(منبرو محراب) اللہ تعالیٰ کی صفات جلیلہ - ابو ابراہیم

3 /

اللہ تعالیٰ کی صفات جلیلہ(سورۃ الحدید کی آیات 3اور 4 کی روشنی میں)

 

جامع مسجد شادمان ٹاؤن کراچی میںامیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے27مئی 2022ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد!
قرآن مجید کے سلسلہ وار مطالعہ کے ضمن میں آج ہم ان شاء اللہ سورۃ الحدید کی آیات 3اور 4 کا مطالعہ کریں گے ۔ اس سے قبل ہم نے ابتدائی دو آیات کا مطالعہ کیا جن میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح کا ذکر آیا۔ایک تسبیح وہ ہے جو جمادات اور نباتات بھی کر رہے ہیںمگر ایک تسبیح وہ ہے جو اللہ کواپنے بندوں سے مطلوب ہے اور وہ یہ ہے کہ بندے اپنے آپ کو اللہ کے حکم کے تابع بھی کریں، اللہ کے حکم کی دعوت بھی دوسروں کو دیںاور اللہ کے حکم کے نفاذ کی جدوجہد بھی کریں۔اسی کے ساتھ ذکر آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے ‘اللہ تعالیٰ خالق ومالک بھی ہے‘اللہ تعالیٰ حاکم بھی ہے ۔ یعنی دین کے اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھا جائے کہ جیسے نماز ادا کرنا لازم ہے اسی طرح اس بات کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ اللہ پوری کائنات کا بادشاہ بھی ہے لہٰذا زمین پر اسی کا نظام چلنا چاہیے ۔ پھر ذکر آیا کہ وہ اللہ ہی زندگی دیتا ہے اور موت بھی دیتا ہے اور وہ اللہ ہر ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے ۔یعنی وہ اللہ تم سب کو دوبارہ پیدا کرنے کی بھی قدرت رکھتا ہے ۔اس کے بعد اب تیسری آیت میں فرمایا :
{ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ ج}’’وہی اول ہے ‘وہی آخر ہے ‘وہی ظاہر ہے ‘وہی باطن ہے۔‘‘
الاول،الآخر،الظاہر والباطن‘ یہ چار اللہ کے صفاتی نام ہیں۔ان کے مفہوم کے اعتبار سے ایک حدیث مبارکہ میں نبی اکرمﷺ کی دعا نقل کی گئی ہے ۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:
((اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الْاَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْ ءٌ وَاَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شِیْءٌ وَاَنْتَ الظَّاھِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْءٌ وَاَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْءٌ))
’’اے اللہ! تو ہی وہ اوّل ہے جس سے پہلے کچھ نہیں۔ اور تو ہی وہ آخر ہے جس کے بعد کچھ نہیں ہو گا۔ تو ہی ظاہر ہے، تجھ سے بڑھ کر نمایاں یا بالا تر کوئی نہیں اور اے اللہ! تو ہی ایسا باطن ہے کہ تجھ سے زیادہ مخفی کوئی نہیں!‘‘
زیر مطالعہ آیت میں انہی چار صفات کا ذکر آیا :
الاول:جب کائنات بھی نہیں تھی تواللہ تھا۔لہٰذا وہ اول ہے جس سے قبل کوئی شے نہیں ۔
والآخر:سب سے آخر میں بھی اللہ ہی ہوگا ۔ ہم عارضی طور پرہیں، پھر مرجائیں گے ۔ سورۃالرحمن میں فرمایا:
{تَبٰرَکَ اسْمُ رَبِّکَ ذِی الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ(78)}’’بہت بابرکت نام ہے تیرے رب کا جو بہت عظمت والا‘ بہت اکرام والا ہے۔‘‘
اصل تواللہ ہے، البتہ ہماری زندگی اللہ کے اذن سے ہے ، ہمارا وجود اس کی قدرت کاشاہکار ہے ۔ہم سب اس کے محتاج ہیں ۔مگروہ ازخود الحی( زندہ) ہے ،القیوم (قائم رکھنے والا ،تھامنے والاہے)۔
والظاہر:یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاںجابجااس پوری کائنات میں اور ہمارے وجود دمیں موجود ہیں ۔کسی بدو سے پوچھاگیا کہ تم نے رب کو کیسے پہچانا؟وہ کہتاہے: یہ بکری کی میگنیاں نظرآرہی ہیں ؟یہ میگنیاں بتارہی ہیں کہ یہاں سے کسی بکری کاگزر ہواہے توکیایہ زمین ،یہ آسمان، یہ پہاڑ،یہ انسان،یہ جانور‘یہ سب کچھ نہیں بتارہا ہے کہ اس کوکسی نے پیدا کیاہے۔ایک بوڑھی اماں سے پوچھا گیا کہ تم نے اللہ کوکیسے پہچانا؟ اس نے کہا :کمبخت اتنی سی بات کی سمجھ نہیں آتی؟ میں کپڑا تیار کرنے کے لیے چرخہ چلاتی ہوں، میرے چلائے بغیر چلتا نہیں توتیرا کیاخیال ہے ‘یہ سورج چاند ستارے خود بخود پیدا ہوگئے اور خود بخود چل رہے ہیں ؟ یہاں سے شروع کریں اور آج کاکوئی سائنسی ذہن رکھنے والاشخص ہو، وہ بھی اس کائنات کے نظام پرغور وفکر کرے ،جتناغورکرے گااپنی کم علمی لاعلمی، جاہلیت اورکمزوری اور بے بسی کااتناادراک ہوگا اور اتناہی زیادہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نظارے ہمارے سامنے واضح ہوتے چلے جائیں گے ۔
والباطن:ایک طرف اس کی قدرت کے نظارے بتاتے ہیں کہ کوئی ہے جو پیدا کرنے والاہے ،کوئی توہے جو نظام ہستی چلارہا ہے ۔البتہ وہ نظر بھی نہیں آرہا ۔ یعنی اتنا پوشیدہ بھی ہے کہ اس سے زیادہ پوشیدہ کوئی نہیں ۔ آگے فرمایا:
{وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ(3)}’’اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘
پچھلی آیت میں آیاتھا:وھوعلی کل شی قدیر۔ اب آیا وھوبکل شی علیم۔ان دونوں آیات کے مجموعہ سے عقیدۂ آخرت بھی بیان ہوتاہے ۔ اس لیے کہ کئی مرتبہ انسانوں کو یہ شبہ ہوا کہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہم مٹی مٹی ہوجائیں گے تو ہمیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا ؟اس کے جواب میں پہلی آیت ہے کہ وھوعلی کل شی قدیر۔ جس نے پہلی مرتبہ پیدا فرما دیا ‘دوبارہ پیدا فرمانا اس کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے۔ اسی طرح کبھی انسانوں کو شبہ ہوتاہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہماری ایک ایک بات ریکارڈ پر آجائے ؟اس کے جواب میں یہ آیت آگئی کہ{وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ(3)} آج کے دور میں اگر ریکارڈ کا ایکextraction of second بھی غیر محفوظ نہیںہے تو رب کائنات کے لیے کیا مشکل ہے؟کہتے ہیں کہ انسان نے آج تک اوسطاً تقریباً اپنے دماغ کا7 فیصد استعمال کیا ہے۔آئن سٹائن جیسے لوگوں کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ انہوںنے دس فیصد استعمال کیا ہوگا۔ذرا سوچئے کہ جس حضرت انسان نے صرف سات فیصد دماغ استعمال کیا اور اتنا کچھ انتظام کر لیا کہ آج انسان کی ایک ایک حرکت اور ایک ایک لفظ لائف ٹائم محفوظ ہو سکتا ہے تو اس انسان کے خالق کے لیے کیا مشکل ہے کہ وہ انسانوںکا سارا ریکارڈ represent کر دے۔
جاہل قسم کے فلسفیوں میں یہ بھی ایک جہالت موجود ہے کہ is Allah bothered for every person۔ اس نے یونیورس کو بنایا ، گیلیکسیز ہیں ،سولر سسٹمز ہیں، سب کچھ ہے لیکن اللہ ہر انسان کے بارے میں پریشان ہوگا؟فکرکرے گااس کی ؟ تویہ جاہل فلسفیوں کاتصور ہے ۔آفاقی حقیقت یہ ہے کہ میکرولیول کی بات ہویامائیکرولیول کی بات ہواور مائیکرو کابھی فریکشن آف پرسنٹیج ہواللہ اس سے بھی واقف ہے۔ یہی ہمارا ایمان اور عقیدہ ہے ۔ اللہ فرماتاہے :
{وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ ج}(سورۃ ق:16)’’اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم خوب جانتے ہیں جو اُس کا نفس وسوسے ڈالتا ہے ۔‘‘
ہرانسان کے دل میں اٹھنے والاوسوسہ بھی اللہ کے علم میں ہے ۔دوسری جگہ ارشا ہوتاہے :
{وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ(8)} (الزلزال) ’’اور جس کسی نے ذرّہ کے ہم وزن کوئی بدی کی ہو گی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔‘‘
انسان ایٹم بریک کرکے الیکٹران اور پروٹان تک پہنچا ، کبھی غور کیا کہ یہ کس نے بنائے ؟ ا للہ اکبرکبیراً!یعنی اگر اتناذرا بھی ہے تووہ بھی اللہ کے علم میں ہے ۔کوئی بچنے کاامکان ہے ؟بہرحال ان دوباتوںکوباربار قرآ ن کریم ہائی لائٹ کرتاہے کہ وھوکل شی قدیر،وھوبکل شی علیم۔ اس لیے کہ ہم ہوش میں آجائیں ، فکرمند ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت کایقین عطا فرمائے ۔ ہم تنہائی میں بیٹھ کرسوچیں کہ کیاہم لوگ یوم حساب کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں ؟ہم توکرکے بھول جاتے ہیں ،اللہ تھوڑا ہی بھولتاہے ۔ سورۃالمجادلہ میں فرمایا:
{اَحْصٰىہُ اللّٰہُ وَنَسُوْہُ ط}(آیت:7)’’اللہ نے ان (اعمال) کو محفوظ کر رکھا ہے جبکہ وہ انہیں بھول چکے ہیں۔‘‘
جس کسی نے سمارٹ فون استعمال کیا،ہم سب کاسارا ڈیٹا دستیاب ہوگیا۔ ہم نے کہاں سفرکیا،کس کس ویب سائٹ پر گئے ہیں سب کچھ محفوظ ہو گیا ہے۔ اگر گوگل کوسارا کچھ پتاہے توخالق کائنات کونہیں پتاہوگا؟ قرآن میں ارشاد ہوتاہے :
{اِقْرَاْ کِتٰبَکَ طکَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا(14)}(بنی اسرائیل)’’پڑھ لو اپنا اعمال نامہ! آج تم خود ہی اپنا حساب کر لینے کے لیے کافی ہو۔‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ(14)}(القیامہ) ’’بلکہ انسان تو اپنے نفس کے احوال پر خود ہی خوب بصیرت رکھتا ہے۔‘‘
اس ملک کے اندر بڑے بڑے ڈاکو،چور،مافیا،لوٹنے والے بھی ہیں ۔اللہ ہرطرح کے جرم اورگناہ سے حفاظت فرمائے ۔عدالت میں جرم ثابت نہ ہوسکا،ثبوت مل نہ سکا،وہ بچ گیالیکن چور کو توپتاہے وہ چور ہے ۔ اسی لیے قرآن کہتاہے :
{وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَہٗO}(القیامہ)’’اور چاہے وہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔‘‘
او ربندے سے بڑھ کرکس کوپتاہے ،اس کے رب کو پتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یقین عطا کرے اور ہم سب کی حفاظت کرے ۔ہمارے گناہوں کوپردے میں رکھ کر معاف فرمائے،اللہ ذلیل ورسوا نہ فرمائے ۔ آگے فرمایا:
{ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ} (الحدید :4)’’وہی ہے جس نے پیدا کیا آسمان اور زمین کو چھ دنوں میں‘‘
آسمان اورزمین کے الفاظ قرآن پاک میں کائنات کے لیے آتے ہیں ۔صدیوں پہلے کا انسان بھی آسمان کوجانتا تھا،زمین کو جانتا تھااوریہی وسعت اس کی نگاہوںمیں تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے الفاظ ایسے استعمال فرمائے ۔البتہ اس کی وسعتوں کااحاطہ کرنابندوں کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ جتناناساوالے اور سائنس دان کائنات کی کھوج میں آگے جاتے ہیں اتناہی ہم سب کا تجسس بڑھتا ہے کہ یہ کائنات ابھی expanding ہے اور ابھی ہم کچھ بھی discoverنہیں کرسکے۔ اسی انسان کواللہ تعالیٰ باربار غور وفکر کی دعوت دیتاہے کہ اپنے رب کو پہچانو ، وہی اس کائنات کو بنانے والا اور اس کا نظام چلانے والا ہے ، لہٰذا اسی کا حکم مانو ۔ اس کو چھوڑ کر تم جن کے دین پر چل رہے ہو وہ تو ایک ذرا نہیں بنا سکتے ۔ خدائی اختیارات کے دعویدار توفرعون اور نمرود جیسے لوگ بھی رہے مگرکسی نے بھی creationکادعویٰ نہیں کیا۔آپ دیکھئے کہ فرعون نے بھی جب خدائی کا دعویٰ کیا تو یہ کہا :
