(منبرو محراب) طاغوت کی غلامی سے نجات مگر کیسے؟ - ابو ابراہیم

8 /

طاغوت کی غلامی سے نجات مگر کیسے؟

(سورۃ الحدید کی ابتدائی آیات کی روشنی میں)

 

جامع مسجد شادمان ٹاؤن کراچی میںامیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخs کے20مئی 2022ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد!
دوجمعہ قبل سورۃ الحدید کامطالعہ شروع کیاتھا۔ اس سورئہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کی ذمہ داریوں کاذکر فرمایاہے ۔ پہلی چھ آیات میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کاتذکرہ ہے تاکہ جب اس کے تقاضے ہمارے سامنے آئیںتواندازہ ہوکہ کس ذات کی طرف سے یہ تقاضے ہیں، کس کی طرف سے دعوت ہے۔ دنیا میں بہت ساری دعوتیں اورتقاضے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ہم ہر ایک کو قبول نہیں کرتے کیونکہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر نہ گئے تو کچھ نہیں ہوگا لیکن یہاں جودعوت ہے ،جوتقاضے ہیں وہ ایسے نہیں ہیں کہ جن کو نظر انداز کیاجائے۔ البتہ تقاضے بعد میں آرہے ہیں پہلے بتایاجارہاہے کہ یہ تقاضے کس کے ہیں۔ چنانچہ پہلی چھ میںسے دو آیات کا مطالعہ ہم نے کیا تھا جہاں اللہ تعالیٰ کی تسبیح کاذکر ہے کہ کائنات میں ہرشے اللہ کی تسبیح کرتی ہے اور کرتی رہے گی ۔ پھر ذکر آیاتھا کہ اللہ العزیز اور الحکیم ہے۔کل اختیار بھی رکھتاہے البتہ وہ اپنا اختیار کمال حکمت کے ساتھ استعمال کرتاہے۔یہ بھی ذکرآیا تھاکہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے۔یہ تصور آج امت بھول چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف خالق اور رب نہیں ہے بلکہ وہ حاکم اور مالک بھی ہے۔اس زمین پرحکم اسی کا چلنا چاہیے لیکن آج ہم غیروں کے حکم پر compromise کیے بیٹھے ہیں اور غیرہمارے فیصلے کر رہے ہیںحالانکہ اس اُمت کواس دنیا کے فیصلے اللہ کی حاکمیت کے تحت ، اس کے تقاضوں اور اس کی شریعت کے مطابق کرنے کے لیے اُٹھایا گیا تھا لیکن یہ تصور آج امت کے دماغوں سے اٹھ چکا ہے ۔ بہرحال اس کاذکر مزید بھی آگے آئے گا۔ فرمایاگیا کہ:
{یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ج وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ(2)} ’’وہی زندہ رکھتا ہے ‘وہی مارتا ہے۔اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘(الحدید:2)
یہ جملہ بھی بڑا قیمتی ہے۔یعنی تم اگر مصائب کا شکار ہوتومایوس نہ ہوجائو، آج غیروں کی غلامی میں جکڑے ہوئے ہوتومایوس نہ ہوجائو ۔ اللہ تعالیٰ تمہیں غلامی سے آزادی عطا کرنے پر قادر ہے لیکن اس پرتوکل تو کرو اور اس کی طرف اپنی نگاہ تورکھو۔ اس سے اپنے معاملات درست توکرو۔
بتوں سے تجھ کو اُمیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
