اگر انتخابات کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیںاور کسی وجہ سے الیکشن نہ ہو سکے
تو پاکستان کاوجود شدید خطرے میں پڑجائے گا:ایوب بیگ مرزا
اگر کہیں سے تھوڑا بہت ریلیف ملنے کی توقع ہے تو وہ عدلیہ ہے لیکن اب اس کے پر کاٹنے
کے لیے بھی قانون سازی ہو رہی ہے محمد عامر خاکوانی کسی ریاست کاآئین حقوق وفرائض کا
تعین کرکے انسانی معاشرے کو حیوانوں سے مختلف بناتاہے : رضاء الحق
الیکشن کمیشن:سپریم کورٹ اورانتخابات کے موضوع پر
میز بان :وسیم احمد
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال:الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ میں توسیع کر دی اوراب KPK اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ بھی8اکتوبر کردی ہے ۔ اس کے خلاف جب پی ٹی آئی نے پٹیشن فائل کی تو وہ بینچ ہی ٹوٹ گیاجس نے فیصلہ دینا تھا۔ اس ساری صورت حال پر آپ کاکیاتبصرہ ہے ؟
ایوب بیگ مرزا: پہلے میں ایک اصولی بات کروں گا کہ جمہوریت اورانتخابات لازم و ملزوم ہیں۔ انتخابات کے بغیرجمہوریت کاکوئی نام ونشان نہیں۔ ہمارے ہاں ایک سال سے یہ مسئلہ چل رہاہے ۔ فرض کیجیے ایک سال پہلے یہ مسئلہ جاپان میں پیدا ہوا ہوتاتواب تک ایک نہیں بلکہ دو انتخابات ہو چکے ہوتے ۔ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں جب ایسا بحران پیدا ہوتاہے تو وہاں فوراً عوام سے رجوع کیا جاتاہے ۔ عراق ، ایران جنگ ہورہی تھی لیکن اس کے باوجود ایران میں انتخابات ہو رہے تھے ۔ ہمارے سامنے ترکی میں بدترین زلزلہ آیا ہے ، ہزاروں لوگ جاںبحق ہو چکے ہیں ، اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے لیکن ترکی کی حکومت کا اعلان ہے کہ انتخابات مئی میں ہی ہوں گے ۔الیکشن سے فرار وہی حکومتیں اور سیاستدان چاہتے ہیں جن کا تعلق جمہوریت سے نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسے لوگوں کو سیاستدان کہنا چاہیے ۔ 13اگست کو قومی اسمبلی کی مدت پوری ہو جائے گی۔ اس وقت یہ مطالبہ بھی سامنے آ رہا ہے کہ اگست میںاکٹھے الیکشن کرائے جائیں۔ اس صورت میں آئین پاش پاش ہو جائے گا ۔
سوال:اگر چارماہ بعد الیکشن کاانعقاد ہوتاہے توکیاوہ ٹائم فریم کے مطابق نہیںہوںگے پھرآئین کیسے پاش پاش ہوگا؟
ایوب بیگ مرزا:پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کے انتخابات 90دن کے اندر کرنا آئینی تقاضا ہے ۔اگر چار مہینے بعد یعنی اگست میں ایک ساتھ الیکشن کرائیں گے تو آئین ٹوٹے گا ۔ چار ماہ بعد تو ویسے بھی قومی اسمبلی ، بلوچستان اور سندھ اسمبلی کی مدت ختم ہو جائے گی ۔وہی الیکشن اگر چار ماہ پہلے کرا لیے جائیں تو کوئی آئینی حرج پیدا نہیں ہوگا ۔ اگر حکومت کہتی ہے کہ قومی ، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کے انتخابات وقت پر ہوں گے تو پھر اسے پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کے انتخابات بھی وقت پر کرانے چاہئیں جو کہ 90 دن کے اندر کرانے ضروری ہیں ۔ آئین کی شق 254 بھی یہی کہتی ہے کہ90دن کے اندر الیکشن کرانے میں کوئی رکاوٹ ہے تو90 دن کے بعد جلد از جلد انتخابات کا انعقاد کیا جائے اور یہ آئین میں طے کردہ 90 دن کے شیڈول میںباامر ِ مجبوری اضافہ تصور ہو گا لیکن90 دن کے بعد کی نئی تاریخ نہیں دی جا سکتی۔ اول توالیکشن کمیشن نے 8اکتوبر جوتاریخ دی ہے ظاہری طورپرایک مذاق کیاہے کیونکہ چیف الیکشن کمشنر نے دس دفعہ خود کہاہے کہ الیکشن کمیشن آئینی طورپر تاریخ دے ہی نہیں سکتا۔پھر ٹال مٹول کے لیے خود ہی تاریخ دے دی ۔ بعد میں حکومت کہے گی کہ الیکشن کمیشن تاریخ دینے کا مجاز ہی نہیں ہے ۔وہ توصرف صدر یاگورنر کی دی ہوئی تاریخ پرالیکشن کرانے کا مجاز ہے۔ لہٰذا ایک بات توواضح ہوگئی کہ حکومت 8اکتوبر کو الیکشن ہرگز نہیں چاہتی ۔ ایک بہانہ سکیورٹی کا ہے حالانکہ 2008ء اور 2013ء میں سکیورٹی کا جتنا مسئلہ تھا اُتنا آج نہیں ہے۔
سوال:پی ٹی آئی نے عدالت میں درخواست دی تھی کہ الیکشن کی تاریخ عدالت طے کرے لیکن فیصلہ آنے سے پہلے ہی وہ بینچ ٹوٹ گیا جو سماعت کر رہا تھا ۔ اب یہ معاملہ کس طرف جائے گا؟نیز عدلیہ میں جو تقسیم نظر آرہی ہے اس کا حل کیا ہے ؟
محمدعامرخاکوانی:بینچ کا ٹوٹنا قابل فہم تھا کیونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے میں تھاکہ جب تک سوموٹواوربینچز کے حوالے سے کوئی پروسیجر نہیں بنتا تب تک اس طرح کے سپیشل بینچ بننے چاہئیں ۔ بظاہریہ لگ رہاہے کہ یہ کیس اب آگے جائے گااور الیکشن کمیشن نے جوتاریخ آگے بڑھائی ہے وہ غلط اورغیرآئینی ہے۔ اس کوکوئی حق حاصل نہیں تھااوریہ معاملہ الیکشن کمیشن کے خلاف ہی جائے گا۔
سوال: اس خاص موقع پرعدالتی اصلاحات کے نام پرحکومت نے جو قانون سازی شرو ع کی ہے کیایہ درست اقدام ہے ؟
محمدعامرخاکوانی:اصولی طورپردوباتیں ہیں۔ ایک یہ کہ قانون سازی پارلیمنٹ کاکام ہے ان کو کرنا چاہیے لیکن یہ وقت درست ہے یانہیں یہ سوال اہم ہے ۔ اس وقت قانون سازی خالصتاًبدنیتی کی بنیاد پرلگ رہی ہے ۔ کیونکہ اس وقت ایک لولی لنگڑی قومی اسمبلی ہے جس میں اپوزیشن ہے ہی نہیں اورجو حقیقی اپوزیشن ہے اس کو ا سپیکر اورحکمران اتحاد اسمبلی میں آنے نہیں دے رہا ۔ لہٰذا بغیر اپوزیشن کی اسمبلی میں قانون ساز ی مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے اس وقت پی ٹی آئی کے خلاف یکسواورمتحد ہیں اورپی ٹی آئی کو حکومت میں آنے سے روکنے کے لیے آخری حد تک جانا چاہتے ہیں ۔ البتہ کہیں سے تھوڑا بہت انصاف ملنے کی امید ہے تو وہ سپریم کورٹ ہے لیکن اس وقت حکومتی قانون سازی کا واضح مقصد عدلیہ کے پر کاٹنا اور اس کی آزادی پر قدغن لگانا ہے ۔
سوال:اگر عدلیہ الیکشن کی تاریخ دے دیتی ہے توآپ کے خیال میں الگ الگ الیکشن زیادہ بہتر ہوں گے یا پھرایک ہی بار پورے پاکستان میں الیکشن زیادہ بہتر ہوں گے ؟
محمدعامرخاکوانی:اصل بات یہ ہے کہ آئین کیاکہتاہے ۔ آئین میں یہ نہیں ہے صوبائی اسمبلیاں الگ سے تحلیل ہونہیں سکتیں۔ اصل بات یہ ہے کہ الیکشن آئین کے مطابق ہی ہونے چاہئیں ۔ایک چیف الیکشن کمیشن کو یہ حق نہیں دینا چاہیے کہ وہ آئین کو روند سکے ۔ اب تو وزیراعلیٰ کا اختیار بھی ختم کر رہے ہیں حالانکہ وزیراعلیٰ توعوام کامنتخب نمائندہ ہوتاہے جسے عوام کامینڈیٹ حاصل ہوتا ہے۔ وہ اگر ایک فیصلہ کرتاہے کہ ہم عوام میں جاتے ہیں تاکہ تین ماہ بعد الیکشن ہوجائیں تو آئینی تقاضا ہے کہ الیکشن تین ماہ کے بعد لازماً ہونا چاہئیں۔ ایک چیف الیکشن کمیشنر جو ریاست کاملازم ہے وہ اگر پوری اسمبلی کے مینڈیٹ کواٹھاکرپھینک دے اور اپنی مرضی سے الیکشن چھ ماہ آگے کردے تو وہ مزید بھی چھ ماہ اور ایک سال آگے کردے گا ۔ کیونکہ جووجوہات بتائی گئی ہیں وہ بہت کمزور ہیںاور اکتوبر2023ء میں بھی یہی مسئلے ہو سکتے ہیں جوآج ہیں۔
سوال: آپ جانتے ہیں کہ جنرل الیکشن کی تاریخ بھی ڈیوہے ۔ فوری طورپرپہلے ان اسمبلیوں کے انتخابات اور پھر جنرل الیکشن ہونایہ ملک میں الیکشن الیکشن کھیلنے والی بات نہیںہوجائے گی ؟
محمدعامرخاکوانی:جنرل الیکشن میں توابھی پانچ مہینے باقی ہیں جوخاصا وقت ہے۔ پھراس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اکتوبر میں الیکشن ہوجائیں گے؟ کیونکہ پی ڈی ایم حکومت الیکشن سے بھاگنے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے ۔ انہیں الیکشن میں اپنی بدترین شکست نظرآرہی ہے ۔ اورسارے سروے یہی کہہ رہے ہیں کہ پنجاب اورکے پی کی ٹوتھرڈ اکثریت پی ٹی آئی لے جائے گی ۔
سوال: کیاعدالت ان ساری جماعتوں کی میڈیشن کروا نہیں سکتی کہ ایک تاریخ دے دو اورالیکشن کروائو؟
محمدعامرخاکوانی:میڈیشن کے لیے پی ٹی آئی توتیارہے، وہ کئی دفعہ اشارے دے چکے ہیں ۔ لیکن پی ڈی ایم کسی بھی صورت میں تیار نہیں ہے ۔ابھی دیکھئے گا کہ اکتوبر میں جب الیکشن کاوقت آئے گاتواس سے پہلے مردم شماری کا ایشو کھڑا کیا جائے گا اوراس کی بنیاد پر پھر الیکشن ملتوی کروائے جائیں گے اور یہ الیکشن کو 2024ء تک لے کر جائیں گے ۔ بلکہ ان کا بس چلے تو2024ء سے بھی آگے لے کے جائیں۔
سوال:ایک نظریاتی ریاست میں آئین کی کیااہمیت ہوتی ہے ؟
رضاء الحق:ہرریاست نظریاتی ہوتی ہے کیونکہ نظریہ کے بغیر تو کوئی ریاست نہیں ہوتی ۔ البتہ پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جو نظریہ اسلام کی بنیاد پر قائم ہوئی ۔ آئین بنیادی طورپرریاست اور اس کے تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان ایک معاہدہ ہوتاہے اورریاست کے مختلف اداروں اورریاست کے اوپرپابندیاں لگائی جاتی ہیں کہ ریاست کافرض کیاہے اور کس طرح مختلف اداروں کاآپس میں طاقت اوراختیارات کاتوازن طے کیاجائے گا۔یہ آئین کے ذریعے کیاجاتاہے ۔ اب شہریوں کے فرائض ہمیں قانون کے اندر دکھائی دیتے ہیں جیسے ہم کہتے ہیں کہ قانون کی پاسداری شہریوںکا کام ہے ۔ آئین کی پاسداری بنیادی طورپرریاست اورا س کے اداروں کاکام ہے ۔کہاجاتاہے کہ آئین کاڈھانچہ برطانیہ میںمیگناکارٹا کے طورپر پہلی مرتبہ دکھائی دیتاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے بہت پہلے آئین کاڈھانچہ ہمیں خلافت راشدہ میں نظر آنا شرو ع ہوگیا تھاکہ بنیادی طورپرحاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہوگی، تمام قانون سازی قرآن وسنت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ہوگی اورریاست کے معاملات عوام کی مشاورت سے طے ہوںگے ۔یہی قوانین آج کی جدید ریاست میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ پھروقت کے ساتھ ریاست کے ستون الگ کرنے کی ضرورت پڑی ۔ ان میں ایک مقننہ ہے ،ایک انتظامیہ ہے اورایک عدلیہ ہے ۔ان تینوںکے آپس کے تعلقات اوراختیارات کو بھی آئین کے ذریعے ہی طے کیاجاتاہے اورقدغن بھی آئین کے ذریعے ہی لگائی جاتی ہے کہ کون کس طرح کن کاموں کو کر سکتاہے اوردوسروںکے معاملے میں مداخلت نہیں کرسکتا اورپھرعوام کے بنیادی حقوق کوہرصورت میں تحفظ دیاجائے گا۔پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ریاست ہے اوریہاں 12مارچ 1949ء میں قرارداد مقاصد پاس کی گئی اورپھر1973ء کے آئین کے آرٹیکل 2-A میں یہ سار ی چیزیں موجود ہیں ۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ ہمارے آئین کی بنیاد اسلامی ہے ۔ البتہ اس آئین میں سقم موجود ہیں۔ مثلاً آرٹیکل 45میں صدر کواختیار دے دیاگیاکہ وہ سزا کومعاف کرسکتا ہے۔ حالانکہ اسلام میں یہ اختیار مقتول کے ورثاء کوحاصل ہے کہ وہ چاہیں تو معاف کردیں اور اس کے بدلے میں خون بہالیںاوروہ یقیناًریاست کے ذریعے ہوگا۔اسی طرح آرٹیکل 248 میں صدر اور گورنرز کواستثنیٰ حاصل ہے کہ عدالت ان کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی حالانکہ اسلامی تاریخ کوسامنے رکھیں تو بڑے سے بڑاطاقتور شخص اور عہدیدار بھی عدالت یا عوام کے سامنے جوابدہ ہوتا تھا ۔ اسی طرح اسلامی نظریاتی ریاست میں قرآن نے دوسرے اصول بھی دیے ہیں ۔ مثلاًزمین پرجب اللہ تعالیٰ تمکن عطا کرے توپھر اس حکومت کایاریاست کافرض ہے کہ وہ نماز،زکوٰۃاورامربالمعروف اورنہی عن المنکر کاپورا نظام قائم کرے ۔ اس حوالے سے تنظیم اسلامی کے بانی ڈاکٹر اسرارا حمدؒ نے بڑی جدوجہد بھی کی ۔ 1997ء میں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں بانی تنظیم اسلامی ؒنے ’’مطالبہ تکمیل دستور خلافت ‘‘کے عنوان سے ایک پوری تحریک چلائی اوراس کے ذریعے تمام غیراسلامی شقات کو ختم کرنے کامطالبہ کیااورکہا کہ قرارداد مقاصد کوپورے آئین میں اوورائیڈنگ حیثیت دی جائے کہ تمام آئین اس کے نیچے ہوکرکام کرے ۔ بہرحال یہ ایک جدوجہد ہے جوہماری جاری رہے گی اورجہاں جہاںآئین میں سقم موجود ہیں ان کو دور کرنے کی بات کریں گے ۔ جب ہم کہتے ہیں کہ آئین ایک معاہدہ ہے اور اسلامی ریاست میں یہ معاہدہ اللہ کے نام پر ہے تو پھر اس کی پاسداری بھی تمام سٹیک ہولڈرز پرلازم ہے ۔
