غزہ کے تباہ حال ہسپتال اور عالمِ اسلام کی بے حسی
تنویر قیصر شاہد
8جولائی 2024 ء کو رُوسی میزائلوں نے یوکرائن کے دارالحکومت (Kyiv)میں واقع بچوں کے ایک ہسپتال (Okhmadyt) پر حملہ کیا تو امریکا سمیت پورا مغربی یورپ تڑپ اُٹھا ۔ کہرام مچ گیا کہ مذکورہ ہسپتال میں سات بچوں کو ہلاک کرکے حملہ آور ’’وحشی‘‘ رُوس نے وحشت اوردرندگی کی نئی مثال قائم کی ہے۔ امریکا اور ناٹو ممالک نے بیک زبان دعوے اور اعلان کیے کہ اب ہم طاقت اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے یوکرائن پر رُوسی میزائلوں کو روکیں گے۔
یوکرائنی صدر ، ولادیمیر زلنسکی ، امریکا اور مغربی یورپ کے اتحادیوں کو قائل اور مائل کررہے ہیں کہ رُوسی میزائلوں کو نہ صرف روکا جائے بلکہ رُوس کے اُن خفیہ مقامات کو نشانہ بنایا جائے جہاں ہلاکت خیز میزائل ذخیرہ کیے گئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ بھی یوکرائن کے چلڈرن ہسپتال پر رُوسی حملے پر باآوازِ بلند چیخ اُٹھا ہے ۔
ہر قوم اور ہر ملک کے سبھی بچے معصوم ہوتے ہیں۔ انھیں جنگوں اور تصادموں سے دُور اور محفوظ رکھا جانا چاہیے ۔ یوکرائن کے مذکورہ بالا ہسپتال میں نصف درجن بچوں کی ہلاکت ایک نہائت افسوسناک سانحہ ہے۔ ہم سب اِس کی مذمت کرتے ہیں ۔ حیرت ، دکھ اور افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ پچھلے9ماہ کے دوران ’’غزہ‘‘ میں اب تک ظالم اسرائیل فلسطین کے 18 ہزار سے زائد بچے شہید کر چکا ہے ، مگر امریکا و مغربی یورپی ممالک اجتماعی طور پر خاموش ہی رہے۔ اسرائیل کے خلاف لب کشائی کی بھی تومنمناتے ہُوئے۔
اِسی سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امریکا اور مغربی ممالک کی سوچ جانبدارانہ بھی ہے اور متعصبانہ بھی ۔امریکا اور مغربی ممالک کے حکمرانوں سے کیا گلہ ، عالمِ اسلام کے حکمران بھی صہیونی اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی بچوں، خواتین اور جوانوں کے قتلِ عام پر خاموش ہیں ۔ بے حسی کی اِس سے بڑی مثال شاید ہی کہیں مل سکے ۔
غزہ کی حماس انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اب تک اسرائیلی حملوں میں45 ہزار سے زائد فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں۔ اسرائیل کی بمباری پھر بھی رُک نہیں رہی۔ مغربی تحقیقی ذرائع اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ’’غزہ‘‘ میں45 ہزار سے کہیں زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک یورپی تھنک ٹینک اور تحقیقاتی ادارے (The Lancet) نےاپنی تازہ ترین تحقیقاتی و انکشافاتی رپورٹ بعنوان "Counting the dead in Gaza:Difficult but essential"میں بتایا ہے کہ ’’غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں ایک لاکھ 45ہزار فلسطینی قتل کیے جا چکے ہیں ۔ اِس تعداد میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو غزہ کے لاکھوں ٹن ملبے کے نیچے دبے پڑے ہیں۔‘‘ یہ اموات بیان کی جانے والی اموات سے تین سے پندرہ گنا زیادہ ہیں ۔
عالمِ اسلام کے حکمرانوں کی آنکھیں پھر بھی بھیگ نہیں رہی ہیں ۔ ایسی بے حسی بھی ہم نے دیکھنی تھی یارَب! مزید اشکبار بات یہ ہے کہ صہیونی ظالم اسرائیل ’’غزہ‘‘ کے بچے کھچے ریفیوجی کیمپوں پر بھی بم اور میزائل پھینک رہا ہے ۔ اہلِ غزہ کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں رہی ۔ اسرائیلی بموں اور گولیوں سے جو فلسطینی شدید زخمی ہو رہے ہیں ، اُن کے علاج معالجے کے لیے بھی کوئی اطمینان بخش بندوبست نہیں بچا۔
غزہ کے سارے ہسپتال اسرائیل تباہ و برباد کر چکا ہے ۔ 7اکتوبر 2023ء سے قبل ’’غزہ‘‘ میں 36 ہسپتال تھے۔ ’’شفا‘‘ نامی ہسپتال ان میں سب سے بڑا اور جدید ہسپتال تھا ۔ اور آج حال یہ ہے کہ ’’شفا‘‘ سمیت ان 36 ہسپتالوں میں سے 31 ہسپتال شدید اسرائیلی بمباری میں زمین بوس ہو چکے ہیں ۔ ان ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز ، نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو بے دردی سے شہید کیا گیا ہے۔ ’’غزہ‘‘ کے ہمسایہ مسلمان ممالک بھی زخمی اہلِ غزہ کو قبول کرنے اور انھیں اپنے ہسپتالوں میں داخلہ دینے پر تیار نہیں ہیں۔ 9 جولائی 2024 ءکو ممتاز امریکی اخبار ، واشنگٹن پوسٹ، نے یہ افسوسناک خبر دی کہ شمالی غزہ کا آخری ہسپتال بھی اسرائیل نے تباہ کر ڈالا ہے ۔
اِن ایام میں مشہور اور معتبر امریکی جریدے "Foreign Policy"نے ایک اور دلدوز رپورٹ شائع کی ہے ۔ یہ رپورٹ نیویارک میں دو بڑے ہسپتالوں سے وابستہ معروف ڈاکٹروں (Annie Sparrowاور Kennth Ruth) نے لکھی ہے ۔ دونوں ڈاکٹرز بذاتِ خود ’’غزہ‘‘ میں دَورہ کرکے آئی ہیں۔ ان کی رپورٹ کے مندرجات پڑھیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ دونوں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ غزہ میں کوئی ایک ہسپتال بھی اتنا سلامت نہیں رہا کہ جہاں زخمیوں کا مناسب علاج کیا جا سکے۔
رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اسرائیلی افواج اور ائیر فورس نے دانستہ اُن تمام سڑکوں کو مکمل طور پر تباہ کر ڈالا ہے جو غزہ کے ہسپتالوں کو جاتی تھیں تاکہ مریض اور زخمی ہسپتالوں تک پہنچائے ہی نہ جا سکیں ۔کیا یہ امریکی اور مغربی حکمرانوں کی مزید بے حسی نہیں ہے کہ ایسے حالات میں جب 26 جولائی 2024 ءکو خونخوار اسرائیلی وزیر اعظم ، نیتن یاہو، واشنگٹن کا سرکاری دَورہ کرتا ہے تو وائٹ ہاؤس میں اُس کا زبردست استقبال کیا جاتا ہے ؟یہ بھیڑیا (Monster) جب امریکی کانگریس سے خطاب کرتا ہے تو ارکانِ کانگریس اُٹھ اُٹھ کر تالیاں بجا کر اُسے خراجِ تحسین (Standing Ovation)پیش کرتے ہیں۔
امریکی صدر ، جوبائیڈن، اور سابق امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، اُسے اپنے اپنے گھروں میں ضیافتوں پر مدعو کرتے ہیں ۔ یہ مناظر ہم مسلمانوں کے دل توڑ دینے والے ہیں۔ مگر سبھی مسلمان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں ہیں۔ کئی درد مند ایسے بھی ہیں جو اسرائیلی و مغربیوں کے شرمناک گٹھ جوڑ کے باوجود اہل ِغزہ کی طبّی امداد کے لیے دن رات ایک کیے ہُوئے ہیں ۔ اِن میں پاکستان نژاد برطانوی این جی او( المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ) سرِ فہرست ہے۔ اِس عالمی امدادی ادارے کے سربراہ، عبدالرزاق ساجد صاحب، جولائی 2024ء کے وسط میں ایک بار پھر اہلِ غزہ کی میڈیکل امداد کے لیے مصر پہنچے۔
غزہ سے واپس لندن پہنچنے کے بعد عبدالرزاق ساجد نے مجھے بتایا :’’ہم نے ریڈ کریسنٹ قاہرہ اور ریڈ کریسنٹ غزہ کے باہمی تعاون سے جنوبی غزہ اور خان یونس میں 3 عارضی ہسپتال کھڑے کر دیے ہیں ۔ اِن ہسپتالوں میں روزانہ 5 ہزار اہل ِغزہ کو فوری اور ضروری طبّی امداد فراہم کی جارہی ہے ۔ اِس کے علاوہ ہم غزہ کے دیگر نصف درجن ہسپتالوں کو بھی طبّی اور مالی معاونت فراہم کررہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا:’’ ہم غزہ میں اپنے ہسپتالوں میں جو میڈیکل ٹریٹمنٹ فراہم کررہے ہیں، ان میں آپریشن تھیٹرز، آئی سی یوز، انکیوبیٹرزاور زچگی کی دیکھ بھال شامل ہیں ۔ اِن پر لاکھوں پونڈز خرچ ہو چکے ہیں۔‘‘عبدالرزاق ساجد نے اِن خدمات کا تفصیلی تذکرہ گزشتہ روز برطانوی میڈیا کے رُوبرو بھی کیا ہے۔ سلام ہے ایسے بے لوث افراد اور این جی اوز پر جو اپنے بَل پر اہلِ غزہ کی بھرپور اور مقدور بھر دستگیری کرکے مسلمان حکمرانوں کو شرم دلا رہے ہیں۔ززز