(اداریہ) سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات - ایوب بیگ مرزا

8 /

اداریہ


ایوب بیگ مرزا


سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات


انسان اِس دنیا کا واحد جاندار ہے جو جسد اور روح کا مرکب ہے۔ باقی تمام جاندار جسد تو رکھتے ہیں لیکن بے روح ہوتے ہیں لہٰذا ان جانداروں کے سامنے صرف جسد کے تقاضے ہوتے ہیںجبکہ جسد اور روح کے انضمام سے وجود میں آنے والے انسان کے سامنے دونوں طرح کے تقاضے ہوتے ہیں۔ جہاں تک جسم کے تقاضوں کا تعلق ہے انسان اور دوسرے جانداروں میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔ مثلاً: بھوک مٹانا، جنسی خواہش کی تکمیل کرنا، موسم کی شدت سے بچنا اور سب سے بڑھ کر اپنی جان کا دشمن سے تحفظ کرنا۔ البتہ انسان کو روح کے تقاضے بھی پورا کرنا ہوتے ہیں لیکن چونکہ روح اپنے تقاضوں کے پورے نہ ہونے پر کوئی شور وہنگامہ نہیں کرتی اور جسم پر کوئی ظاہری تکلیف دہ اثرات مرتب نہیں کرتی صرف شعوری طور پر ایک بے آواز احساس پیدا کرتی ہے جسے ضمیر کی آواز کا نام بھی دیا جاتا ہے لہٰذا اِنسانوں کی عظیم اکثریت اِس آواز پر کان نہیں دھرتی۔ یہاں مختصراً روح کے تقاضوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ روح چونکہ امرربی ہے لہٰذا انسان کو اپنے واحد خالق و مالک کی طرف متوجہ کرتی ہے عدل و انصاف کا بول بالا اور ظلم کا خاتمہ اور جائز وناجائز میں تمیز چاہتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان نے دوسرے جانداروں کی طرح اپنے جسم کو صرف محفوظ ہی نہیں رکھنا ہوتا بلکہ اُس کے نفس کا یہ بھی تقاضا ہوتا ہے کہ اِس کا بناؤ سنگھار بھی کرو، اِسے ہر ممکن طریقے سے آرام اور آسائش پہنچاؤ، اِسے نہ صرف موسم کی شدت سے بچاؤ بلکہ موسم ہی کو اُلٹ پُلٹ کر دو۔ گرمیوں میں ٹھنڈک پہنچائو اور سردیوں میں ماحول ہی گرم کر دو، سفر کو حضربنا دو، رفتار ایسی تیز ہو جیسے وہ ہواؤں کے دوش ہو اور ایسا آرام دہ ہو جیسے گھر کا بیڈ روم۔ لہٰذا انسانوں کی عظیم اکثریت کا فوکس تن آسانی اور عیش و عشرت پر ہوتا ہے اور یہ ممکن نہیں کہ دو متضاد تقاضوں کو پورا کیا جاسکے، لہٰذا اِن تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے ،پھر انسانوں میں اس اکثریت کا وہی حال ہوتا ہے جسے ہم ضمیر کا مرنا قرار دیتے ہیں اور جسم کے تقاضے ایسے غالب آتے ہیں کہ انسان کی روح دب جاتی ہے اور زندگی محض متاع دنیا کی اسیر بن کر رہ جاتی ہے۔ جس کے پاس جتنے زیادہ وسائل ہوں گے وہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ رنگین اور پُرتعیش بنا سکے گا۔ لیکن دولت کے بڑے بڑے انبار اور بیش بہا وسائل جائز پر اکتفا کر کے عدل و قسط پر مبنی قواعد و ضوابط کی پابندی سے اور دوسرے انسانوں کے حقوق پر ہاتھ صاف کیے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا انسان نے غور و فکر سے منافع کمانے کا محفوظ ترین طریقہ یہ ڈھونڈا کہ زر ہی سے زر کمایا جائے۔ اِس لیے کہ تجارت میں بہرحال نقصان کا اندیشہ رہتا ہے۔ پھر یہ کہ کسی قسم کی محنت اور مشقت کی ضرورت نہیں رہتی، گھر بیٹھے سرمائے میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ لیکن اللہ نے اِسے ربا یا سود قرار دیاجو شریعت موسوی میں بھی ناجائز اور حرام تھااور عیسائی بھی اِسے حرام قرار دیتے تھے جبکہ اسلام میں عقائد کے حوالے سے جہاں شرک بدترین گناہ ہے وہاں سود خوری عملی طو رپربدترین گناہ ہے۔ طلوعِ اسلام نے جب سرزمینِ عرب کو روشن کیا تو سودی لین دین عام تھا، یہاں تک کہ بڑے نامور اور شریف گھرانے بھی اِس میں ملوث تھے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے سود کی ممانعت بڑی تدریج سے کی۔ مثلاً6 نبوی میں سورۃ الروم میں بتایا کہ ’’تم جو کچھ دیتے ہو سود پر تاکہ بڑھتا رہے لوگوں کے مال میں لیکن اللہ کے ہاں اِس میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔‘‘ پھر سورۃ النساء میں یہود کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انھیں سود کھانے کے سبب عذاب دیا جائے گا۔ کہیں سود کھانے والوں کی یہ حالت بتائی کہ وہ روزِ قیامت یوں کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے چھو کر مخبوط الحواس بنا دیا ہے اور بالآخر سود خوروں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ جو کسی اور گناہ کے ارتکاب پر نہیں کیا۔ حضورﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں اپنے چچا حضرت عباسh بن عبدالمطلب کے سود کے بقیہ کی معافی کا اعلان کیا۔ سود کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا ایک فرمان بڑا چشم کشا بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ وہ یہ کہ اللہ نے تجارت کو حلال اور ربا کو حرام قرار دیا۔ غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ قریش اور دوسرے تمام کفار کے اعتراضات کا دلائل سے جواب دیتا ہے البتہ سود کے خلاف جواب دلائل سے بھی دیا ہے اور اللہ نے تجارت کو حلال اور ربا کو حرام قرار دینے کا فیصلہ بھی صادر کر دیا۔ یعنی سب کو سودی لین دین کے حوالے سے Shut up کہہ دیاـ۔ گویا یہ ایسا بڑا اور خوفناک جرم ہے جس پر اللہ کچھ سننے کو تیار نہیں۔اللہ رب العزت وفاقی شرعی عدالت کے جسٹس تنزیل الرحمٰن کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور اُن کے درجات بلند فرمائے جنہوں نے 14 نومبر 1991ء کو ایک مقدس تاریخی فیصلہ دیا جس میں اُنھوں نے بینک انٹرسٹ کو ربا قرار دیا۔ اس فیصلے میں بینک انٹرسٹ اور ربا کو ایک ہی شے قرار دینے کے اتنے قوی دلائل تھے کہ آج تک کوئی ’’دانشور‘‘ اُن کی تردید نہیں کرسکا۔
پاکستان میں بعض ’’دانشور‘‘ اور ایسے تاجر جو سودی لین دین کے حق میں ہیں، اپنے ضمیر کی خلش یہ کہہ کر دباتے اور مٹاتے ہیں کہ قرآن نے جس ربا کو حرام مطلق قرار دیا ہے وہ مہاجن کا سود ہے۔ بینک میں تجارتی سود پر لفظ ربا کا اطلاق نہیں ہوتا ۔وہ باہمی مفادات کو پیش نظر رکھ کر لیا دیا جاتا ہے لہٰذا اُس کے نقصانات زیادہ نہیں ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اِس جریدہ کی 31 سالہ تاریخ میں جو سود کی حرمت کے حوالے سے مضامین شائع ہوئے ہیں اُن میں بھی قرآن اور احادیث کے حوالے دے کر ثابت کیاگیا ہے کہ جسے بینک انٹرسٹ کہا جاتا ہے، وہ سود ہے اور حرام ہے بلکہ حرام مطلق ہے۔البتہ ہم عوامی سطح پر مہاجن کے سود اور بینک کے سود کے تقابل کے حوالے سے کچھ عرض کرنا چاہیں گے۔ جب کوئی شخص کسی مہاجن سے قرض لیتا ہے تو اُس کے نقصانات اُس شخص یا اُس کے خاندان کو پہنچتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اُس کے قریبی عزیز و اقارب متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن بینک کا سود ملکی سطح ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ سرمائے دار بینکوں کی رقوم سے ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور اشیا ءکا دام بڑھاتے ہیں۔ اپنے نفع میں سود کی رقم بھی جمع کرتے ہیں اور پھر عوام سے وصول کرتے ہیں لہٰذا سارا بوجھ عوام پر پڑ جاتا ہے۔ ایک خاندان نہیں سارا ملک متاثر ہوتا ہے۔ بین الاقوامی قرضوں پر جو غریب ممالک سے سود لیا جاتا ہے، اُس سے بھی اُن ممالک میں مہنگائی ہو جاتی ہے۔ پھر یہ کہ صرف سود وصول نہیں کرتے اُس ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر سود کی ادائیگی کے لیے اُن ممالک کو قرض لینا پڑتا ہے۔ لہٰذا قرض پہ قرض اور سود در سود کا سلسلہ چلتا رہتا ہے جس سے وہ غریب ملک آزادانہ طور پر خارجہ پالیسی بھی نہیں اپنا سکتا۔ یہاں تک کہ اُس کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ بقول شاعر؎
