(اداریہ) وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ! - ایوب بیگ مرزا

3 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزاوَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ!
دنیا میں انبیاء اور رسل کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے نمائندے کی ہوتی ہے گویا وہ اللہ کے فرمودات اور احکامات اللہ کے بندوں تک پہنچانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور اُنہیں اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلانے کی اپنی تئیں کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ نبی عام ہے اور رسول خاص ہے یعنی ہر رسول نبی بھی ہوتا ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہوتا گویا رسول کو ایک درجہ فضیلت حاصل ہے۔ پھر رسولوں میں پانچ اولوالعزم رسول ہیں۔ جیسا کہ آیت { فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ }(الاحقاف35)’’پس (اے محمدﷺ) جس طرح اور عالی ہمت پیغمبر صبر کرتے رہے ہیں اسی طرح تم بھی صبر کرو۔ ‘‘ کی روشنی میں تفسیر طبری اور ابن عباسؓ کے تحت اس کی تفسیر میں حضرت نوح ؑ، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت موسی ؑ، حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمد ﷺ اولوالعزم رسول ہیں۔ انبیاء اور رسل کی اس سنہری زنجیر میں آخری نبی اور رسول حضور ﷺ ہیں اور قرآن پاک نے حتمی طور پر کہہ دیا کہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:{مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ط}( الاحزاب : 40) ’’محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ اللہ کے پیغمبر اور نبیوں (کی نبوت) کی مہر (یعنی اس کو ختم کر دینے والے ) ہیں۔ ‘‘گویا نبوت کا دروازہ تاقیامت بند کر دیا گیا۔ لیکن آخری نبی اور رسول ہونے سے کہیں بڑھ کر فضیلت کی بات یہ ہے کہ آپؐ پر دین کی تکمیل بھی ہو گئی۔ارشاد ہوتا ہے:{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَـکُمْ دِیْـنَـکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَـکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْـنًاط}(المائدہ: 3)’’آج ہم نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔ ‘‘ یہ انتہائی فضیلت کا رتبہ ہے جو آپ ﷺ کو ملا۔ پھر آپﷺ پر جو کتاب نازل کی گئی یعنی قرآن پاک اُسے نہ صرف حتمی اور آخری آسمانی صحیفہ قرار دیا گیا۔ بلکہ بڑےدو ٹوک انداز میں اُس کے متن کی تاقیامت حفاظت کا اعلان بھی کیا گیا۔ کسی دوسری آسمانی کتاب کے تحفظ کا اللہ نے وعدہ نہیں کیا، اسی لیے اُن میں تحریف ہوگئی۔ ہر زمانے میں حفاظ قرآنِ پاک کے متن کی حفاظت کے زندہ ثبوت کے طور پر موجود رہے اور آج بھی ہیں۔ پھر اللہ رب العزت نے حضور ﷺ پر یہ کتاب جس شب نازل کی اُسے شب قدر قرار دے دیا اور وضاحت فرما دی کہ اس رات کی عبادت ہزار ماہ کی عبادت سے افضل ہے۔ اس مقدس کتاب میں جہاں انسان کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر زندگی گزارنے کے طریقے ماضی کی مثالیں دے کر حال کی طرف توجہ دلا کر اور مستقبل کے اشارے دے کر سمجھائے اور سکھائے گئے وہاں حضور ﷺ کی شان اور عظمت بیان فرما کر آپ ﷺ کو بے مثل، بے نظیر اور لاثانی قرار دیا۔ کہیں فرمایا: {وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ(4)} (الم نشرح: 4)’’اور تمہارا ذکر بلند کیا۔‘‘ کہیں فرمایا:
{وَالنَّجْمِ اِذَا ہَوٰی(1) مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی (2) وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی(۳) اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی(4)}(النجم)’’تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے ، کہ تمہارے رفیق (محمدﷺ) نہ رستہ بھولے ہیں نہ بھٹکے ہیں ۔ اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں ۔یہ (قرآن) تو حکم خدا ہے جو (ان کی طرف) بھیجا جاتا ہے ۔‘‘ یہ تو چند مثالیں ہیں حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کیسے کیسے آپ ﷺ کی شان بیان کی اُس کا احاطہ کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ بقول مرزا غالبؔ
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است
پھر یہ کہ وہ رات جسے ہم شب معراج کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو آسمانوں کی سیر کرائی، جنت اور دوزخ دکھائے اور اہم ترین بات یہ ہے کہ قیامت تک کہ مسلمانوں کے دلوں میں آپ ﷺ کی محبت آپ ﷺ کا عشق معجزاتی طور پر ودیعت کر دیا۔ مسلمان اسلام کے احکامات پر عمل کرتا ہو یا نہ کرتا ہو آپ ﷺ کے نام پر، آپ ﷺ کی عزت و عظمت پر، آپ ﷺ کی ناموس پر جان، مال اولاد نچھاور کرنے پر تیار نظر آتا ہے۔ یہ اُن مسلمانوں کا حال ہے جنہیں آپ ﷺ کا دیدار بھی نصیب نہ ہوا۔ اصل بات یہ ہے کہ آپﷺ صرف مسلمانوں کے لیے باعث رحمت نہیں بلکہ رحمۃ للعالمین تھے۔ ارشاد ہوتا ہے:{وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ(107)}( الانبیاء)’’اور (اے محمدﷺ) ہم نے تم کو تمام جہان کے لیے رحمت (بنا کر) بھیجا ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ محسن انسانیت تھے۔دنیا غور کرے، آپ ﷺ نے غیر مسلموں پر کیسے کیسے احسان کیے؟ آزادی، اخوت، مساوات، قانون کی بالادستی، انسانی زندگی کی اہمیت، جانوروں پر رحم کھانا بھی۔ آپ ﷺ ہی نے دنیا کو بتایا اور سمجھایا وگرنہ دنیا ان صفات سے ناآشنا تھی ۔ آج یہ غیر مسلم کائنات کی عظیم ترین ہستی کے بارے میں ہرزہ سرائی اور بدگوئی کریں تو یہ بدترین احسان فراموشی نہیں تو اور کیا ہے؟ آج مسلمانوں کے دل زخمی ہیں کیونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی ترجمان نپور شرما کی جانب سے ایک ٹی وی پروگرام کے دوران اسلام اور حضور ﷺ کے حوالے سے انتہائی توہین آمیز گفتگو کی گئی۔ گستاخی کی تمام حدیں عبور کر دی گئیں۔ ملعونہ نپور شرما نے گزشتہ ماہ انڈیا کے مقامی نیوز چینل ٹائمز ناؤ کے ایک پروگرام میں شرکت کے دوران گیانواپی مسجد کے تنازعے پر بات کرتے ہوئے حضورﷺ کی ازدواجی زندگی کے حوالے سے ہرزہ سرائی کی۔ اس نام نہاد مباحثے کے دوران جب ملعونہ نپور شرما اور مسلم پولیٹیکل کونسل آف انڈیا نامی تنظیم کے صدر ڈاکٹر تسلیم رحمانی کے درمیان سخت لفظوں کا تبادلہ ہوا تو نپور شرما نے اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ k کے بارے میں انتہائی توہین آمیز الفاظ استعمال کیے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
• دوسری طرف دہلی میں بی جے پی کے میڈیا ہیڈ نوین جندال نے انتہائی متنازع ٹویٹ کیا۔جس میں کھلم کھلا اسلام اور حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کی گئی۔ بی جے پی سے ہٹائے جانے کے بعد، اس نے اپنا ٹویٹر پروفائل تبدیل کیا، اپنے سابقہ عہدہ کو ہٹا دیا اور اس کی جگہ ’’ہندو فخر‘‘ اور ’’قوم پرست‘‘ شامل کیا۔ بی جے پی کے مرکزی رہنماؤں کے ان گستاخانہ بیانات پر بھارت سمیت دنیا بھر میں شدید احتجاج جاری ہے۔ ٹوئٹر پر بائیکاٹ انڈیا کے نعرے بلند ہونے لگے، عرب دنیا کے مسلمانوں نے بھی اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور سعودی عرب میں بھی یہ ٹرینڈ ٹاپ پر ہے۔ مصر، سعودی عرب، قطر، بحرین اور کویت میں بائیکاٹ انڈیا کی مہم چل پڑی ہے اور بھارت سے درآمد شدہ اشیاء استعمال نہ کرنے کی اپیل کی جارہی ہے۔
اندازہ کیجئے کہ مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کے سخت ردعمل کی وجہ سے وہاں کے حکمرانوں کو بھی بھارت سے کسی نہ کسی سطح پر رابطہ ختم کرنا پڑا۔ جس کے نتیجہ میں ہندو توا کی طرف اندھا دھند بڑھنے والی بی جے پی کی حکومت بدبخت ملعون اور ملعونہ کے خلاف ایکشن لینا پڑا۔ مسلم دنیا خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے حکمران اگر ایک عرصہ تک مستقل طور پر اور تسلسل سے سفارتی اور تجارتی دباؤ ڈالیں تو کیا بھارت اوندھے منہ نہیں گر جائے گا۔ بھارت کی اکانومی برباد ہو جائے گی اور وہ بھارت کے مسلمانوں پر ظلم و ستم ختم کرنے پر مجبور نہیں ہو جائے گا اور کشمیر کے حوالے سے اُس کی اٹوٹ انگ کی رٹ اپنے مفادات تلے دب نہیں جائے گی۔ ہم سمجھتے ہیں اگر امت مسلمہ کچھ دیر کے لیے دنیوی سود و زیاں سے لا تعلق ہو کر یہ مؤقف اپنائے کہ دنیا کے جس ملک میں بھی حضور ﷺ کی شان میں گستاخی ہوگی یا اسلامی شعائر کا مذاق اُڑایا جائے گا یا مسلمانوں پر ظلم و ستم ہوگا۔ امت مسلمہ یک زبان اور یک جان ہو کر اُس کا مقابلہ کرے گی تو دنیا کا کوئی ملک دین اسلام کے خلاف زبانی یا عملی کسی نوع کی کارروائی نہیں کر سکے گا۔ لہٰذا آج اگر یورپ اور بھارت میں مسلمان خواتین کے چہروں سے نقاب نوچے جا رہے ہیں یا فلسطین اور کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھایا جا رہا ہے تو یہ سب ہماری کمزوری، بدعملی اور حماقتوں کا نتیجہ ہے اور اگر ہمارا اور خصوصاً مسلمان حکمرانوں کا یہی طرز عمل رہتا ہے تو ظاہری احتجاج جتنا چاہیں کر لیں، اسلامی شعائر اور مقدس ہستیوں کی توہین کا سلسلہ جاری رہے گا بلکہ بڑھتا چلا جائے گا اور ہم احتجاج کی رسم ادا کرکے خود کو مطمئن کرتے رہیں گے۔ گویا ہم خود دشمن کی اسلام مخالف کارروائیوں کا سبب بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کرے اور اپنی کَج رَوی ختم کرنے کی توفیق عطا کرے تاکہ امت کے تنِ مردہ میں جان پڑ سکے۔