8مارچ یوم خواتین
جاوید احمد خان
پوری دنیا میں ہر سال 8مارچ کو یوم خواتین منایا جاتا ہے۔ مختلف ممالک میں اس حوالے سے مختلف نوعیت کے پروگرام ہوتے ہیں جن میں مباحثے، مذاکرے اور سیمینار کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں کچھ مغرب زدہ خواتین اس سلسلے میں اسلام آباد میں جو مظاہرہ کرتی ہیں وہ ایسے قابل اعتراض نعروں پر مشتمل پلے کارڈز اور بینرز اٹھائے ہوئے ہوتی ہیں جن سے عام مسلمانوں کے دینی جذبات کو ٹھیس لگتی ہے ایک طرح سے یہ ایک متنازع مسئلہ بن جاتا ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا جانے والا ملک ہے اس لیے یہاں جمہوریت اور آزادی اظہار کے عنوان سے کسی بھی این جی او کو عام مسلمانوں کے دینی جذبات سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اب پچھلے کچھ سال سے پاکستان کی باپردہ اور با حیا خواتین اور بالخصوص جماعت اسلامی شعبہ خواتین اس دن کو حیا ڈے کے طور پر مناتا ہے، ملک کی باپردہ خواتین اس دن حیا مارچ کے عنوان سے اپنی ریلی بھی نکالتی ہیں۔ در حقیقت حیا وقار کی علامت ہے۔ بے حیا قوم بالآخر بے وقعت اور پستی کا شکار ہو جاتی ہے۔ عوام کی ذمے داری ہے کہ ذاتی حیثیت اور اپنے دائرہ اختیار میں دین اسلام کی عطا کردہ تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر شرم و حیا کی حفاظت کریں۔ دوسری طرف حکومت کا فرض ہے کہ آئین کے آرٹیکل 31کے مطابق پاکستان کے مسلمانوں کو ایسی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت رسول کے مطابق زندگی گزار سکیں تاکہ ایک صالح معاشرہ قائم ہو اورحیا اور ایمان کی حفاظت ہو سکے۔
اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے کچھ تجاویز حکومت وقت کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں، ضروری نہیں ہے کہ یہ حتمی باتیں ہوں، ان سے بہتر نکات اور تجاویز بھی ہو سکتی ہیں۔ زنا معاشرے کا سب سے قبیح گھنائونا فعل ہے، اسلام نے اس کی جو سزائیں رکھی ہیں وہ بہت سخت ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں اس پر عمل نہیں ہو پاتا۔ یہی وجہ ہے معاشرے کے جو گندے لوگ اس جرم میں پکڑے جاتے ہیں وہ تھوڑے دن کے بعد آزاد ہو جاتے ہیں۔ اسلام کے نزدیک زنا ایک ایسا فعل ہے جس تک پہنچنے کے لیے ایک آدمی مختلف راستوں سے گزر کر جاتا ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ آنکھ کا بھی زنا ہوتا ہے کہ عورت اور مرد ایک دوسرے کو گھور کر ٹکٹکی لگا کر نہ دیکھیں۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ اچانک کسی نا محرم پر نظر پڑجائے تو فوراً ہٹالے یہ پہلی نظر معاف ہے لیکن اس کے بعد گناہ ہے۔ یہ پابندی قرآن میں عورتوں مردوں دونوں کے لیے ہے۔ اسی طرح ناک کا زنا ہے کہ خواتین تیز خوشبو نہ لگائیں۔ خواتین کو تیز خوشبو لگانے سے منع کیا گیا ہے وہ ہلکی خوشبو لگاسکتی ہیں۔ پھر کہا گیا ہے کہ کان کا زنا بھی ہوتا ہے۔ اسی لیے منع کے گیا ہے خواتین زمین پر پیر مارتی ہوئی نہ چلیں کہ ان کے زیورات کی کھنک اور قدموں کی آہٹ دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرے۔ زبان کا بھی زنا ہوتا ہے کہ ایسی لوچ اور بے ہودہ گفتگو آپس میں نہ کی جائے جو جنسی شہوت کو اجاگر کرنے کا سبب بنے۔ ان سب مراحل سے گزر کر ایک آدمی پھر اصل گناہ کی طرف راغب ہوجاتا ہے۔ اسلام اصل گناہ یعنی زنا تک پہنچنے کے ان راستوں پر ہی رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔
اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے ستر و حجاب کے اسلامی احکامات کی پابندی کرتے ہوئے باوقار لباس کا اہتمام کیا جائے۔ قرآن میں لباس کے تین مقاصد بتائے گئے ہیں: پہلا مقصد ستر پوشی، دوسرا مقصد موسم سے حفاظت اور تیسرا مقصد جسم کی زینت۔ ستر پوشی کی جسمانی حدود مردوں اور خواتین کی الگ الگ ہیں جو سب لوگ اچھی طرح جانتے ہیں ہمیں افسوس ہے کہ ہماری شادی بیاہ کے پروگراموں میں مخلوط محفل (Mix Gathering) اب عام ہوگئی ہے۔ اب سے پچیس تیس سال قبل ایسی مخلوط محفلیں خال خال ہوتی تھیں۔ ان میں بھی بہت سے لوگ احتجاجاً محفل چھوڑ کر چلے جاتے تھے۔ اب اس کے بالکل الٹ ہو گیا ہے۔ اب ایسی محفلیں بہت کم ہوگئی ہیں جہاں مرد و خواتین کا علیحدہ انتظام ہو اب تو دل سے برا جاننے والا معاملہ بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ شادی بیاہ کی محفلوں میں رنگ برنگے بھڑکیلے لباس تو ہماری خواتین پہنتی ہی ہیں۔ اس میں جو چیز قابل اعتراض یا قابل گرفت ہے وہ تنگ لباسی ہے جس سے جسم کے خطوط نمایاں ہوتے ہوں۔ پھر یہ تنگ لباسی آگے بڑھ کر کم لباسی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ دوپٹہ ایک پٹی کی شکل میں کھلے ہوئے گلے، بغیر آستین کی جمپر یا فراک، بلکہ اب تو الٹرا ماڈرن تقریبات میں کم لباسی اور تنگ لباسی دھیرے دھیرے بے لباسی میں تبدیل ہو رہی ہے۔ ہماری عام محفلوں میں ہم دیکھتے ہیں کتنی کڑاکے کی سردی پڑرہی ہو بہت کم خواتین سوئیٹر کا استعمال کرتی ہیں کہ مہنگے سوٹ کی زینت چھپ جائے گی حالانکہ لباس کا ایک مقصد موسم سے بچائو بھی ہے۔
ہمیں معاشرے میں ایسا دبائو پیدا کرنا چاہیے اور حکومت بھی ایسی قانون سازی کرے کہ مخلوط محفلوں کے انعقاد پر پابندی لگائی جائے۔ اسی طرح تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم ختم کرکے طلبہ و طالبات کی الگ الگ تعلیم کا اہتمام کیا جائے۔ عورت جس کا اہم کردار ماں کا ہے، اسے باوقار حیثیت دی جائے۔ اسے اپنے کاروبار کے فروغ کے لیے اشتہاری شے نہ بنایا جائے۔ مملکت خداداد پاکستان میں LGBTQ+ اور ٹرانس جینڈر جیسی خرافات کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حکومت اس بے ہودہ ایجنڈے کی بیخ کنی کے لیے عملی اقدامات کرے۔ مین اسٹریم اور سوشل میڈیا فحاشی کی تشہیر میں سر فہرست ہے۔ لیکن جب اس کے نتیجے میں کوئی بدکار انسان کسی بچی کے ساتھ درندگی کا مظاہرہ کرتا ہے تو یہی میڈیا چیخ و پکار کرتا ہے۔ لہٰذا بدکار انسان کو فوری اور سخت سزا دینے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں جنسی ہیجان پیدا کرنے والے میڈیا کی اصلاح انتہائی ضروری ہے۔ بھارت میں چلتی کاروں، گاڑیوں اور بسوں میں زنا کی خبریں تواتر کے ساتھ آتی رہتی ہیں، ہمیں یاد ہے وہاں کی ایک معروف اداکارہ کا یہ بیان آیا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ میں اب آئندہ سے بولڈ لباس یا دوسرے لفظوں میں عریاں لباس کے ساتھ ڈانس نہیں کروں گی۔
اسی طرح جنسی اشتہا پیدا کرنے والے اشتہارات پر پابندی عائد کی جائے کیونکہ یہ جسمانی اور روحانی حادثوں کا سبب بنتے ہیں۔ نکاح کو آسا ن بنایا جائے تاکہ نوجوانوں میں بے راہ روی پیدا نہ ہو۔ ایک اہم بات یہ کہ جسم عورت کا ہو یا مرد کا اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ اس پر مرضی بندے کی نہیں رب کی چلنی چاہیے اور آخری مطالبہ یہ ہے کہ قرآن و سنت سے متصادم عائلی قوانین کو فی الفور منسوخ کیا جائے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025