(الہدیٰ) حضرت موسیٰ ؑ کو فرعون کا جواب - ادارہ

3 /

الہدیٰ

حضرت موسیٰ        ؑ کو فرعون کا جواب

آیت ۱۹{وَفَعَلْتَ فَعْلَتَکَ الَّتِیْ فَعَلْتَ وَاَنْتَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ(19)} ’’اور تم نے جو اپنا وہ کام کیا جو کیا‘اور تم ناشکروں میں سے ہو۔‘‘
فرعون نے اپنے مزعومہ احسانات جتلانے کے بعد حضرت موسیٰ dکو یہ بھی یادد لا دیا کہ تم نے ہمارے ایک آدمی کو بھی قتل کیا ہوا ہے۔اور آخرمیں بڑی رعونت سے کہا کہ تم کتنے ناشکر گزار اور احسان فراموش ہو!
آیت ۲۰{قَالَ فَعَلْتُہَآ اِذًا وَّاَنَا مِنَ الضَّآلِّیْنَ(20)} ’’موسیٰ ؑنے کہا : میں نے وہ تب کیا تھا جب کہ مَیں ناواقفوں میں سے تھا۔‘‘
یعنی یہ فعل مجھ سے نادانستگی میں ہوا تھا اور اُس وقت مَیں ابھی حقیقت سے ناآشنا بھی تھا۔ ابھی رسالت اور نبوت مجھے نہیں ملی تھی اور میں خود تلاشِ حقیقت میں سرگرداں تھا۔ لفظ ’’الضّال‘‘ کے دو مفاہیم کے بارے میں سورۃ الفاتحہ کے مطالعے کے دوران وضاحت کی جا چکی ہے۔ اس لفظ کے ایک معنی تو راستے سے بھٹک جانے والے اورغلط فہمی کی بنا پر کوئی غلط راستہ اختیار کر لینے والے کے ہیں‘ لیکن اس کے علاوہ جو شخص ابھی درست راستے کی تلاش میں سرگرداں ہو اُس پر بھی اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے اور اسی مفہوم میں یہ لفظ سورۃ الضحیٰ کی اس آیت میں حضوراکرمﷺ کے لیے استعمال ہوا ہے:{وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی(7)}کہ ہم نے آپؐ کو تلاشِ حقیقت میں سرگرداں پایا تو راہنمائی فرما دی!

درس حدیث

دعوت الی اللہ کی راہ میں رکاوٹیںعَنْ اَنَسٍؓ قَالَ قَالَ رَّسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ((لَقَدُ اُخِفْتُ فِی اللہِ وَمَایُخَافِ اَحَدٌ وَلَقَدْ اُوْذِیْتُ فِی اللہِ وَمَایُوْذٰی اَحَدٌ ، وَلَقَدْ اٰتَتْ عَلَیَّ ثَلَاثُوْنَ مِنْ بَیْنِ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ وَّمَالِیْ وَلِبِلَالٍ طَعَامٌ یَّأْکُلُہٗ ذُوْکَبِدٍ اِلَّا شَیْئٌ یُّوَارِیْہِ اِبْطُ بِلَالٍ)) (رواہ الترمذی و ابن ماجہ)
حضرت انس ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میں اللہ کی راہ میں ڈرایا اور ستایا گیا ہوں۔ میری طرح نہ کسی کو ڈرایا گیا ہے اور نہ ستایا گیا ہے۔ مجھ پر مسلسل تیس دن اور رات ایسے بھی گزرے ہیں کہ اس عرصہ میں میرے اور بلال کے لیے ایسی خوراک نہ تھی جسے کوئی جاندار کھا سکے، سوائے اس تھوڑی سی چیز کے جو بلال نے اپنی بغل میںچھپارکھی تھی۔‘‘
کی طرف رجوع کرتا ہے اور اسی سے دعا مانگتا ہے۔