(زمانہ گواہ ہے) روس یوکرائن جنگ اور اس کے نتائج - محمد رفیق چودھری

11 /

دنیا یونی پولر سے بائی پولر ہوتی ہوئی ملٹی پولر ہونے جارہی ہے ۔ ایسے میں مسلم ممالک کو مختلف بلاکس

میں ٹھوکریں کھانے کی بجائے متحد ہوکر خود ایک بلاک بنانا چاہیے : ایوب بیگ مرزا

یوکرائن نے عوامی جمہوریہ لوہانسک اور ڈونسک پر حملہ کرکے 20ہزار لوگوں کو قتل کیا اور ان

علاقوں میں روسی زبان اور کلچر پر بھی پابندی لگائی ، علاوہ ازیں امریکہ ، یورپی یونین، نیٹو نے

مل کر چاروں طرف سے روس کا گھیراؤ شروع کیاتو خطے میں جنگ چھڑگئی : رضاء الحق

 

روس یوکرائن جنگ اور اس کے نتائج کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

سوال: یوکرائن پرروسی حملے کو تین ہفتے ہونے کو ہیں ، پوری دنیا میں اس حملے کی بہت زیادہ مذمت کی جارہی ہے ، حتیٰ کہ روس میں بھی ہزاروں لوگ جنگ مخالف مظاہرے کررہے ہیں اور روسی حکومت ان کو پکڑ پکڑ کر قید میں ڈال رہی ہے ۔ کیاروس یوکرائن پرحملہ کرنے میں حق بجانب تھا؟
رضاء الحق:ہرجنگ کاایک تاریخی پس منظر ہوتا ہے۔ روس یوکرائن جنگ کے حوالے سے مغربی میڈیا ایک طرف کی کہانی سنا رہا ہے کہ روس ظالم بن کرحملہ آور ہوا ہے اوراس کو اس کا کوئی حق نہیں تھا، اس کی وجہ سے یوکرائن میں بہت ساری ہلاکتیں ہورہی ہیں،یہ کہ دوسری جنگ عظیم سے لے کر اب تک روس ہی جارح رہا ہے وغیرہ لیکن مغربی میڈیا کے پروپیگنڈا سے ہٹ کر دیکھا جائے تو بہت سارے دوسرے عوامل بھی صاف دکھائی دیتے ہیں۔ 2014ء میںعوامی جمہوریہ ڈونسک اور عوامی جمہوریہ لوہانسک یوکرائن سے علیحدہ ہوگئے تھے ۔ ان دونوں ملکوں کو دنیا نے تسلیم نہیں کیا تھااور یوکرائن نے ان علاقوں پر حملے کرکے 20ہزار روس نواز لوگ قتل کر دیے اور پھر ان علاقوں میں روسی زبان اور کلچر پر بھی پابندی لگادی تھی ۔ اس کے ردعمل میں ان علاقوں کے لوگوں نے روس کو مدد کے لیے پکارا۔ روس نے ان دونوں ملکوں کو21فروری 2022ء کو تسلیم کرلیا اور تین دن بعد یوکرائن پر حملہ کردیا۔ دوسری بات یہ کہ1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد آخری سوویت صدر گورباچوف ، امریکی صدر بش سینئر ، برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر اور جرمن چانسلر ہیلمٹ کول وغیرہ کے درمیان بلگریڈ معاہدہ ہوا تھا کہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد نیٹو مشرقی یورپی سابق سوویت ریاستوں میں کی طرف اپنا پھیلا ؤ نہیں کرے گا لیکن امریکہ اور یورپ نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 1999ء میں پولینڈ، ہنگری اور چیکوسلواکیہ تک کو نیٹو کا ممبر بنا لیا۔ اس پر روس نے احتجاج کیا تو ا نہوں نے بہانہ بنایاکہ یہ کوئی لکھاہوا معاہدہ نہیں تھاحالانکہ بہت سارے لوگوں کی آٹوبائیوگرافی سے اس معاہدے کی تصدیق ہوتی ہے ۔ پھر 2006ء میں مشرقی یورپ کے مزید چھ ممالک کوبھی نیٹو میں شامل کرلیاگیاجس پرروس نے دوبارہ احتجاج کیا کہ ایسا نہ کریں ۔ لیکن یورپ باز نہیں آیا۔ حالانکہ ان کے تھنکرز بالخصوص ہنری کسنجر اور میرشائمر یورپ کو خبردار کرتے رہے کہ روس کواس طرح کارنر نہ کرو ورنہ وہ بھی جواب دے گا۔ لیکن اس کے باوجود 2009ء میں البانیہ اورمونٹی نیگرو کوبھی نیٹو کاحصہ بنا دیا گیا۔ پھر2017ء میں دومزید ممالک کو بھی شامل کر لیا گیا۔ حتیٰ کہ 2021ء میں نیٹو نے بوسنیا، کوسوواور یوکرائن کو بھی اپنا حصہ بنانے کا اعلان کر دیا۔اس پرروس نے کہا کہ یہ میرے لیے ریڈلائن ہے۔ کیونکہ روس کے تجارتی معاملات یعنی گرم پانیوں تک رسائی کے لیے یوکرائن بہت اہمیت کاحامل ہے۔ اس وجہ سے آخر کار روس کو یہ انتہائی قدم اٹھانا پڑا۔ظاہر ہے وہ تمام ممالک جن کی سرحدیں روس کے ساتھ لگتی ہیں وہاں نیٹو اسلحہ سے لیس ہوکربیٹھ جائے گا یعنی روس کاچاروں طرف سے گھیرائو کردیاجائے گاتوپھر روس کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ وہ یوکرائن میں موجود روس مخالف قوتوں کو کسی نہ کسی طرح نیوٹرلائز کردے ۔
سوال: 24فروری سے پہلے تمام یورپی ممالک اور امریکہ یوکرائن کا ساتھ دینے کا دعویٰ کررہے تھے لیکن جیسے ہی روس نے حملہ کیاتوکسی نے بھی اس کا ساتھ نہیں دیا۔ آپ کے خیال میں مغرب نے ایسا رویہ کیوں اختیار کیا؟
ایوب بیگ مرزا:یوکرائن کے صدر زلنسکی صدر بننے سے پہلے ایک اچھے کامیڈین اداکار ضروررہے ہوں گے لیکن معلوم ہوتاہے کہ انہیں تاریخ سے کوئی شغف نہیں ہے۔ یوکرائنی صدر کومعلوم ہوناچاہیے تھاکہ امریکہ سمیت تمام بڑی طاقتوں کی اپنی ایک تاریخ ہے ، انہیں صرف اپنا مفاد عزیز ہوتاہے ، اپنے مفاد کی خاطر وعدہ خلافی کرنا ان کے نزدیک کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اور امریکہ تو اس حوالے سے سرفہرست ہے۔ بے شرمی سے وعدہ خلافی کرنا اور وعدہ خلافی کو قومی خدمت قرار دینا امریکیوں کا شیوا ہے ۔ 1962ء میں سوویت یونین نے کیوبا میں میزائیل لگائے تو کینیڈی نے سوویت یونین کو دھمکی دی کہ یہ میزائیل ہٹا لو ورنہ ہم ایٹمی جنگ شروع کردیں گے۔ سوویت یونین پیچھے ہٹ گیا۔ اسی طرح حالیہ دور میں امریکہ شام میں بشارالاسد کو گرانے کے لیے نکلاتھابلکہ اس کو تقریباً گراچکا تھا لیکن روس پوری طاقت کے ساتھ سامنے آگیا توامریکہ پیچھے ہٹ گیا ۔ 1965ء میں امریکہ پاکستان کاحلیف تھا اورپاکستان سیٹو سینٹو کارکن بھی تھالیکن پاک بھارت جنگ میں امریکہ نے پاکستان کی بجائے انڈیا کی مدد اس طرح کی کہ پاکستان کو اسلحہ دینا بند کر دیا اور بہانہ بنایا کہ انڈیا اور پاکستان دونوں کو اسلحہ نہیں دیا جائے گا۔ حالانکہ انڈیا تو روس سے اسلحہ لیتا تھا ، امریکہ سے لیتا ہی نہیں تھا۔ اسی طرح 1971ء کی جنگ میں امریکہ نے بحری بیڑا بھیجنے کا وعدہ کیا لیکن وہ آج تک نہ پہنچ سکا ۔ یہ عالمی طاقتوں کاایک طریقہ رہاہے کہ وہ اس وقت تک چھوٹے ممالک کو یقین دہانیاں کراتے رہتے ہیں جب تک ان کا مفاد پورا ہوتا رہے ۔ موجودہ جنگ میں بھی اگر کسی وقت ایسی صورت حال ہوگئی کہ بذات خود امریکہ یایورپ کے مفادات زد میں آگئے توپھر عالمی جنگ کامعاملہ بھی ہوسکتاہے۔ اگر چہ اس کے امکانات کم ہیں۔بہرحال کمزور ملک جب بھی بڑی طاقتوں پرانحصار کرتے ہیں توانہیں پچھتانا پڑتا ہے۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار روس کے پاس ہیں اور پھراس کی پشت پر چین بھی کھڑا ہے ۔ ایسی صورت حال میں امریکہ کبھی آگے نہیں آئے گا۔ البتہ اسلحہ دے سکتاہے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ابھی تک اسلحہ صرف ترکی نے بھیجاہے جو کہ ایک مسلمان ملک ہے ۔ یقینا اس میں مذہب کاعمل دخل اتنا نہیں ہے لیکن پھربھی ہم ترکی سے امید نہیںکررہے تھے کہ وہ امریکہ کی حمایت میں یوکرائن کو اسلحہ بھیج دے گا۔
سوال:اگر ہم جنگوں کاجائزہ لیں تودوسری جنگ عظیم سے لے کر2001ء تک248جنگیں ہوئی ہیں جن میں سے 201 امریکہ نے کروائی ہیں یعنی تقریباً 81فیصد ۔ امریکہ نے اپنے مفادات کی خاطر اتنی جنگیں شروع کیں، روس نے اگر اپنے تحفظ کے لیے ایک جنگ شروع کردی ہے توا س میں امریکہ کوکیاتکلیف ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:اس کو جواز مہیا کیاہے ۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ کے پاس اب صرف اسلحہ یاوار انڈسٹری رہ گئی ہے۔ یعنی امریکہ یاجنگ کرتاہے یا کرواتا ہے ۔
سوال:صدر پیوٹن نے اپنے ایٹمی دستوں کوتیار رہنے کا حکم دے دیاہے دوسری طرف جتنی بڑی جنگ ہولیکن مذاکرات کاراستہ کھلاہوتاہے ۔روس اور یوکرائن کے درمیان بھی ڈائیلاگ کا ایک سیشن ہواہے لیکن ناکام ہوا ہے ۔ مستقبل میں حالات کیارخ اختیار کریں گے ؟
رضاء الحق:اس وقت روس کے پاس تقریباً ساڑھے چھ ہزار ایٹمی ہتھیار موجود ہیں ۔ سوویت یونین سے علیحدہ ہونے والی ریاستوں میں سے تین کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود تھے۔ ان میں ایک یوکرائن بھی شامل تھا۔ تین ہزار کے قریب ایٹمی ہتھیار یوکرائن کے پاس تھے ۔ قازقستان کے پاس بارہ یاچودہ سو کے قریب تھے اور بیلاروس کے پاس 81تھے ۔1994 ء میں برطانیہ، امریکہ اور روس کا معاہدہ ہواکہ ہم ان ممالک کی حفاظت خود کریں گے اور یہ ایٹمی ہتھیار واپس دے دیں ۔چنانچہ ان تین ممالک نے اپنے ایٹمی ہتھیار 1996ء تک واپس کردیے ۔ اگر یہ واپس نہ کیے ہوتے تو روس حملہ نہ کرپاتااوریوکرائن بھی اس پوزیشن میں ہوتا کہ وہ نیٹو اورمغرب کو کہہ سکتا کہ میرے معاملات میں مداخلت نہ کرو میں خود اپنی آزاد خارجہ پالیسی بنائوں گا۔ لیکن اپنے ہتھیار دینے کے بعد یوکرائن مکمل طورپر دوسروں پرانحصار کرنے پرمجبور ہو گیا۔ اس وقت پروپیگنڈا کی جنگ اپنے عروج پرہے بالخصوص روس کو ظالم دکھایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف اس پروپیگنڈے میں نسل پرستانہ اور اسلاموفوبک رنگ بھی ڈالا جارہاہے ۔
سوال:مغربی میڈیا اس جنگ سے پہلے کہہ رہا تھاکہ جنگ ہوگی جبکہ روس خود یہ کہہ رہا تھاکہ جنگ نہیں ہوگی لیکن بالآخر جنگ ہوگئی ۔ یعنی مغربی میڈیاکا کہنا سچ ثابت ہوا۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟
رضاء الحق:جنگ میں پروپیگنڈا تو ہوتاہی ہے لیکن اس جنگ میں مغربی میڈیا انسانی تفریق کا ایک نیا تصور بھی پروپیگیٹ کر رہا ہے ۔ مغربی میڈیا کے ایک بڑے چینل پر ہٹلر کی زبان بولتے ہوئے یوکرائن کے لوگوں کے لیے "blond hair and blue eyes"کے تناظر میں یہ تک کہا گیا کہ عراق اور افغانستان میں تو غیر مہذب اور نان یورپین لوگ تھے ان کی تباہی اوربربادی ہوئی ۔ لیکن یہاں یوکرائن میں تومہذب یورپین لوگ ہیں ، ان پرظلم وستم ہم سے برداشت نہیں ہو گا۔ یعنی مسلمانوں کی نسل کشی توقابل قبول تھی لیکن یورپی لوگوں پر ظلم برداشت نہیںہورہا۔ حالانکہ محتاط اندازے کے مطابق عراق میں 14 لاکھ لوگ شہید کیے گئے ہیں۔ تازہ صورت حال یہ ہے کہ روسی فوج یوکرائنی دارالحکومت کیف کے قریب پہنچ چکی ہے۔ان کا پورا کانوائے ہے اور وہ چاروں طرف سے گھیر رہے ہیں۔ دوسری طرف بلیک سی اورکریمیا کی طرف سے بھی وہ یوکرائن میں داخل ہورہے ہیں ۔ تیسری طرف روس سے ملحقہ علاقے ڈان باس سے بھی روسی فوج یوکرائن میں داخل ہورہی ہے۔ تازہ رپورٹس کے مطابق میریوپول کاعلاقہ تقریباً روس کے قبضے میںجاچکاہے۔ خادکیو کے علاقے میں جنگ جاری ہے اور کیف کی طرف بڑھتے جارہے ہیں۔ روس کومعلوم تھاکہ سب اُس کے خلاف ہو جائیں گے لیکن اس کے باوجود اس نے یہ قدم اُٹھایا ہے تو سوچ سمجھ کر اور کسی مقصد کے تحت اُٹھایا ہوگا ۔ وہ اپنے مقاصد حاصل کرتا رہے گالیکن دوسری طرف وہ ڈپلومیسی کو بھی جاری رکھے گا۔
سوال: جس وقت روس نے یوکرائن پر حملہ کیا اُس وقت وزیر اعظم پاکستان عمران خان روس کے دور ے پر تھے ۔ یعنی وزیراعظم پاکستان کی موجودگی میں یہ حملہ ہوا۔ لہٰذا اس دورے کے حوالے سے controversy جاری ہے اور بعض تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ اس دورے کے بڑے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔کوئی ایم اویو سائن نہیں ہوا، کوئی مشترکہ بیان بھی نہیں آیا۔ آپ کے خیال میں اس دورے کے منفی نتائج برآمد ہوں گے یا مثبت؟