سوال:بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ فرماتے تھے کہ اسلام پاکستان کاباپ ہے اورجمہوریت اس کی ماں ہے۔ آپ ان کے اس موقف(ڈاکٹرائن ) کوکس حدتک درست سمجھتے ہیں ؟
ایوب بیگ مرزا:پاکستان کے قیام پر مہر تصدیق 1946ء کے انتخابات نے ثبت کی جب مسلم لیگ نے مسلمانوں کی تمام سیٹیں جیت لیں لہٰذا مسلمانون کی نمائندہ جماعت کے طور پر مسلم لیگ کا مطالبہ برٹش ایمپائر کو ماننا پڑا ۔ اگر مسلم لیگ وہ انتخابات نہ جیتتی توکسی صورت برٹش، بنیا گٹھ جوڑ نے برصغیر کی تقسیم کوتسلیم نہیں کرنا تھا ۔ اسی طرح مسلم لیگ کو مسلمانوں کو ووٹ ملے تواس نعرے کی بنیاد پر ملے کہ پاکستان کا مطلب کیا:لاالٰہ الا اللہ ۔اسی نظریہ کی بنیاد پر مسلمانوں نے پاکستان کے لیے جان و مال کی قربانیاں دیں ۔ لہٰذا ڈاکٹر صاحب ؒ یہ کہتے ہیں کہ جمہوریت پاکستان کی ماں اور اسلام باپ ہے توبالکل ٹھیک کہتے ہیں۔گویادونوں چیزوںنے رول ادا کیا۔اسی لیے ڈاکٹر صاحبؒ یہ بھی کہتے تھے کہ جب تک پاکستان میں اسلامی نظام قائم نہیں ہو جاتا ، جمہوریت کو چلنا چاہیے تاکہ عوام کا اعتماد بحال رہے۔ لیکن انتخابات کے بغیر تو جمہوریت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ آپ الیکشن کروائیں جو پارٹی جیت کر آئے اقتدار اس کے حوالے کر دیا جائے ۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو ریاست پر سے عوام کا اعتماد اُٹھ جائے گا ۔ 1971ء میں یہی ہوا تھا کہ جو پارٹی الیکشن جیت چکی تھی اس کو اقتدار نہیں دیا گیا تو ملک ٹوٹ گیا ۔ اب بھی میں عرض کرتاہوں کہ اگر انتخابات کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیںاور کسی وجہ سے الیکشن نہ ہو سکے تو پاکستان کاوجود شدید خطرے میں پڑجائے گا۔ اس وقت پنجاب اور KPKاسمبلیوں میں انتخابات آئین کا تقاضا ہے۔ اگرپی ڈی ایم حکومت کہتی ہے کہ انتخابات مرکز اور صوبوں میں ایک ساتھ کرانے میں فائدہ ہے جس کا ابھی وقت نہیں آیا تو یہ فائدہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ آئین بھی قائم رہ جائے۔ لیکن اگر حکومت پنجاب اور KPKمیں صوبائی الیکشن نہیں کرواتی تو آئین ٹوٹتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلہ پرحکومت کے قریب ترین وکلاء جن میں اعتزاز احسن، لطیف کھوسہ، سابق اٹارنی جنرل شامل ہیں حکومت کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں کیونکہ ان کی credibilityکاسوال تھا۔
سوال:ہمارا آئین عوام کوبنیادی حقوق کس حدتک فراہم کرتا ہے ؟
