(خصوصی مضمون) ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کی شخصیت - ادارہ

9 /

ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کی شخصیت
مولانا زاہد الراشدی

پاکستان کی ایک عظیم دینی شخصیت جنہوں نے خلافت کا پرچم بلند کرنے، دینی اقدار کی ترویج اور اسلام کے غلبہ و نفاذ میں اپنی تمام توانیاں صرف کیں اور آخر وقت تک اسی مشن پر گامزن رہے ۔
ڈاکٹر اسرار احمد ؒ ہمارے ملک کی دینی تحریکات میں اور دینی شخصیات میں صفِ اول کی شخصیت ہیں اور مختلف حوالوں سے ا ن کی یاد بہت دیرتک ہمارے درمیان تازہ رہے گی۔ یہ شکوہ بجا بھی ہے اور ایک لحاظ سے بے جا بھی ہے کہ ہم آج کے میڈیا سے یہ توقع کر رہے ہیں کہ وہ اپنی روش بدلے گا اور وہ دینی، تحریکی اورنظریاتی و فکری شخصیات کو اپنے ہاں کوئی جگہ دے گا۔ ہمارے میڈیا کا ایجنڈا ہی کچھ اور ہے، میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن بہر حال ان شخصیات کا امت مسلمہ پر حق ہے کہ ہم ان کے مشن کو بھی زندہ رکھیں، ان کی یاد کو بھی تازہ رکھا جائے۔ ان کی زندگی کی تگ وتاز کے مختلف مراحل کو وقتاً فوقتاً سامنے لایا جاتا رہے ۔
مجھے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم سے ایک عرصے سے نیاز مندی کا تعلق تھا اور آخر وقت تک رہا مختلف حوالوں سے،میں بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا وہ بھی میرےیہاں تشریف لاتے رہے اور مختلف تحریکات میں ہم اکٹھے رہے، مختلف فورموں میں ہم نے اکٹھے کام کیا۔ میری ڈاکٹر اسرار احمدؒ سے دلچسپی اور نیاز مندی اور تعلقات کے مختلف پہلو ہیں، جن کا سرسری تذکرہ مناسب سمجھتا ہوں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ اس ملک میں اقامتِ دین ، غلبہ اسلام اور اسلام کے نفاذ کے صرف ایک داعی ہی نہیں تھے بلکہ وہ اس کے لیے مسلسل کام کرنے والے راہنما اور کارکن بھی تھے۔یہ ہمارا ایک مشترکہ ملّی مقصد ہے۔ اگر ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان کی اساس کو سمجھتے ہیں تو پاکستان میں اسلام کا نفاذ،اسلام کا غلبہ، اسلام کی بالادستی، یہ نہ علماء کے طبقہ کا کام ہے نا دینی کارکنوں کی ذمہ داری ہے بلکہ یہ تو ہماراملی مقصد ہے ، بطور پاکستانی کے۔پاکستان کی اساس اس پر ہے، پاکستان کے دستور کی اساس اس پر ہے۔ پاکستان کے استحکام اور بقاء کی اساس اسی پر ہے یہ ہمارا مشترکہ کام ہے لیکن ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے اکیلے اس محاذ پر جو مسلسل تگ و دو کی ہےجو محنت کی ہے میں بھی اس تحریک کا کارکن ہوں،اپنے اپنےدائرے میں ہم سب کارکن ہیں تو میری دلچسپی کا ایک پہلو تو یہ تھا کہ ہم ملی تحریک کے کارکن ہیں، کام کرنے والے ہیں اور مختلف اداروں میں کام کر رہے ہیں۔ ہم اکٹھے بھی ہوتے تھے اور الگ الگ بھی کام کرتے تھے ۔ڈاکٹر اسرا ر احمد ؒ سے میری نیاز مندی اور تعلق کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے آج کے دور میں خلافت کا نام زندہ کیا جو ہم بھول گئے ہیں۔ ہمارا اسلام کا political systemتوخلافت ہے۔ اگر ہم اپنے سیاسی نظام کوpolitical system کومستعار اصطلاحات کی بجائے اسے اپنی ہی اصطلاح میں بیان کریں تو وہ خلافت ہے اورخلافت کوئی شرمندگی کا عنوان نہیں فخر کا عنوان ہے۔ خلافت کےخلاف مختلف افرادوقتاً فوقتاًآواز اٹھاتے رہتے ہیں لیکن خلافت کا جو roleایک ہزار سال اور 1200سال تک رہا ہے وہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے اور وہ دور ہمارا شاندار ماضی ہے ۔ مجھے ڈاکٹر اسرار احمد ؒ سے اس حوالے سے بھی تعلق تھا اور اُنس تھا کہ وہ خلافت کا نام ، خلافت کی اصطلاح، خلافت کا نعرہ لگاتے رہتے تھے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں بیسیوں گروہ ہیں جو خلافت کے عنوان سے، خلافت کے پرچم تلے خلافت کے ٹائٹل کے ساتھ دینی تحریک کا کام کر رہے ہیں۔بہر حال میری مناسبت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے ہماری اصل اصطلاح کو اور ہمارے اصل ٹائٹل کو باقی رکھا تھا اور وقتاً فوقتاً متعارف کراتے رہتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب ؒ کے ساتھ مناسبت کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ وہ قرآن پاک کے ایک داعی تھے اور قرآنی تعلیمات کے فروغ میں ان کا ایک کردار تھا۔ سچی بات یہ ہے اگر ہم اپنی کمزوریوں ، کوتاہیوں، سستیوں اور لاپرواہیوں اور اپنے بہت سے پہلوئوں کو نظر انداز کرتے ہوئے عالمی تناظر میں قرآن پاک کی اہمیت اور قرآن پاک کے پیغام کو آج کے تناظر میں دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ دنیا کی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے۔گزشتہ ہفتے نیویارک میں ماحولیات پر ایک بین الاقوامی کانفرنس ہوئی ہے ایک چھوٹی سی خبر چھپی ہے آپ کی نظر سے گزری ہوگی ماحولیات پر،کہ دنیا میںماحولیاتی آ لودگی اور ماحولیاتی تباہی کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے اور دنیا کو بچانا ہے تو اس میں شہزادہ چارلس نے جو تقریر کی ہے اس نے یہ جملہ کہا ہے کہ دنیا کو اگر ماحولیات کے حوالے سے تباہی سے بچانا ہے تو قرآن پاک کے احکامات پر عمل کے بغیر کوئی راستہ نہیں ہے ۔ یہ بات نیو یارک میں کہی جا رہی ہے اور آج کے ماحول میں کہی جا رہی ہے اور چارلس کہہ رہا ہے میں اس کا صرف لیول بتانا چاہ رہا ہوں کہ قرآن پاک کا لیول کیا ہے، قرآن کے پیغام کی سطح کیا ہے،اس کا رُخ کیا ہے ۔
ہم اپنے اپنے دائروں میں محدود ہو کر قرآن پاک کی بات بہت محدود پیمانے پر کرتے ہیں۔ میں اپنے اس دردکے احساس کے ساتھ ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے قرآن پاک کے عمومی پیغام کو اور قرآن کی اس دعوت کو جو آج کی نسل انسانی کے لیے گلوبل ماحول میں ہے ۔ اپنے اپنے دائروں میں تو ہم قرآن پاک کی بات کرتے ہیں ، اپنے اپنے رخ میں سارے کرتے ہیں کوئی بھی ایسا نہیں جو نہیں کرتا لیکن آج کی گلوبل انسانی سوسائٹی کے ماحول میں قرآن پاک کی دعوت کا جو رخ ہے اس پر کام کرنے والے چند افراد میں سے ایک ڈاکٹر اسراراحمد ؒ تھے اور میری ان سے مناسبت کی بڑی وجہ یہی تھی۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی ایک اور بات مجھے بہت زیادہ پسند تھی، ڈاکٹرصاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ شیخ الہند محمو د الحسن نے مالٹا کی اسارت سے واپسی پر جو دونکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا کہ قرآن کی دعوت کو عام کرو اور مسلمانوں کے اختلافات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرو۔ ڈاکٹر صاحب ؒ کہا کرتے تھے کہ میں اس تحریک کا آدمی ہوں۔ اور میں شیخ الہند کے اس فکر کا آدمی ہوں۔ ڈاکٹرصاحبؒ فرماتے ہیں کہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کس گروپ کے آدمی ہیں؟ تو میں جواب میں کہتا ہوں کہ میں کسی گروپ کا نہیں ہوں ۔میں تو جو دین کا کام کرتا ہے اس کا ساتھی ہوں اور جھگڑنے والوں سے دو میل دور رہتا ہوں اورجہاں بھی، جو بھی دین کا کام نفاذ شریعت کے حوالے سے یا تحریک ختم نبوت کے حوالے سے یا دینی اقدار کی سربلندی کے لیے کر رہا ہے میں کوشش کرتا ہوں اس کے ساتھ تعاون کروں۔ ڈاکٹر صاحبؒ کہتے تھے کہ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی حجاب نہیں کہ میں بھی شیخ الہند کے گروپ سے ہوں ۔ فکری طور پر اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ تم فکری اور نظریاتی طور پر کس دائرے میں ہوتو میرا ذہن وہیں جاتا ہے کہ میں بھی خود کو تحریک شیخ الہند ؒکا ایک کارکن سمجھتا ہوں ۔
ڈاکٹر صاحب ؒ سے اپنی مناسبت اور نیازمندی کے مختلف پہلو میں نے ذکر کیے ۔ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے بڑی متحرک اور بھرپور زندگی گزاری ہے ، بیماری کے باوجود ، علالت کے باوجود بہت سے عوارض کے باوجود آخر وقت تک وہ اپنے مشن پر کاربند رہےاور میں ان کے جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یہ عرض کرتا ہوں کہ ہمارے لیے بھی راستہ یہی ہے کہ ہم بھی ان کی استقامت، اپنے موقف کے ساتھ commitment اور ان کے visionسے جو دنیا ئے اسلام اور پوری دنیا کے حوالے سے تھا، اپنے لیے مشعل راہ بنائیںاور کوشش کریں کہ یہ مشن جاری رہے اور اس مشن کے ساتھ ہمارا بھی کچھ نہ کچھ حصہ پڑتا رہے ۔