(انسداد سود) اللہ اور اُس کے رسولﷺ سے جنگ - حافظ عاکف سعید

8 /

اللہ اور اُس کے رسولﷺ سے جنگ

حافظ عاکف سعید(سابق امیر تنظیم اسلامی)

 

مسلم شریف کی ایک حدیث کے مطابق حضرت ابو سعید الخدریؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسولﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جو شخص بھی تم میں سے کوئی منکر (برائی) دیکھے تو اسے چاہیے کہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے اگر اس کی قوت و استطاعت نہ رکھتا ہو تو زبان سے روکے اور اگر اس کی ہمت و استطاعت بھی نہ رکھتا ہو تو دل میں اسے برا سمجھے (یعنی اس برائی سے بے زاری اور نفرت رکھے)۔ اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘۔ معلوم ہواکہ اسلامی معاشرے میں منکرات اور برائیوں سے روکنا اور منع کرنا اہل ایمان کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ ہمارا دین ایسے کسی تصور کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا کہ جو کوئی برائی کرتا ہے کرتارہے‘ اللہ خود اس سے پوچھے گا! چنانچہ جہاں آپ کو اختیار اور طاقت حاصل ہو اور آپ روک سکتے ہوں تو اپنی اتھارٹی کے بل پر منکرات کو روکنا دینی فریضہ ہے۔ مثلاً گھر کے سربراہ کو گھر کے اندر یعنی اپنے دائرۂ اختیار میں اگر کوئی منکر یا خلاف ِ شریعت کام نظر آئے ہو تو یہ اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ منکرات کے خلاف اپنی اتھارٹی کو استعمال کرے۔ کسی سکول یا کالج کے سربراہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ادارے کے اندر کسی بھی غلط کام کو روکے اور اپنے اختیار کو بروئے کار لائے۔ اسی طرح حکومت کو ازخود یہ طاقت حاصل ہوتی ہے اور ارباب اختیار کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان تمام برائیوں کا قلع قمع کرے جو اس ملک میں پھیل رہی ہوں۔ کسی نظریاتی ملک اور بالخصوص اسلامی ریاست میں تو یہ کام اہم تر ہوجاتا ہے کہ حکمران اور اصحاب ِاقتدار معاشرتی برائیوں اور منکرات پر کڑی نظر رکھیںاور ان کے فروغ کو ہر ممکن ذریعے سے روکنے کی کوشش کریں۔ اور آخری حربے کے طور پر طاقت کے استعمال سے بھی دریغ نہ کریں۔
اسی حدیث مبارکہ کے اگلے الفاظ بھی لائق توجہ ہیں۔ یعنی ’’پھر اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو اپنی زبان سے اس منکر کو بدلنے کی کوشش کرے۔‘‘ یعنی اگر ریاست اپنی یہ ذمہ داری پوری نہیں کرتی تو ریاست کے باشعور مسلمان، بالخصوص علماء کرام اور رجال دین کی ذمہ داری ہے کہ منکرات اور برائی کے خلاف عوام کی ذہن سازی کریں اور تحریر وتقریر کے ذریعے اس کے خلاف جہاد کریں۔ مختلف معاشرتی برائیوں اور منکرات کو منکر قرار دیتے ہوئے ریاستی اداروں اور حکومتی اہلکاروں کو ان منکرات کے سدباب کی طرف متوجہ کریں اور حتی الوسع اپنی یہ کوشش جاری رکھیں‘ خواہ اس راستے میں کتنی ہی مشکلات حائل ہوں۔ پھر اگر ایسی صورت حال ہو کہ زبانوں پر تالے ڈال دیے گئے ہوں‘ جابر وظالم لوگ حکمرانی کے تخت پر متمکن ہوں‘ اللہ تعالیٰ کے احکام کو پامال کررہے ہوں اور اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کا گلا گھونٹ رہے ہوں‘ تو ایسے میں اس حدیث کی رُو سے ایک مسلمان پر لازم ہے کہ کم از کم اپنے دل میں اس منکر اور برائی کے خلاف شدید نفرت اور بے زاری کا جذبہ بیدار رکھے۔ فرمایا:’’اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ ‘‘مسلم شریف ہی میں اس مضمون کی ایک اور حدیث حضرت عبدا للہ بن مسعودؓ سے مروی ہے‘ جس کے آخری حصے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر دل میں بھی اُس منکر کے خلاف نفرت نہ ہو تو ’’پھر تو رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان موجود نہیں ہے۔‘‘مندرجہ بالا احادیث مبارکہ کی روشنی میں ہم اپنے معاشرے (جو حکومت اور عوام پر مشتمل ہے) کا اگر جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر ہر قسم کے منکرات اور برائیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ جھوٹ، دھوکہ دہی، خیانت، دہشت گردی ‘ بھتہ خوری ‘قتل وغارت ‘ اغوا کاری ‘جبر واستحصال ‘حقوق کا غصب‘ سمگلنگ ‘ ملاوٹ ‘فحاشی وعریانی‘ ایک لمبی فہرست ہے جس میں ہمارا معاشرہ گرفتار ہے۔ انفرادی تقویٰ کی مثالیں اگرچہ موجود ہیں جن سے بد سے بدتر معاشرہ بھی کبھی خالی نہیں ہوتا‘ لیکن ایسی مثالیں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی درج بالا منکرات کا شکار ہیں ۔ان میں سے بعض منکرات کا تعلق افراد کے ذاتی عمل اور کردار سے ہے، جبکہ بعض منکرات ہمارے اجتماعی نظام کا حصہ ہیں اور وہ عوام پر جبراً مسلط کی جاتی ہیں جس کی ذمہ داری براہِ راست حکمران طبقہ پر عائد ہوتی ہے۔ موخر الذکر منکرات کا فی الفور خاتمہ کرنا ارباب اقتدار کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔ بصورتِ دیگر وہ اللہ کے دین سے بے وفائی کے مجرم شمار ہوں گے اور دنیا میں اللہ کی رحمت اور نصرت سے یکسر محروم ہوں گے اور شدید اندیشہ ہے کہ وہ آخرت میں سخت ترین عذاب کے مستحق بنیں گے۔ جہاں تک اول الذکر منکرات کا تعلق ہے یعنی گناہ اور معصیت کے وہ کام جو ایک فرد اپنی ذاتی حیثیت میں کرتا ہے، اُن کے حوالے سے ریاست اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ افراد قوم کی مثبت ذہن سازی اور دینی تربیت کا اہتمام کرے ۔
حقیقت یہ ہے کہ شرک کے گناہ کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہ جس کا زیادہ تعلق انسان کے عقیدہ کے ساتھ ہے، ان تمام گناہوں میں جن کا تعلق انسان کے عمل سے ہے، اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نزدیک سب سے بڑھ کرقبیح اور قابل نفرت گناہ اور بدترین منکر سود خوری اور سودی نظام ہے‘ جو نہ صرف یہ کہ مختلف شکلوں میں ہمارے پورے معاشی نظام میں سرایت کیے ہوئے ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا پورا نظام حکومت سودی معیشت پر استوار ہے۔ اور انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومت اس ہولناک منکر (برائی) کا تدارک کرنے کی بجائے اس کی سب سے بڑی محافظ بنی ہوئی ہے۔
سودی معیشت اللہ کی نگاہ میں کس قدر مبغوض اور ناپسندیدہ ہے اس کا اندازہ سورۃ البقرہ کی اس آیت مبارکہ سے ہوتا ہے جو قرآن مجید میں سود کی حرمت کے دو ٹوک اعلان کے فوراً بعد وارد ہوئی ہے: ’’ اے اہل ایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور سود میں سے جو کچھ باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑدو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ پھر اگر تم یہ نہیں کروگے (یعنی سودی لین دین سے باز نہیں آؤ گے) تو اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ!‘‘۔(البقرہ:288‘289)
قارئین محترم! کیا اس آیت مبارکہ کا واضح پیغام یہ نہیں ہے کہ سودی معیشت سے باز نہ آنے والے اللہ اور رسولﷺ کے کھلے باغی ہیں اور اللہ کی طرف سے ایسے باغیوں کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کیاپاکستان اپنی پیدائش کے دن سے لے کر آج تک لنگر لنگوٹ کس کر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے خلاف حالت جنگ میں نہیں ہے؟کیا ہم نے ملک میں سودی نظام کو برقرار رکھ کر خود اجتماعی سطح پر اللہ کی رحمت کو دھتکار نہیں دیا ہے؟ کیا یہ سیدھی بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ اللہ کی رحمت اور نصرت اس کے باغیوں پر سایہ فگن کیونکر ہو سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ اپنے اور اپنے حبیب ﷺ سے لڑنے والوں کی مدد کیونکرکر ے گا ؟ کیا وہ اپنے وفاداروں اور باغیوں کو برابر کر دے گا؟ کیا وہ اپنے باغیوں کو عبرت کا نشان نہیں بنائے گا!… آیئے اب دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ سود کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔فرمایا:’’سود کے گناہ کے ستر حصے ہیں، ان میں سے سب سے چھوٹا حصہ اس کے برابر ہے کہ کوئی (بدبخت) انسان اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرے۔‘‘ (ابن ماجہ)
غور کیجئے کیا اس سے زیادہ قبیح اور قابل نفرت گناہ کا تصور کیا جا سکتا ہے!! اسی طرح صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق ’’حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے لعنت فرمائی سود لینے اور کھانے والے پر اور سود دینے اور کھلانے والے پر اور اس کے لکھنے والے پر (یعنی سودی معاہدات لکھنے والے پر) اور (سودی معاہدات پر) گواہ بننے والوں پر۔ اور آپ نے فرمایا (گناہ کی شرکت میں) یہ سب برابر ہیں۔‘‘
یہ پاکستان کی تاریخ کا المناک ترین پہلو ہے کہ ہمارے ہاں سودی نظام پوری ڈھٹائی کے ساتھ جاری وساری ہے۔ حالانکہ بانی و معمار پاکستان نے یکم جولائی 1948ء کو سٹیٹ بینک کا افتتاح کرتے ہوٖے واضح طور پر فرمایاتھا کہ : ’’میں بینک کے تحقیقی شعبے کے کام کو ذاتی طور پر باریک بینی سے دیکھوں گا کہ وہ ایسا بینکنگ نظام وضع کریں جو اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظام زندگی سے ہم آہنگ ہو۔ مغرب کے معاشی نظام زندگی نے انسانیت کے لیے لاینحل مسائل پیدا کئے ہیں۔‘‘ لیکن ہم نے اللہ اور رسول ﷺ کے واضح احکامات کے ساتھ ساتھ بانیٔ پاکستان کے اس تاکیدی حکم کو بھی نظر انداز کر کے سودی معیشت کو ملک کے لیے ناگزیر قرار دے رکھا ہے۔
آج اسی سودی نظام کی وجہ سے ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے غلام بن چکے ہیں اور معاشی پالیسی کے ضمن میں ان کے ہر حکم کوماننے کے پابند ہیں۔ جس کی وجہ سے پاکستان کی آبادی کا بہت بڑا حصہ خط ِغربت سے بھی نیچے جا چکا ہے۔ بھوک افلاس، بے روزگاری اور ضروریات ِ زندگی سے محرومی قوم کا مقدر بن چکی ہے۔ ہوشربا گرانی بے لگام ہو چکی ہے۔ اس سود کی وجہ سے آج ہماری آبادی کا ہر فرد عالمی سودی اداروں کا مقروض ہے۔
جون 2018ء میں ہر پاکستانی کے ذمے ایک لاکھ 44ہزار روپے کا قرض تھا، اب تین سالوں میں ہر پاکستانی مزید 91 ہزار کا مقروض ہو چکا ہے۔ اور ہر پاکستانی مجموعی طور پر 2 لاکھ 35 ہزار کا مقروض ہو چکا ہے۔
ہر نیا آنے والا حکمران ان خون آشام عالمی اداروں سے مزید قرضہ حاصل کرکے قوم کو غلامی کے شکنجے میں مزید جکڑنے پر کمر بستہ ہوجاتا ہے اور ان قرضوں کا بُرا حصہ اللے تللوں میں اُڑا دیتا ہے اور اسی کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔ سودی قرضوں کا حصول اور مزید سود کی ادائیگی کا یہ شیطانی چکر مسلسل چل رہا ہے اور پاکستانی معیشت کی صورتِ حال انتہائی بدترین صورتِ حال سے دوچار ہے۔
تاہم اس دوران بہت سے علمائے حق اور دینی طبقات اس لعنت کے خلاف آواز اٹھاتے اور ارباب حکومت کو اس جانب متوجہ کرتے رہے ہیں۔ لیکن وہی ڈھاک کے تین پات!کیا ہمارے اربابِ اختیار نے یہ طے کر رکھا ہے کہ وہ اللہ اور رسول ﷺ کے خلاف چھیڑی ہوئی ہے اس جنگ سے تائب ہونے کی بجائے اللہ اور رسول ﷺ کے خلاف جاری اس جنگ کی شدت کو مزید بھڑکا کر خود کو دنیا و آخرت میں بدترین عذاب کا مستحق اور پاکستان کے مستقبل کو انتہائی تاریک بنا کر دم لیں گے۔ اللہ ہمیں اس انجامِ بد سے بچائے۔ ع
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں!