی کے کچھ لوگوں سے شہباز شریف کی ملاقات ہوئی ہے تو یہ تشویشناک بات ہے کیونکہ وہ بغیر کسی بڑے مقصد کے ایسا نہیں کرسکتے ۔
سوال: کیاofficially انہوں نے ڈکلیئر کیا ہے کہ یہ ملاقات ہوئی ہے ، اگر ہوئی ہے تو کیوں ہوئی ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:بظاہر تو یہی کہا گیا ہے کہ پاکستان کے قرضوں کے حوالے سے بات ہوئی ہے کہ کس طرح یہ قرض اُتارا جا سکتا ہے ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اصل بات کچھ اور ہے کیونکہ یہ مشورہ دینے کے لیے ہزاروں  دوسرے ادارے موجود ہیں تو پھر روتھ چائلڈ فیملی ہی کیوں ؟ اصل بات یہ ہے کہ IAEAجیسے ادارے تو محض ایک ٹول ہیں ، ان کو استعمال کرنے والے اصل لوگ وہی ہیں اور وہ یہودیوں کے سب سے بڑے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں ۔وہ ہمیشہ اپنے مذہبی اور نظریاتی مفادات اور اہداف کو مدنظر رکھ کر چلتے ہیں ۔
سوال: پاکستان سابقہ دور حکومت میں روس اور چائنہ کی طرف جھکاؤ رکھتا تھا پھر اچانک کیا ہوگا کہ حکومت بھی تبدیل ہو گئی اور ساتھ ہی پاکستان کا جھکاؤ امریکہ کی طرف ہوگیا ؟
ایوب بیگ مرزا:یقیناً پاکستان کا جھکاؤ روس اور چائنا کی طرف ہو گیا تھالیکن اب اسی گستاخی کی سزا کے طور پر امریکہ اور روتھ چائلڈ فیملی پاکستان کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں ۔
سوال: ہم عمران خان حکومت سے قبل ہی چائنا اور روس کی طرف رُخ کر چکے تھے ۔ یہ ہماری ریاستی پالیسی تھی ۔ ویسے بھی ہم سمجھتے ہیں کہ foreign پالیسی ایک آدھ بندے کا کام تو نہیں ہوتا اور بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کا اس میں رول ہوتا ہے ۔ لیکن پھر اچانک کیا ہوگیا کہ اس ریاستی پالیسی کو ہمیں بدلنا پڑا ؟
ایوب بیگ مرزا:بالکل ٹھیک ہے عمران خان کی حکومت سے بھی تین چار سال پہلے ہماری ریاستی پالیسی کا رُخ چائنا اور روس کی طرف ہو گیا تھا ۔ لیکن اب چونکہ چائنا کے ساتھ ساتھ روس بھی امریکہ کے لیے خطرہ بن گیا ہے اس لیے امریکہ نے اپنی صف بندی نئے سرے سے کی ہے اور پاکستان کے کان مروڑ کر اپنے دام فریب میں گرفتار کر لیا ہے ۔ اس کا اصل محرک روس یوکرائن جنگ ہے ۔ امریکہ نے پاکستان میں رجیم چینج کرکے پاکستان کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے اور اب یوکرائن کو جواسلحہ گیا ہے اس میں دو اہم consignments پاکستان کے ذریعے یوکرائن کو بھیجی گئی ہیں جو کہ انتہائی خطرناک امر ہے جس کی وجہ سے روس اور چائنا پاکستان سے سخت ناراض ہوں گے ۔
سوال:افغانستان میں نئی حکومت کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات تھے ۔ کچھ دن پہلے افغانستان کے حوالے سے ماسکو میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں پاکستان نہیں گیا بلکہ ہمارے بڑے اس موقع پرامریکہ گئے تھے ۔ اس پوری صورت حال کو آپ کس نظرسے دیکھتے ہیں ؟
رضاء الحق: افغانستان میں طالبان نے امریکہ اوراس کے اتحادیوں کو بیس سالہ طویل جنگ کے بعد شکست دے کر حکومت بنائی اور یہ ان کی بڑی کامیابی تھی۔ افغانستان میں ہمیشہ پاکستان مخالف حکومتیں رہی ہیں البتہ افغان طالبان کے ساتھ پاکستان کے اچھے تعلقات تھے اور اُن کے حالیہ دور حکومت میں بھی آغاز میں یہی توقع تھی کہ پاکستان کے ساتھ افغانستان کے تعلقات بہتر ہو جائیں گے ۔ شروع میں دکھائی بھی دیاکہ بہترین تعلقات تھے ۔البتہ کچھ بارڈرکے مسائل تھے جن کو مذاکرات کے ذریعے حل کیاجاسکتا تھا۔