{فَقَالَ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی(24)}(النازعات) ’’پس کہا کہ میں ہوں تمہارا سب سے بڑا ربّ!‘‘
یعنی اس نے رب ہونے کا دعویٰ تو کیا لیکن خالق ہونے کا دعویٰ نہیں کیا کیونکہ فرعون کابھی ایک باپ تھا،اس کا بھی باپ تھااوراس کابھی ایک باپ تھا۔یعنی ان کو بھی کوئی پیدا کرنے والا تھا ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ بار بار فرماتاہے کہ کائنات کو میں نے پیدا کیا ۔یہ دعویٰ صرف اللہ تعالیٰ ہی نے کیاہے ۔ یہ اللہ کی توحید کی دلیل ہے کہ خالق کائنات وہی ہے اور اسی کا حکم مانا جائے ۔
چھ دن بہرحال ہمارے 24گھنٹے والے دن نہیں ہیں بلکہ ان کوچھ مراحل بھی کہاجاسکتاہے ۔ واللہ اعلم!یہ متشابہات میں سے ہیں جن کااصل مفہوم اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے ۔البتہ سورئہ حٰم السجدہ کی ابتدائی آیات میں ان چھ دنوں کی کچھ وضاحت آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چار دن میں زمین کو بنایا ، اس پر خوراک کا انتظام کیا ، وسائل کا اہتمام کیا اور پھر دو دن میں زمین کے آسمان کو سیٹ کیا ۔ اس سے ایک اور نکتہ بھی واضح ہوتاہے کہ اللہ نے زمین کو بنا کر وسائل اس میں رکھ دیے ۔اللہ کی شان کریمی اور اس کی صفت رزاقیت کودیکھیے کہ بندے کو زمین پربعد میں بھیجا ہے لیکن اس کے لیے زمین پر وسائل پہلے پیدا فرمائے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے بچہ ماں کے بطن سے بعد میں برآمد ہوتاہے مگراس ماں کے وجود میں بچے کی غذا کاانتظام اللہ پہلے فرمادیتاہے۔ معلوم ہوا کہ رزق دینے والا بھی اللہ ہے۔ کچھ ظالم اور جابر قسم کے لوگ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں جو وسائل پر قابض ہو کر بیٹھ جاتے ہیں ، ان کا دراصل اللہ کی رزاقیت پر ایمان کم ہوتاہے ۔اللہ کی صفت رزاقیت پرعدم اعتمادبھی کفریہ طرزعمل ہے جس سے معاشرے میں فساد پیدا ہوتاہے ۔ اسی طرح کا ایک نعرہ یہ بھی لگایا جاتاہے کہ : بچے دو ہی اچھے ۔ کیوں ؟ کیاتم خالق اور رازق ہوگئے ہومعاذ اللہ۔آگے فرمایا:
{ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ط} (الحدید :4) ’’پھر وہ متمکن ہوا عرش پر۔‘‘
اللہ کاعرش متشابہات میں سے ہے کیونکہ اس کی حقیقت بھی اللہ ہی جانتاہے ۔ ہماراایمان ساری آیات پرہے، عمل کے اعتبار سے محکمات پرتوجہ زیادہ ہوگی اور متشابہات پرایمان رکھیںگے۔آگے اللہ تعالیٰ کی مزید قدرتوں کا ذکر ہے :آگے فرمایا:
{یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآئِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَاط}(الحدید :4) ’’وہ جانتا ہے جو کچھ داخل ہوتا ہے زمین میں اور جو کچھ نکلتا ہے اس سے‘ اور جو کچھ اترتا ہے آسمان سے اور جو کچھ چڑھتا ہے اس میں۔‘‘
زمین میں جانے والابیج بھی ہوتاہے۔ زمین کوبوکرکسان نے زمین کو برابر کردیااب اس کی آبیاری، حفاظت، نشوونماکون کررہاہے؟پھر کونسی کونپل زمین سے باہر نکلے گی ، پودے کا اگنا،فصل کا اگنا سب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علم میںہے۔ اسی طرح مردے بھی زمین کے حوالے کیے جارہے ہیں،وہ اللہ کے علم سے باہر نہیں ہیں اور ایک دن اللہ انہیں دوبارہ اٹھائے گا ۔ اسی طرح زمین کے اندر چھپے ہوئے وسائل جن کو انسان استعمال کررہا ہے سب اللہ کے پیدا کیے ہوئے ہیں ۔پھر آسمانوں سے فرشتوں کا اُترنا ،کسی قوم کے لیے عذاب لے کر آرہے ہیں ، کسی کے لیے رحمت لے کر نازل ہو رہے ہیں ، یہ سب فیصلے اوپر ہی ہورہے ہیں ۔ پھر فرشتے بندوں کی روحیں قبض کرکے آسمان میں چڑھتے ہیں ، بندوں کے نامہ اعمال اور بندوں کی دعاؤں کا اوپر جانا سب اللہ کے علم میں ہے ۔ فرمایا:
{وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ ط}(الحدید :4) ’’اور تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ انسان کے قریب ہوتاہے ۔ کتنا قریب فرمایا :
{وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَـیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ(16)} (سورۃ ق) ’’اور ہم تو اُس سے اُس کی رَگِ جاںسے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘
البتہ اس کی کیفیت ہم سمجھ نہیںسکتے، کیوں؟
{لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ ج}(الشوریٰ:11) ’’اُس کی مثال کی سی بھی کوئی شے نہیں۔‘‘
اللہ ہر آن ہمارے ساتھ ہے اور پھر اللہ کی معیت خصوصی بھی ہوتی ہے۔فرمایا:
{اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَ(16)} (النحل) ’’یقیناً اللہ اہل ِتقویٰ اور نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔‘‘
{اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(128)}(البقرۃ)’’ جان لو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
ایک اللہ کی عمومی معیت ہے کہ اللہ ہمارے ساتھ نہ ہو ، اس کی توجہ ہماری طرف نہ ہو تو نہ ہماری سانس چل سکتی ہے ، نہ دل دھڑک سکتاہے ، نہ آنکھ دیکھ سکتی ہے اور نہ کان سن سکتے ہیں ‘نہ زبان بول سکتی ہے ۔اور ایک اللہ کی خصوصی معیت ہے جو متقین اور صابرین کو حاصل ہوتی ہے ۔ ہم لوگ غور کریں ،آج بچے ، بوڑھے ، جوان سب موبائل پر، انٹرنیٹ پر سوشل نیٹ ورک پر جڑے ہوئے ہیں ، دن رات اسی طرف توجہ ہے لیکن دوسری طرف ہر بندہ شکوہ کناں ہے ، ہر بندہ پریشان ہے بلکہ پریشانی ، غم اور مایوسی میں لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ ذرا اپنے رب سے بھی تو رابطہ کر لیجئے جو آپ کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور وہ ہر چیز پر قادر بھی ہے اور ہر چیز کا اسے علم بھی ہے ، اُس کی طرف بھی توجہ کر کے دیکھ لیجئے ۔ اللہ ہم سب کو توفیق دے۔
آخر میں فرمایا:
{وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(4)}(الحدید) ’’اور جو کچھ تم کررہے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘
اللہ دیکھ رہا ہے کہ بندہ مسجد میں نماز پڑھ کر باہر نکلتا ہے تو باہر بھی مسلمانوں والے کام کرتا ہے یا نہیں ۔ اللہ سب کو دیکھ رہاہے ۔مسجد کے خطیب کوبھی دیکھ رہاہے ، عوام الناس کوبھی دیکھ رہاہے ،حکمرانوں کو بھی دیکھ رہا ہے اورعلماء کو بھی دیکھ رہا ہے ۔ دینی قیادتوں کو بھی دیکھ رہاہے ۔ اکھاڑپچھاڑ کے لیے بڑے بڑے اقدام ہورہے ہیں، بڑے بڑے دھرنے دیے گئے اسلام آباد میں جاکرلیکن کیاسود کے خاتمے کے لیے بھی کوشش ہوگی ، شریعت کے نفاذ کے لیے بھی آواز بلند ہوگی۔جمہوری اتحاد کے لیے دینی غیردینی سب جمع ہوجاتے ہیں۔ کیااللہ کی شریعت کے لیے جمع ہورہے ہیں ؟سب کو اللہ تعالیٰ دیکھ رہاہے اور اللہ کادیکھناانفارمیشن کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ بتانے کے لیے ہے کہ لوٹ کر تم سب نے اُسی ہی کی طرف آنا ہے۔ تب تمہارے سب اعمال تمہارے سامنے رکھ دیے جائیں گے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین پرعمل کرنے، گناہوں سے بچنے اور واقعتا ًاپنا بندہ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! خخخ