(دین و دانش) اسلامی انقلاب کے علمبرداروں کے لیے امید کی کرن - عبدالروف

10 /

اسلامی انقلاب کے علمبرداروں کے لیے امید کی کرن

 

عبد الرؤف، معاون شعبہ تعلیم و تربیت

 

  آج ہم اس دور سے گزررہے ہیں جس میں تقریباً ہر بندہ ہی حالات کا رونا رو رہا ہے۔ جہاں تک عوام الناس کی اکثریت کا تعلق ہے تو ان کا تعلق خدا، رسولﷺ اور آخرت سے کافی حد تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، ان کے نزدیک’’مایوسی کفر ہے‘‘جیسی دینی اصطلاح کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ وہ تو ایک بے خدا اور ہدایت سے کوسوں دور تہذیب کے پیروکار بن چکے ہیں۔ چاہے وہ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے ہوں، کلمہ گو ہوں اور کبھی کبھار جمعہ وعیدین کی نماز میں بھی شرکت کر لیتے ہوں۔ یہ بات بآسانی سمجھ آ جاتی ہے کہ ان کا شکوہ و شکایت اور نالہ و شیون بجا ہے، اس لیے کہ ان کے سامنے تو یہی دنیا جسے قرآن پاک میں    ’’ متاع الغرور‘‘کہا گیا ہے، اصل زندگی ہے۔ اور آخرت کا تصور نگاہوں سے کافی حد تک اوجھل ہو چکا ہے۔ روحانی وجود پر مادی وجود کا غلبہ ہے اور ذات الٰہی کے مقابلے میں کائنات اور اس کی ظاہری چکا چوند ان کے دل و دماغ پر حاوی ہے۔ ان حالات میں ہر وہ انسان جس کے نزدیک یہ چند روزہ دنیا ہی اصل زندگی ہے اور جو دنیا کا مال و متاع اس کے پاس ہے وہی اصل سرمایہ ہے۔ وہ تو ظاہر ہے ان حالات سے لازما ً مایوس ہی ہوں گے، کیونکہ ان کے نزدیک تو مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر کے اس  شعر کے مصداق:
نو روز و نو بہار و مے و دلبرے خوش است
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
 ترجمہ: ’’نو روز ہے، نو بہار ہے ، شراب ہے، خوبصورت محبوب ہے۔ بابر بس عیش کی سعی  ہی میں لگا رہ کہ دوسرا جہاں نہیں ہے‘‘، اوّل بھی دنیا، آخر بھی دنیا ہے، اسی کی کامیابی اصل کامیابی اور اسی کی ناکامی اصل ناکامی ہے ۔ اس سے آگے کچھ سوچنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کی حقیقت اللہ تعالیٰ نے سورۃ روم کی آیت نمبر 07 میں یہ بیان فرمائی ہے کہ:
{یَعْلَمُوْنَ ظَاہِرًا مِّنَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاجوَہُمْ عَنِ الْاٰخِرَۃِ ہُمْ غٰفِلُوْنَ(7)} ’’ یہ لوگ دنیا کی زندگی کے بھی صرف ظاہر کو جانتے ہیں اور وہ آخرت سے بالکل ہی غافل ہیں۔‘‘
جبکہ یہی مضمون سورۃ یونس میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ ان الفاظ میں آیاہے کہ:
{اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا وَرَضُوْا بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَاطْمَاَ نُّوْا بِہَا وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَ (7)} ’’ بے شک وہ لوگ جو ہم سے ملاقات کے امیدوار نہیں ہیں اور وہ دنیا کی زندگی پر ہی راضی اور اسی پر مطمئن ہیں اور جو ہماری آیات سے غافل ہیں۔‘‘
لہٰذا ثابت ہوا کہ اس دنیا کی عارضی ناکامی سے وہی لوگ متاثر ہوتے ہیں جو اس کی ظاہری چکا چوند سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ آخرت سے غافل ہو جاتے ہیں اور اللہ سے ملنے کی امید نہیں رکھتے۔ دنیا کی زندگی کی آسودگی ، آرام و آسائش اور مال ودولت پر پوری طرح مطمئن ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی آیات اور احکام سے غفلت کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ حالانکہ دیکھا جائے تو یہ فانی زندگی ہے ہی کتنی جسے انہوں نے اتنی زیادہ اہمیت دے دی کہ اس کے نتیجے میں آخرت کی ہمیشہ رہنے والی زندگی کو فراموش کر دیا۔ جبکہ اس دنیا کی زندگی کی حقیقت تو محاورۃً چار دن کی ہے جس کے متعلق بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا کہ:؎
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
 انسان غور کرے تو اس پر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ انسانی زندگی محض ہمارے سامنے چند ماہ و سال کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ تو ایک کبھی ختم نہ ہونے والے سلسلے کا نام ہے۔جیسا کہ اقبال کہتے ہیں؎
تُو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی
 اور اقبال ہی نے اس سلسلے میں انسان کی ناسمجھی اور کم ظرفی کی طرف ان الفاظ میں توجہ دلائی کہ:؎
تُو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گُلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی ہے
وہ لوگ جن کا ذہنی افق تنگ اور سوچ محدود ہو، وہ اسی عارضی اور مختصر وقفۂ زندگی کو اصل زندگی سمجھ کر اس کی رعنائیوں پر فریفتہ اور اس کی رنگینیوں میں گم رہتے ہیں بقول اقبال:؎
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
اس کے برعکس معاشرے میں ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں جو تعداد میں تو بہت کم ہیں لیکن ان کا ذہنی اُفق بہت وسیع ہے۔ وہ کسی تنگ نظری کا شکار نہیں بلکہ اس چند روزہ دنیاوی زندگی کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر قرآن میں اس انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ:{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ(2)}(سورۃ الملک) ’’وہ اللہ تعالیٰ جس نے موت اور زندگی اس لیے پیدا کی تاکہ وہ تمہیں آزمائےکہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے اور وہ زبردست بخشنے والا ہے۔‘‘
اس کی تشریح اقبال نے اپنے ایک شعرمیں اس طرح کی ہے:؎
قُلْزَمِ ہستی سے تُو اُبھرا ہے مانندِ حباب
اس زیاں خانے میں تیرا اِمتحاں ہے زندگی
  لہٰذا جو لوگ اس عارضی زندگی کو اصل نہیںبلکہ امتحان سمجھ کر گزارتے ہیں ،ان کا معاملہ دوسرے لوگوں سے مختلف ہو تاہے۔ ان کے سامنے اس زندگی کا ایک مقصد معین ہو جاتا ہے جس کو سامنے رکھتے ہوئے وہ آخرت کی ہمیشہ والی زندگی میں کامیابی کے لیے اس امتحان گاہ میں ہمہ وقت اپنا پرچہ حل کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ ان پر چونکہ یہ حقیقت بھی آشکار ہو چکی ہوتی ہے کہ اس امتحان کا وقت کسی بھی پَل ختم ہو سکتا ہے۔جس کے بعد انہیں موت اور برزخ کا سفر کرتے ہوئے اپنے پروردگار کے دربار میں پیش ہونا ہوگا جہاں بقول اقبال ان کا یہ سوال منتظر ہوگا کہ:؎
یہ گھڑی محشر کی ہے ،تو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر غافل ،عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
اس لیے یہ لوگ اپنے مقصدِ زندگی یعنی غلبہ و اقامت ِدین کی جدوجہد میں کسی اجتماعیت کا حصہ بن کر مصروف رہتے ہیں ۔ انہیں اس بات کا ہوش نہیں ہوتا کہ دنیا ہمیں ملتی ہے یا نہیں، ہمارا کیریئر بنتا ہے یا نہیں، ہمارا کاروبار بڑھتا ہے یا نہیں ،بلکہ اس دنیا سے کم سے کم فائدہ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کے دین کے ساتھ جڑے رہنے کی کوشش کرتے ہیں چاہے حضور اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق انہیں اپنی برادری سے الگ ہی کیوں نہ ہونا پڑے ،ان کی تعدادغافل لوگوں کی کثیر تعداد کے مقابلے میں کتنی کم ہی کیوں نہ ہو اور ان کی بات ماننے والے کم اور نہ ماننے والے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔  
موجودہ مایوس کن حالات میں جہاں چہار سُو مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے ہیں، وہیں روشنی کی کرن بھی دکھائی دے رہی ہے۔ خاص طور پر ان فرزانوں کو تو کامیابی بہت قریب نظر آرہی ہے جن کے سامنے قیامت سے قبل کل روئے عرضی پر ’’خلافت علی منہاج النبوۃ ‘‘کی خوشخبری والے فرامین رسولﷺ موجود ہیں۔ ایسے لوگ مایوس ہونے کے بجائے دیوانہ وار حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ حالات جو ایک رائے کے مطابق جان بوجھ کر پیدا کیے گئے ہیں ، ان کو سامنے رکھا جائے تو گزشتہ 77 سال میں فوجی آمر وں ،سیاست دانوں اور بیوروکریسی نے ملک کو تباہی کے جس کنارے پر لا کھڑا کیا ہے اس سے بچنے کا بظاہر کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ ہر آنے والا دن تباہی اور بربادی کی طرف ہی لے کر جا رہا ہے۔
  اس غیر یقینی کی صورتحال میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جو ملک 1947 ءمیں اسلام کے نام پر جمہوری طریقے سے وجود میں آیا تھا اور اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیاتھا، اس میں اسلام کو تو کبھی آنے ہی نہیں دیا گیا جبکہ جمہوریت کو ہر 10، 15 سال بعد کوئی نہ کوئی فوجی آمر بوٹوں کی ٹھوکر سے باہر پھینکتارہا ۔ اس کے متعلق ہی ایک باکمال شاعر اور ادیب آغا شورش کاشمیری نے کہا تھا کہ:؎
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
  اس وقت حالت یہ ہے کہ نہ صرف حزب اختلاف بلکہ حکومتی وزراء بھی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر حالات اسی رخ پر آگے بڑھتے رہے تو آئینی بحران پیدا ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ ہم سیاسی طور پر ایک ایسی بند گلی میں داخل ہوگئےہیں جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔ نکلنے کا راستہ (Exit) اگر ہے تو وہ ایک ہی  ہے کہ جس مقصد کے لیے یہ ملک بنایا گیا تھا اس کو سامنے رکھ کر اسلامی انقلاب کی علمبردار قوتیں اپنی جدوجہد میں اضافہ کریں ۔ حالات اگر ناموافق ہیں تو ان کے سامنے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا یہ فرمان رہنا چاہیے کہ:{اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا(۶)}’’ یقینا ًتنگی کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘
  ویسے بھی اندھیرا جب اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو اس سے سپیدۂ سحر طلوع ہونے کی امید بڑھ جاتی ہے۔ان بدترین حالات میں بھی ہمیں سورۃ النحل کی وہ آیت سامنے رکھنی چاہیے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
{وَاِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃًط نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِہٖ مِنْم بَیْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ(66)}’’اور یقیناً تمہارے لیے تو چوپایوں میں بھی بڑی عبرت ہے کہ تمہیں اس کے پیٹ میں جو کچھ ہے اس میں سے گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے بڑا مزیدار اور خوشگوارہوتا ہے۔‘‘
پس جو اللہ تعالیٰ گوبر اور خون جیسی نجس چیزوں کے درمیان سے پاکیزہ اور خوشگوار دودھ کی دھاریں نکالنے پر قادر ہے وہی اللہ تعالیٰ مشکل ترین حالات میں سے بہترین نتیجہ نکالنے پر بھی قادر ہے۔ لیکن اس کے لیے بھی یہی شرط ہے کہ ہم وہی طریقہ اختیار کریں جو انبیاء ورسل نے اختیار کیا اور وہ طریقہ یہ تھا کہ{ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ ط} یعنی (sovereignty authority Command  belongs to Allah alone) یہی طریقہ اختیار کر کے مشکل ترین حالات میں ، تعداد میں قلیل ہونے کے باوجود انبیاء نے کامیابی حاصل کی اور جس کی انتہا آج سے چودہ سوسال قبل معاشرے میں دیکھی گئی کہ کس طرح گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کے باوجود اللہ کے رسولﷺ اور آپﷺ کے جانثار صحابہ کرام ؓنے تعداد میں کم ہونے کے باوجود عظیم ترین کامیابی  حاصل کی۔ 
اب جبکہ اس ملک میں تبدیلی کے تمام طریقے آزمائے جا چکے ہیں۔ ایک ہی طریقہ باقی رہ گیا ہےکہ  اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا نعرہ پوری قوت سے لگایا جائے اور دین کے تمام علمبردار ایک امیر کی قیادت میں دین کی صحیح انقلابی فکر کی اشاعت کے لیے میدان میں نکلیں، تو یقیناً اللہ تعالیٰ کی مدد ان کے شامل حال ہوگی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ خود بھی اللہ تعالیٰ سے حقیقی محبت کی جائے اور 25 کروڑ عوام الناس کا بھی اللہ سے ٹوٹا ہوا تعلق اس کی کتاب کے ذریعہ جوڑ کر رسول اکرمﷺ کا عطا کردہ منہج اختیار کر کے تبدیلی لانے کی سر توڑ کوشش کا آغاز کر دیا جائے تو امید ہے کہ:؎
چمن میں مالی اگر بنالیں موافق اپنا شعار اب بھی
چمن میں آسکتی ہے پلٹ کر چمن سے روٹھی بہار اب بھی