(الہدیٰ) اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غور وفکر کرنا - ادارہ

8 /

الہدیٰ

اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غور وفکر کرنا

آیت 84{حتّٰیٓ اِذَا جَآئُ وْ قَالَ اَکَذَّبْتُمْ بِاٰیٰتِیْ وَلَمْ تُحِیْطُوْا بِہَا عِلْمًا اَمَّا ذَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(84)} ’’یہاں تک کہ جب وہ سب آ جائیں گے تو اللہ فرمائے گا: کیا تم نے میری آیات کو جھٹلادیا تھا حالانکہ تم نے ان کا علمی احاطہ نہیں کیا تھا ؟ یا تم لوگ کیا کرتے رہے تھے؟‘‘
یعنی کیا تم لوگ واقعتاً میری آیات کو سمجھ نہیں سکے تھے یا پھر سمجھنے کے بعد تعصّب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کا انکار کرتے رہے تھے؟
آیت 85{وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْہِمْ بِمَا ظَلَمُوْا فَہُمْ لَا یَنْطِقُوْنَ(85)} ’’اور واقع ہو جائے گی ان پر بات‘ اس لیے کہ وہ ظلم کے مرتکب ہوئے تھے‘ چنانچہ وہ بول نہیں سکیں گے۔‘‘
جب حقیقت ان پر واضح کر دی جائے گی تو وہ بول نہیں سکیں گے‘ اس لیے کہ ان کے دل تو دعوتِ حق کی حقّانیت پر گواہی دے چکے تھے‘ لیکن اپنی ضد‘ ہٹ دھرمی اور تعصّب کی بنا پر انہوں نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا تھا۔ قبل ازیں اسی سورت کی آیت ۱۴ میں ایسے منکرین کے انکار کی کیفیت پریوں تبصرہ کیا گیا ہے: {وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّاط} کہ ان کے دلوں نے آیاتِ الٰہیہ کا یقین کر لیا تھا مگر وہ محض ضد‘ ظلم اور سرکشی کی بنا پر نہیں مانے تھے۔
آیت 86{اَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا الَّیْلَ لِیَسْکُنُوْا فِیْہِ وَالنَّہَارَ مُبْصِرًاط} ’’کیا وہ دیکھتے نہیں کہ ہم نے بنایا ہے رات کو تا کہ وہ اس میں آرام کریں اور دن کو روشن بنایا ہے!‘‘
اللہ تعالیٰ نے انسانی ضروریات کے تحت رات کو سکون کے لیے جبکہ دن کو معاشی جدّوجُہدکے لیے سازگار بنایا ہے۔
{اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(86)} ’’یقیناً اس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں۔‘‘

درس حدیث

موت اور مال کی کمی

عَنْ مَحْمُوْدِ بْنِ لَبِیْدٍ ؓ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ قَالَ:(( اِثْنَتَانِ یَکْرَھُھُمَا ابْنُ اٰدَمَ: یَکْرَہُ الْمَوْتَ وَالْمَوْتُ خَیْرً لِّلْمُؤْمِنِ مِنَ الْفِتْنَۃِ وَیَکْرَہُ قِلَّۃَ الْمَالِ وَقِلَّۃُ الْمَالِ اَقَلُّ لِلْحِسَابِ)) (رواہ احمد)
حضرت محمود بن لبید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’دو چیزیں ایسی ہیں جن کو آدمی ناپسند ہی کرتا ہے (حالانکہ ان میں اس کے لیے بڑی بہتری ہوتی ہے) ایک تو وہ موت کو پسند نہیں کرتا‘ حالانکہ موت اس کے لیے فتنہ سے بہتر ہے‘ اور دوسرے وہ مال کی کمی اور ناداری کو نہیں پسند کرتا ‘ حالانکہ مال کی کمی آخرت کے حساب کو بہت مختصر اور ہلکا کرنے والی ہے۔‘‘