(ماہِ صیام) رمضان اوراس کے تقاضے - سرفراز عالم

9 /

رمضان اوراس کے تقاضے

سرفراز عالم

رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں اللہ کے نیک و صالح بندے بارگاہ الٰہی میں توبہ و استغفار کرنے کے ساتھ ساتھ یہ عزم صادق کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس ماہ مبارک کی عظمتوں اور سعادتوں سے ایک مرتبہ پھر نوازا ہے ،تو ہم کیوں نہ اس مہینہ کو غنیمت سمجھیں، اس کی برکتوں اور رحمتوں سے کیوں نہ فائدہ اٹھائیں۔ اسی طرح وہ اپنے اوقات کو اللہ کی عبادت و بندگی کرنے میں اعمال صالحہ بجالانے میں اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹنے میں مصروف رہتے ہیں۔جس سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے ،اور وہ جنت کا مستحق قرار پاتا ہے۔{ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَط} اس آیت کریمہ کا مصداق ہوجاتا ہے، رمضان المبارک میں اللہ کے نیک بندے اپنے اوقات کو کبھی بھی کوتاہی و لاپرواہی اور غفلت میں نہیں گزارتے بلکہ وہ ہمہ تن گوش ہوکر رمضان المبارک کے اعمال کی انجام دہی میںدن رات لگے رہتے ہیں، قرآن مجید کی تلاوت، نماز تراویح کا اہتمام اور قیام اللیل کا اہتمام بڑے شوق اور ذوق کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ فضول کاموں سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں۔ رمضان کی راتوں میں اٹھ اٹھ کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتےہیں۔ایسے لوگوں کے بارے میں رب العالمین نے ارشاد فرما یا کہ:’’ جو لوگ کھڑے ہوئے بیٹھے ہوئے اور کروٹ کے بل لیٹے ہوئے اللہ کا ذکر و اذکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے پرودگار تو نے یہ آسمان وزمین میں جو کچھ ہے بےکار نہیں پیدا کیا تو پاک ہے سو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا ۔‘‘( آل عمران:191)
رمضان کے چند تقاضے اور آداب 1:تلاوت قرآن:
اس مہینہ میں ایک ایک حرف پڑھنے کے ثواب میں700گنا تک اضافہ ہوتا ہے۔ اس ماہ مبارک میں اللہ کے رسول ﷺبکثرت تلاوت قرآن کا اہتمام کرتے تھے۔ رمضان المبارک میں آپؐ حضرت جبریل ؑ کو قرآن مجید پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس h بیان فرماتے ہیں : ’’ نبیﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ خیر کے کام کرتے تھے اور آپ سب سے زیادہ خیر کے کام رمضان المبارک میں کرتے جبکہ جبریل ؑ آپ سے ملاقات کرتے اور حضرت جبریل ؑ آپ سے رمضان المبارک کی ہر رات کو ملتے اور دوران ملاقات نبی کریم ﷺانہیں قرآن مجید سناتے ۔‘‘(صحیح البخاری)
2 :قیام اللیل و احتساب نفس :
اللہ کے رسول ﷺ راتوں کو لمبے قیام کرتے اور لوگوں کو بھی قیام کرنے کا حکم فرماتے:((من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفر له ماتقدم))’’جو شخص رمضان المبارک کے روزے رکھے ایمان و یقین کے ساتھ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔‘‘
3: دعا و ذکر اور استغفار:
اللہ کے رسولﷺ رمضان میں ذکر و دعا اور استغفار میں لگ جاتے تھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسی چیز کا انہیں حکم صادر فرما یا ہے:{وَسَارِعُوْآ اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّ‘بِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ لا اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ(183)} ( آل عمران)
’’ اور اپنے رب کی بخشش کی طرف دوڑو اور بہشت کی طرف جس کا عرض (وسعت) آسمان اور زمین ہے جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘
حدیث کے اندر ذکر آتا ہے نبی کریمﷺ آمد رمضان پر خوب دعائوں کا اہتمام کرتے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ روزے دار کی دعا اس مہینہ میں سب سے زیادہ قبول کی جاتی ہیں۔ارشاد فرما یا :’’ تین دعائیں رد نہیں کی جاتی اپنی اولاد کے لیے والد کی دعا روزہ دار کی دعا اور مسافر کی دعا۔(صحیح الجامع الصغیرللالبانی)
4: تقویٰ اختیار کرنا:
رمضان المبارک میں لوگوں کو چاہیے کہ وہ اللہ سے زیادہ خوف کھائے، اس ماہ میں زیادہ تر برکتیں اور رحمتیں حاصل کرنے کی کوشش کریںاور اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ اور اصحاب رسول رمضان میں تقویٰ و طہارت اختیار کرتے تھے ،اور یہ صرف رمضان المبارک کے عظیم مہینہ ہی میں ایسا نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ ایسا کرتے لیکن جب رمضان کی آمد ہوتی تو عمل میں زیادہ منہمک ہوجاتے تھے۔اللہ تعالیٰ نےقرآن مجید میں ارشاد فرما یا :{کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَـبْلِکُمْ لَـعَلَّـکُمْ تَتَّقُوْنَ (183)}(البقر)
’’ تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے ،تاکہ تم پرہیز گار بن جائو۔‘‘
اس آیت میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے۔ ’’شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہم بستری سے بچا جائے ۔
رمضان المبارک گویا ہر طرح پیام مسرت و اقبال مندی کا مہینہ ہے ۔ یہ ماہِ مبارک لوگوں میں دینی ذوق و شوق کو بڑھاوا دیتا ہے۔ اس مہینہ کے آتے ہی رحمتوں و برکتوں کا سایہ فگن ہوتا ہے ۔
لہٰذا ہمیں اس مہینہ میں دن رات زیادہ سے زیادہ عبادت اور نیک کام کرنے چاہیے اور عبادات کے تمام اقسام میں اپنے مالک حقیقی کو تلاشنا چاہیے۔ اس کی برکات و فیوض سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔اور احتساب نفس پر زور دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین !