کائنات کی وسعت: وجود باری تعالیٰ کی دلیل
(سورۃ الواقعہ کی آیات 75تا77کی روشنی میں)
جامع مسجد شادمان ٹاؤن کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے25فروری 2022ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص
خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد!
قرآن مجید کے سلسلہ وار مطالعہ کے ضمن میں آج ہم ان شاء اللہ سورۃالواقعہ کے تیسرے رکوع کا مطالعہ شروع کریں گے ۔اس سورت میں آخرت کے بیان کے ساتھ ساتھ اللہ کی قدرت کی نشانیوں کا بیان ہے اور اب جن آیات کا ہم مطالعہ کرنے جارہے ہیں وہاں قرآن کی عظمت کا بیان ہے ۔ ارشاد ہوا:
{فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ (75)} ’’پس نہیں! قسم ہے مجھے ان مقامات کی جہاں ستارے ڈوبتے ہیں۔‘‘
یہ قرآن حکیم کاوہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے قسم اٹھاکراس کائنات کی ایک بہت بڑی حقیقت کو بیان فرمایا ہے ۔ اس حقیقت کے بیان کا پس منظر یہ ہے کہ مشرکین اور کفار نبی اکرم ﷺ کی دعوت اور آخرت کا انکار کر رہے تھے ،کبھی وہ کہتے کہ مرنے کے بعد کوئی دوبارہ زندہ نہیں ہوگا ، کبھی وہ الزام لگاتے کہ یہ قرآن ان کا اپنا بنایا ہوا کلام ہے ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں بہت بڑے بڑے حقائق بیان فرمائے ہیں اور انہیں میں سے ایک یہ آفاقی حقیقت یہ بھی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑی زندہ حقیقت کی قسم اُٹھا کر بیان فرمایا ۔ قسم ہمیشہ ایک زندہ حقیقت کی اُٹھائی جاتی ہے جس کا انکار ممکن نہ ہو ۔ اسی لیے اسلام ہم سے تقاضا کرتاہے کہ جب ہم قسم اُٹھائیں تو صرف اللہ کی قسم اُٹھائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے ، وہ خالق کائنات ہے۔ وہ اگر قسم نہ بھی اُٹھائے تو اس کی ہر بات سچی ہے لیکن انسانوں کو متوجہ کرنے کے لیے ، ان کے دماغ کو جھنجوڑنے کے لیے اللہ تعالیٰ جس چیز کی قسم اُٹھاتا ہے وہ اس کائنات کی کوئی ایسی حقیقت ہوتی ہے جس کاکوئی بھی انسان انکار نہیں کر سکتا۔ یہاں فرمایا :
{فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ (75)} ’’پس نہیں! قسم ہے مجھے ان مقامات کی جہاں ستارے ڈوبتے ہیں۔‘‘
ایک ہے ستاروں کا غروب ہونا اور ایک ہے ڈوب جانا ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سورج ہر روز غروب ہوتاہے اور ہر روز پھر طلوع ہو جاتاہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ جس طرح انسان پیدا ہوتا ہے تو ایک دن مر جاتاہے ، اسی طرح یہ سورج ، چاند ، ستارے اور سیارے بھی ایک دن فنا ہو جائیں گے ۔ ہر سیارے اور ستارے کی ایک عمر ہے اور وہ اللہ کو معلوم ہے ۔
آج جدید سائنس نے ترقی کی تو معلوم ہوا کہ کائنات میں بلیک ہولز ہیں جہاں ستارے ڈوب کر فنا ہوجاتے ہیں اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو آج کا انسان دیکھ سکتاہے ، مشاہدہ کر سکتاہے اس لیے اس حقیقت کو اب جھٹلانا ناممکن ہے ۔ اتنی بڑی زندہ حقیقت کی قسم اُٹھا کر جو بیان کیا جارہا ہے آخر اس کی کوئی تو اہمیت ہوگی ؟
یہاں پہلی بات یہ ہمارے ذہن نشین ہونا چاہیے کہ یہ جوستاروں کا نظام چلتا ہوا دکھائی دیتاہے ،ان کا طلوع ہونا،غروب ہونا،یہ ایک مربو ط نظام کے تحت ہے اور یہ نظام خود بخود قائم نہیں ہوگیا اور نہ اسے کسی انسان نے قائم کیا ہے بلکہ اس نظام کو بنانے والا کوئی ہے جس کو پہچان لینے کی دعوت قرآن دے رہا ہے ۔ اس پورے نظام کے اندر اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں موجود ہیں ، ان نشانیوں پر غوروفکر کی دعوت قرآن دیتا ہے ۔
بعض قومیں ستاروں کی پرستش کرتی ہیں اور بعض ان سے اپنی قسمت وابستہ کرتی ہیں ۔ آج بھی دیکھ لیجئے اخبارات و رسائل میں ’’ یہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟‘‘ ، ’’ دن کیسا گزرے گا؟‘‘ ستاروں کی روشنی میں قسمت کا حال ‘‘ وغیرہ جیسے تصورات اور عنوانات کے تحت لوگوں کو شرک کی دعوت دی جاتی ہے اور یہ پاکستان کے قومی اخبارات میں بھی ہورہا ہے ، وہ پاکستان جو کلمہ طیبہ کے نام پر بنا تھا ۔
’’پاکستان کا مطلب کیا : لا الٰہ الا اللہ ‘‘
آج اسی پاکستان میں ستاروں کی پرستش اور شرک کی دعوت کھلے عام دی جاری ہے ۔ جبکہ ہمارے لیے ہدایت اور راہنمائی حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کو بھیجا تھا ۔
{الٓـمّٓ (1) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ج فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ(2)}(البقرہ)’’یہ الکتاب ہے‘ اس میں کچھ شک نہیں‘‘۔ یا ’’یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔‘‘
قرآن ہمیں ہدایت دے رہا ہے کہ جو سورج ، چاند ، ستارے خود غروب ہو جاتے ہیں ، وہ ستارے جو خود ڈوب جاتے ہیں ، فناہوجاتے ہیں وہ آپ کی قسمت کے ضامن کیسے ہو سکتے ہیں ؟ کیا تم عقل نہیں رکھتے ؟
سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر فرمایا ۔ ان کی قوم ستارہ پرستی کے شرک میں بھی مبتلا تھی ۔ قوم کوسمجھانے کے لیے انہوں نے ایک سوالیہ انداز اختیار کیااور کہا کہ دیکھو!یہ ستارے توڈوب جاتے ہیں،یہ معبود کیسے ہوسکتے ہیں ؟ جوغروب ہوجائے، جو ڈوب جائے وہ معبودکیسے معبود ہو سکتا ہے ؟
اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑی حقیقت کی قسم اُٹھا کر کفارومشرکین کے ان باطل تصورات کا رد کر دیا ، یہ کتنی بڑی قسم تھی اس کی حقیقت آج کا انسان سمجھ سکتا ہے لیکن قرآن نے چودہ سو سال پہلے فرما دیا :
{ وَ اِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ(76)}’’اور یقیناً یہ بہت بڑی قسم ہے اگر تم جانو!‘‘
آج سے چودہ سو سال پہلے کا انسان نہیں جانتا تھا کہ یہ کتنی بڑی قسم ہے، کیونکہ اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کائنات میں کوئی ’’بلیک ہولز ‘‘ نام کی شے بھی ہے ۔ وہ طلوع اور غروب سے واقف تھے لیکن یہاں اللہ تعالیٰ ستاروں کے ڈوبنے کا ذکر فرما کر جتلا رہا ہے کہ یہ بہت بڑی قسم ہے اگر تم جانو !
آج کا انسان جان گیا ہے کہ اس کائنات میں ’’بلیک ہولز‘‘بھی موجود ہیں ۔ ان بلیک ہولز کے اندر بڑے بڑے ستارے اور پوری پوری کہکشائیں جاکر ختم ہو جاتی ہیں ۔ آج کا انسان قرآن کی روشنی میں زیادہ غوروفکر کر سکتاہے ۔ آج ہم جانتے ہیں کہ نظام شمسی میں ہمارے جتنے بھی سیارے ہیں ان سب سے بڑا سورج ہے ۔ یعنی زمین سے تقریباً 13لاکھ گنا بڑا ہے ۔ اندازہ کیجئے کتنا بڑا حجم ہے،لیکن اس سے بھی لاکھوں گنا بڑے سورج اور ستارے ہماری گلیکسی میں موجود ہیں، پھر ان کے درمیان فاصلہ کئی کئی لاکھ نوری سال پر مشتمل ہے اور ہماری گلیکسی سے بھی ہزاروں گنا بڑی کہکشائیں اس کائنات میں موجود ہیں ۔ آپ اندازہ کیجئے کائنات کی وسعتوں کا اور اس میں زمین کی حیثیت کا بھی اور زمین پر تن کر چلنے والے اور خدائی کا دعویٰ کرنے والے انسانوں کی حیثیت کا بھی اندازہ کیجئے کہ وہ کس قدر غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔ اتنی بڑی بڑی کہکشائیں کہ جن میں ایک ستارے سے دوسرے ستارے کا فاصلہ کئی کئی ارب نوری سال ہوسکتاہے اور ایک کہکشاں میں کھربوں ستارے ہوں اور ان سب پر مشتمل پوری پوری کہکشائیں جاکر بلیک ہولز میں فنا ہو جائیں تو اندازہ کیجئے کہ اللہ تعالیٰ کس طرف توجہ دلا رہا ہے ؟اور یہ کتنی بڑی قسم ہے جو اللہ اُٹھا کر انسان کو ایک آفاقی حقیقت بتا رہا ہے اور اتنی بڑی قسم اُٹھا کر جو حقیقت اللہ بیان کر رہا ہے وہ کتنی بڑی سچائی اور حقیقت ہوگی ؟فرمایا:
{ اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ (77)}’’یقیناً یہ بہت عزت والا قرآن ہے۔‘‘
یہ ہے وہ آفاقی حقیقت جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی قسم اُٹھائی ۔ آج جب سائنس نے ترقی کی ہے اور بلیک ہولز کے بارے میں پتا چلا ہے تو انسان اندازہ کر سکتا ہے کہ اس قرآن کی کتنی عظمت ہے جس نے آج سے چودہ سو سال پہلے یہ بتا دیا ۔ آج جو لوگ ان پہلوؤں پر غوروفکر کرتے ہیں ان کی نظر میں قرآن کی کتنی عزت ہوگی ۔ ان کے نزدیک یہ نتیجہ نکالنا کوئی مشکل نہیں کہ یہ اللہ کی سچی کتاب ہے اور اس میں جو کچھ بھی بیان ہوا ہے وہ سچ ہے ۔
اب یہاں ذراہم سوچیں کہ وہ قرآن جس کی اہمیت ، عزت اور عظمت پر کائنات کا خالق قسم اُٹھا رہا ہے ، اُسی عزت والے ، عظمت والے قرآن کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا ہے ؟ہمارے دلوں میں قرآن حکیم کی کتنی عزت اور عظمت ہے؟ہمارے شب وروز میں، ہمارے روزمرزہ کے معمولات میں قرآن حکیم کی اہمیت کتنی ہے؟ہمارے نظام الاوقات میں اس عظیم ترین کتاب کے لیے کتناوقت ہے؟ ہم نے آخری مرتبہ کب قرآن پاک کی تلاوت کی تھی، کب اس کو سمجھنے کی کوشش کی تھی اور کب جاننے کی کوشش کی تھی کہ اس میں ہمارے لیے کیا رہنمائی ہے ؟
ہم نے تو آج اس قرآن کو صرف مردے بخشوانے کا ذریعہ سمجھ لیا ۔کوئی عزیز انتقال کر جائے تو پھر قرآن کھلتا ہے ورنہ سات غلافوں میں بند کرکے طاق نسیاں میں رکھ دیا ہے ۔ الاماشاء اللہ!ہم نے اسے صرف ثواب کی کتاب سمجھ لیا۔ سوچینلز جودن بھرگندگی دکھاتے ہیںوہ بھی صبح ثواب کے لیے ایک گھنٹہ تلاوت لگاتے ہیں یاترجمہ لگاتے ہیں یاکسی کابیان لگاتے ہیں۔ا س کے بعد دن بھرساری دنیا کی فحاشی،بے حیائی ،گندگی دکھائی جارہی ہوتی ہے ۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جوناجائز کاروبار کر رہے ہوتے ہیں ، سود ی لین دین کر رہے ہوتے ہیں وہ بھی اپنی دوکانوں پر ، آفسز پر پیسے دے کرصبح تلاوت کرواتے ہیں۔جمعرات کے دن اگر بتی وغیرہ بھی جلواتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کا مقصد نزول کیا بتایا تھا :{ھدی للمتقین، ھدی للناس، یھدی للتی ھی اقوم}
اس ہدایت کے حصول کا تقاضا یہ تھا کہ ہم اسے سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں ، اس کا ترجمہ اور تشریح پڑھ کر ہدایت حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ خود نہیں پڑھ سکتے تو قرآن کی محافل میں بیٹھ کر سمجھنے کی کوشش کریں ،دروس قرآن کی محافل میں شرکت کریں ۔ پھرا للہ توفیق دے توقرآن پاک کی زبان بھی سیکھیں۔آج ہم اپنے بچوں کو انگریزی ، چائنی ، جاپانی ، جرمن زبانیں سیکھنے کے لیے بھیجتے ہیں ۔ کل قیامت کے روز اللہ پوچھے گا کہ قرآن تمہاری رہنمائی اور ہدایت کے لیے ہی نازل کیا تھا ، کیا تم نے قرآن کی زبان بھی سیکھنے کی کوشش کی تھی ؟
یہ قرآن صرف ثواب کے لیے نہیں آیا بلکہ اس کی تعلیمات اور تقاضوں پر عمل پیرا ہو کر زندگی گزارنا ، اس کی تعلیمات کے مطابق اپنا سیاسی ، معاشی اور معاشرتی نظام قائم کرنا اصل مقصود ہے۔ یہ قرآن اپنے احکامات کے نفاذ اور اقامت کا تقاضا کرتاہے ۔ اس کے احکامات کا نفاذ ہماری انفرادی زندگی میں بھی ہو ، ہمارے گھروں میں بھی ہو ، ہماری اجتماعی سیاسی ، معاشی اور معاشرتی زندگی میں بھی ہو، ہمارے کاروبار ، تجارت ، ملازمت ، ہمارے معاملات میں بھی ہو ۔ ہماری عدالتوں میں ، بازاروں میں ، ریاست میں ہر جگہ قرآن کی تعلیمات کے مطابق نظام قائم ہو ۔
یہ مملکت خداداد پاکستان اسی لیے ہم نے حاصل کی تھی کہ یہاں اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺکی عطاکردہ تعلیمات کے مطابق نظام کوقائم کیاجائے گا۔ پھراس قرآن حکیم کوہم مانتے ہیں کہ یہ اللہ کاآخری کلام ہے اور محمدمصطفیﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری رسول ہیں ۔ اب ختم نبوت کے بعد انسانیت تک ان تعلیمات کو پہنچانے کی ذمہ داری اس اُمت کی ہے ۔ آج انڈیا اور دوسرے ممالک میں شعائر اسلام پر عمل پیرا ہونے پر پابندی لگا دی گئی لیکن پاکستان میں ہم آزاد ہیں ، یہاں ہم قرآن کا نظام کم ازکم اپنی انفرادی زندگی اور گھروں میں تو قائم کر سکتے ہیں ، ہمیں کس نے روکا ہے ؟اگر ہم نماز نہیں پڑھتے ، جھوٹ بولیں ، ناپ تول میں کمی کریں ، ناجائز قبضہ کریں ، وراثت کامال ہڑپ کیا جا رہا ہو،پڑوسی کاحق مارا جارہا ہو،رشتہ دار کوستایاجارہا ہو تو اس میں ہمارا اپنا قصور ہے ۔ انڈیا ، اسرائیل یا امریکہ کی سازش تو نہیں ہے ؟ پھر ہم اپنی زندگیوں میں ، اپنے گھروں میں قرآن کا نظام قائم کیوں نہیں کرتے ؟
جہاں تک اجتماعی زندگی کے حوالے سے قرآنی احکامات کا تعلق ہے جن میں زکوٰۃ وعشر کی وصولی ، سود کا خاتمہ ، بے حیائی کا سدباب ، شرعی سزاؤں کا نفاذ ، عدل و انصاف کا قیام شامل ہیں تو یہ اجتماعی نظام تب قائم ہو گا جب ہم قرآن کی رہنمائی میں اجتماعی جدوجہد کریں گے ۔ یہ بھی ہمارے دینی فرائض میں شامل ہے ۔ حضور ﷺ کا اُمتی ہونے کے ناطے اب یہ ہماری ذمہ داری ہے ۔ پھر قرآن کا پیغام دوسروں تک پہنچانابھی ہماری ذمہ داری ہے لیکن دنیا ہماری بات پر غور تب کرے گی جب پہلے ہم خود قرآن کا نظام قائم کرکے دکھائیں گے ۔ ورنہ ہم دنیا کو لاکھ سمجھائیں کہ یہ قرآن سب سے بہترین کتاب ہے وہ نہیں مانیں گے ، وہ کہیں گے کہ ہمیں دکھاؤ قرآن کا نظام کسی ایک مسلم ملک میں ، کہاں ہے ؟
آج سود کا نظام سرے عام پاکستان میں چل رہا ہے ، کیا ہم دنیا کو دکھا سکتے ہیں کہ پاکستان میں قرآن کا نظام ہے ؟اسی طرح بے حیائی کاطوفان یہاں پر پھیلاہو، دنیا کے سارے جرائم ہمارے اپنے معاشرے میں ہوں تو ہم کیا دوسروں کو قرآن کی دعوت دینے کے اہل ہو سکتے ہیں ؟ لہٰذا پہلے اپنی زندگی ، اپنے گھر بار اور معاشرے میں قرآن کے احکامات کو نافذ کرنا ہوگا ۔ ختم نبوت کے بعد یہ ہمارا فرض ہے ۔جتنا ختم نبوت کے عقیدہ کا دفاع کرنا مسلمان پر فرض ہے اتنا ہی ختم نبوت کے تقاضوںکو پورا کرنا بھی ایک مسلمان پر فرض ہے اور یہ تقاضے تب پورے ہوں گے جب ہم قرآن کو پہلے خود سمجھنے اور پڑھنے کی کوشش کریں ، اس سے رہنمائی اور ہدایت حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ دروس قرآن اور قرآنی محافل میں شرکت کریں ۔ نبی اکرم ﷺ کے دور میں خطبہ جمعہ قرآن کو سمجھنے اور سننے کا بہترین ذریعہ تھا :
کان یقراء القرآن ویذکرالناس
آپﷺ قرآن پڑھتے اور لوگوں کو قرآن کے ذریعے سے نصیحت فرماتے ۔ جمعہ کو جمعہ بنانے والی شے خطاب جمعہ ہے اور خطاب جمعہ کا ایک بہت بڑا حاصل قرآن پاک کے ذریعے تذکیر ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: انسان کے دل پرزنگ چڑھ جاتاہے جیسے لوہے کو زنگ لگ جاتاہے ۔ آپﷺ سے پوچھاگیا : یارسول اللہ ﷺ!یہ زنگ کیسے دور کریں ؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کثرت سے موت کویاد کرواور کثرت سے قرآن حکیم کی تلاوت کرو۔‘‘
لہٰذا ضروری ہے کہ خطبات جمعہ میں سنت نبوی ﷺ کو زندہ کیا جائے ، اردو کے خطبے میں قرآن کا مطالعہ کیا جائے تاکہ لوگوں تک قرآن کا پیغام پہنچ سکے ۔ تنظیم اسلامی نے برسوں سے اس روایت کو قائم رکھا ہے ۔ تنظیم اسلامی نے بندوں پر قرآن مجید کے حقوق کے حوالے سے بھی کافی آگاہی دی ہے ۔ الحمد للہ ۔ بانی ٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرارا حمدؒنے 1967ء میں ’’ مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق ‘‘ کے عنوان سے ایک کتابچہ لکھا تھا جس کی تکمیل مسجد نبوی میں ہوئی تھی ۔ ڈاکٹر صاحب نے اس میں بہت جامع انداز میں قرآن مجید کے پانچ حقوق بیان کیے ہیں :
1۔قرآن پر ایمان لایا جائے ، زبانی اقرار کے ساتھ دل سے تصدیق بھی ہونی چاہیے ۔
2۔اس کی باقاعدہ تلاوت،آداب کے ساتھ تجوید کالحاظ رکھ کرکی جائے ۔
3۔اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تاکہ ا للہ تعالیٰ کے احکامات واضح طورپرسامنے آجائیں ۔آخرت کی فکر پیدا ہوجائے ۔اللہ سے تعلق کی مضبوطی کامعاملہ ہو جائے۔ معلوم ہو جائے کہ میری منزل کدھرہے ، میرا خالق کون ہے؟ وہ مجھ سے چاہتاکیاہے ۔ اس کے لیے ترجمہ، تشریح، عربی زبان پربھی توجہ کرنالازم ہے ۔
4۔قرآن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوا جائے ۔ انفرادی سطح پراس کے احکام پرفورا ًعمل شروع کیا جائے اور اجتماعی سطح پراس کے احکامات کے نفاذ کی کوشش کی جائے ۔
5۔اس کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین !
tanzeemdigitallibrary.com © 2025