الہدیٰ
اپنے اعمال پر بھروسا نہ کر بیٹھو!
آیت 65{وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَق اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا(65)} ’’اور (اس کے باوجود) وہ لوگ دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! عذابِ جہنّم کو ہم سے پھیر دے‘ یقیناً اس کا عذاب چمٹ جانے والی شے ہے۔‘‘
سورۃ النور میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب بندوں کی ایسی ہی کیفیت بیان فرمائی ہے : {یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ(37)} ’’وہ ڈرتے رہتے ہیں اس دن (کے خیال) سے جس میں دل اور نگاہیں الٹ دیے جائیں گے‘‘۔یعنی اگرچہ وہ اپنی ہر مصروفیت پر اللہ کے ذکر کو ترجیح دیتے ہیں اور ہر حالت میں نماز قائم کرتے ہیں‘ مگر اس سب کچھ کے باوجود بھی وہ احتسابِ آخرت کے خوف سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔
آیت 66{اِنَّہَا سَآئَ تْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا(66)} ’’ یقیناً وہ بہت بُری جگہ ہے مستقل ٹھکانے کے لیے بھی اور عارضی قیام کے لیے بھی۔‘‘
دنیا میں عام طور پر انسانی طبیعت کا خاصہ ہے کہ وہ ہر دم تبدیلی چاہتا ہے۔ تبدیلی کے طور پر وہ تھوڑی دیر کے لیے بُری سے بُری جگہ پر بھی تفریح محسوس کرتا ہے اور اگر اسے ا چھی سے اچھی جگہ پر بھی مستقل رہنا پڑے تو وہاں اسے بہت جلد اکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے ۔ اس کے برعکس جنّت اور جہنّم کی کیفیت یکسر مختلف ہے۔ قرآن کے مطابق جنّت ایسی پُر کشش جگہ ہے کہ وہاں مستقل رہنے کے باوجود اہل ِجنّت کو اس کی دلچسپیوں اور رعنائیوں میں ذرّہ بھر کمی محسوس نہیںہو گی اور جہنّم میں اگر کوئی انسان ایک لمحہ کے لیے بھی چلا گیا تو وہ اپنی ساری سختیاں اس پر اسی ایک لمحے میں ظاہر کر دے گی۔
درس حدیث
کسی کو حقیر نہ جانو
عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ ؓ أَنَّ رَسُوْلَ اللہِﷺ قَالَ:((رُبَّ اَشْعَثَ مَدْفُوْعٍ بِالْاَبْوَابِ لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَاَ بَرَّہُ))(صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ چِکّٹ اور پراگندہ بال غریب‘ جسے دروازوں پر سے دھکیل دیا جاتا ہے اگر وہ اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کی قسم پوری کر دیتا ہے۔‘‘
تشریح: اس حدیث میں غریب سے مراد وہ لوگ ہیں جو مال و متاع سے محروم ہونے کی وجہ سے پریشان حال ہوتے ہیں۔ ان کے سر کے بال میلے کچیلے اور بکھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ اگر وہ بالفرض کسی کھاتے پیتے گھر کے دروازے پر کھڑے ہوں تو ان کو دھکے دے کر وہاں سے نکال دیا جاتاہے۔وہ مالدار نہ ہونے کی وجہ سے پریشان حال تو ہوتے ہیں لیکن پریشان خاطر نہیںہوتے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان مین سے بعض بڑے وقیع اور صالح ہوتے ہیں۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر کسی کام کے ہونے کی قسم کھا بیٹھیں تو اللہ تعالیٰ ان کی لاج رکھنے کے لئے ان کی بات پوری کر دیتا ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025