(الہدیٰ) صور پھونکنے کے باوجود کچھ لوگ بےخوف ہوں گے - ادارہ

7 /

الہدیٰ

صور پھونکنے کے باوجود کچھ لوگ بےخوف ہوں گے

آیت 87{وَیَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَفَزِعَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآئَ اللہُ ط} ’’اور جس دن صُور میں پھونکا جائے گا تو گھبرا اٹھیں گے وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں‘سوائے ان کے جنہیں اللہ (محفوظ رکھنا) چاہے۔‘‘
نفخ صُور سے ایک عمومی گھبراہٹ آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات پر طاری ہو جائے گی‘ سوائے اُن کے جنہیں اللہ ربّ العزّت خود اس
سے محفوظ رکھنا چاہے۔جیسے آسمانوں پر فرشتے۔
{وَکُلٌّ اَتَوْہُ دَاخِرِیْنَ87} ’’اور سب حاضر ہو جائیں گے اُس کے آگے عاجزی کے ساتھ۔‘‘
اُس دن سب لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور سر جھکائے مؤدّب کھڑے ہوں گے۔
آیت 88{وَتَرَی الْجِبَالَ تَحْسَبُہَا جَامِدَۃً وَّہِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ط } ’’اور تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو اور سمجھتے ہو کہ وہ خوب جمے ہوئے ہیں ‘اور (اُ س دن) وہ چلیں گے جیسے بادل چلتے ہیں۔‘‘
پہاڑ اُس دن بادلوں کی طرح اڑتے پھریں گے۔ ہوائی سفر کے دوران ہم میں سے اکثرنے بادلوں کی ماہیت کا قریب سے مشاہدہ کیا ہو گا۔ یہ بظاہر دیکھنے میں ٹھوس نظر آتے ہیں لیکن جہاز بغیر کسی رکاوٹ کے انہیں چیرتے ہوئے آگے گزر جاتا ہے۔ قیامت کے دن پہاڑوں کی ٹھوس حیثیت کو ختم کر دیا جائے گا اور وہ ذرّات کے غبار میں تبدیل ہو کر بادلوں کی طرح اڑتے پھریں گے۔
{صُنْعَ اللہِ الَّذِیْٓ اَتْقَنَ کُلَّ شَیْ ئٍ ط} ’’یہ اللہ کی کاری گری ہے جس نے ہر چیز کو محکم بنایا ہے۔‘‘
یہ اللہ کی صنّاعی کا کرشمہ ہے کہ اُس نے اِس وقت پہاڑوں کو ایسی محکم اور ٹھوس شکل دے رکھی ہے‘ لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنی مشیت سے انہیں دھنکی ہوئی روئی کے گالوں اور بادلوں کی طرح بے وزن اور نرم کردے گا۔
{اِنَّہٗ خَبِیْرٌم بِمَا تَفْعَلُوْنَ(88)} ’’یقیناً وہ ہر اُس چیز سے با خبر ہےجو تم کر رہے ہو۔‘‘

درس حدیث

میدان حشر کی کیفیت

عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدٍ ؓ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ ﷺ یَقُوْلُ ((یُحْشَرُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی اَرْضٍ بَیْضَائَ عَفْرَائَ کَقُرْصَۃِ النَّقِیِّ لَیْسَ فِیْھَا مَعْلَمٌ لِاَحَدٍ)) (متفق علیہ)
حضرت سہل بن سعد ؓ کہتے ہیں، میں نے نبیﷺ کو فرماتے سنا ہے : ’’قیامت کے دن لوگوں کو ایک ایسی خاکستری رنگ کی سفید زمین پر جمع کیا جائے گا جو میدے کی روٹی کی طرح ہو گی اس میں کسی کے لیے نشان راہ نہ ہو گا۔‘‘
تشریح: تخلیق آدم سے قیامت برپا ہونے تک تمام نسل انسانی حشر کے میدان میں جمع کر دی جائے گی۔ قیامت کا یہ حادثہ زمین پر ہو گا لیکن زمین کی موجودہ شکل و صورت کو بدل کر ایک ایسے قالب میں ڈھال دیا جائے گا جس میں کسی پہاڑ، ٹیلے، عمارت، شہر اور سڑک کا نام و نشان نہ ہو گابلکہ بالکل صاف اور چٹیل میدان ہو گا۔