(زمانہ گواہ ہے) حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کے موضوع پر - محمد رفیق چودھری

6 /

اگر ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو معاشی استحکام بھی آئے گا ۔ پھر کوئی بھی گروہ

پاکستان میں امن و امان خراب کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے گا : ایوب بیگ مرزا

ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کے مابین مذاکرت کسی قسم کی پسپائی نہیں ہے بلکہ

 

مذاکرات میں ہی فریقین کا اصل مفاد ہے : رضا ء الحق

 

حکومت اورکالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

 

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

 

سوال:حکومت پاکستان اورکالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کہاںاورکن شرائط پہ ہورہے ہیںاور ان مذاکرات میں ثالثی کاکردارکون اداکررہاہے ؟
رضاء الحق: مختلف ممالک میںقومی ایشوز پر فیصلے کرنے کا اختیار مختلف طاقتور اداروں کے پاس ہوتاہے ۔ جیسے چین میںکمیونسٹ پارٹی ہے ، تمام سیاسی اور عسکری فیصلے وہاں ہوتے ہیں ۔ اسی طرح روس میں بھی طاقت کا مرکز ایک ہے۔ امریکہ اورچندمغربی ممالک میں جمہوریت توہے ،مختلف الیکٹڈباڈیز ،پارلیمنٹ اورملٹری اسٹیبلشمنٹ بھی ہے لیکن وہ سب قومی مفادعامہ کے معاملے میںایک ساتھ چل رہے ہوتے ہیں۔پاکستان میں بھی سول اورعسکری قیادت بالخصوص نیشنل سکیورٹی کے معاملات میں ایک پیج پرہوتی ہے۔ ایسی تناظیم جن کو کالعدم قرار دیاجاچکا ہے ان کے ساتھ ڈیل کرنے کا کیا طریقہ کارہوگا، ان کے ساتھ بات چیت ہوگی یاان پرملٹری ایکشن ہوگااس حوالے سے متحد ہوکرفیصلے کیے جاتے ہیں لیکن ان معاملات میں فیصلے کرنے کی اصل طاقت ہماری اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہی ہوتی ہے ۔ جہاںتک موجودہ مذاکرات کاتعلق ہے تواس کا پس منظر یہ ہے کہ جب افغان طالبان نے اگست 2021ء میں امریکہ کو افغانستان سے نکال باہرکیااور وہاں پران کی حکومت قائم ہوگئی تو وہاںپرٹی ٹی پی کے لوگ موجودتھے ۔ ان کوری انگیج کرنے کے لیے افغان طالبان نے ایک اچھے برادر اسلامی ملک کے طور پر اپناایک رول پلے کرنے کی کوشش کی۔ ماضی میںاکثرپاکستان اور افغانستان کے تعلقات کشیدہ ہی رہے ہیںسوائے طالبان کے دورکے۔ نائن الیون کے بعد دنیا کے حالات میںتبدیلی آئی اور دہشت گردی کی جنگ شروع ہوئی۔ چونکہ پاکستان ایک سکیورٹی سٹیٹ ہے اوراس کے آس پاس کے ممالک پاکستان کو عدم استحکام کاشکارکرنا چاہتے ہیںلہٰذا ہمارے قبائلی علاقوںمیںٹی ٹی پی کے نام سے مختلف تناظیم وجود میں آئیںجن کودشمنوںنے استعمال کیا۔البتہ 2021ء کے آخر میں افغان طالبان کی سپانسرشپ کے ساتھ حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کوقریب لانے کی کوشش کی گئی۔اس میں ریاست پاکستان کے بڑے سیدھے مطالبات تھے کہ ہتھیار ڈال دیںاورریاست پاکستان کونقصان پہنچانا بند کر دیںپھران کے ساتھ مذاکرات ہوسکتے ہیںاوراگررویہ درست ہوا توعام معافی بھی مل سکتی ہے ۔دوسری طرف ٹی ٹی پی کے مطالبات یہ تھے :
1۔ ان کے جتنے لوگ گرفتارہوچکے ہیںان سب کو چھوڑ دیا جائے۔
2۔ کالعدم کاسٹیٹس ختم کیاجائے۔
3۔ فاٹا کو کے پی کے میںضم کرنے کے حوالے سے ان کے جو تحفظات ہیں ان کو دور کیا جائے ۔
