(الہدیٰ) حضرت موسیٰ ؑ کی فرعون کو دعوت - ادارہ

8 /

الہٰدیٰ

حضرت موسیٰ ؑ کی فرعون کو دعوت


آیت 15{قَالَ کَلَّاج فَاذْہَبَا بِاٰیٰتِنَآ اِنَّا مَعَکُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ(15)} ’’اللہ نے فرمایا : ہر گز نہیں! تو تم دونوں جائو ہماری نشانیوں کے ساتھ‘ ہم یقیناً تمہارے ساتھ ہیں‘ سب سننے والے ہیں ۔‘‘
آیت 16{فَاْتِیَا فِرْعَوْنَ فَقُوْلَآ اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(16)} ’’تو تم دونوں فرعون کے پاس جائو اور اسے کہو کہ ہم رسول ہیں ربّ العالمین کے۔‘‘
آیت 17{اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ(17)} ’’کہ بھیج دو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو۔‘‘
کہ اب تم بنی اسرائیل کو مزید تنگ نہ کرو اور انہیں آزاد کر کے ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دے دو۔
آیت 18{قَالَ اَلَمْ نُرَبِّکَ فِیْنَا وَلِیْدًا وَّلَبِثْتَ فِیْنَا مِنْ عُمُرِکَ سِنِیْنَ(18)} ’’فرعون نے کہا کہ کیا ہم نے تمہیں چھوٹے ہوتے اپنے ہاں پالا نہیں تھا؟ اور تم نے اپنی زندگی کے کئی سال ہمارے ہاں گزارے ہیں۔‘‘
یہ قرآن مجیدکا خاص اسلوب ہے کہ کوئی واقعہ بیان کرتے ہوئے اس کی غیر ضروری تفاصیل چھوڑ دی جاتی ہیں۔ چنانچہ یہاں حضرت موسیٰؑ کے مصر پہنچنے اور اپنے بھائی ہارون ؑ کے ساتھ فرعون کے دربار میں جا کر اسے دعوت دینے سے متعلق تمام تفصیلات کو چھوڑ کر فرعون کے جواب کو نقل کیا گیا ہے کہ کیا تم وہی نہیں ہو جس کو ہم نے دریائے نیل میں بہتے ہوئے صندوق سے نکالا تھا اور پھر پال پوس کر بڑا کیا تھا؟ فرعون کے جواب کا مفہوم کچھ یوں ہو گا کہ تم ہمارے ٹکڑوں پر پلے ہو اور آج اللہ کے رسول بن کر ہمارے ہی سامنے آکھڑے ہوئے ہو۔ ہماری بلی اور ہمیں کو میائوں!

 

درس حدیث 

بے گناہ قیدی کی رہائی کا انتظام کروعَنْ اَبِیْ مُوْسٰی الْاَشْعَرِی ؓ قَاَلَ قَاَلَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : ((عُوْدُوا الْمَرِیْضَ وَاَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَ فَکُّوا الْعَانِی ))(بخاری)
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بیمار کی عیادت کرو اوربھوکے کو کھانا کھلائو اور قیدی کو چھڑائو۔‘‘
اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے مریض کی عیادت کرنے، بھوکے کو کھانا کھلانے کا حکم دیا ہے اورجو مسلمان جنگ کے نتیجہ میںکسی غیراسلامی ریاست کا قیدی بن جائے یا اسے ناحق حوالات یا جیل میںبند کر دیاجائے، اس کی رہائی کا انتظام کرنا چاہیے۔ افسوس ہے کہ ہمارے دور میں بے گناہوں پر جھوٹے مقدمات دائر کرنے اور ان کو سزا دلوانے کا رواج عام ہوگیا ہے۔ اس طرح کے ستم رسیدہ لوگوں کی مدد کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