ایوب بیگ مرزا:ان تجزیہ نگاروں نے دونوں طرف کے اعتراضات جمع کیے ہوئے تھے کہ اگر یہ جائیں گے توہم کہیں گے کہ امریکہ کے ساتھ ہماراپرانا تعلق ہے ،اس کے ساتھ ہماری تجارت ہے ،یورپ کے ساتھ تجارت ہے ، ہماری ساری ٹیکسٹائل ادھر جاتی ہے ۔ ایسے موقع پردورہ کرکے امریکہ اور یورپ کو ناراض کردیاہے وغیرہ ۔ اگر عین موقع پر وزیراعظم یہ دورہ کینسل کردیتے توپھر یہی تجزیہ نگار کہتے کہ ہم نے بزدلی دکھائی ہے، ان کوجانا چاہیے تھاتاکہ پتاچلے کہ پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی ہے ،یہ ابھی تک امریکہ کے غلام ہیں ،انہوں نے امریکہ کی غلامی کا قلادہ پہنا ہواہے وغیرہ۔ اصل میں ہمارے ہاں صحافت کے بھی سیاسی عزائم ہوتے ہیں اور صحافی لوگ کسی نے کسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں سمجھتاہو ں کہ دنیاکاکوئی بڑا فائدہ رسک لیے بغیر نہیں ہوتا ،ہربڑے فائدے کے لیے ایک بڑا رسک لینا پڑتاہے۔ میں سمجھتاہوں کہ وزیراعظم نے برموقع رسک لیا ہے البتہ اگر وہاں جنگ شروع ہوچکی ہوتی اور دوچار دن گزر گئے ہوتے توپھر یہ کہاجاسکتا تھاکہ چونکہ وہاں جنگ شروع ہوچکی ہے لہٰذا اس دورے کو التوا میں ڈال لیتے ہیں۔ لیکن اگر عین موقع پر دورہ ملتوی کرتے توگویا روس کو یہ پیغام دیتے کہ ہمارا تم سے کبھی تعلق نہیں بن سکتا ۔ یہ بھی ہو سکتاہے کہ روس نے پاکستان کو آزمانے کے لیے عین اس موقع پربلایا ہوکہ اگر پاکستان روس کی طرف بڑھنے کا ارادہ رکھتاہے توان کے پائوں میں کتنی استقامت ہے ۔ اس دورے کے فائدے میں بیس لاکھ ٹن گندم کامعاہدہ ہوا ہے جوپاکستان امپورٹ کرے گااور روس کی گندم یورپی ممالک کی گندم سے زیادہ سستی ہے۔اس سے بڑا فائدہ پاک روس گیس معاہدے میں ہے اور یہ پاک روس تعلقات کے ضمن میں اچھا قدم ہے ۔ بہرحال پاکستان ہویاکوئی او ر ملک ہواسے صحیح اور آزاد خارجہ پالیسی اپنانی چاہیے، چاہے کوئی ناراض ہو یا خوش ہو۔ یہ ہم تب ہی کرسکتے ہیں اگر ہمارے تن میںجان ہو۔پاکستان کے تن میں جان نہیں ہے لیکن اس کے باوجود یہ فیصلہ بھاری پڑسکتاہے ۔ اگر ریاست پر نہ پڑا توحکومت پرضرور پڑے گا۔کیونکہ یورپ اور امریکہ اس وقت پاکستان پر بہت برہم ہیں۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق چند روز قبل 22یورپی ممالک کے سفراء نے سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسلام آباد میں ملاقاتیں بھی کیں اور ایک خط بھی لکھا کہ پاکستان اس معاملے میں یورپ اور امریکہ کا ساتھ دے اور روس سے قطع تعلق کر دے۔ بہرحال اگراس کا فائدہ ہوا تونارمل دورے سے زیادہ ہوگاکیونکہ پاکستان نے اپنے کارڈ شو کردیے ہیں۔ اب روس پر منحصرہے کہ وہ کس طرح کا جواب دیتا ہے ۔دوسری طرف وزیراعظم کے اس دورے کو چین کی پشت پناہی حاصل تھی۔اگر وزیراعظم یہ دورہ نہ کرتے تو روس نے پا کستان کاپتاکاٹنا ہی تھا،چین کی ناراضگی بھی مول لینی پڑسکتی تھی کیونکہ یہ دورہ ونٹراولمپکس کے موقع پرانائونس ہوا تھا جب پاکستان کے وزیراعظم اور روس کے صدر دونوں وہاں گئے ہوئے تھے ۔ یعنی اس کے پیچھے چین تھا۔ لہٰذا اس دورے سے صرف روس سے ہی تعلقات بہتر نہیں ہوں گے بلکہ چین سے بھی ہوں گے ۔ ان شاء اللہ!
سوال: یوکرائن پرروسی حملے کے بعد روس پر زیادہ تر پابندیاں لگ رہی ہیں ۔ اس صورت حال میں دنیا میں نئے بلاکس بنتے ہوئے نظر آرہے ہیں، مستقبل میں دنیاپران کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟
رضاء الحق:اب یہ بہت واضح ہوگیاہے کہ دنیا اب یونی پولر نہیں رہی بلکہ معاملہ بائی پولرسے بھی آگے بڑھ کر ملٹی پولرتک پہنچ سکتا ہے۔ یہ بلاکس ریڈلائنز بھی ہیں اور فالٹ لائنز بھی ہیں۔ ایک بلاک میں امریکہ اور یورپ موجودہے ۔ ان میں مشرقی یورپ کے ممالک بھی شامل ہیں اور یورپی یونین اور نیٹو جیسے اتحاد یوں کی حمایت ان کو حاصل ہے۔ اسرائیل توویسے ہی ان کا فطری اتحادی ہے۔ البتہ بھارت کامعاملہ ڈانواں ڈول ہے۔ دوسری طرف عرب ممالک کا بھی ان کی طرف جھکائوبڑھنا شروع ہو گیا ہے ۔ ترکی ایک طرف مسلم اُمہ کی امامت کی بات کرتا ہے لیکن دوسری طرف وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا رہا ہے اور حالیہ اطلاعات کے مطابق اس نے عسکری امداد یوکرائن کو دی ہے۔ مختصر اًیہ کہ اگر ترکی دوکشتیوں پرسوار ہونا چھوڑ کرایک کشتی کاسوار نہیں ہوتاتواس کے لیے بہت سارے مسائل کھڑے ہوجائیں گے۔ دوسری طرف روس، چین اور ان کے اتحادیوں کا بلاک ہے۔ ابھی سلامتی کونسل میں روس کے خلاف قرارداد لائی گئی تو اکثریت ممالک نے اس کی حمایت کی لیکن 35ممالک نے ووٹ دینے سے انکارکردیاجن میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اورسائوتھ افریقہ بھی شامل ہیں۔ یعنی وہ ذہن بنارہے ہیں۔پاکستان نے کم از کم یہ توذہن بنا لیا ہے کہ ہم امریکہ کے کیمپ میں مستقلاً نہیں رہیں گے کیونکہ اس کے نقصانات فوائد سے زیادہ ہیں ۔ پاکستان امریکہ اور یورپ کے مفادات کا محافظ نہیں ہے اور نہ ہوناچاہیے ۔ ہمارا ملکی مفاد سب سے بالاتر ہے۔ سورۃالمائدہ میں مسلمانوں کو خارجہ پالیسی کے لیے راہنمائی دی گئی ہے:
’’تم لازماًپائو گے اہل ِایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور ان کو جو مشرک ہیں۔اور تم لازماًپائو گے مودّت کے اعتبار سے قریب ترین اہل ِایمان کے حق میں اُن لوگوں کو جنہوں نے کہا کہ ہم نصاریٰ ہیں۔یہ اس لیے کہ ان میں عالم بھی موجود ہیں اور درویش بھی اور(اس لیے بھی کہ) وہ تکبر نہیں کرتے۔‘‘(آیت:82)
اس دنیا میں عیسائیوں کی تین بڑی قسمیں ہیں :
1۔رومن کیتھولک ،یعنی ویٹی کن اور اٹلی والے عیسائی۔
2۔پروٹسٹنٹ یعنی برطانیہ ،امریکہ وغیرہ کے عیسائی
3۔ ایسٹرن آرتھوڈاکس یعنی روس، یوکرائن وغیرہ ۔
پہلی دوقسموں میں علماء اور راہب کم ملتے ہیںاور ان لوگوں میں تکبر بہت زیادہ ہے۔حتیٰ کہ رومن کیتھولکس پوپ سے جب لوگ ہاتھ ملاتے ہیں تووہ ہاتھ ملا کرفوراً پیچھے ہٹا دیتا ہے۔ جبکہ پروٹسٹنٹ عیسائی ذائنسٹ جیوز کی طرح ہی ہیں، ان دونوں کانظریہ بھی ایک ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ یہودیوں کے ساتھ مل کر دنیا میں فساد پھیلاتا ہے ۔لیکن ایسٹرن آرتھوڈاکس چرچ میں تینوں چیزیں ہیں کہ ان میں علماء بھی ہیں ،گوشہ نشین لوگ بھی رہے ہیں اوران میں تکبر بھی کم ہے ۔اسلام کو سامنے رکھیںتو مستقبل میں مسلمانوں کی قربت رشین بلاک کے ساتھ بڑھے گی ۔واللہ اعلم!
