(خصوصی رپورٹ) آل پاکستان آن لائن تربیتی ورکشاپ - ادارہ

8 /

مرکزی شعبہ نشر و اشاعت تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام

آل پاکستان آن لائن تربیتی ورکشاپ

برائے ناظمین نشر و اشاعت (حلقہ)

 

ہفتہ11 مارچ2023ءکو مرکزی شعبہ نشر و اشاعت کے زیراہتمام مرکز تنظیم اسلامی دارالاسلام چوہنگ لاہور میں آل پاکستان آن لائن تربیتی ورکشاپ برائے ناظمین نشر و اشاعت (حلقہ) کا انعقاد کیا گیا۔ ورکشاپ میں گوگل میٹ پر آن لائن ملاکنڈ ، خیبرپختونخواجنوبی، پنجاب شمالی،اسلام آباد ،پنجاب پوٹھوہار ،گوجرانوالہ،سرگودھا، فیصل آباد ، پنجاب جنوبی ،حیدر آباد ،کراچی شمالی ،کراچی وسطی،کراچی جنوبی اور بلوچستان کے ناظمین نشر و اشاعت نے شرکت کی۔ بعض حلقہ جات کے امراء بھی شریک ہوئے۔
ورکشاپ کا آغاز تلا وت قرآن پاک سے ہوا جس کی سعادت مرکزی ناظم نشر و اشاعت ایوب بیگ مرزا صاحب نے حاصل کی۔ اُنہوں نے شرکاء ورکشاپ کو خوش آمدید کہا۔ اس کے بعد ابتدائی سیشن میں نائب ناظم جرائد، ریسرچ و انتظامی امور رضا الحق صاحب نے شرکاء کو ورکشاپ کے شیڈول اور گوگل میٹ پر گفتگو کے فارمیٹ او رقواعد و ضوابط سے آگاہ کیا۔ تنظیم اسلامی کا سیاست کے بارے میں اصولی مؤقف بیان کیا۔ موجودہ دور کے الیکٹرانک ،پرنٹ اور سوشل میڈیا کی اہمیت کے حوالے سے بھی بات کی گئی۔ تنظیم اسلامی کے وسیع تر کینوس پر نشر و اشاعت کا کام کہاں فٹ بیٹھتا ہے، کے عنوان سے گفتگو کی۔ اس کے بعد شرکاء ورکشاپ کی آن لائن حاضری لی گئی اورشرکاء نے اپنا تعارف کروایا۔
اگلے سیشن میں امیر محترم شجاع الدین شیخs کا ورکشاپ کے شرکاء کے نام خصوصی ویڈیو پیغام بعنوان ’’اقامتِ دین کی جدوجہد میں میڈیا کیا رول ادا کر سکتا ہے‘‘ چلایا گیا۔ امیر محترم نے فرمایا شرعی حدود کی پاسداری کے ساتھ میڈیا کا استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے دین کی دعوت و تبلیغ کے لیے اُس دور کے معروف طریقوں میں سے برائی کے پہلو نکال کر باقی سب اسلوب اختیار فرمائے ۔ دین کی دعوت اور باطل کے ابطال کے لیے میڈیا کا استعمال ہمارے اسلاف سے بھی ثابت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ففتھ جنریشن وار کے ذریعے مغرب ہم سے ہماری تہذیبی اقدار چھین رہا ہے ۔ ہمیں اس کے آگے بند باندھنے کی اشد ضرورت ہے۔ میڈیا کے ذریعے اسلامی تہذیب کو اجاگر کرنے کے لیے مواد اور لٹریچر فراہم کرکے مغربی تہذیب کے اثرات سے بچا جا سکتا ہے ۔ ملک میں اسلامی انقلاب کو عملی طور پر برپا کرنے کے لیے نوجوان نسل کی روحانی اور اخلاقی تربیت کرکے اُنہیں باشعور بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ تنظیم اسلامی مروجہ انتخابی سیاست اور مسلح بغاوت کو رد کرکے انقلابِ نبویﷺ کے منہج پر پُرامن ،منظم تحریک کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی قائل ہے۔ ہمیں عوام الناس کی فکری راہنمائی کے لیے میڈیا کے ذریعے اسلام کے صحیح فکر کو اجاگر کرکے اپنے حصے کا چراغ جلانا ہوگا۔