ابھی روس میں جوکانفرنس ہوئی یہ اصل میں ان کاریجنل سکیورٹی ڈائیلاگ ہے اوریہ ڈائیلاگ پہلے بھی 2017ء، 2018ء ، 2019ء اور 2021ء میں ہو چکا ہے اوران چاروں مرتبہ پاکستان نے وہاں جانے سے انکار کیا۔ اس ڈائیلاگ میں چین ،روس،بھارت، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک شامل ہوتے ہیں اور پاکستان کو بھی دعوت دی جاتی ہے ۔ اس مرتبہ ایجنڈے میں خاص طورپرافغانستان کی صورتحال کا جائزہ لینا تھا کہ وہاں جو معاشی مسائل ہیں ، داعش وغیرہ کے جو خطرات ہیں ان سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے اور اس ڈائیلاگ میں شامل دیگر ممالک افغانستان کی کیا مدد کر سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی مختلف ممالک کے سکیورٹی ایشوز زیربحث آتے ہیں۔2017ء سے 2019ء کی تین کانفرنسز میں پاکستان اس لیے شامل نہیں ہوا تھا کہ افغانستان میں امریکہ نواز حکومت تھی جوکہ پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہی تھی ۔ 2021ء میں پاکستان اور چائنا اس لیے شریک نہیں ہوئے تھے کہ وہ انڈیا میں ہوئی تھی ۔البتہ موجودہ کانفرنس کامعاملہ بالکل مختلف تھااور پاکستان اور افغانستان کو اپنے مسائل حل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے تعاون کی بھی ضرورت تھی ، دوسرا یہ کہ اگر افغان طالبان کے کازکے لیے مختلف ممالک اکٹھے ہورہے ہیں توپاکستان کووہاں نہ جانے میں آخرکیاعار ہے۔ حالانکہ ہمارے وزیرخارجہ برطانیہ ،امریکہ سے لے کر لتھوینیا نیا تک کے دورے کرچکے ہیں۔لتھوینیا روس یوکرائن جنگ کے دوران یوکرائن کو اسلحہ فراہم کرنے والا ملک ہے ۔ گویا ہم نے یہ ثابت کیا کہ ہم روس مخالف کیمپ میں شامل ہیں ۔ بہرحال اس پوری صورت حال کودیکھیں توپاکستان کی پوزیشن بہت کمزورنظر آرہی ہے۔ اس کی دووجوہات ہیں ۔ سابق امریکی حکومت کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی کتاب میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکہ نے پاکستان سے جو کام کروانے ہوتے تھے تو وہ ان سے ہی بات کرتے تھے جن کے ہاتھ میں پاکستان کی اصل زمام کار ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان نے اس کانفرنس میں نہ جاکربہت غلط پیغام دیا۔ ایک پیغام یہ ہے کہ ہم امریکہ کے ساتھ ہیں ۔ دوسراپیغام یہ ہے کہ ہم افغانستان ،چین اورروس کے ساتھ نہیں ہیں اوریہ اچھاپیغام نہیں ہے ۔
سوال: افغانستان کے انڈیا کے ساتھ تعلقات بنتے جارہے ہیں ان کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
رضاء الحق:افغانستان کے انڈیا کے ساتھ کبھی اس طرح کے تعلقات نہیں ہوسکتے جوایک برادر اسلامی ملک کے ساتھ ہوسکتے ہیں البتہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات ہر مملک کی پالیسی کا حصہ ہوتے ہیں ، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کے علاوہ گیس پائپ لائن کے منصوبے وسطی ایشیا میں ہیں۔ اگر پاکستان وسطیٰ ایشیائی ممالک کے ساتھ تعلقات امریکا کیمپ میں  جانے کی وجہ سے نہیں بڑھائے گا تو بھارت اس کا فائدہ اُٹھائے گا ۔ پاکستان کواس حوالے سے سوچ سمجھ کراور دانش مند ی کے ساتھ پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جوکہ پاکستان کے اپنے مفاد میں ہو۔
سوال:اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے چین کاقرضہ دینا ہے ۔ اس حوالے سے امریکہ نے ایک بات کہی ہے اورتشویش کااظہار کیا ہے کہ پاکستان توچین کابہت زیادہ مقروض ہے ۔ کیاچین اگر ناراض ہوتاہے توامریکہ ہماری مدد کرے گا؟
ایوب بیگ مرزا: بات یہ ہے کہ قرض کالفظ ہی اچھا نہیں ہے۔چہ جائیکہ آپ سودی قرضے حاصل کریں جس کوآپ کے دین نے بہت ہی نقصان دہ اور اللہ اور رسولﷺ سے جنگ قرار دیا ہے ۔اگر ہم چین سے بھی سودی قرض لیتے ہیں تووہ بھی نقصان دہ ہے اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ بنے گا۔ لیکن میں سمجھتاہوں کہ چین سے قرضہ لینے میں یقینا قومی سلامتی کونقصان ہوگالیکن اتنانہیں ہوگا جتناامریکہ کے قرضے سے ہماری قومی سلامتی کوخطرہ ہوگا۔
سوال:امریکہ کا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ پاکستان کو مخالف کیمپ میں جانے سے روکنے اور اپنے کیمپ کو مستحکم کرنے کے لیے چین کا قرضہ اُتارنے میں ہماری مدد کرے ۔ آپ کیا کہتے ہیں ؟
ایوب بیگ مرزا:امریکہ کابیان اصل میں اس کی اپنی خباثت کااظہار ہے کہ جس کو وہ اپنا محتاج بنائے وہ کسی دوسرے کا سہارا بھی نہ لے سکے۔امریکہ کی پون صدی کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کی دوستی نے پاکستان کو صرف نقصان پہنچایا ہے ۔
سوال: اس وقت پاکستان کے حالات انتہائی تشویشناک ہیں ان سے نکلنے کا راستہ آپ کی نظر میں کیاہے ؟
ایوب بیگ مرزا:نکلنے کے دوہی راستے ہیں ۔ ایک عارضی اورفوری راستہ ہے ۔اورایک مستقل اور دیرپا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان جمہوری بنیادوں پر بنا لیکن اس کا نظریہ اسلام تھا ۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹراسرار احمدؒ کہاکرتے تھے کہ جمہوریت پاکستان کی ماں ہے اور اسلام پاکستان کاباپ ہے۔لیکن آج ہم نے جمہوریت کابھی جنازہ نکال دیاہے۔ آئین شکنی کرکے سب کچھ ہی برباد کررہے ہیں اوردوسری طرف اسلام سے بھی ہم نے شروع سے ہی منہ پھیرا ہوا ہے ۔ خود مغربی جمہوریت میں بہت سے نقائص اورکمیاں ہیں لیکن ہم نے اس مغربی جمہوریت کابھی چہرہ بگاڑ کراپنایا۔یعنی ہم نے کسی بھی میدان میں مثبت پیش رفت نہیں کی لہٰذا نہ ہم جمہوری ہوئے اور نہ ہی اسلام کے قریب گئے ۔ شروع میں کچھ تھوڑا ساکاغذی کام ہوا۔ قرارداد مقاصد پاس ہوگئی اور 31علماء نےنفاذ اسلام کے حوالے سے 22نکات پیش کردیے ۔ لیکن یہ سب کاغذی کارروائی ثابت ہوئی ، ہم نے ایک بھی عملی قدم نہیں اٹھایا۔لہٰذا ہم نے اپنی بنیادیں  خود گرا دیں۔جمہوریت ہماری عارضی بنیاد تھی جبکہ اسلام ہماری مستقل اور دیر پا بنیاد تھی ۔ نہ ہم اسلامی رہے اور نہ جمہوری ۔اب حل یہ ہے کہ ہم اپنی اصل کی طرف لوٹیں اوراسلام کی طرف بڑھنے کے لیے پہلے جمہوریت کویہاں مستحکم کریں تاکہ لوگوں کواپنی رائے دینے میں آسانی ہو، لوگوں کوبولنے میں آسانی ہواورپھریہ کہ جیسا بھی آئین ہم نے بنایاہے ،صرف دوشقات کے علاوہ باقی سارا آئین ہمارا اسلامی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ عمل کتنا ہوتاہے ۔ آئین کونافذ کرکے صحیح طورپر اس کی سپرٹ میں جمہوریت کواستحکام دیں ۔ جمہوریت کواستحکام دینااس لیے ضروری ہے کہ پاکستان ہوگا تواسلام آئے گا۔ اگر جمہوریت نہ رہی تو پاکستان بھی نہیں رہے گا ۔ جیسا کہ 1971ء میں اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو اقتدار منتقل نہیں کیا گیا تو ملک ٹوٹ گیا ۔ لہٰذا جمہوریت کا راستہ روکنا ، اپنی بنیاد کوختم کرنے والی بات ہے ۔ ڈاکٹر اسرارا حمدؒ کہاکرتے تھے کہ اگر آپ کو بار بار انتخابات کرانے پڑیں توکروائیں کیونکہ انتخابات جمہوریت کو مستحکم کرتے ہیں ۔لیکن جب آپ انتخابات کاسلسلہ ختم کردیں گے توجمہوریت خود بخود ختم ہو جائے گی۔البتہ جمہوریت عارضی حل ہے ۔ مستقل حل صرف اسلام ہے ۔ اصل حل یہ ہے کہ ہمیں اسلام کی طرف پیش رفت کرنی چاہیے کیونکہ اسلام کی بنیاد پر یہ ملک بنا اور اسلام ہی سے استحکام بھی آئے گا ۔