اولاد کے حقوق
پروفیسر محمد یونس جنجوعہ
عام طور پر والدین کے حقوق پر زور دیا جاتا ہے یعنی اولاد کے فرائض میں والدین کی خدمت کا بہت ذکر کیا جاتا ہے، حالانکہ ترتیب زمانی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو سب سے پہلے اولاد کے حقوق آتے ہیں جوبچے کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک مدت کے بعد بچہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ والدین کے حقوق سے واقف ہو اور انہیں پورا کر سکے۔ تو اولاد کےحقوق سے واقف ہونا ماں باپ کا اوّلین فریضہ ہے۔
شادی ہو جائے تو میاں بیوی کو اولاد کی خواہش ہوتی ہے۔ اولاد کا دینا تو اللہ کا اختیار ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ ہی سے اولاد کے لیے دُعا کرنی چاہیے کہ وہ انہیں صالح اولاد عطا فرمائے۔ اس سلسلہ میں حضرت ابراہیمd کی دُعا کے الفاظ اس طرح ہیں:{رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(100)} (الصّٰفّٰت) ’’اے میرے رب مجھے صالح اولاد عطا فرما۔‘‘
بچہ پیدا ہو تو اس کا اچھا اسلامی نام تجویز کیا جائے۔نام بامعنی ہو۔ عبداللہ اور عبدالرحمٰن رسول اللہﷺ نے پسند فرمائے ہیں، یعنی وہ نام جس میں اللہ کے نام کے ساتھ عبدآئے یعنی عبدالکریم‘ عبدالقادر وغیرہ۔ کیونکہ عبد لفظ عبادت سے ہے اور عبادت کا حق دار صرف اللہ ہی ہے۔عبد النبی اور عبد الرسول نام بھی درست نہیں۔ ساتویں دن سر کے بال اُتارےجائیں۔ عقیقہ کیا جائے یعنی بیٹی کی طرف سے ایک بکری اور بیٹے کی طرف سے دو بکرے ذبح کر کے ان کے گوشت سے عزیز و اقارب کی دعوت کی جائے اور انہیں اپنی خوشی میں شریک کیا جائے ۔ حدیث میں ہے کہ بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہے جو ساتویں دن اس کی طرف سے ذبح کیا جائے گا اور اس کا نام رکھا جائے گا اورسر کے بال اتارے جائیں گے۔ (سنن ابی دائود‘ سنن الترمذی) یہ بھی ہے کہ اپنی اولاد کی عزت کرو، ان کے آداب بہتر بنائو، اس لیے کہ تمہاری اولاد تمہارے لیے اللہ کا ہدیہ ہے۔
چھوٹے بچوں کے ساتھ پیار کرنا مسنون ہے۔ رسول اللہﷺ اپنے نواسے نواسیوں سے پیار کرتے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا:’’جو بڑوں کا احترام نہیں کرتا اور چھوٹوں کے ساتھ پیار نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’’عطیہ دینے میں اپنی اولاد میں برابری کرواگر میں کسی کو کسی پر فضیلت دیتا تو عورتوں کو دیتا۔‘‘ (رواہ البیہقی)
بچپن ہی سے بچے کی تعلیم و تربیت کا اہتمام ہونا چاہیے۔ آغاز اسلامی تعلیمات سے ہو اور اسے نیک کاموں کی تلقین کی جائے اور برے کاموں سے روکا جائے۔ بچوں کو حلال روزی کھلانا والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’جب تمہارے بچے سات سال کے ہو جائیں تو ان کو نماز کا حکم دو۔ اور اگردس سال کے ہو جائیں تو ان کو نماز کے لیے مارو اور انہیں الگ سلایا کرو۔‘‘ (سنن ابی دائود‘ سنن الترمذی)
