نفاذ اسلام کی راہ میں بڑی رکاوٹ
ڈاکٹر ضمیر اخترخان
پاکستان کلمہ طیبہ کے نعرے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا۔ قیام پاکستان کو 75 سال ہو گئے ہیں۔ اب تک یہاں کلمہ طیبہ والے نظام یعنی اسلام کا نفاذ نہیں ہو سکا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اور رکاوٹ لادینی (Secular) سیاسی جماعتیں ہیں۔ہمارے ملک کا دستوری نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں لادینی نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام انسانوں کے درمیان تفریق صرف نظریاتی بنیاد پر کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وہی(اللہ تعالیٰ) تو ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر کوئی تم میں کافر ہے اور کوئی مومن۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھتا ہے۔‘‘(التغابن:2) اس تقسیم کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو ’’حزب اللہ‘‘ کا مبارک نام دیا ہے اور دوسرے گروہ کو، چاہے وہ کافر ہوں یا منافق، ’’حزب الشیطان‘‘ قرار دیا ہے۔(المجادلۃ:19، 22)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہےاور زندگی کے تمام شعبوں پر اپنی عمل داری قائم کرنا اس کا حق ہے۔ اہل ایمان کے لیے اقتدار کا حصول کوئی دنیاداری کا کام نہیں ہے بلکہ اسلامی ریاست کا قیام ان کے لیے ویسا ہی ضروری ہے جیسا نماز پنج گانہ کی ادائیگی کے لیے مسجد کی تعمیر وآبادکاری۔ اسی مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں کو بھیجا۔ ارشاد الٰہی ہے:’’ہم نے اپنے رسولوں کو کھلی نشانیاں دے کر بھیجا۔ اور اُن پر کتابیں نازل کیں اور ترازو (یعنی قواعد عدل) تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔ اورہم نے لوہا پیدا کیا اس میں شدید جنگی صلاحیت ہےاور لوگوں کے لئے فائدے بھی ہیں اور تاکہ اللہ جان لے کہ کون مدد کرتا ہے اس کی اور اس کے رسولوں کی غیب میں ہونے کے باوجود۔ بےشک اللہ قوی (اور) غالب ہے۔ ‘‘ (الحدید:25) عدل وقسط کا یہ نظام قائم کرنے کے بعد اس کی ہرطرح سے حفاظت کی ذمہ داری اہل ایمان پر عائد ہوتی ہے اور وہ سب مل کر یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اس کے لیے دفاعی قوت کا حصول بھی فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:’’ اور جہاں تک ہوسکے (فوج کی جمعیت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلے کے) لیے مستعد رہو کہ اس سے اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور اللہ جانتا ہے، ہیبت بیٹھی رہے گی۔ اور تم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے، اس کا ثواب تم کو پورا پورا دیاجائے گا اور تمہارا ذرا نقصان نہیں کیا جائے گا۔‘‘ (الانفال:60) خارجی دشمنوں کے خلاف دفاعی حصار قائم کرنے کے ساتھ اندرونی دشمنوں سے نبٹنا بھی اسی حکم میں شامل ہے۔ اسلامی ریاست میں اہل حل وعقدعوام الناس کی صرف دنیوی فلاح و بہبود کا اہتمام ہی نہیں کرتے بلکہ وہ انہیں اُخروی زندگی میں کامیابی کے حصول کے لیے مددگار ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ جل و علیٰ کا فرمان ہے:’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں اقتداردیں تووہ نمازکانظام قائم کرتے ہیں اورزکوٰۃ کا نظام جاری کرتے ہیں اور نیک کام کرنے کا حکم دیتے ہیں اور برے کاموں سے روکتے ہیں اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘ (الحج:41) برصغیر کے مسلمانوں نے علیحدہ ملک حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کرنے سے پہلے جو مقصد اپنے سامنے رکھا تھا اس کی وضاحت تحریک کے دو بڑے رہنماؤں، علامہ محمد اقبال اور محمد علی جناح (قائداعظم)، نے بڑے واشگاف انداز میں اس طرح کی تھی۔ مثلاً علامہ اقبال نے علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کامطالبہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:’’اسلام کے لیے یہ ایک موقع ہوگا کہ عرب ملوکیت کے تحت اس پر جو پردے پڑ گئے تھے، ان سے چھٹکارا حاصل کر سکے اور اپنے قوانین‘ تعلیمات اور ثقافت کو اپنی اصل روح کے ساتھ روحِ عصر سے ہم آہنگ کر سکے‘‘۔اسی طرح قائد نے بھی دو ٹوک انداز میں فرمایا تھا: ’’ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں یا جب ہم کہتے ہیں کہ یہ جھنڈا اسلام کا جھنڈا ہے تو وہ(ہندو) خیال کرتے ہیں کہ ہم مذہب کو سیاست میں گھسیٹ رہے ہیں‘ حالانکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر ہم فخر کرتے ہیں۔اسلام ہمیں مکمل ضابطۂ حیات دیتا ہے۔ یہ نہ صرف ایک مذہب ہے بلکہ اس میں قوانین‘ فلسفہ اور سیاست سب کچھ ہے۔ درحقیقت اس میں وہ سب کچھ موجود ہے جس کی ایک آدمی کو صبح سے رات تک ضرورت ہوتی ہے۔ جب ہم اسلام کا نام لیتے ہیں تو ہم اسے ایک کامل لفظ کی حیثیت سے لیتے ہیں۔ہمارا کوئی غلط مقصد نہیں ‘بلکہ ہمارے اسلامی ضابطہ کی بنیاد آزادی ‘ عدل و مساوات اور اخوت ہے۔‘‘
علامہ اقبال تو قیام پاکستان سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ قائد نے جدوجہد جاری رکھی اور پاکستان اللہ کے فضل وکرم سے قائم ہو گیا۔ بظاہر ناممکن کام ہو گیا۔ خود قائد اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’تم جانتے ہو کہ جب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے‘ تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے! یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا اسے کبھی نہیں کر سکتا تھا‘ میرا ایمان ہے کہ یہ رسول خدا ؐ کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا۔ اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے۔‘‘
(بحوالہ پروفیسر ڈاکٹر ریاض علی شاہ صاحب)
یہ طویل تمہید اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے باندھی گئی ہے تاکہ یہ سمجھ میں آجائے کہ اسلام کے سیاسی نظام میں پارٹی بازی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آج جس سیاست کا دوردورہ ہے اس میں اس موقف کو دیوانگی قرار دیا جائے گا۔ یہ حکم لگانے سے پہلے ہماری معروضات پر تھوڑی سی توجہ دینا قارئین پر فرض ہے۔ دیکھیے! اگر تو آپ اسلام کودنیا کے دیگر مذاہب کی طرح کامحض ایک مذہب سمجھتے ہیں تو پھر آپ کو ہماری رائے کو مسترد کرنے کا پورا حق ہے۔ لیکن اگر آپ ہمارے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات سمجھتے ہیں، جس کی بنیاد ایمان پر ہے ، جس کا اپنا منفرد نظام عبادات ہے، جس کی غمی و خوشی کے مواقع پر اپنی رسومات ہیں اور جس کا اپنا پورا سماجی، معاشی اور سیاسی نظام (Socio-politico-economic system) ہے تو پھر خدارا غور فرمائیں کہ ایسے نظام حیات کو عملی طورپر زندگی کے ہر شعبے میں اور بالخصوص معاشرتی، معاشی اور سیاسی شعبوں میں اختیار کرنے کے لیے لادینی سیاست کی علمبردار، لادین سیاسی جماعتوں (Secular political parties)کی گنجائش کیسے ہو سکتی ہے۔ یہ حقیقت نہ سمجھنے کی وجہ سے ہماری دینی ومذہبی سیاسی جماعتیں 75 سال سے اسلامی نظام کے لیے جدوجہد کرنے کے باوجود تقسیم ہند سے پہلی والی پوزیشن پرکھڑی ہیں۔ مزید ستم یہ ہے کہ یہ جماعتیں اسلام کے نفاذ کے لیے سیکولر سیاسی جماعتوں سے اتحاد بھی کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر موجودہ صورت حال کا مشاہدہ کیجیے۔
جمعیت علمائے اسلام پی ڈی ایم کی اتحادی ہے اور کچھ وزارتیں بھی اس کو ملی ہوئی ہیں، پی ڈی ایم حکومت ٹرانس جینڈر قانون کو تحفظ دے رہی ہے اور جمعیت کچھ نہیں کر سکتی۔ وفاقی شرعی عدالت نے بھی جمعیت سے یہی سوال کیا ہے کہ جب یہ قانون پاس کیا گیا تھا تو اس وقت آپ کہاں تھے؟ یہ کہہ کر ان کی اپیل خارج کردی۔ لادینی سیاسی جماعتوں کی ویسے بھی پاکستانی سیاست میں قیام پاکستان کے شروع سے جو حیثیت ہے وہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جیسے ہی قائد اعظم اور لیاقت علی خان جیسی قومی وملی سوچ کی حامل شخصیات منظر عام سے ہٹیں تو پاکستانی سیاست صرف وڈیروں، جاگیرداروں، نوابوں اورقبائلی سرداروں کے ذاتی مفادات کا کھیل بن کر رہ گئی اور اس سے میدان سیاست میں جو دھما چوکڑی مچی اسے جواز بنا کر 1958ء میں بری فوج کے کمانڈر انچیف نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی۔وہ دن اور آج کا دن ، پاکستان میں اقتدار کے دومستقل ستونوں کی حیثیت فوج اور سول بیوروکریسی کو حاصل ہے۔
قیام پاکستان کے وقت جو فوج اور بیور وکریسی پاکستان کے حصے میں آئی تھی اس کی پرورش وتربیت سیکولر اور لبرل افکار پر ہی ہوئی تھی۔اس لیے یہی دو ستون لادینی سیاسی جماعتوں کو باری باری اقتدار کے مزے چکھاتے رہتے ہیں۔ ان میں فوج کو Upper handحاصل ہے۔ اور اپنی اس حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ جب چاہے خود بھی اقتدار پر قبضہ کرلیتی ہے۔ اسی حیثیت میں فوج میں جنرل ضیاء الحق صاحب جیسا صوم و صلوٰۃ کاپابند جب اقتدار پر قابض ہوا تو اس نے ملک میں اور فوج کے اندر اسلامی اقدار کو رواج دینے کی کوشش کی۔ ورنہ پہلے فوج میں اس طرح کا معاملہ نہیں تھا بلکہ کوئی مذہبی پس منظر رکھنے والا شخص فوج میں آفیسرز کیڈر میں آتا تو وہ اپنی مذہبی شناخت کو چھپانے کی کوشش کرتا تھا۔
جنرل مشرف صاحب نے آکر اسی لادینی سوچ کو فروغ دیا جس کے تحت ان کی تربیت ہوئی تھی۔ ہماری قوم کا حافظہ بہت کمزورہے اس لیے یاد دلاتے ہیں کہ مشرف صاحب نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد پہلی پریس کانفرنس کے دوران اپنے پالتو کتے بھی عوام کو دکھائے تھے۔ ان حالات میں اقتدار بالعموم لادینی سیاسی جماعتوں کو سونپ کر طاقت کے یہ سرچشمے دراصل اپنے ایجنڈے کی ہی تکمیل کر رہے ہوتے ہیں۔ اس تجزیے کے مطابق پاکستانی سیاست میں قومی سیاسی جماعتوں کاکردار محض ایک سراب ہے۔ اسی لادینی سوچ سے ہی علاقائی اور لسانی جماعتیں وجود میں آئیں۔ جہاں تک مذہبی سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے ان کا کوئی مثبت اورمستقل کردارپاکستانی سیاست میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ اسی کامظہر ہے کہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کے دوران صرف ایک جماعت،جمعیت علمائے اسلام ، کو پہلے نہایت مختصرمدت کے لیے مفتی محمودرحمہ اللہ کی قیادت میں پاکستان کے سب سے چھوٹے صوبے کا اقتدارحاصل ہوامگر وہ بھی ان لوگوں کے سہارے جو علمائے دین کے لیے اعلانیہ طور پر نہایت رکیک اور توہین آمیز الفاظ استعمال کرتے رہتے ہیں۔بعد میں 90 کی دہائی میں پھر اسی جماعت کو مولانافضل الرحمن صاحب کی سرپرستی میں جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کا موقع ملا مگرسیکولرماحول میں اسلام کے نفاذ کی طرف پیش رفت کچھ بھی نہ ہو سکی۔
اسی طرح جماعت اسلامی کوپاکستان کے سب سے بڑے شہر (کراچی)میں قابل لحاظ عرصے کے لیے اقتدار حاصل رہا لیکن صرف بلدیات تک۔ البتہ اسلام پسند سیاسی جماعتوں کا لادینی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں پاکستان کی سیاست میں ایک نہایت نمایاں اورمؤثر بلکہ فیصلہ کن کردار رہا ہے۔ اس کردار کی مثالیں پیش کرنے سے پہلے جس موقف کو اس مضمون میں واضح کرنےکی کوشش کی جا رہی ہے ، اس کا اعادہ ضروری ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ پاکستان میں نفاذاسلام کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ سیکولر اور لبرل سیاسی جماعتیں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہی دراصل طاقت کے سرچشموں کے
لیے ان کے لادینی عزائم کی تکمیل کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اگر سیکولر مذہبی جماعتیں لادینی جماعتوںکاسہاراڈھونڈنے کی بجائے،اپنا وہ کرداراپنائیں جس کی مثالیں ہمیں پاکستانی سیاست میں ملتی ہیں تو پھر نفاذ اسلام کی طرف پیش قدمی ہو سکتی ہے۔وہ راستہ جس کو دینی جماعتوں کو اختیار کرنا چاہیے وہ ایک ایسی زوردار تحریک ہے جس کا اول وآخر مقصد دین اسلام کا غلبہ و نفاذ ہو۔ پاکستانی سیاست میں مذہبی جماعتوں کےفیصلہ کن کردار کے حوالے سے پہلا موقع اس وقت آیا جب فیلڈمارشل ایوب خان کے خلاف تحریک چلی اور ایوب خان کو اقتدار سے بے دخل کردیا گیا۔ اس میں مؤثر کردارمذہبی جماعتوں کا تھا۔بعدازاں بھٹو صاحب کے اقتدار کے خاتمے کا سہرا بھی اصلاً مذہبی جماعتوں ہی کے سر پر تھا۔اسی طرح بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے اور پھر الیکشن میں شکست کا کریڈٹ بھی سب سے بڑھ کر مذہبی جماعتوں کو ہی جاتا ہے۔ مذہبی جماعتوں کی یہ ساری تحریکیں محدود وقتی تقاضوں کے تحت تھیں اس لیے ان کا کوئی فائدہ دین اسلام کو نہ پہنچ سکا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر طرح کی لادینیت کو پاکستان سے ختم کرنے کے لیے دینی سیاسی جماعتوں کو سیکولر سیاسی جماعتوں سے قطع تعلق کر کے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر نبوی منہاج کے مطابق نفاذ اسلام کی جدوجہد شروع کرنی چاہیے۔ اسی سے لادینی سیاست کا خاتمہ ہو گا اور یہ ملک منزل مراد کو پہنچے گا ۔ ان شاء اللہ
اور سیاسی نظام (Socio-politico-economic system) ہے تو پھر خدارا غور فرمائیں کہ ایسے نظام حیات کو عملی طورپر زندگی کے ہر شعبے میں اور بالخصوص معاشرتی، معاشی اور سیاسی شعبوں میں اختیار کرنے کے لیے لادینی سیاست کی علمبردار، لادین سیاسی جماعتوں (Secular political parties)کی گنجائش کیسے ہو سکتی ہے۔ یہ حقیقت نہ سمجھنے کی وجہ سے ہماری دینی ومذہبی سیاسی جماعتیں 75 سال سے اسلامی نظام کے لیے جدوجہد کرنے کے باوجود تقسیم ہند سے پہلی والی پوزیشن پرکھڑی ہیں۔ مزید ستم یہ ہے کہ یہ جماعتیں اسلام کے نفاذ کے لیے سیکولر سیاسی جماعتوں سے اتحاد بھی کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر موجودہ صورت حال کا مشاہدہ کیجیے۔
جمعیت علمائے اسلام پی ڈی ایم کی اتحادی ہے اور کچھ وزارتیں بھی اس کو ملی ہوئی ہیں، پی ڈی ایم حکومت ٹرانس جینڈر قانون کو تحفظ دے رہی ہے اور جمعیت کچھ نہیں کر سکتی۔ وفاقی شرعی عدالت نے بھی جمعیت سے یہی سوال کیا ہے کہ جب یہ قانون پاس کیا گیا تھا تو اس وقت آپ کہاں تھے؟ یہ کہہ کر ان کی اپیل خارج کردی۔ لادینی سیاسی جماعتوں کی ویسے بھی پاکستانی سیاست میں قیام پاکستان کے شروع سے جو حیثیت ہے وہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جیسے ہی قائد اعظم اور لیاقت علی خان جیسی قومی وملی سوچ کی حامل شخصیات منظر عام سے ہٹیں تو پاکستانی سیاست صرف وڈیروں، جاگیرداروں، نوابوں اورقبائلی سرداروں کے ذاتی مفادات کا کھیل بن کر رہ گئی اور اس سے میدان سیاست میں جو دھما چوکڑی مچی اسے جواز بنا کر 1958ء میں بری فوج کے کمانڈر انچیف نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی۔وہ دن اور آج کا دن ، پاکستان میں اقتدار کے دومستقل ستونوں کی حیثیت فوج اور سول بیوروکریسی کو حاصل ہے۔
قیام پاکستان کے وقت جو فوج اور بیور وکریسی پاکستان کے حصے میں آئی تھی اس کی پرورش وتربیت سیکولر اور لبرل افکار پر ہی ہوئی تھی۔اس لیے یہی دو ستون لادینی سیاسی جماعتوں کو باری باری اقتدار کے مزے چکھاتے رہتے ہیں۔ ان میں فوج کو Upper handحاصل ہے۔ اور اپنی اس حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ جب چاہے خود بھی اقتدار پر قبضہ کرلیتی ہے۔ اسی حیثیت میں فوج میں جنرل ضیاء الحق صاحب جیسا صوم و صلوٰۃ کاپابند جب اقتدار پر قابض ہوا تو اس نے ملک میں اور فوج کے اندر اسلامی اقدار کو رواج دینے کی کوشش کی۔ ورنہ پہلے فوج میں اس طرح کا معاملہ نہیں تھا بلکہ کوئی مذہبی پس منظر رکھنے والا شخص فوج میں آفیسرز کیڈر میں آتا تو وہ اپنی مذہبی شناخت کو چھپانے کی کوشش کرتا تھا۔
جنرل مشرف صاحب نے آکر اسی لادینی سوچ کو فروغ دیا جس کے تحت ان کی تربیت ہوئی تھی۔ ہماری قوم کا حافظہ بہت کمزورہے اس لیے یاد دلاتے ہیں کہ مشرف صاحب نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد پہلی پریس کانفرنس کے دوران اپنے پالتو کتے بھی عوام کو دکھائے تھے۔ ان حالات میں اقتدار بالعموم لادینی سیاسی جماعتوں کو سونپ کر طاقت کے یہ سرچشمے دراصل اپنے ایجنڈے کی ہی تکمیل کر رہے ہوتے ہیں۔ اس تجزیے کے مطابق پاکستانی سیاست میں قومی سیاسی جماعتوں کاکردار محض ایک سراب ہے۔ اسی لادینی سوچ سے ہی علاقائی اور لسانی جماعتیں وجود میں آئیں۔ جہاں تک مذہبی سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے ان کا کوئی مثبت اورمستقل کردارپاکستانی سیاست میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ اسی کامظہر ہے کہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کے دوران صرف ایک جماعت،جمعیت علمائے اسلام ، کو پہلے نہایت مختصرمدت کے لیے مفتی محمودرحمہ اللہ کی قیادت میں پاکستان کے سب سے چھوٹے صوبے کا اقتدارحاصل ہوامگر وہ بھی ان لوگوں کے سہارے جو علمائے دین کے لیے اعلانیہ طور پر نہایت رکیک اور توہین آمیز الفاظ استعمال کرتے رہتے ہیں۔بعد میں 90 کی دہائی میں پھر اسی جماعت کو مولانافضل الرحمن صاحب کی سرپرستی میں جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کا موقع ملا مگرسیکولرماحول میں اسلام کے نفاذ کی طرف پیش رفت کچھ بھی نہ ہو سکی۔
اسی طرح جماعت اسلامی کوپاکستان کے سب سے بڑے شہر (کراچی)میں قابل لحاظ عرصے کے لیے اقتدار حاصل رہا لیکن صرف بلدیات تک۔ البتہ اسلام پسند سیاسی جماعتوں کا لادینی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں پاکستان کی سیاست میں ایک نہایت نمایاں اورمؤثر بلکہ فیصلہ کن کردار رہا ہے۔ اس کردار کی مثالیں پیش کرنے سے پہلے جس موقف کو اس مضمون میں واضح کرنےکی کوشش کی جا رہی ہے ، اس کا اعادہ ضروری ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ پاکستان میں نفاذاسلام کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ سیکولر اور لبرل سیاسی جماعتیں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہی دراصل طاقت کے سرچشموں کے
لیے ان کے لادینی عزائم کی تکمیل کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اگر سیکولر مذہبی جماعتیں لادینی جماعتوںکاسہاراڈھونڈنے کی بجائے،اپنا وہ کرداراپنائیں جس کی مثالیں ہمیں پاکستانی سیاست میں ملتی ہیں تو پھر نفاذ اسلام کی طرف پیش قدمی ہو سکتی ہے۔وہ راستہ جس کو دینی جماعتوں کو اختیار کرنا چاہیے وہ ایک ایسی زوردار تحریک ہے جس کا اول وآخر مقصد دین اسلام کا غلبہ و نفاذ ہو۔ پاکستانی سیاست میں مذہبی جماعتوں کےفیصلہ کن کردار کے حوالے سے پہلا موقع اس وقت آیا جب فیلڈمارشل ایوب خان کے خلاف تحریک چلی اور ایوب خان کو اقتدار سے بے دخل کردیا گیا۔ اس میں مؤثر کردارمذہبی جماعتوں کا تھا۔بعدازاں بھٹو صاحب کے اقتدار کے خاتمے کا سہرا بھی اصلاً مذہبی جماعتوں ہی کے سر پر تھا۔اسی طرح بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے اور پھر الیکشن میں شکست کا کریڈٹ بھی سب سے بڑھ کر مذہبی جماعتوں کو ہی جاتا ہے۔ مذہبی جماعتوں کی یہ ساری تحریکیں محدود وقتی تقاضوں کے تحت تھیں اس لیے ان کا کوئی فائدہ دین اسلام کو نہ پہنچ سکا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر طرح کی لادینیت کو پاکستان سے ختم کرنے کے لیے دینی سیاسی جماعتوں کو سیکولر سیاسی جماعتوں سے قطع تعلق کر کے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر نبوی منہاج کے مطابق نفاذ اسلام کی جدوجہد شروع کرنی چاہیے۔ اسی سے لادینی سیاست کا خاتمہ ہو گا اور یہ ملک منزل مراد کو پہنچے گا ۔ ان شاء اللہ
tanzeemdigitallibrary.com © 2024