رضاء الحق:آئین کاپہلا پیرا آرٹیکل 8سے لے کر28تک سارافنڈامنٹل رائٹس سے متعلق ہے اور ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آزادی اظہار رائے، فریڈم آف ایکسپریشن، فریڈم آف اسمبلی،سیاسی جماعت میں شامل ہونا، سیاسی تحریک کاحصہ بننااوراس کے علاوہ بہت سارے بنیادی حقوق فراہم کرے ۔ پھراگر حالات سکیورٹی یا معاشی لحاظ سے خراب ہوجائیں تو حکومت کے پاس ایمرجنسی لگانے کا اختیار موجود ہوتا ہے جس میں بنیادی حقوق معطل ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کاایک رویہ بن گیاہے کہ جب وہ حکومت میں ہوتی ہیںتواپوزیشن کوبہت زیادہ دباتی ہیں ، اس میں ان کو مقتدر حلقوں کی سپورٹ بھی حاصل ہوتی ہے ۔جیسا کہ عمران خان کے دور حکومت میں سپریم کورٹ کے ایک جج(جسٹس فائز عیسیٰ) کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔ اب عمران خان خود اعتراف کر رہے ہیں کہ یہ ریفرنس مقتدر اداروں کی طرف سے پریشر کی وجہ سے دائر کیا گیا تھا ۔ لیکن اس غلطی کی ذمہ داری تو وزیر اعظم پر ہی عائد ہوتی ہے ۔ پھریہاںلاپتہ افراد کامسئلہ سالوں سے چل رہاہے لیکن اس حوالے سے ہماری عدالت میں کوئی فیصلہ نہیں آتا ہے جبکہ سیاسی کیسز پر روزانہ سماعت ہوتی ہے اورفوری فیصلے ہورہے ہیں ۔عدلیہ میں اصلاحات کے حوالے سے ہمارے وزیر قانون کا کہنا تھا کہ شریعت کا بھی تقاضاہے کہ اپیل کاحق ہو جوکہ بالکل درست ہے۔ یہاں ان کو شریعت یاد آگئی لیکن سود کو ختم کرنے کے حوالے سے ان کو شریعت کا تقاضا یاد نہیں آتا ۔ حالانکہ وفاقی شرعی عدالت کا سود کے خلاف فیصلہ موجود ہے اور ہمارے آئین میں بھی لکھا ہوا کہ ہے کہ سود کو جلد ازجلد ختم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ بہرحال لوگوں کے فنڈامنٹل رائٹس کی اس وقت خلاف ورزی ہمیں دکھائی دیتی ہے کہ ہمارے صحافی بھائیوںکو اٹھایاگیااور دوردراز علاقوںمیں ان پر مقدمات درج کیے گئے،ان کوغائب کردیاجاتاہے ۔ اسی طرح کامعاملہ سیاسی کارکنوں کے ساتھ بھی کیا جاتاہے ۔ تنظیم اسلامی کاہمیشہ سے بڑا واضح موقف رہاہے کہ حکومت اورعدالت کابنیادی فرض ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق کسی صورت میںسلب نہ ہونے دے۔ انسانوں کامعاشرہ اسی وجہ سے جانوروں سے مختلف ہوتاہے کہ آپ انسانوں کو ان کے حقوق دیتے ہیں ، آئین کی پاسداری کرتے ہیں ۔ اگر یہ حقوق نہ دیے جائیں توپھرجانوروں میں اورانسانوںمیں کیا فرق رہ جائے گا۔
سوال:ڈاکٹر اسرارا حمدؒ جمہوریت کوپاکستان کی ماں کہتے ہیں اورآپ انتخابات کو جمہوریت کاحسن قرار دیتے ہیں۔لیکن تنظیم اسلامی خودا نتخابات میں حصہ نہیں لیتی اس کی کیاوجہ ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:ڈاکٹر صاحبؒ فرماتے تھے کہ جس طرح انسان کے زندہ رہنے کے لیے پانی ، آکسیجن اور خوراک وغیرہ ضروری ہے اسی طرح پاکستان کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے جمہوریت کی ضرورت ہے۔ جس طرح ایک مسلمان کے لیے ایمان ضروری ہے اسی طرح پاکستان کے استحکام کے لیے اسلام ضروری ہے ۔ اس کے باوجود ڈاکٹر اسراراحمدؒ او رتنظیم اسلامی نے انتخابی سیاست کا راستہ اختیار نہیں کیا تو اس کی ایک وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحبؒ کہتے تھے کہ پاکستان میں اسلام انتخابات کے ذریعے نہیں آسکتا ۔ یہاں جاگیردارانہ نظام ہے ۔ سیاست پر ان جاگیرداروں ، سرمایہ داروں اور چند طبقات کی اجارہ داری ہے ۔ اس کے مقابلے میں جو لوگ اسلام کے لیے کام کرتے ہیں وہ نظریاتی ضرور ہیں مگر ان کے پاس وسائل نہیں ہیں ۔ لہٰذا انتخابات میں ان جاگیرداروں ، وڈیروں اور اجارہ دار طبقات کے مقابلے میں نظریاتی لوگوں کی کامیابی اول تو انتہائی مشکل ہے لیکن اگر جیت بھی گئے تو اسمبلی میں ان کی تعداد اتنی نہیں ہوگی کہ وہ کچھ کرسکیں ۔ لہٰذا جب وہ کارکردگی نہیں دکھائیں گے تو عوام میں اپنا اعتماد بھی کھود دیں گے ۔ دینی سیاسی جماعتوں کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحبؒ کہتے تھے کہ پاکستان میں اسلام صرف انقلابی جدوجہد سے ہی آسکتا ہے ۔ لیکن ڈاکٹر صاحبؒ نے اپنی کتاب خلافت: کیا،
کیوں اورکیسے ؟میں لکھا ہے کہ جب اسلام آجائے گا تواس کو چلانے کے لیے بھی اسلامی اصولوں کے مطابق کوئی جمہوری طرز لاگو ہو گا۔ انہوںنے الیکشن کوحرام قرار نہیں دیاتھا۔ ایک دفعہ انہوں نے جماعت اسلامی کے ساتھ مذاکرات میں یہ آفر بھی کردی تھی کہ ہم مل کریہ طے کرلیتے ہیں کہ25سال تک انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے، اس کے بعد لے لیں گے ۔انقلاب سے پہلے انتخابات میں حصہ لینا اس لیے بھی مضر ہے کہ اس وجہ سے دنیوی لالچ بھی ساتھ چمٹ جاتی ہے کہ اسمبلیوں میں جائیں اور مراعات حاصل کریں ۔ کیونکہ ہمارے ہاں ٹرینڈ بن چکاہے کہ پیسے کے ذریعے الیکشن جیتو اورپھر نوٹ بنائو اوریہ کام دیندار اورایمان دار آدمی نہیں کرسکتے ۔تیسری وجہ یہ ہے کہ انتخابات کے ذریعے صرف اسمبلی میں تبدیلی آئے گی ، عدلیہ ، فوج اور دیگر اداروں میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ۔ مصرمیں الاخوان کو اسی وجہ سے ناکامی ہوئی ۔ انہیں صرف اسمبلی میں اکثریت حاصل ہوئی تھی جبکہ فوج اور عدلیہ وہی پرانی رہی اور پھر اس وجہ سے کائونٹرریولوشن ہوگیا۔ اس کے مقابلے میں حقیقی انقلاب تمام قوتوں کو کرش کرکے آتا ہے ، پورا نظام تبدیل ہوتا جس کی وجہ سے کائونٹرریولوشن کے امکانات نہیں رہتے ۔ جبکہ انتخابات کے ذریعے یہ نہیںہوسکتا۔لیکن یہ بالکل واضح ہے کہ جب انقلاب کے ذریعے حکومت بن جائے گی توپھرعوام کو رائے کا حق دیاجائے گا کہ وہ اپناخلیفہ اوراپنے نمائندے منتخب کریں لیکن فرق یہ ہوگاکہ اگر کسی جماعت کو اسمبلی میں سوفیصد اکثریت بھی حاصل ہو جائے تو تب بھی کوئی غیر اسلامی قانون نہیں بن سکے گا ۔ شراب جائز نہیں ہوسکے گی کیونکہ قرآن و سنت کو آئین پر بالا دستی حاصل ہوگی ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025