(اداریہ) پاکستان کےداخلی اور خارجی مسائل(قسط:18) - ایوب بیگ مرزا

11 /

پاکستان کےداخلی اور خارجی مسائل(قسط:18)

پاکستان کا معاشرتی نظام

 پاکستان کے داخلی اور خارجی مسائل پر بات کرتے ہوئے ہم سیاسی اور معاشی لحاظ سے تفصیلی جائزہ لے چکے ہیں ۔ معیشت کے حوالے سے ہم نے نہ صرف اپنا نقطۂ نظر پیش کیا بلکہ اُن تمام کاوشوں کا ذکر بھی کیا جو سود کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے دینی جماعتیں کر رہی ہیں اور اگر یہ بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ عدالتی اور سیاسی محاذ پر باقاعدہ ایک جنگ لڑ رہی ہیں۔ ان ساری تفصیلات میں جانے کی ضرورت ہم نے اس لیے محسوس کی کہ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ نے جن صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے انسانوں کو آگاہ کیا ہے اُن میں سودی لین دین وہ واحد گناہ ہے جسے اللہ نے اپنی آخری کتاب قرآن پاک میں اپنے اور اپنے رسول ﷺ کے خلاف جنگ قرار دیا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ رب العزت اسلامی معیشت کا ذکر اگرچہ مختصر لیکن انتہائی جامع، زور دار اور فیصلہ کن انداز میں کرتا ہے اور کسی قسم کی حیل و حجت قبول نہیں کرتا۔ اب ہم پاکستان کے داخلی اور خارجی مسائل میں معاشرتی بگاڑنے جو رول ادا کیا ہے اس کا ذکر کریں گے۔