آج ساری اُمیدیںامریکہ،ورلڈبنک،آئی ایم ایف سے ہیں، سامراجی اورطاغوتی قوتوں سے ہیں ۔ہمارے اکثر حکمران دعوے کرتے رہے کہ کشکول توڑیں گے مگربجائے ٹوٹنے کے کشکول پھیلتا چلاگیا۔ بس لے دے کے پٹرول کی قیمت بڑھانے کامعاملہ پس وپیش سے کر دیا جاتا ہے۔ یہ سارے فیصلے کب کرناپڑتے ہیں جب ہم غلام ہوتے ہیں۔سیدنا علیؓ فرماتے ہیں: ’’مقروض غلام ہوا کرتا ہے۔‘‘اس کی اپنی کوئی آزادی نہیں ہوتی۔کہنے کو تو ہماراملک آزاد ہے ،ہم جسمانی طور پر آزاد ہیں لیکن نہ ہماری عقلیں آزاد ہیں ،نہ ہمارے فیصلے آزاد ہیں،نہ ہمارے بجٹ آزادہیں، نہ ہمارے حکمران آزاد ہیں ۔
بہرحال وھوعلی کل شی قدیرمیں عقیدے کا بیان بھی ہے او رایمان والوںکو کھڑا کرنے کا تصور بھی یہاں عطا ہو رہا ہے۔یعنی یہ بات صرف ماننے کی نہیںہے بلکہ اللہ پر توکل کرکے کھڑا ہونے کی ضرور ت ہے۔ پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان نے اللہ پرتوکل کرکے دکھایا، بظاہر تھوڑی کسمپرسی کامعاملہ ہے لیکن ان عجیب لوگوں نے عجیب بجٹ بنا کربھی دکھادیا۔پاکستان کے مقابلے میں بہت چھوٹا بجٹ ہے لیکن کوئی بیرونی امداد اس میں شامل نہیں ہے، کوئی بیرونی قرض اس میں شامل نہیں۔ کہتے ہیں کہ اتناخسارہ ہے جو ہم آپس میں ہی طے کرلیں گے ۔ کم پہ گزارا کرلیں گے ۔ یہ بات تب ہوتی ہے جب کوئی واقعتاً اللہ پرتوکل کرے ۔ ساری دنیا پیچھے لگی ہوئی ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کابندوبست کرواورہمارے بھی بعض اہل علم نے لکھ دیا کہ افغان طالبان ذرا لڑکیوںکی تعلیم کا خیال کر لیں۔ طالبان نے کہہ دیا کہ ہم لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف ہرگز نہیں ہیں لیکن وہ تعلیم پردے میں ہوگی ۔ تعلیمی اداروں میں ، حتیٰ کہ رسٹورنٹس میں بھی مردوزن کا اختلاط نہیں ہو گا۔ خواتین اینکرپرسنز کوبھی کہہ دیاکہ اگر ٹی وی پرآناہے تو نقاب کرکے آئو۔ چاہے فیس ماسک ہی لگالو۔ یہ کون کہہ رہا ہے؟ جن کو دنیا کہہ رہی ہے کہ ہماری مانو،وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم تمہاری نہیں مانیں گے ۔ اس لیے کہ وہ کسی کے مقروض نہیں ہیں۔ جوعقل پرست ہیں، وہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں کیاترقی ہوئی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ہم نے کشکول پھیلاکر،غیروں کی مان کر، ان ظالموں کے حوالے اپنے آپ کوکرکے، اپنی قوم کو مقروض بناکرکیااس پاکستان میں دودھ کی نہریں جاری ہوتی دیکھیں؟یہ سار ا کچھ کر کے ہم نے کیاپایا؟ہمیں چاہیے کہ ہم ان سے سیکھیں جو ہمارے پڑوس میں ہیں ۔ پچاس ملکوں کی ساری طاقت ناکام ہوگئی۔اللہ تعالیٰ نے ان کو قوت عطا فرمادی،اپنی مدد عطا فرمادی اور اب وہ اپنے فیصلے خود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں غلاموں کی طرح نہیںبلکہ واقعتاً اللہ کے بندوں کی طرح سوچنے اور فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین !
ذرا قوم بھی اپنے گریبانوں میں جھانکے کہ کیاوہ شریعت چاہتی ہے ؟اگر ہاں میںجواب ہے توکیااللہ کی پکار جوپنج وقتہ آرہی ہے کہ آؤ نماز کی طر ف، کیااس طرف آرہے ہیں ؟ ہمارا عمل کیا ثبوت پیش کررہا ہے ۔ سود اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ ہے کیاہم نے سودی اکائونٹ بند کیے ہوئے ہیں؟ سود پرلی گئی گاڑیاں، گھر، سودی کاروبار چھوڑنے کے لیے تیار ہیں ؟ یہ عوام کامسئلہ بھی ہے ۔رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :
((اعمالکم عمالکم))’’تمہارے اعمال تمہارے حکمران ہیں۔‘‘
اس وقت جو بھی ہمارے حکمران ہیں یا اپوزیشن والے ہیں یہ کوئی آسمان سے اُتر کے تونہیں آئے ، ہمارے جیسے نام اورہمارے جیسے کام بھی ہیں ۔وہ ذرا اوپر ہیں توذرا زیادہ نظر آتے ہیں، ہم ذرا نیچے ہیں توکم نظر آتے ہیں لیکن ہیں ایک جیسے ہی۔ وہ ہمارے اعمال کے نتائج ہیں جوہم پرمسلط ہیں۔
بہرحال ہم سب کا یہ مسئلہ ہے کہ کیاہمارا واقعتاً اللہ پرایمان ہے ،اللہ پرتوکل ہے ،کیااسی سے سب کچھ ہونے کا یقین ہے اوراس کی پکار پرلبیک کہنے کو ہم تیار ہیں؟اس پرتوکل کرنے کوہم تیار ہیں؟۔حضر ت امیر معاویہ ؓ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو درخواست بھیجی کہ مجھے کوئی وصیت کیجیے توام المومنین اماں عائشہ ؓ نے انہیں رسول اللہ ﷺکی ایک حدیث مبارک لکھ کربھجوائی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جومخلوق سے بے پروا ہوکر رب کا ہوجائے، اس پر توکل کرلے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوجائے گا۔‘‘ مخلوق سے بے پرواہونے کا ہرگز مطلب لاتعلق ہونا نہیں ہے بلکہ اللہ کی رضا کے لیے حقوق العباد ادا کرنے ہیں لیکن مخلوق پرتوکل اور بھروسا نہیں کرنا، مخلوق سے امیدیں نہیں لگانی بلکہ توکل اور امیدیں اللہ سے لگانی ہیں ۔لیکن جوربّ کو چھوڑ کرمخلوق کی طرف دیکھے،مخلوق سے اُمیدیں رکھے تو اللہ اپناذمہ ہٹا کر اسے مخلوق کے حوالے کردے گا۔
آج ہم مخلوق کے حوالے ہورہے ہیں ۔پٹرول 180کا ہو گیا ، ڈالر 203کا ہو گیا لیکن ابھی یہ غلامی اور آگے لے جائے گی ۔ اس غلامی سے نجات کے لیے ہمیں کھڑا ہوکر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنی پڑے گی لیکن اس کے لیے اللہ پر پہلے توکل کرنا پڑے گا ،سودی نظام کو چھوڑنا پڑے گا۔ اب تو وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ بھی آگیا ۔ جب تک اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کاخاتمہ نہیں کروگے ہمارے معاملات نہیں سدھریں گے ۔ دنیاکا معاملہ کچھ اور ہے ہمارا کچھ اور ہے ۔ بقول اقبال ؎
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ
ہم ماننے والوں کامعاملہ یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ مخلص ہوںگے تواللہ ہمارے معاملات کو سنوار دے گا۔ اگر ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺاور اس کی کتاب کے ساتھ مخلص نہ ہوں تواللہ مخلوق کے حوالے کرے گا۔قرآن کہتاہے ـ:
’’اور جس نے میری یاد سے اعراض کیا تو یقینا ًاس کے لیے ہو گی (دنیا کی)زندگی بہت تنگی والی‘اورہم اٹھائیں گے اسے قیامت کے دن اندھا (کرکے)۔وہ کہے گا :اے میرے پروردگار! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا ہے‘ جبکہ میں (دنیا میں) تو بینائی والا تھا۔’اللہ فرمائے گا کہ اسی طرح ہماری آیات تمہارے پاس آئیں تو تم نے انہیں نظر انداز کر دیا‘ اور اسی طرح آج تمہیں بھی نظرانداز کر دیا جائے گا۔‘‘(طٰہٰ:124تا126)
ہمارے سیاستدان ہوں،جج ہوں،وکلاء ہوں یا عام انسان ہوسب کے گھر میں قرآن مجید کانسخہ موجود ہے لیکن ہماری عظیم اکثریت کاحال یہ ہے کہ ہمیں قرآن پاک کی basicsبھی معلوم نہیں۔ قرآن حکیم کی تلاوت اجروثواب کاباعث،قرآن کاحفظ کرنامبارک، لیکن قرآن کتابِ ثواب نہیں ہے بلکہ کتاب ہدایت ہے۔ اگر اس کے احکام پرعمل نہیں ہوگا تو پھر اللہ تعالیٰ کے فتوے ہیں :
{وَمَنْ لَّــمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ(44)}(المائدہ)’’اور جو اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں۔‘‘
{وَمَنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ(45)}(المائدہ)’’ اور جو فیصلے نہیں کرتے اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق وہی تو ظالم ہیں۔‘‘
{وَمَنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ(47)}(المائدہ)’’اور جو لوگ نہیں فیصلے کرتے اللہ کے اُتارے ہوئے احکامات و قوانین کے مطابق‘ وہی تو فاسق ہیں۔‘‘
لیکن ہم نے اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا اور مغرب کے احکامات پر عمل پیرا ہوگئے ۔ اور مغربی معاشرے کی نقالی شروع کر دی۔ اسلام کے حوالے سے ہمارے حکمرانوں کے صرف دعوے رہے ، عمل کہاں ہے؟ سیاستدانوں نے اسلام کا نعرہ صرف عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے لگایا ۔ (دلوں کاحال اللہ جانتاہے) لیکن ایسا ہے تو پھر تم نے اللہ کے دین کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے ۔ اگر واقعی حکمران اور سیاستدان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ مخلص ہیں تو وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ ان کے لیے لٹمس ٹیسٹ ہے کہ وہ سود کا دھندہ ختم کردیں تا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ جاری جنگ تو ختم ہو ۔ لیکن نہیں ۔اگر ہم قرآن سے اپنارخ پھیرے بیٹھیں ہیں توآج ہماری معیشت کودیکھ لیجیے ۔ دنیااور آخرت کی سزا ہے ۔اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ اسی کتاب کے ذریعے سے کچھ قوموں کو بام عروج تک پہنچائے گا اور اسی کو ترک کرنے کے باعث کچھ کو ذلیل و خوار کر دے گا۔‘‘
آج جس امریکی سامراج کی شکل میں طاغوت کی غلامی کا طوق ہمارے گلے میں ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ کی بندگی کو چھوڑ دیا ہے ۔ ہم زبان سے تو کہتے ہیں: لاالٰہ الااللہ۔لیکن کرتے اپنی من مرضی ہیں ۔ ہم کہیں اپنے نفس کی خواہشات میں لگ کراپنے رب کے حکم کو پس وپشت تونہیں ڈالتے؟ قرآن پاک کہتاہے :
{اَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوٰىہُ ط} (الفرقان:43)
’’کیا تم نے دیکھا اُس شخص کو جس نے اپنی خواہش ِنفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے؟‘‘
یہ بھی غلامی ہے کہ نفس کے غلام بن کررب کی نافرمانی کی جائے ۔اس صورت میں نفس ہمارا معبود بن جائے گا ۔ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ ایک شخص کفار سے لڑتا ہوا قتل ہوگیا ۔ صحابہj نے کہا:شہید ہوگیا ۔ آپﷺ نے فرمایا:نہیں! میں اس کو جہنم میں دیکھ رہاہوں۔ پتا چلا مال غنیمت میں سے ایک چاد ر اس نے لے لی تھی۔اس شخص نے کوئی کروڑوں ،لاکھوں روپیہ نہیں چرایاتھا بلکہ مال غنیمت جوامت کی مشترکہ پراپرٹی تھی اس میں سے ایک چادر نکالی تھی ،اللہ کے رسو لﷺ کے ساتھ وہ شخص کھڑا ہے ،قتال کے میدان میں کھڑا ہے، کفارکے خلاف لڑرہاہے اور قتل ہوتاہے توجہنم میں جاتاہے ۔اس سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پوری قوم کولوٹنے والوںکاحشر کیا ہو گا؟بہرحال عرض کرنے کامطلب ہے کہ ایک غلامی نفس کی بھی ہوتی ہے اور ایک مال کی بھی ہوتی ہے۔ حدیث مبارک میں ذکر آیا:
((تعس عبدالدینار وعبدالدرھم))ہلاک ہوگیا دینار کا بندہ،درہم کابندہ۔
اللہ کا بندہ بننے کے لیے کلمہ کا ورد بھی ہے لیکن اللہ کے حکم کو روندتے ہوئے حرام بھی آرہا ہے ، رشوت بھی لی جارہی ہے ، سود ، جائیدادوں پر قبضے سے بھی مال آرہا ہے۔ یہ مال کی غلامی ہے ۔اسی طرح طاغوت کی غلامی ہے ۔ کوئی فرد ، کوئی قوم اللہ کے احکامات سے سرکشی کرے ، من مرضی کرے ، اللہ کے قوانین کے مقابلے میں اپنے قوانین چلائے تو اس کی بات ماننا طاغوت کی غلامی ہے ۔ان تمام غلامیوں سے نجات حاصل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اس ایک رب کی غلامی اختیار کرلیں جو اس پوری کائنات کاخالق و مالک ہے ۔ یہ لاالٰہ الا اللہ کاحقیقی حاصل ہے۔ ہم نے سمجھا کہ کلمہ پڑھا ہمارا جنت کاٹکٹ پکا ہوگیا۔لوگ حدیث بھی سناتے ہیں جوبالکل صحیح ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((من قال لاالٰہ الا اللہ دخل الجنۃ))جس نے کہالاالٰہ الااللہ وہ جنت میں داخل ہوگا۔
لیکن دوسری طرف یہ حدیث بھی ہے کہ رسول اللہﷺ نے سود لینے والے ،دینے والے،لکھنے والے اور سودی معاملے پرگواہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے ۔پھراللہ کے رسول ﷺ نے فرمایاکہ حرام سے پلاہوا جسم جہنم کامستحق ہے۔ ایسی بیسیوں احادیث پیش کی جاسکتی ہیں ۔کلمہ گوجنت میں جائے گا لیکن احادیث میں ہے کہ وہ اپنی سزائوں کو بھگت کرجائے گا۔ یہ کیوں نہیں بیان کیاجاتا۔ ہمیں بس اسلام کامیٹھامیٹھاحصہ پسند ہے۔ حالانکہ پورے اسلام کاپیکج سامنے رہناچاہیے ۔
آج جن غلامیوں کاہم شکار ہیں ان سے نجات کاواحد راستہ اس کلمہ کے تقاضوں پر عمل ہے اقبال کہتاہے ؎
چومی گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لاالٰہ را
’’جب میں کہتاہوںکہ میں مسلمان ہوں تومیںلرز جاتا ہوں کہ ’’لا الٰہ اِلا اللہ ‘‘کہنے کی مشکلات کیاہیں، ہم آج بڑے ٹھنڈے ٹھنڈے چل رہے ہیں کہ جمعہ کی دورکعت پر مطمئن، رمضان شریف کے روزے رکھ لینے پرمطمئن ، کلمہ پڑھ لینے پر مطمئن اور دوسری طرف طاغوت کی غلامی بھی ، باطل کانظام بھی چلے ،غیرہمارے فیصلے کریں ، اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ بھی چلے ،شریعت کے احکامات پامال بھی ہوں،لوگ اسلام کی تعلیمات کامذاق بھی اڑائیں، لوگ دین کانام لے کر بیوقوف بنانے کی بھی کوشش کریں اور اس سب کے باوجود مسلمان مطمئن ہو کر بیٹھ جائے۔ اس صورت میں اپنے ایمان کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے ۔ یہ کیساایمان ہے جو باطل کے مقابلے میں ہمیں کھڑا نہیں کررہا۔ یہ کیسا ایمان ہے جواللہ کی بڑائی کے نفاذ کے لیے ہمیںکھڑا نہیں کررہا۔یہ کیساایمان ہے جو ہمیں اس باطل پرمطمئن کرکے سلابھی دیتاہے ،بٹھابھی دیتاہے ،مطمئن بھی کردیتاہے ۔ اللہ تعالیٰ اس خوش فہمی سے ہماری حفاظت فرمائے اور اللہ واقعتا ًاپنی غلامی کی توفیق عطا فرمائے جس کے لیے یہ ملک ہم نے حاصل کیا تھا۔ ہم نے کہاتھاکہ لاالٰہ الااللہ محمدرسول اللہﷺ۔ یہ ہمارا اصل مقصود تھا۔ اس کے تقاضوں پر عمل کرناتھا۔بجائے اس کے امریکی سامراج کی غلامی بڑھتی گئی مگر مسائل حل نہیں ہوئے ۔ کیوں؟
یہ ایک سجدہ جسے توگراں سمجھتاہے
ہزار سجدے سے دیتاہے آدمی کو نجات
وہ سجدہ کرنے کو جب یہ قوم تیار ہوگی تواللہ کی مدد بھی آئے گی اوروہاں سے آئے گی جہاں ہمارا گمان بھی نہیںہوگا۔ مگر ہم کھڑے ہونے کو تیار توہوں،اللہ پر توکل کااظہار توکریں۔ اللہ فرماتا ہے :
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(7)}(محمد)’’اے اہل ِایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔‘‘
اللہ کی نصرت سے مراد ا س کے دین کی مددہے،اس کے دین کی دعوت اوراقامت کی جدوجہد ہے۔اللہ کے دین کے ساتھ مخلص ہوجائو اللہ کہتاہے میں تمہاری مدد بھی کروں گا اور تمہارے قدموں کو مضبوطی دوں گا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے سیاستدانوں،علماء،اورہم سب کو اس مقصد کے لیے آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ! ژژ
ژ