سوال: مستقبل میں پاکستان اور امت مسلمہ کاجھکائو کیا امریکہ کی طرف ہوگا یاروس اور چین کی طرف ہو گا؟ اور کیا پاکستان اور اُمت مسلمہ کے پاس کوئی تیسرا آپشن بھی ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:میں اس کا جواب دیتے ہوئے ایک صدمے کی کیفیت میں ہوں۔ اس لیے کہ کیا اُمت مسلمہ کوامت وسطیٰ اس لیے کہاگیا تھا کہ وہ دوسروں کو دیکھے کہ وہ کیاچاہتے ہیںاور اُن کی مرضی کے مطابق چلے ؟ یہ ہمارے لیے شرمناک بات ہے ۔بہرحال عربوں نے امریکی غلامی کا قلادہ پہنا ہواہے ۔میراتجزیہ یہ ہے کہ عرب ممالک امریکہ سے خوفزدہ تو ہیں اور وہ امریکہ سے دور جانا چاہتے ہیں لیکن وہ ساتھ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کی عیش وعشرت، بدمعاشیاں بھی قائم رہیں اور اس کے ساتھ ان کا سیاسی قبلہ تبدیل کر کے ایک نئی قوت کے ساتھ جوڑ دیاجائے لیکن ایسا نہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہو گا۔ پاکستان اپناقبلہ تبدیل کررہاہے لیکن ہم سوچ نہیں سکتے کہ اس وقت پاکستان پرکس قدر خطرات منڈلا رہے ہیں اور امریکہ ایک بھوکے شیر کی طرح پاکستان پر حملہ آور ہونا چاہتاہے۔ کیونکہ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن بہت اہمیت کی حامل ہے ۔ پاکستان کا عالمی جنگ میں کیارول ہو گا اس کو سامنے رکھیں توامریکہ پاکستان کو کبھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اس سے پہلے امریکی جمہوری کانفرنس میں شرکت نہ کرنااور ونٹراولمپکس میں شرکت کرنا ایسے اقدامات تھے کہ اس پر امریکہ نے سخت قدم نہیں اٹھایا لیکن روس کا حالیہ دورہ ایسا قدم تھا جس کے بعد اب امریکہ کھلادشمن بن کر سامنے آئے گا۔ اب اس نے دھمکیاں دینی شروع کر دی ہیں اور یورپین سفارت کاروں نے اسلام آباد میں جارحانہ انداز اختیار کیاہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ جنگ پرتلے ہوئے ہیں لیکن اصل بات وہی ہے کہ پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونا چاہیے اور اسے یہ دیکھنا چاہیے کہ اُمت مسلمہ کامفاد کیا ہے اور پاکستان کا مفاد کیاہے لیکن چونکہ ہماری وہ پوزیشن ہی نہیں ہے۔ لہٰذا ہم دعا ہی کرسکتے ہیں۔ پاکستان جتنا امریکہ سے پیچھے ہٹ چکا ہے اور چین اور روس کے قریب آیاہے اس سے لگتا یہی ہے کہ پاکستان اسی کیمپ میں جائے گا۔ واللہ اعلم !