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جُوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
الحمد للہ کہ 28 اپریل 2022ءکو فیڈرل شریعت کورٹ نے 2002ء کے فیصلے کی ریمانڈ ججمنٹ کے نتیجہ میں ہر قسم کے سودی لین دین کو حرام قرار دے کراتمام حجت کر دی۔ اللہ تعالیٰ وفاقی شرعی عدالت کے بنچ کے 3 ججوں کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ اگرچہ سودی نظام سے مکمل خاتمہ اور ملک کے معاشی نظام کو اسلامی اصولوں کے مطابق مکمل طور پر مدون کرنے کے لیے جو عدالت نے 31 دسمبر 2027ء یعنی 5 سال کا وقت دیا اور ہمیں اُس پر تحفظات ہیں۔ اس کے باوجود ہم دیانتداری سے سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان کی موجودہ اور آنے والی حکومتیں اور تمام متعلقہ ریاستی ادارے اس فیصلے کی اصل روح کے مطابق اس پر صدق دل سے من و عن عمل درآمد کرنے کی کوشش کریں تو اس سے ہمارے ملک کی قسمت بدل سکتی ہے۔ عدالت کی طرف سے دیے گئے درجہ بدرجہ سودی معیشت کے خاتمہ اور متبادل غیر سودی اور اسلامی اصولوں پر مبنی معاشی نظام کے قیام کے نتیجہ میں پاکستان کی معاشی سمت درست ہو سکتی ہے۔ ہم اللہ اور رسولﷺ سے جاری جنگ کا فی الفور خاتمہ کریں تاکہ اللہ کی نعمتیں اور رحمتیں ہمارے ملک پر نازل ہوں۔ ہم دنیا میں بھی کامیاب ہو سکیں اور اہم ترین بات یہ کہ اُخروی نجات کے بھی امیدوار بن جائیں۔
بہرحال وفاقی شرعی عدالت کے سود کے خلاف فیصلہ کے باوجود انتہائی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ دنیا بھر اور پاکستان میں ایسے مسلمان بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ سود کے بغیر معیشت چل ہی نہیں سکتی۔ اُنھیں خدا کا خوف کرنا چاہیے، کیا اللہ تعالیٰ کسی ایسی شے کو حرام مطلق قرار دے سکتا ہے جو ناگزیر ہو۔ جس کا کوئی متبادل ہی نہ ہو، یہ جاہلانہ کلمہ ہے، یہ کافرانہ کلمہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اور بہت سی دوسری تناظیم اور افراد کی طرف سے ایسا متبادل نظام پیش کیا جا چکا ہے جس سے بلاسود معیشت اور اقتصادی نظام کار فرما کیا جا سکتا ہے ضرورت عزمِ صمیم کی ہے نیک نیتی اور خلوص درکار ہے۔ البتہ اگر ہم اس ضرب المثل کے مطابق کہ ’چور سے پہلے چور کی ماں کو مارو‘ پر عمل کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کو تہس نہس کرنے کی بھرپور کوشش کریں تو ہمیں یقین واثق ہے کہ سودی نظام مٹی کا گھروندہ ثابت ہو گا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ستونوں پر کھڑی چھت کے ستون گرا دیں تو جو انجام اُس چھت کا ہو گا وہی اِس سودی نظام کا ہو گا۔ ہمیں سودی نظام کے خلاف مہم بھی چلانی ہو گی اور اِس باطل نظام کا تیا پانچہ کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد بھی کرنا ہو گی۔ اس بدترین استحصالی نظام کا خاتمہ اور اسلام کے عادلانہ نظام کے قیام کی مرحلہ وار کوشش ہی ہمارا دنیوی ہدف ہونا چاہیے۔ اگر خدانخواستہ دنیوی اور ظاہری طور پر ہماری جدوجہد کامیاب نہ بھی ہو سکے تب بھی روزِ قیامت اللہ کے ہاں اپنی معذرت تو پیش کر سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں کو قبول فرمائے اور ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین!