(زمانہ گواہ ہے) حقیقی آزادی مارچ کا ڈراپ سین - محمد رفیق چودھری

8 /

موجودہ حکومت پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے خلاف سخت اقدامات کرکے جمہوری رویوں

اور آئینی حقوق کی خلاف وزری کی مرتکب ہوئی ہے جس کی وجہ سے قیمتی انسانی جانوں

کا نقصان ہوا :ایوب بیگ مرزا

بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒکے بقول چونکہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر بنا ہے اس لیے

مسلمانانِ پاکستان کامعاملہ بڑا عجب ہے کہ اگر وہ پاکستان کی حفاظت کریں گے تو گویا اپنے

دین کی حفاظت کریں گے اور یہ اُخروی نجات کا بھی باعث ہوگا :رضاء الحق

حقیقی آزادی مارچ کا ڈراپ سین کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :ڈاکٹر حسیب اسلم

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:موجودہ حکومت نے پی ٹی آئی کے لانگ مار چ کو آہنی ہاتھوں سے روکنے کی کوشش کیوں کی ؟
ایوب بیگ مرزا:اگر ہم پاکستان کی سیاسی تاریخ کامطالعہ کریں توبہت سی چیزیںمایوس کن دکھائی دیتی ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان سیاسی طورپر جمہوریت کی طرف کافی حد تک بڑھا ہے ۔ پہلے احتجاج،دھرنے وغیرہ جیسی چیزیں بالکل ناقابل قبول تھیں۔ خاص طورپر ایوب خان کے مارشل لاء کے بعد جب لوگوں نے سیاسی بیانات بھی دینے شروع کیے اورمظاہرے اور جلسے جلوسوں کا سلسلہ بھی شر وع ہواتوآہستہ آہستہ جمہوریت نے یہاں پائوں جمائے ہیں۔ نواز شریف کے دورمیں بے نظیر نے لانگ مارچ کیاتھاتونواز شریف نے بڑے سخت اقدامات کیے تھے اور تمام ذرائع ابلاغ بند کردیے تھے ۔ لیکن جب 2014ء میں عمران خان نے نوازشریف ہی کے دور حکومت میں دھرنا دیا تونواز شریف کارویہ جمہوری تھا۔ بہرحال جمہوریت پھرہم پرغالب آتی گئی اور ہمارے لیے جمہوریت کے سوا گزارا نہیں تھاکیونکہ دنیا اس طرف جا چکی تھی ۔ عمران خان کے دھرنے کے بعد بہت دھرنے ہوئے ،مولانافضل الرحمان نے بھی پندرہ بیس دن پُرامن دھرنادیے رکھا۔ پھربلاول بھٹو نے حال ہی میں لانگ مارچ کیا ہے وہ بھی پُرامن رہا۔ لیکن تحریک انصاف کے حالیہ دھرنے کے خلاف حکومت نے جمہوری رویوں کو پھر کچل دیا ۔ میں سمجھتاہوںکہ موجودہ حکومت سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے کہ انہیں اتنے سخت اقدامات نہیں کرنے چاہئیںتھے۔ جتنی زیادہ تعداد میں بھی لوگ آجاتے تو کیا ہوتا۔ حکومت ریڈزون کو مکمل طور پر بند کرلیتی، کوئی اس طرف نہ آسکتا۔ باقی اسلام آباد میں کیاہوجانا تھاایک دو دن لوگ بیٹھ کرواپس چلے جاتے۔حکومت کے اس اقدام کی وجہ سے دونوں طرف سے لوگ جاں بحق ہوئے جو بہت بڑا نقصان ہے۔حکومت کسی کی بھی ہو اسے ایسی صورت حال سے بچنا چاہیے ۔ میں اس معاملے میں کہوں گاکہ حکومت نے وزیرداخلہ کے لیے غلط آدمی کاچنائو کیاجس کی ریپوٹیشن پہلے سے ہی خراب تھی۔
سوال: کیاپاکستان میں سیاسی اورمعاشی کشیدگی کی وجہ سے سری لنکاجیسے حالات پید اہونے کا خدشہ ہے ؟
رضاء الحق: بہت سے تجزیہ نگاروں اورسیاستدانوں نے کہا ہے کہ خدشہ ہے کہ پاکستان میں سری لنکاوالے حالات بن سکتے ہیں۔ لیکن جہاں تک امریکہ کاتعلق ہے تو پاکستان کو کمزور سے کمزور کرنااور یہاں پرخانہ جنگی پیدا کرنااس کی بہت پرانی کوشش ہے ۔ خاص طور پر جب وہ افغانستان، عراق ،شام اور لیبیا میں ایسی سول وار کروا رہا تھا اس وقت سے اس کی کوشش تھی کہ پاکستان میں بھی سول وار کروائی جائے ۔ لیکن الحمدللہ !ہماری سیاسی ومذہبی جماعتیں ، عوام اور ہماری اسٹیبلشمنٹ اس معاملے میں ایک پیج پر رہے ہیں اور دشمنوں کی ساری چالوں کو ناکام بنایا۔ یہاں تک کہ 2019ء میں امریکہ کی نیشنل سکیورٹی کی پالیسی میں پاکستان اور یوکرائن کو بریکٹ کیاگیا تھاکہ جیسے یوکرائن میں معاملات ہیںپاکستان میں بھی اس طرح کی کوشش کی جائے۔ جہاں تک سری لنکا کے حالات کا تعلق ہے تو سری لنکا کی معیشت پاکستان سے اتنی بری نہیں تھی بلکہ شاید بہتر ہو البتہ پاکستان کی اکانومی بڑی ہے کیونکہ پاکستان بڑا ملک ہے اور عسکری لحاظ سے ایٹمی ملک بھی ہے ۔ لیکن سری لنکا چھوٹا ملک ہے اور سٹریٹیجکلی اہمیت بھی کم رکھتاہے ۔ فر ق یہ تھاکہ وہاںپر2007ء سے ایک ہی خاندان کی اجاری داری تھی کیونکہ وہاں کی حکومت اور اداروں کے بڑے عہدے اس خاندان کے پاس تھے ۔ حتیٰ کہ دوبڑے میڈیاہائوسز بھی ان کے کنٹرول میں تھے لہٰذا سری لنکا کے حالات پاکستان سے بالکل مختلف تھے ۔ پاکستان میں عدم اعتماد کی تحریک کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ان میں دونوں فریقوں کاقصور رہا ہے ۔ہماری سیاسی تاریخ میں 12مئی کا دن بھی آتا ہے جب وکلاء کی تحریک میں ریاستی مشینری کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو ٹارگٹ کیا گیا اور بُری طرح کچلا گیا ۔ پھرن لیگ کے پہلے دور حکومت میں ماڈل ٹائون کاواقعہ ہوا جس میں تقریباً چودہ بندے قتل ہوئے تھے ۔ پھرعمران حکومت میں تحریک لبیک والوں کے ساتھ بھی ایسا ہوا۔ پھر عمران خا ن کے حالیہ دھرنے کے خلاف بھی جو کچھ ہوا وہ ٹھیک نہیں تھا ۔ اگر ماضی میں ریاستی مشینری کا غلط استعمال کرنے کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جاتی توآج یہ معاملات پیش نہ آتے۔ پھرہماری بڑی سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ میں ایک دوسرے کے ساتھ ذاتی دشمنی تک کے معاملات پہنچ چکے ہیں اوریہ چیز پھر عوام میں بھی ریفلیکٹ کرتی ہے ۔ ماضی میں ہماری سیاسی جماعتیں بڑی سمجھ بوجھ کے ساتھ ان معاملات کو tackleکرتی رہی ہیں۔ ابھی بھی لانگ مارچ پرامن طورپر ختم ہوگیا اور تصادم کامعاملہ نہیں بناجو اچھی صورت حال کاپیش خیمہ ہے ۔
سوال:ماضی قریب میں مولانافضل الرحمان نے لانگ مارچ کیاجس کانام آزادی مارچ رکھاتھا۔ ابھی پی ٹی آئی والوں نے اپنے لانگ مارچ کانام آزادی مارچ رکھا۔ ان دونوں میں مارچوں میں کتنافرق ہے اورپھر موجودہ مارچ میں صرف انتخابات کامطالبہ ہی کیوں رکھاگیا؟
