بہار آنے کو ہے…
عامرہ احسان
دنیا بظاہر جتنی نگاہ خیرہ کن ہمہ نوع روشنیوں کا گہوارہ بنی ہوئی ہے، اتنا ہی گھپ اندھیرا انسانی وجود کے اندر کی دنیا (عالمِ اصغر) کو وحشت اور ہولناکی سے دیوانہ کیے دے رہا ہے۔ جتنی ترقی اس خاک کے پتلے کو راحت دینے کے لیے کی گئی ہے، اتنی ہی روحِ انسانی تشنگی کا شکار ہوئے چلی جا رہی ہے۔ تونس لگے (پیاس کے مریض) اونٹ کی طرح یہ خوشیوں، سکینت کی تلاش میں دیوانہ ہو رہا ہے۔ روح پیاسی، تشنہ ہے اور علاج یہ اپنے خاکی وجود پر مصنوعی خوشیوں کے چھڑکاؤ سے کرتا نامراد ہوا جا رہا ہے۔ منشیات، ناؤ ونوش، بلند آہنگ دل جگر کلیجہ، زلزلہ براندام کر دینے والی موسیقی، برہنگی، دیوانے صنفی تہہ وبالا کر دینے والے تجربات۔ سب کر دیکھے۔ جابجا گولیاں برسا دیں۔ ہیئتیں بدل کر کتے بلیاں بن کر دیکھ لیا۔ افاقہ نہ ہوا۔ بالآخر خودکشیوں پر اتر آئے مگر آگے کی کہانی خوفناک تر ہے!
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے!’کوڑا تھیراپی‘ ہم پہلے لکھ چکے۔ اب نئی کہانی پاگل پن کی مزید تیار ہے ’رونا تھیراپی‘! دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے جاپان میں حکومتی تعاون سے (سالانہ ڈھائی ارب ڈالر کی مدد) رلانے کے مراکز قائم ہو رہے ہیں۔ ماہرِ ’رُلانیات‘ کہتے ہیں کہ رونے سے ایک ہفتہ طبیعت ہلکی رہتی ہے، بہتر محسوس کرتی ہے! عالمی صنعتی معاشی قوت جاپان میں 30 ہزار سالانہ خودکشی ہو رہی ہے۔ (72فیصد مرد اور 28فیصد خواتین خودکشی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ابوصوفیہ کی یہ رپورٹ اگرچہ یہ نہیں بتا رہی کہ خواتین میں خودکشی کے کم رجحان کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ کہ وہ فطرتاً رونے رلانے پر زیادہ قدرت رکھتی ہیں، خودکشی کی نوبت کم آتی ہے؟)
دنیا بھر میں بلکتی انسانیت کی شفا کی نوید تو صورتِ رمضان چلی آ رہی ہے، کاش ہم مسلمان یہ فیوض وبرکات جو شفاء لما فی الصدور (قرآن) دلوں، بلکتی تشنہ روحوں کی شادکامی کا سامان ہے، وہ ان تک پہنچانے کے حریص ہوتے! مگر ہمارا حال تو یہ ہے کہ، کاررواں منزل سے کوسوں دور ہے! ہمارے ہاں تو خود قساوتِ قلبی، نامحکمی، وھن، زیغِ قلبی کا دوردورہ ہے۔ رجب ہو گزرا، شعبان کی برکت اٹھانے اور رمضان کے فیضانِ رحمت تک پہنچنا اللہ نصیب کردے۔ اگرچہ دل دہلتا ہے کہ شاید ہم خدا ناراض کر بیٹھے ہیں۔ ترکی اور شام زلزلے کی گرفت میں، پوری امت کے لیے باعثِ غم واندوہ ہے۔ گزشتہ شب اسلام آباد میں بادل کی گرج کی ایک ایسی کیفیت دیکھنے میں آئی جو پہلے کبھی نہ ہوئی۔ طویل گڑگڑاہٹ گرج کی ایسی تھی کہ سہ منزلہ، چہار منزلہ عمارتیں سر تا پا یوں لرز رہی تھیں کہ زلزلے کا گمان ہوتا تھا مگر یہ زلزلہ نہ تھا۔ غیرمعمولی بادلوں کی قہر آلود گرج تھی۔ یہی کڑک، آواز کی طاقت (Sound Waves ) طوالت یا شدت میں بڑھ جائے تو قومِ ثمود (المومنون، الحجر) کو پہاڑوں میں پارہ پارہ کر چکی ہے۔ ہم رب تعالیٰ کی قدرت سے بے خوف ہو چکے ہیں۔ پناہ بخدا۔