اس بات پر عمل کرنے کے لیے والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود نیک کام کریں اور برائیوں سے بچ کر زندگی گزاریں۔ہمیشہ سچ بولیں ‘جھوٹ سے گریز کریں‘ لوگوں کے ساتھ اپنے معاملات انصاف پر مبنی رکھیں۔ کسی پر ظلم نہ کریں‘ حسد نہ کریں، جو روزی ان کو جائز طریقوں سے مل رہی ہے اس پر قناعت کریں۔ اگر روزی تنگ ہو تو اللہ تعالیٰ سے فراخی کی دعا کریں، کیونکہ روزی کا گھٹانا بڑھانا اسی کے ہاتھ میں ہے۔ جب والدین نیکی پر گامزن ہوں گے تو ان کی اولاد انہی جیسے اعمال اپنائے گی۔ اگر ماں باپ خود ہی اپنے بچوں کو برانمونہ پیش کریں گے تو وہ ان سے اچھے اعمال کی توقع کیسے کر سکتے ہیں۔ جب بچوں کی عمر روزی کمانے کی ہو جائے تو انہیں ایسا پیشہ اپنانے کی تلقین کی جائے جس میں ناجائز کا شائبہ نہ ہو۔ اگر باپ خود رزق حلال کا اہتمام کرے گا تو بچے بھی ایسا کریں گے جب کہ بچوں کو بتایا جائے کہ رزق حلال اس قدر ضروری ہے کہ حرام کمائی کے ساتھ کیے ہوئے نیک اعمال بھی بے کار ہو جاتے ہیں۔ جس شخص کا لباس حرام کمائی سے بنا ہوا ہو اُس کی نماز قبول نہیں۔ اس پر حد درجہ تاکید کی گئی ہے۔حدیث کا مفہوم ہے کہ:جو شخص دوردرازکا سفر کر کے مقدس مقام تک پہنچے اور وہاں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگے تو اس کی دعا بھی قبول نہ ہو گی۔ اس طرح حرام مال سے خرچ کیا ہوا صدقہ خیرات اور زکوٰۃ نامقبول ہے۔ حرام مال سے سحری اور افطاری کا سامان کیا جائے تو وہ روزہ نامقبول ہے۔
ان ساری اچھی تعلیمات کو موثر اس طرح بنایا جا سکتا ہے جب والدین خود ان پرعمل پیرا ہوں۔ قرآن مجید میںہے:{قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا} (التحریم:6) یعنی اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ کے عذاب سے بچائو۔ گویا انسان خود برے اعمال سے بچے اور پھر وہ اپنی ذمہ داری سمجھے کہ اسے اپنی اولاد کو بھی نیکی کی تلقین کرنا ہے۔ صرف اپنے آپ کو برے اعمال سے بچانا کافی نہیں ۔ روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ جو والدین نماز کے پابند ہوں عام طو رپر انہیں اپنے بچوں کو نماز کی پابندی کرانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی بلکہ جب وہ اپنے والدین کو نماز کی پابندی کرتے دیکھتے ہیں تو وہ بھی نما زکے پابند ہو جاتے ہیں۔ ماں کو نماز پڑھتے دیکھتے ہی بیٹیاں بھی اس کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہیں۔ باپ نماز کے لیے مسجدجاتا ہے تو چھوٹے بچے بھی ساتھ جانے کی خواہش کرتے ہیں۔ اگر والدین نے اپنے بچوں کو نماز کا پابند بنانے کی کوشش نہ کی تو انہوں نے انہیں آگ سے بچانے کا کیا انتظام کیا؟
بچوں کی تعلیم بھی ضروری ہے لیکن اس تعلیم کا آغاز قرآن مجید سے کیا جائے۔ قرآن کی عظمت ان کے دل میں بٹھائی جائے۔ پھر رسول اللہﷺ کی بتائی ہوئی تعلیمات انہیں پڑھائی جائیں ۔ نیک لوگوں کی زندگیوں کے حالات انہیں سنائے جائیں۔ بزرگوں کے سوانح حیات پر مشتمل کتابیں گھر میں رکھی جائیں۔ والدین خود بھی پڑھیں اور بچوں کو بھی پڑھائیں۔
شادی کا موقع آئے تو نیک خاندان میں ان کا رشتہ طے کیا جائے۔ دولت کی چاہت کرنا پسندیدہ نہیں۔ بیٹے کے لیے وہ لڑکی پسند کی جائے جو تقویٰ شعار اور پردے کی پابند ہو۔ اسلامی تعلیمات سے واقف اور صبر اور شکر کی عادت رکھنے والی ہو۔ چونکہ لڑکے لڑکی نے مل کر زندگی گزارنی ہوتی ہے اس لیے اگر وہ ایک جھلک ایک دوسرے کو دیکھ لیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ جب بچے بلوغت کو پہنچ جائیں تو ان کی شادی کر دی جائے۔ دیر کرنا پسندیدہ نہیں۔ نکاح سےپہلے دونوں کی واضح رضامندی حاصل کی جائے ۔ لڑکی کا نکاح ولی کے بغیر نہ ہو۔ اگر والد زندہ ہو تو وہی ولی ہو گا۔ شادی سادگی سے ہو اور غیر اسلامی رسومات سے پرہیز کیا جائے۔ وہ شادی اچھی ہے جس میں کم از کم خرچ ہو۔ ہمارے معاشرے میں لڑکوں کو پسند کیا جاتا ہے اور لڑکیوں کو کم تر سمجھا جاتا ہے۔ یہ بہت برا ہے۔ لڑکی کو اللہ کی رحمت کہا گیا ہے۔ جو باپ اپنی ایک بچی کی اچھی تربیت کر کے اس کی شادی کر دیتا ہے تو اسے جنت کی بشارت ہے۔ سنن بیہقی میں ہے آپﷺ نے فرمایا:’’عطیہ دینے میں اپنی اولاد میں برابری کرو۔ اگر میں کسی کو کسی پر فضیلت دیتا تو عورتوں کو دیتا۔‘‘ بچیوں سے نفرت تو عرب کے جاہلی معاشرے میں تھی۔ یہاںتک کہ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا۔ ہمارے معاشرے میں خود ساختہ برے رسم و رواج کی وجہ سے بیٹی کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ یہ اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔اگر بیٹی کی شادی پر برات کا اہتمام نہ ہو اور نہ ہی جہیز دینا ہو تو یہ شادی تھوڑی رقم کے ساتھ انجام پا سکتی ہے۔ ان بُری رسموں کی وجہ سے آج بھی لڑکیوں کی پیدائش کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اور لڑکوں کی پیدائش پر خوشی منائی جاتی ہے کہ اس کی شادی ہو گی تو جہیز میں کافی سامان ملے گا۔ اولاد کی اچھی تربیت والدین کی ذمہ داری ہے۔ اولاد کی تربیت کے بارے میں والدین سے پوچھا جائے گا ۔حدیث میں ہے کہ تم میں سے ہر ایک راعی (ذمہ دار) ہے اور اس سے اپنے ماتحتوں زیردستوں کے بارے میں پوچھاجائے گا۔ اولاد اپنے ماں باپ کی رعیت ہوتی ہے چنانچہ انہیں پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنی اولاد کی تربیت کیسے کی۔
اولاد اپنے والدین کی جائیداد کی وارث ہے کسی کو بھی وراثت کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی بچہ ماں باپ کانافرمان ہو اور اس وجہ سے ماں باپ اسے اچھا نہ جانتے ہوں پھر بھی اسے والدین کی جائیداد سے محروم نہیں کیاجاسکتا۔ اولاد کو عاق کرنا اسلام میں نہیں ہے۔ماں باپ کی وفات کے بعد ان کی جائیداد اولاد کو اللہ کے حکم کے مطابق تقسیم کرنا فرض ہے۔ اس میں کوتاہی کی ہر گز گنجائش نہیں اگر کوئی شخص زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کرتا ہے تو بیٹے اور بیٹی کا حصہ برابر ہو گا۔ کیونکہ یہ وراثت نہیں ہبہ ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025