الہدیٰ
اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا ہر چیز فانی ہے!
آیت 87{وَلَا یَصُدُّنَّکَ عَنْ اٰیٰتِ اللہِ بَعْدَ اِذْ اُنْزِلَتْ اِلَیْکَ} ’’اور وہ آپ ؐکوروک نہ سکیں اللہ کی آیات سے اس کے بعد کہ وہ آپؐ پر نازل کر دی گئی ہیں ‘‘
یعنی اگر آپؐ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا کوئی تعلق رکھیں گے‘چاہے وہ کسی ادنیٰ درجے کی قبائلی عصبیت ہی کی بنیاد پر ہو تو وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپؐ کی دعوت کے عمل میں رکاوٹ بنیں گے اور آپؐ کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل سے برگشتہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
{وَادْعُ اِلٰی رَبِّکَ وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ(87)} ’’اور اپنے رب کی طرف دعوت دیتے رہیے اور شرک (جیسے گھنائونے جرم) کا شائبہ بھی اپنے قریب مت آنے دیجیے ۔‘‘
آیت 88 {وَلَا تَدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰہًا اٰخَرَم لَآ اِلٰــہَ اِلَّا ہُوَقف} ’’اور مت پکارئیے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو۔اُس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔‘‘
اس نوعیت کے احکام میں اگرچہ صیغہ واحد میں خطاب بظاہر حضورﷺ سے ہوتا ہے لیکن حقیقت میں آپؐ کی وساطت سے تمام اُمّت مخاطَب ہوتی ہے۔
{کُلُّ شَیْ ئٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ ط} ’’ہر چیز فنا ہونے والی ہے سوائے اُس کے چہرے کے!‘‘
حضرت ابوبکرصدیق ؓ کا قول ہے: العِجزُ عن دَرکِ الذّاتِ اِدراک کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں ادراک سے عجز ہی اصل ادراک ہے۔ یعنی جب انسان یہ سمجھ لے کہ میں اُس کی ذات کو نہیں سمجھ سکتا تو بس یہی ادراک ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔ بہر حال آیت زیر ِمطالعہ کے حوالے سے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات کے سوا ہر چیز فانی ہے۔
{لَہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ (88)} ’’فرماں روائی اُسی کی ہے اور اُسی کی طرف تم سب لوٹا دیئے جائوگے۔‘‘
بارک اللہ لی ولکم فی القرآن العظیم‘ ونفعنی وایّاکم بالآیات والذِّکر الحکیمoo
خیانت کا وبال
خیانت کا وبال
عَنْ عَدِیِّ بْنِ عُمَیْرَۃَ ؓ قَالَ: سَمِعتُ رَسُوْلَاللہِﷺ یَقُوْلُ: (( مَنِ اسْتَعْمَلْنَاہُ مِنْکُمْ عَلٰی عَمَلٍ فَکَتَمَنَا مِخْیَطًا فَمَا فَوْقَہٗ کَانَ غُلُوْ لاً یَاْتِیْ بِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)) قَالَ: فَقَامَ اِلَیْہِ رَجُلٌ اَسْوَدُ مِنَ الْاَنْصَارِ ۔کَاَنِّیْ اَنْظُرُ اِلَیْہِ فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ)اقْبَلْ عَنِّیْ عَمَلَکَ قَالَ: ((وَمَالَکَ؟)) قَالَ: سَمِعْتُکَ تَقُوْلُ :کَذَا وَ کَذَا ، قَالَ: ((وَاَنَا اَقُوْلُ الْاٰنَ مَنِ اسْتَعْمَلْنَاعَلیٰ عَمَلٍ ، فَلْیَجِیْٔ بِقَلِیْلِہٖ وَکَثِیْرِہٖ ، فَمَا اُوْتِیَ مِنْہُ اَخَذَ وَمَا نُھِیَ عَنْہُ انْتَھٰی))(رواہ مسلم)
حضرت عدی بن عمیرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ ’’تم میں سے کسی کو اگر ہم کسی کام کے لیے عامل بنائیں اور وہ سوئی برابر یا اس سے زائد کوئی چیز چھپا لے تو یہ حرکت خیانت ہو گی جو وہ قیامت کے دن لے کر آئے گا‘‘۔ ایک سیاہ رنگ انصاری اُٹھ کھڑے ہوئے گویا یہ منظرمیرے سامنے ہے اور کہنے لگے: یارسول اللہﷺ!یہ خدمت مجھ سے واپس لے لیجئے! آپؐ نے پوچھا: ’’کیوں، کیا بات ہوئی؟‘‘ وہ کہنے لگا، میں نے سنا ہے کہ آپؐ ایسا ایسا فرماتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا:’’ وہ تو میں اب بھی کہتا ہوں، کہ ہم کسی کو کسی کام پر اگر عامل بنائیں، تو اُسے تھوڑی بہت چیز (چھوٹی بڑی) جو کچھ ملے وہ جوں کی توں لاحاضر کرنی چاہیے۔ اس میں سے جو اسے دیا جائے وہ لے لے، اور جس سے منع کیا جائے اس سے باز رہے ۔‘‘