سیلاب اور معاشی ابتری، سیاسی سرپھٹول، جان سوز مہنگائی عذاب ہی کی مختلف صورتیں ہیں۔ ایسے میں بلک کر اللہ سے یہ کہنے کی ضرورت ہے۔ اللھم بارک لنا فی شعبان وبلغنا رمضان۔ اللہ ہمیں شعبان میں برکت عطا فرما اور رمضان تک پہنچا دے۔ تیرے دامنِ عفو وعافیت تک ہماری رسائی ہو جائے۔ ؎
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
میرے جرمِ خانہ خراب کو تیرے عفوِ بندہ نواز میں!میرے رب! تیرا در وہ ہے جہاں مایوسی کا گزر نہیں!{تَبٰـرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُزوَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرُ(1)} ساری بزرگی برتری برکات تیری ہی ذاتِ بے ہمتا سے نتھی ہیں۔ ہم روسیاہ بے مایہ، ذاتِ باری تعالیٰ کی لامنتہا قدرت کے آگے جھولی پھیلا رہے ہیں شعبان کی برکات اور رمضان کی بہار تک رسائی کے لیے، کہ وہ کل موجوداتِ عالم پر شاہانہ اقتدار کا حامل ہے! دنیا تجھے پانے کے لیے دیوانی ہوئی پھر رہی ہے۔ ہمیں خشیت ورقت کی دولت سے مالامال کر دے تاکہ یہ موتی ہم دنیا میں لٹا سکیں۔ دنیا جھوٹے آنسوؤں کی تلاش میں سوانگ رچاتی نہ پھرے۔ ہمیں حدیث کا ’باب الرقاق‘ دل پر وار دکرنے کی توفیق ارزاں کر۔ جاپانیوں کی جھوٹی رقت ہم مسلمانوں پر فردِ جرم عائد کر رہی ہے۔ ہم پر یہ دولت فراواں ہوئی تھی جہاں حضرت عمر فاروق ؓ جیسی پرہیبت ہستی کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوتی تھی۔ سیدنا عثمان غنی ذوالنورین ؓ قبرستان میں کھڑے آخرت کی پہلی منزل کے خوف سے آہ وزاری کرتے اور سیدنا علیؓ طبیعت کی بزلہ سنجی کے باوجود راتوں کو رب کے حضور ہچکیاں لے لے روتے تھے! وہاں آنسو داڑھیاں سیراب کرتے تھے۔ ہمارے حرص وہوس کی رال ’بب‘ پہننے کی حاجت مند کیے دیتی ہے! ارحم لنا ارحم لنا!
بجا طور پر یہ آیت ہم سے سوال کرتی ہے: کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ایک لمبی مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں؟ (الحدید: 16) جو حال یہودیوں کا ہوا کہ نبی ﷺ کی بعثت کے وقت ان پر نزولِ کتاب کو 19صدیاں اور حضرت عیسیٰ dوانجیل کے نزول کو چھ صدیاں گزر چکی تھیں۔ وہ خاتم النبیین ﷺ کو پہچاننے کے باوجود قصداً اندھے بن رہے تھے۔ اللہ کے حضور گستاخی اور ہٹ دھرمی کی انتہا پر تھے۔ آج ہمارے ہاں بھی مثالیں یہود سے کچھ کم ہولناک نہیں حالانکہ اللہ نے کتاب عطا کرنے کے بعد ہمارا تعلق بالقرآن مضبوط کرنے کا سالانہ اہتمام کردیا۔ ایک پورا مہینہ قرآنی تلاوت، رکوع وسجود اور تزکیے میں گزارا جائے۔ دعا سے رجب سے دل کے تار قرآن اور ماہِ قرآن سے باندھ جوڑ دیے۔ اس کے باوجود تعلیمی ادارے دیکھیے (کامسیٹ، لمز جیسے کئی ادارے) جو نوجوانوں کے ایمان کے درپے ہیں۔ رمضان کا شفا بخش نظامِ تربیت اور قرآن کی لذت وعظمت سے روحوں کو آشنا کرنے کے لیے، ہماری ذمہ داری دوچند ہوئے جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیںتوفیق اور اخلاص سے مالامال کر دے کہ ہم عظیم پیغام کے وارث ہونے کا حق ادا کرسکیں۔ قرآن کا حقیقی اعجاز تو یہ ہے کہ: ’اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے ایک ایسی کتاب جس کے تمام اجزا ہم رنگ ہیں اور جس میں باربار مضامین دہرائے گئے ہیں۔