ایوب بیگ مرزا: پی ٹی آئی والوں نے اس کو حقیقی آزادی مارچ کانام دیا ہے۔ پی ٹی آئی کاموقف ہے کہ اس مارچ کی نوبت اس لیے پیش آئی کہ ایک سپرپاور نے داخلی سطح پرکچھ لوگوں کے ساتھ مل کر پاکستان کی حکومت کو گرایا یعنی رجیم چینج کی ہے۔ پھراس سپرپاور کی اس حوالے سے ایک تاریخ ہے ۔ اگر ایک باہر کی سپرپاور ہمارے داخلی معاملات میں اتنی مداخلت کرتی ہے کہ حکومت تبدیل کر سکتی ہے تواس کامطلب ہے کہ ہم ابھی آزاد ہی نہیں ہوئے ،ابھی ہم دوسروں کے محتاج ہیں۔ ابھی کچھ قوتیں ٰٓایسی ہیںجوعوام کی مرضی کے خلاف کام کرتی ہیں ،عوام کی مرضی کے خلاف حکومتیں بدل دیتی ہیں۔
سوال:جس سپرپاور کی آپ بات کررہے ہیں اس نے توہمیشہ ہمارے ساتھ ایسا کیااس دفعہ کیانئی بات تھی ؟
ایوب بیگ مرزا:یہ سپرپاور اس سے پہلے اس طرح کے کام خفیہ انداز میںکرتی تھی کہ نہ وہ مانتے تھے نہ ہم مانتے تھے توکام چلتا رہتاتھا ۔لیکن اب یہ فرق پڑا کہ اس نے کھلم کھلامداخلت کی ہے اور اعلانیہ ڈنکے کی چوٹ پر ایسا کیا ہے کیونکہ اب وہ سپرپاور بہت زیادہ متکبر ہوگئی ہے اور وہ اس طرح کے اقدامات کرکے ان کا اظہار کرنے میں کوئی عار محسوس نہیںکرتی ۔ دوسری طرف ہم کمزور سے کمزور تر ہوگئے ہیں ،ہم مفلوج،مقروض سب کچھ ہوگئے ہیں ۔ چنانچہ اگلا کہتاہے کہ میںنے ان کے ساتھ یہ برا سلوک کیاہے ،یہ اسی قابل ہیں ۔ اس سپرپاور کایہ انداز ہے۔امریکیوں نے عدالت میں کہاتھاکہ پاکستانی تووہ ہیں جوڈالروں کی خاطر اپنی ماں کوبیچ دیتے ہیں۔ماضی میں یہ سارا کام خفیہ انداز میںہوتا رہا ۔ ہمارے لوگوں کامعاملہ یہ ہے کہ ہمارے موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں یہ تسلیم کیاہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو امریکہ کی طرف سے سنگین دھمکی دی گئی تھی ۔ یعنی ہم نے تسلیم کیا کہ ہم اس طرح ذلیل ورسوا ہوئے ہیں اور امریکہ نے کہا کہ ہم نے پاکستان کویوں ذلیل ورسوا کیا ہے ۔امریکہ کے اس انداز نے پاکستان کی قومی غیرت کو جگایاہے ۔ وگرنہ مہنگائی کی وجہ سے عمران خان کی ساکھ بری طرح متاثر ہو چکی تھی۔ کراچی کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی پوزیشن پانچویں نمبر پرتھی لیکن آج کراچی کی عوام ان کے لیے ماریں کھارہی ہے ۔ اس کی وجہ عمران کی محبت نہیں ہے بلکہ امریکہ کے اس عمل پرعوام کاجاگ اٹھناہے ۔ اللہ کرے کہ اس کے مثبت نتائج نکلیں۔
سوال:امریکہ کی مداخلت کاانتخابات کے مطالبے کے ساتھ کیاتعلق ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:ہرسیاستدان سیاست میں اس لیے آتاہے کہ وہ اقتدار حاصل کرے اور وہ وقت اور حالات کی تبدیلی کافائدہ اٹھاتاہے۔ خود عمران خان کہتا ہے کہ جب میں ایوان اقتدارسے نکلاہوں تومیں بالکل اکیلا تھا کوئی میرے ساتھ نہیں تھا۔ لوگ ہمیشہ حکمرانوں کے نکلنے پر مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں لیکن پھر کیاہوا کہ قوم بدل گئی اورعمران خان نے اس کو استعمال کیا۔ اب وہ انتخابات کااس لیے مطالبہ کررہاہے کہ مجھے ووٹ دوگے اوراقتدار دو گے تومیں امریکہ کی غلامی سے نکالوں گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ اقتدار میں آئے گا توپاکستانی قوم غلامی سے نکل جائے گی۔ میں کہہ رہا ہوں کہ ایک سیاستدان حالات وواقعات کاکس طرح فائدہ اٹھاتاہے ۔
سوال: بیانیہ کے طورپریہ بات بھی کہی جاتی ہے اگرالیکشن ہوجاتے ہیں اورعوام اگر خودہی موجودہ حکمرانوں کو منتخب کرلیتے ہیں توپھر کوئی مسئلہ نہیںہے لیکن غیرملکی مداخلت کے نتیجے میں ایسی حکومت نہ آئے ؟
ایوب بیگ مرزا:الیکشن کے dynamicsبالکل الگ ہوتے ہیں اور جلسوں کے بالکل الگ ہوتے ہیں ۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ عمران خان کے جلسوں میں بڑے لوگ آرہے ہیں لہٰذا اس کی جیت یقینی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر عمران خان کے سیاسی حریف انتخابات جیت جاتے ہیں توعوام بالکل مطمئن ہوجائیں گے ان کے اوپر سے امپورٹڈ کالیبل اتر جائے گا۔
سوال: عمران خان کاایک اندرون ملک بیانیہ سامنے آیااو رپھر ساتھ ساتھ ایک بیرون ملک بیانیہ بھی سامنے آیا۔ حال ہی میں عمران خان نے سی این این کے انٹرویو میں کھل کرامریکہ پرتنقید کی ۔کیایہ رویہ نامناسب نہیں ہے؟
رضاء الحق:یقیناًعمران خان نے ملکی بیانیہ کے ساتھ ساتھ عالمی بیانیہ ترتیب دیا ہے اور انہوں نے بہت جارحانہ انداز سے اس کوبیان بھی کیاہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ امریکہ نے کس طرح ان کے خلاف سازش کی۔ کچھ کالم نگاروں نے کہاہے کہ یہ بات پاگل پن (paranoia)پیرانویاتک پہنچ جاتی ہے۔اصل میں ملکوں کی تاریخ میں کچھ ایسے لوگ آیاکرتے ہیں جو بسااوقات اپنے ملک کی روایتی سیاست کے بت کو پاش پاش کردیتے ہیں۔ امریکہ کی تاریخ میں اس طرح کی مثال ٹرمپ تھا،وہ جوبات کہنے والی ہوتی تھی وہ منہ پہ کہہ دیتا تھا۔ یہی معاملہ عمران خان کاہے کہ کئی مرتبہ وہ بہت زیادہ سوچے بغیر ہی کوئی بات کہہ دیتے ہیں۔ یعنی وہ کوئی سوچ بچارنہیں کرتے کہ اس کے نتائج کیانکلیں گے ۔ بظاہر یہ رویہ نامناسب لگتاہے لیکن ایسے سیاستدانوں کی مثالیںموجود ہیں جواس انداز سے کامیاب بھی ہوئے اور اپنے ملک کولے کر آگے بھی گئے ہیں ۔
سوال:عمران خان کی لانگ مارچ کی کال کے بعد منزل پرپہنچ کراچانک دھرناختم کرنے کی کیاحکمت ہے؟
ایوب بیگ مرزا:میری نظر میں وہ شخص سیاستدان نہیں ہے جو بہت ہی ہارڈ لائن اختیا رکرتاہے اورا س میں لچک نہیںہے۔ سیاست میں انسان کوکسی نہ کسی سطح پر لچک دکھانی پڑتی ہے۔ برصغیر میں سب سے زیادہ اصولی سیاستدان قائد اعظم محمد علی جناح تھے لیکن انہو ں نے بھی جب کیبنٹ مشن کوتسلیم کرلیا توان پر یہ جملے بولے گئے کہ قائد اعظم پاکستان کے مطالبے سے دستبردار ہوگئے لیکن قائد اعظم بہت بڑے لیڈر تھے ۔ انہوں نے یہ کام کرکے انگریز کوکوئی یکطرفہ قدم اٹھانے سے روک بھی دیاجب دوسری طرف سے پنڈت نہرو کے منہ سے ایک جملہ نکلا تو ردعمل میں قائداعظم نے دوبارہ پہلا موقف اختیار کر لیا ۔ عمران خان نے بھی چھ دن کی مہلت دے کر دھرنا ختم کر دیا ۔ اب اگر موجودہ حکومت دس بارہ دن میں کوئی الیکشن کااعلان نہیںکرتی توپھر یہی سمجھاجائے گاکہ عمران خان بری طرح پسپا ہوئے ہیںاوروہ اپناہدف نہیں حاصل کرسکے ۔ کیونکہ عمران خان نے چھ دن کاالٹی میٹم دیا ہوا ہے ۔ اگر اس الٹی میٹم میں کامیا ب ہوتے ہیں توان کی کامیابی متصور کی جائے گی۔اگر حکومت الیکشن کی تاریخ دیتی ہے توپھر مفاہمت ہوگی اورقوم کی جیت ہوگی ۔اللہ تعالیٰ نے اہل پاکستان کوایک دوسرے کے خلاف خونریزی کرنے سے بچالیااور دشمنوں کی امیدوں پر پانی پھرگیااور بالخصوص پاکستان کی سکیورٹی کامسئلہ حل ہوگیا۔
سوال: جمہوری ممالک میں پُرامن احتجاج کی اجازت کن شرائط کے ساتھ دی جانی چاہیے ؟
رضاء الحق:تنظیم اسلامی نظری سیاست اور عملی سیاست میں صرف انقلابی سیاست پریقین رکھتی ہے۔ انتخابی سیاست پرہم یقین نہیں رکھتے لیکن اس کے اوپر تبصرہ ضرور کرتے ہیں۔ بادشاہتوں اورآمریتوں کی حکومتوںمیںسختی بہت ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کے پاس احتجاج کی گنجائش نہیں ہوتی ۔پاکستان میں اگرچہ درمیان میں مارشل لاء ز آتے رہے لیکن اب کچھ عرصے سے جمہوری عمل ہی چل رہاہے اوراس میں ایک تسلسل نظر آرہا ہے ۔ ماضی میںپاکستان میںجب بھی اس طرح کے کشیدہ حالات پیدا ہوتے تھے توبانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرارا حمدؒ کہاکرتے تھے کہ جب تک یہاں اسلامی نظام قائم نہیںہوجاتاتواس سے پہلے بہتر یہی ہے کہ آمریت سے بچاجائے اورجمہوری نظام کوبحال کرنے کے لیے الیکشن کروا دیے جائیں۔جہاں تک احتجاج کی شرائط کامعاملہ ہے تو ہمارے آئین کی شق8سے 28 تک بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ہیں اور ان میں احتجاج کاآئینی حق لوگوں کو دیاگیاہے۔ہم پارلیمانی نظام کے حوالے سے برطانیہ کو فالو کرتے ہیں اور برطانیہ میںلندن کے ہائیڈ پارک میں لوگ اکثر احتجاج کرتے ہیں ۔ جب عراق کے اوپر امریکہ نے حملہ کااعلان کیاتھا اوربرطانیہ نے اس کا ساتھ دیا تھا تو تقریباً ایک ملین لوگوں نے وہیں پر آ کر احتجاج کیاتھا ۔
سوال:کسی جگہ کھڑے ہوکراحتجاج کرنااور دوسرے پر احتجاج کاپریشر ڈالنااور دھمکیاں دینا کہ ہم جوبات کہہ رہے ہیں وہ مانو‘کیا یہ دونوں الگ چیزیں ہیں؟
رضاء الحق: برطانیہ میںیہ روایت ہے کہ اگرکسی کے خلاف تحریک عدم اعتمادکامیاب ہوتی ہے تووہاںفوری نئے انتخابات کرائے جاتے ہیں۔ البتہ اس روایت کو2011ء سے2021ء تک ختم کیاگیا تھاجس کی وجہ سے انہیں بہت سے مسائل کاسامنا کرناپڑا تھا چنانچہ اب وہی روایت انہیںدوبارہ بحال کرنی پڑی ۔اس روایت کی حکمت یہ ہے کہ ملک میں انتشارنہیںپیداہوتااور ملک میں سیاسی امن وامان برقرار رہتاہے ۔لیکن برطانیہ میں صر ف دو یاتین بڑی پارٹیز ہیںاور احتجاج کے دوران ریڈ لائنز کو مدنظر رکھا جاتا ہے ۔ پاکستان نظریاتی طورپر ایک اسلامی ریاست ہے جس کی تین بنیادی ریڈ لائنز ہیں ۔