اس کے بعد رضا الحق صاحب نے حلقہ کے ناظمین نشر و اشاعت کی نظام العمل میں ذمہ داریاں اور اُن کی وضاحت کے موضوع پر مفصل گفتگو کی۔میثاق اور ندائے خلافت میں شائع ہونے والے اداریے اور امیر محترم کے خطاب جمعہ کو دوبارہ پرنٹ میڈیا میں شائع کروانے کے حوالے سے بات ہوئی۔ علاوہ ازیں مینیول میں درج مختلف سرگرمیوں کے لیے رہنما اصولوں کا تعارف پیش کیا۔ ان تمام معاملات میں نظم کی پابندی کے لیے بنائے گئےتنظیم اسلامی کے ’’چین آف کمانڈ‘‘ کو بھی واضع کیا۔اس کے بعد نائب ناظم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا وسیم احمد نے پریس ریلیز بنانے، اجراء اور ترسیل کے رہنما اصولوں پر تفصیلی گفتگو کی۔ دیگر شعبہ جاتی سرگرمیوں کے لیے رہنما اصولوں پر خطاب کیا۔ شرکاء کے سامنے تھیوری اور فیلڈ ورک سے متعلق اہم نکات بیان کیے۔ مقرر نے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے رپورٹر اور میڈیا حضرات سے ملاقات، ندائے خلافت، میثاق کے اداریوں اور دیگر مضامین کی مقامی اخبارات میں اشاعت، امیر محترم کی پریس کانفرنس کے انعقاد، مختلف تنظیمی پروگراموں مثلاً مظاہروں، امیر محترم کے خصوصی پروگراموں اور خطابات اور آگاہی منکرات مہمات اور دیگر سرگرمیوں کے لیے نشر و اشاعت کے حوالے سے رہنما اصولوں پر مفصل بات چیت کی۔ انہوں نے بتا یا کہ کس طرح میڈیا کے مقامی نمائندوں سے بہتر تعلقات بنا کر ان سے تنظیمی امور میں معاونت حاصل کی جاسکتی ہے ۔ اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا کہ الیکٹرانک میڈیا پر تنظیم کی نشرواشاعت کوبڑھانے کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے کوشش جاری ہے کہ ٹی وی چینلز کو بھی دعوت کے لیے استعمال کیا جائے ۔نائب ناظم رضاالحق نے شرکاء کو بتایا کہ امیر محترم کی حلقہ آمد سے قبل میڈیا کے لوگو ں، کاروباری حضرات علماء کرام اور سیاسی شخصیات سے ملاقات کا بندوبست کیاجائے۔اس حوالے سے سالانہ پلانر کو فالو کیا جائے۔ اگلے سیشن میں نائب ناظم نشرواشاعت رضا الحق صاحب نے ناظمین نشر و اشاعت (حلقہ) کی ماہانہ رپورٹ پر تفصیلی گفتگو کی اور شرکاء کے لیے رپورٹ کو پُر کرنے کا طریقہ کار واضح کیا۔اور بتایا گیا کہ ماہانہ رپورٹ بروقت مرکز کو فراہم کی جائے۔حلقہ جات سے موصول رپورٹس کی سمری بھی پیش کی گئی۔ اس کے بعد سوال وجواب اور تبادلہ خیال کی تفصیلی نشت ہوئی ۔جس میں شرکاء نے نشرواشاعت کے پیشہ وارانہ امور سے متعلق سوالات ذمہ داران مرکزی نشرواشاعت کے سامنے رکھے ۔شرکاء نے نشرواشاعت کے مختلف امور کے حوالے سے اپنی تجاویز بھی دیں ۔
آخر میں مرکزی ناظم نشر و اشاعت ایوب بیگ مرزا نے ’’سیاست اور میڈیا باہمی تعلق‘‘ پر ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب کیا۔ اُنہوں نےکہا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ میڈیا کاکردار مختلف اوقات میں مختلف اندازمیں رہا ہے ۔لیکن جب سے یہ جمہوری طرزحکومت دنیا پرنافذ ہوا ہے اس حوالے سے تومیڈیاکارول بہت بڑھ گیا ہے اوراتنا بڑھ گیاہے کہ آج اسے حکومت کے چوتھے ستون کے طور پر جانا جاتا ہے۔میڈیاکااصل کام تویہ ہے کہ کسی پیغام کویاخبر کوایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا۔ بانی محترم فرمایاکرتے تھے کہ باطل کوکھڑا ہونے کے لیے کسی نہ کسی درجے میں حق کاسہارا لیناپڑتاہے۔ مثال کے طور پر آج میڈیا پر ظالم ،وڈیرے ،جاگیرداران سب کےمظالم کی بات باہر آجاتی ہے ۔ آزادی اظہاررائے ہوتی ہے،لوگوں کو بات کرنے کی آزادی ہوتی ہے ۔وقت کی حکومت یاوقت کی ایلیٹ کے جبرکے خلاف بات کرنے کا بھی موقع مل جاتاہے ۔لیکن میڈیا کے نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں اورپھرسرمایہ دارانہ نظام نے اپنے فائدے کے لیےاس کوبطور ہتھیار استعمال کیاہے ۔ مثلاًنائن الیون ہوا،ظلم کوئی کررہاہے اور دہشت گردی کا ٹھپہ کسی اور پر لگ رہا ہے ۔ میڈیا کے ذریعے سے سیاہ کوسفیدا ورسفید کوسیاہ ثابت کیا گیا۔ افغان طالبان نے جوابی کارروائی کی تووہ دہشت گردی بتائی گئی ۔اس کاہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم میڈیا سے دور ہٹ جائیں بلکہ ہم میڈیاکاصحیح استعمال کریں۔ ہمارے ہاں بڑاایک بے ہودہ ساجملہ بولاجاتاہے یہ تومولوی ہے اس کا سیاست سےکیاتعلق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاست اسلام کا حصہ ہے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کرتے تھے۔ میں کہتاہوں کہ مکی دور میں مکہ میں انٹرنیشنل سیاست ہورہی تھی ۔ سب سے بڑی مثال یہ کہ ایران اورروم کی جنگ ہورہی تھی توبحث ابوبکر صدیق h اور قریش مکہ کی ہورہی تھی ۔پھرجب بھی ہم جمہوریت کانام لیتے ہیں توہمارے ذہن میں مغرب کی جمہوریت آجاتی ہے ۔ اصل میں جمہوریت نام صرف ووٹ کا نہیں ہے، جمہوریت ایک طرز عمل ہے ،جمہوریت ایک رویہ ہے ۔ حضرت عمرh کے دورمیں لوگ باتیں کررہے تھے کہ حضرت عمرhکے بعد ہم فلاں بندے کو خلیفہ بنائیں گے۔ توآپ ؓ نے اس کوکس طریقے سے رد کیا کہ یہ عوام کا حق ہے۔ وہ قبائلی زمانہ تھا،اب زمانہ بدل گیاہے۔ 24کروڑ عوام میں قبائل کامعاملہ نہیں ہوسکتا۔اب توعوام کو حق رائے دہی دیناپڑے گا۔بانی محترم ڈاکٹر اسراراحمد ؒ نے جوجمہوریت کو پاکستان کی ماں اوراسلام کو پاکستان کاباپ کہہ دیاتھا ،اس کے بڑی ٹھوس بنیاد تھی۔ یقیناً پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے ۔یقیناً پاکستان مملکت خداداد ہے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان بننے کا ذریعہ جمہورت تھی۔ پھر یہ کہ انقلاب لانے کے تقاضے اور ہیں۔اور انقلاب لانے کے بعد حکومت کوچلانےکے تقاضے اور ہیں۔ہم نے اگر پاکستان میں اسلام نافذ کرنا ہے تو ہمیں پاکستان کو مستحکم کرنے کے لیے پاکستان کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ہم لوگوں کو بتائیں کہ ہم اسلام کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں اور اسلام کے نفاذ کے لیے ہمیں جو’’ جگہ‘‘ چاہیے اس کے استحکام کے لیے بھی ہم کوشاں ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم واقعتاًپاکستان کو قائم رکھنے اوراس میں اسلام کے نفاذ کے لیے کام کریں۔ اللہ تعالیٰ ہماری راہنمائی فرمائے تاکہ ہم صحیح طریقہ اختیار کرکے اس میں کامیاب ہوجائیں ۔
ورکشاپ کا اختتام ظہر کی نماز سے قبل دعا کے ساتھ ہوا۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اقامتِ دین کی جدوجہد کے اس قافلہ میں تن من دھن لگانے کی توفیق عطا فرمائے اور اسے اپنی رضا اور اُخروی نجات کا ذریعہ بنا دے۔ آمین!
(رپورٹ: جاری کردہ مرکزی شعبہ نشر و اشاعت تنظیم اسلامی پاکستان)