اسے سن کر ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں اور پھر ان کے جسم کی کھالیں اور ان کے دل نرم ہوکر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔‘ (الزمر: 22) اللہ ہمارے دل نرم کر دے! ہم ان آیات کے مصداق ہوکر برکاتِ شعبان ورمضان اللہ سے پاکر آگے پہنچا سکیں: ’’سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ ‘‘ (الانفال: 2) آج جھوٹی عزت کی طلب اور باہم مقابلہ بازی نے ہمیں مسابقت کا اصل میدان بھلا رکھا ہے۔ پورا ملک ادھیڑ کر رکھ دیا گیا ہے اسی تگ ودو میں۔ حالانکہ مکمل رہنمائی ہمیں میسر ہے۔ ’’جو کوئی عزت چاہتا ہو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ عزت ساری کی ساری اللہ کی ہے۔ اس کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے اور عملِ صالح اس کو اوپر چڑھاتا ہے۔ رہے وہ لوگ جو بے ہودہ چال بازیاں کرتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اور ان کا مکر خود ہی غارت ہونے والا ہے۔‘‘ (فاطر: 10)
اندازہ کیجیے ملک بھر میں اخلاق وکردار کے ہولناک بحران کا۔ ہم ڈالروں، تجارتی خساروں اور آٹے کے بحران کو رو رہے ہیں۔ بلوچستان میں صوبائی وزیر کھیتران کی سرداری تلے ظلم کی اندوہناک داستان رونگٹے کھڑے کرنے والی ہے۔ دوسری طرف عورت اپنا مقام، وقار، تقدس خود تار تار کیے دینے کے درپے ہے۔ ایف نائن پارک کا ہولناک واقعہ والدین کا احساسِ ذمہ داری، تربیت، بچیوں کے تحفظ سے مکمل بے اعتنائی کا عکاس ہے۔ مجرموں کا انجام کو پہنچ جانا ہمیں ماحول کی آلودگی، اسلامی حدود وقیود سے علی الاعلان عورت کی مکمل بغاوت جیسے عوامل کی سنگینی سے بے نیاز نہیں کرسکتا۔ مٹھی بھر ہنگامہ خیز ’مارچنی‘ این جی اوز قومی ملی اقدار کے پرخچے نہیں اڑا سکتیں۔ یہ قوم کی مہذب باحیا عظیم اکثریت کی نمائندہ نہیں ہیں۔ Victim Blaming (مظلوم پر الزام تراشی) جیسی اصطلاحات گھڑ کر بات نہ بدلیں۔ رات گئے غیرمرد کے ساتھ دفتر سے نکل کر، ریسٹورانٹ پر کھانا کھاکر چہل قدمی فرمانا پاکیزگیٔ اخلاق کے منافی، اللہ کی باندھی حدود کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ باپ، بھائی ہوتا تو جان دے دیتا بہن کے پرخچے نہ اڑنے دیتا۔ یہ راہ چلتا وقت گزاری لڑکا تھا بھاگ لیا! اب ٹویٹر فیس بک پر چلّا چلّاکر گزرے سانپ کی لکیر پیٹنے کا فائدہ؟ یہ سب تو امریکا یورپ میں نہ روکا جا سکا۔ آزادیٔ نسواں کے پھریرے لہراتی عورت کا پرائے مرد دوستوں، راہ چلتوں کے ہاتھوں حشر نشر! اعداد وشمار پڑھ لیجیے… اس کا علاج خالق نے بتا دیا۔ مگر نفس پرستی، ہٹ دھرمی تکبر سے نکل کر فرد سے اقوام تک کی ہمہ پہلو فلاح، اصلاح اور سکینت کا سامان یعنی اسلامی نظامِ حیات کو تسلیم کرنا ہوگا۔ 8 مارچ (یومِ نسواں) کا بخار اتر جائے تو عورت ٹھنڈے دل دماغ سے سوچے۔ بہکنے، بھٹکنے بھٹکانے سے لے کر ’آنسو تھیراپی‘ تک کا سفر بہت مہنگا اور اذیت ناک ہے۔ علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی! روح کی بہار لیے رمضان آرہا ہے۔ قرآن اٹھائیے شفا پائیے! بجائے رل رلا کرخودکشی کرنے یا نور مقدم جیسے افسوسناک انجام دیکھنے کے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025