1۔کسی بھی لانگ مارچ یااحتجاج میںدین کے شعائر کے خلاف کوئی بات نہیںہونی چاہیے ۔یادین کے شعائر کے خلاف کسی چیز کی منظوری کے لیے لانگ مارچ نہیںہونا چاہیے۔ ہم عورت مارچ کے خلاف اسی لیے آواز بلند کرتے ہیں کیونکہ اس میں اسلام کے شعائر کے خلاف باتیں ہوتی ہیں اور خلاف اسلام باتوں کوپروموٹ کیا جاتا ہے ۔
2۔اسی طرح یہاں لانگ مارچ کا کاز ایسا نہیں ہونا چاہیے جو ملکی سالمیت کے خلاف ہو۔بانی تنظیم اسلامی فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان کامعاملہ مسلمانوں کے لیے بڑا عجیب ہے ۔ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے ۔ اس کی سالمیت کی حفاظت کی جائے گی تودین کی حفاظت ہوگی جواُخروی نجات کاباعث بنے گی ۔
3۔اسی طرح بڑے پیمانے پرامن عامہ خراب کرنے کی کوشش والا لانگ مارچ بھی ریڈلائن کے زمرے میں آئے گا۔
سوال:تنظیم اسلامی انقلابی سیاست کی دعوت دے رہی ہے۔ اس کے آخری مراحل میں پُرامن احتجاجی تحریک کے ذریعے تصادم کامرحلہ آتاہے ۔ موجودہ حالات میں تنظیم اسلامی کے لیے کیا سبق ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:تنظیم اسلامی کی تحریک کے چھ مراحل ہیں۔ پہلا مرحلہ کسی نظریے کو قبول کرلینا ۔ دوسرا مرحلہ افراد کو منظم کرنا ، تیسرا مرحلہ جماعت کی تشکیل اور تربیت ۔ یہ تین بنیادی مراحل ہیں ۔ اس کے نتیجے میں ایک ردعمل آئے گا جس پر جماعت کے لوگوں نے صبر کرنا یعنی صبرمحض (passive resistance)۔ صبرمحض انقلابی جدوجہد کا مشکل ترین مرحلہ ہے ۔ اس مرحلے میں وہی کامیاب ہوگا جس کے سامنے دنیاکی اہمیت کم ہوگی اورصرف اُخروی فلاح ہوگی۔ اس میں دنیوی کامیابی اس طرح ہوگی کہ لوگوںکی ہمدردیاں جماعت کے کارکنوں کو حاصل ہوں گی کیونکہ وہ ریاستی تشدد کے باوجود کسی قسم کی جوابی کارروائی نہیں کر رہے ہوں گے ۔ پھر شروع میں ان برائیوں کوختم کرنے پر احتجاج ہوگا جو معاشرے میں متفق علیہ ہیں۔ جیسے سود،فحاشی وعریانی، عدل وانصاف کی عدم دستیابی وغیرہ ۔ اس وقت جوجلسے اور جلوس اتنے کامیاب ہورہے ہیں یہ خالص دنیوی معاملے کے لیے ہیں اگر ان کے ساتھ اللہ کے دین کامعاملہ جڑ جائے تواس اپ رائزنگ میں مزید نکھار آسکتاہے ۔یعنی ایک ایساسیلاب آئے کہ جو باطل کوبہاکرلے جائے اور اس میں کسی قسم کی خونریزی بھی نہ ہو۔ لیکن اس کے لیے پہلے سارے مراحل کو طے کرنا بہت ضروری ہے ۔ حالیہ احتجاج میں تحریک انصاف کے کارکنوں کو جس طرح روکا گیا اور ان پر شیلنگ کی گئی تودینی جماعت کواس سے زیادہ تکالیف کے لیے اپنا ذہن بنانا چاہیے۔ دینی جماعت کے کارکن اس اصول پرمیدان میں آئیں گے کہ ہم خون دینے کے لیے تیار ہیں لیکن کسی کا خون نہیں کریں گے۔ اسی میں پھر خاموش اکثریت کی حمایت حاصل ہوگی اور پھرکامیابی یقینی ہوگی ۔ ان شاء اللہ