قرآن پاک کا ہر قاری جانتا ہے کہ اس آخری آسمانی صحیفے میں جتنی تفصیل سے اور جتنے واشگاف انداز میں انسان کے معاشرتی معاملات کا ذکر ہے اُس کا عُشْرِ عَشِیْر بھی انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے کسی دوسرے گوشے کا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نبی اکرمﷺآخری نبی اوراِسلام آخری دین ہے۔ لہٰذا قرآن پاک اور احادیث ِ مبارکہ کے ذریعے اگرچہ زندگی کے انفرادی اور اجتماعی تمام گوشوں پر انسان کو بھرپور تعلیمات اور ہدایات دے دی گئیں۔لیکن خاص طور پر معاشرتی اور سماجی سطح پر اسلام ایک واضح اور مکمل نقشہ سامنے لاتا ہے اور گھر کو بنیادی یونٹ قرار دے کر اہل خانہ کی دینی تعلیم و تربیت پر اصرار کرتا ہے تاکہ ایک صالح معاشرہ کی بنیاد پڑ سکے۔یہ اسی تربیت کا اثر تھا کہ یہ دعویٰ کیاجاسکتا تھا کہ اکیلی اور نہتی عورت بھی دور دراز کا سفر کرے تو کوئی اُس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتا ۔ لیکن جب سے دنیا پر مغرب اور اس کی تہذیب کا غلبہ ہوا ہے تو وہ تمام معاشرتی و سماجی اقدار جو انسان کو اشرف المخلوقات بناتی ہیں رفتہ رفتہ انسانوں کے کردار و عمل سے محو ہوتی جارہی ہیں اور ان کی جگہ غیر انسانی ، غیر اخلاقی اور حیوانی خصائل پر مبنی عادات و خصائل نے لے لی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ غالب قوم مغلوب قوم پر تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے بھی اثر انداز ہوتی ہے ۔ برصغیر ہند انیسویں صدی سے بیسویں صدی کے وسط تک انگریز کے زیر تسلط رہا ۔ بدقسمتی سے انگریز نے دوسری غالب قوتوں سے ایک قدم آگے بڑھ کر اپنی تہذیب اہل ہند پر مسلط کرنے کی کوشش کی ۔ برصغیر میں دو بڑی قومیں بستی تھیں :ہندو اور مسلمان ۔ ہندو تو صدیوں سے بیرونی قوتوں کا غلام تھا ۔ اُن کا تو محض آقا تبدیل ہوا لہٰذا معاشرتی سطح پر تبدیلی سے انہوں نے کوئی بڑا فرق محسوس نہ کیا ۔ جبکہ مسلمانان ہند کو پہلی مرتبہ غلامی کا کلادہ اپنی گردن میں ڈالنا پڑا۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے ذریعے ایک باقاعدہ سماجی نظام عطا فرمایا ہے اور اسلامی تہذیب اسی سماجی نظام پر اُستوار رہی جو اُن کے دین کا لازمی جزو ہے ۔ انگریز نے اس فرق کو سمجھتے ہوئے مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا ۔ عجب بات یہ ہے کہ انگریز کے دور حکومت میں مسلمانوں نے انگریز کی ان کوششوں کو زیادہ کامیاب نہ ہونے دیا اور بہت کم لوگوں نے حکمرانوں کی تہذیب اور ان کے طرز بودوباش کو اپنایا ۔ لیکن بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلمانان پاکستان نہ صرف مغربی تہذیب اور انگریزی طرززندگی سے متاثر ہوتے چلے گئے بلکہ یہ کہنا ہرگز مبالغہ نہ ہوگا کہ اُنہوں نے مغرب کی بے حیا تہذیب کو خود پر مسلط کر لیا اور اسلامی تہذیب سے ہی نہیں مشرق کی اقدار سے بھی منہ موڑ لیا ۔ قیام پاکستان کے وقت کی جو تصاویر یا ویڈیوز ہمارے سامنے آتی ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں مردوں کے لباس ہماری اسلامی اور مشرقی اقدار کے مطابق تھے ، شلوار قمیض ، پگڑی ، تہبند اکثریت کا لباس تھا ۔ اسی طرح عورتوں کا لباس بھی ہماری اسلامی اور مشرقی اقدار و روایات کے مطابق تھا ، پردہ ، چادر اور باحیا لباس یہاں کی معاشرت کا حصہ تھا۔ یہاں تک کہ مسلم علاقوں میں بعض غیر مسلم عورتیں بھی ؃’’پردہ ‘‘ کرتی نظر آتی تھیں جبکہ مسلمان معاشروں میں یہ بھی رواج تھا کہ عورت کو ڈولی میں بٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جاتا تھا ۔ یہ اس دور کے معاشرے کی بات ہے جب برصغیر میں انگریز کا تقریباً دو سو سالہ تسلط مکمل ہورہا تھا ۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ انگریز نے اس دو سوسالہ دور تسلط میں ہمارے معاشرتی نظام کو بدلنے کی کوشش نہیں کی ہوگی ؟ یقیناً کی … لیکن اس کے باوجود ہماری معاشرت کو وہ تباہ نہ کر سکا ۔ اگرچہ قائداعظم محمد علی جناح اور ان جیسے چند بڑے لیڈرز کا لباس مغربی تھا لیکن پاکستان بننے کے بعد ایک دن کے لیے بھی قائداعظم نے مغربی لباس نہیں پہنابلکہ قائداعظم نے مشرقی طرز بودو باش اختیار کرلی۔ وہ سادہ لباس پہنا جو اکثر مسلمان انگریز کے دور میں پہنتے تھے اور مغربی لباس کو مکمل طور پر ترک کر دیا کیونکہ نیا ملک اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آرہا تھا لہٰذا قائداعظم نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ہمارا آئین قرآن ہے ۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ قیام پاکستان کے بعد ہماری معاشرت قرآن و سنت کےاحکامات کی عملی تعبیر ہوتی لیکن حیرت کی بات ہے کہ ہماری جس معاشرت کو انگریز اپنے دو سو سالہ دور تسلط میں تباہ نہ کر سکا وہ آزادی کے بعد ہم لوگوں نے خود مغرب کی نقالی میں تباہ کر ڈالی ۔ آج جب ہم بازاروں میں نکلتے ہیں تو ہمیں ہرگز محسوس نہیں ہوتا کہ یہ کوئی اسلامی معاشرہ ہے بلکہ یہ تو مشرقی اقدار کا حامل معاشرہ بھی نظر نہیں آتا ۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام دین فطرت ہے اللہ تعالیٰ نے ایک مرد اور ایک عورت سے نسل انسانی کی پیدائش کا سلسلہ شروع کیا اور دونوں کے حقوق و فرائض متعین کر دیے ۔ بحیثیت انسان مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں البتہ ہر ایک کا دائرہ کار مختلف ہے ۔ لیکن مغربی تہذیب نے اس نظام کو تلپٹ کر دیا ، مرد اور عورت ایک دوسرے کے دائرہ کار میں گھس گئے اور فرائض و حقوق کے حوالے سے غیر فطری انداز اپنا لیا گیا۔ مغرب کا سماجی نظام تو مکمل تباہی و بربادی کا شکار ہو چکا ہے اب مغرب نے اپنی تمام کوششوں کا رُخ اسلامی ممالک کی طرف پھیر دیا ہے تاکہ سوشل انجینئرنگ پروگرام اور دوسرے خوشنما ناموں کے ذریعے ہمارے خاندانی نظام کو بھی تباہ کرد ے اور بے حیا معاشرے کو ہم پر مسلط کرنے کی کوشش میں مصروف ہے ۔ جب کہ اسلام ایک باعفت و با حیا معاشرہ کی تشکیل چاہتا ہے اور اسلامی تعلیمات میں حیا پر بڑا زور دیا گیا ہے ۔ اہل ایمان مردوں اور عورتوں کو سورۃ النور میں نگاہوں اور شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ جو اہل ایمان میں فحاشی پھیلانا چاہتے ہیں اُن کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک سزا ہے ۔
آج مسلمانوں کے اندر سے حیا ختم کرنے کے لیے اغیار تو محنت کر ہی رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے انہیں ہمارے ہی معاشرے سے بھی ایسے دست و بازو میسر ہیں ، جو مغرب زدہ ہیں اور اُس کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ بے حیائی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے خواتین کو عزت و شرف سے محروم کرکے مردوں کے ہاتھوں ان کا استحصال کرنے اور اشتہاری اشیاء بنانے کے لیے نت نئے پروگرام ترتیب دیے جا رہے ہیں جبکہ قرآن حکیم نے صراحت سے بیان کیا ہے کہ اس اُ مت کے خیر اُمت ہونے کی وجہ ہی نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی ذمہ داری ادا کرنا ہے۔ لہٰذا بے حیائی کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنا ہماری دینی اور قومی ذمہ داری ہے ۔ قومی ذمہ داری اس لیے ہے کہ قیام پاکستان کا مقصد یہ تھا کہ ہم یہاں اللہ کے دین کے مطابق اپنا سیاسی ، معاشی اور معاشرتی نظام قائم کریں گے ۔ قائداعظم نے بار بار اپنے خطبات میں یہی فرمایا کہ بحیثیت مسلمان قوم ہماری طرز بود وباش غیر مسلموں سے بالکل الگ تھلگ ہے ، ہمارا جینا مرنا ، ہماری اقدار و روایات اور رسوم و رواج سب کچھ مختلف ہے ۔ صرف اسی مقصد کے تحت مسلمانان برصغیر نے پاکستان کے لیے جان و مال کی بے مثال قربانیاں پیش کیں اور اپنے گھر بار ، زمین و جائیداد اور کاروبار وملازمت چھوڑ کر پاکستان کو اپنا وطن بنایا۔ ان عظیم تر قربانیوں کے پس پردہ صرف ایک ہی خواب تھا کہ پاکستان میں سیاسی ، معاشی اور معاشرتی طور پر خلافت راشدہ کے دور کی یاد تازہ ہوگی ورنہ ہندوؤں سے الگ ہوکر علیحدہ ملک بنانے کی ضرورت ہی کیا تھی ۔ انفرادی طور پر نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج کا اہتمام تو متحدہ ہندوستان میں بھی ہورہا تھا ۔ لہٰذا بحیثیت پاکستانی قوم بھی یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم معاشرتی سطح پر قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق اسلامی معاشرت قائم کرنے کی کوشش کریں ۔ ( جاری ہے)