اس کے علاوہ ان کے ایک دو گروپس کی طرف سے اسلامی نظام قائم کرنے کامطالبہ بھی سامنے آیا۔
سوال:ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکراتی ٹیم میں حکو مت پاکستان کی طرف سے وفاقی وزیرجاوید طوری اور کے پی کے حکومتی ترجمان محمدعلی سیف شامل ہیں لیکن اس معاملے میں پارلیمنٹ کوآن بورڈ نہیںلیاجارہا۔ اس کی کیاوجہ ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی ہماری پارلیمنٹ معصوم ہے ۔ یعنی یہ اتنی بالغ نہیں ہوئی کہ معاملات کو سمجھ سکے اور نہ اسے بڑا ہونے دیا گیا ۔ ہماری پارلیمنٹ میںموجوداراکین کی اکثریت کویہ معلوم ہی نہیںہے کہ انہیںکرناکیاہے اورہماری ذمہ داریاں کیا ہیں۔پارلیمنٹ کے ممبر کی ذمہ داری قانون سازی اور پالیسی سازی ہوتی ہے۔ موجودہ مذاکرات پالیسی سازی میںآتے ہیںلیکن ہمارے ممبران کوپالیسی سازی کا علم ہی نہیںہے۔دوسری طرف ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پارلیمنٹ کواتنی اہمیت ہی نہیںدی اور اس معاملے میںسارا اختیار اپنے پاس رکھا ۔ حالانکہ اس معاملے میںبالادستی پارلیمنٹ کوحاصل ہونی چاہیے تھی اورا سٹیبلشمنٹ پارلیمنٹ کا دست وبازو اور معاون بنتی،اس کوسکیورٹی کے حوالے سے مشورہ دیتی اور پارلیمنٹ بھی ان کے مشورے کواہمیت دیتی۔ میں سمجھتاہوںکہ اس معاملے کو اسٹیبلشمنٹ بحیثیت مجموعی ڈیل کر رہی ہے اور حکومت یاپارلیمنٹ کااس میں کوئی دخل نظر نہیں آتا۔پہلے افغانستان میں مذاکرات ہو رہے تھے تب بھی کوئی دخل نظر نہیںآتاتھا۔حالانکہ پچھلے دورمیں بلاول بھٹو بڑے پُرجوش انداز میں کہتے تھے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں پارلیمنٹ کوآن بورڈ نہیں لیا جا رہا۔اب وہ خود پارلیمنٹ کاحصہ ہیںلیکن ان کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا۔یقیناً دوسرے ممالک میںبھی اسٹیبلشمنٹ سکیورٹی کے معاملات میںدخل انداز ہوتی ہے لیکن وہاںسول حکومت کے مشورے کے ساتھ سب کچھ ہوتا ہے ۔ ماضی میں امریکی حکومت کا سکیورٹی کے معاملے میںاپنی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اختلاف ہوا۔حالانکہ دونوںکاہدف ایک تھا۔لیکن وہاں اسٹیبلشمنٹ نے آگے بڑھ کرہدف حاصل کرلیاتوسول حکومت نے اس کے فیصلے کو تسلیم کرلیا ۔ یعنی وہ دونوںقومی معاملات میں ایک پیج پر آ جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاںاکثر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سکیورٹی کے معاملے کو اپنے درمیان وجہ تنازع بنالیتے ہیں اور ایک تنازعے کاسلسلہ شروع ہوجاتاہے ۔ اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ سکیورٹی کے معاملے میں حکومت دخل دیتی ہے حالانکہ یہ معاملہ دونوں کامشترکہ ہوتاہے ۔اگر اس حوالے سے کوئی اختلاف ہوتواس کواحسن طریقے سے حل کرنا چاہیے۔جیسے امریکہ ، روس اور چین میں ہوتاہے۔ روس اورچین میںتوپتا ہی نہیںچلتاکہ کوئی اختلاف تھا۔ لیکن ہمارے ہاںیہ اختلافات بہت شدت اختیار کر جاتے ہیں اور حکومتوں کو گرانے کاسبب بن جاتے ہیں۔ میںسمجھتاہوں کہ اس وقت جوکچھ اس حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کررہی ہے حکومت کواعتراض نہیں ہوگا کیونکہ وہ نہیں چاہے گی کہ یہ جھگڑالمباہو۔ظاہرہے اس کے بڑھنے سے پاکستان میں سکیورٹی کے مسائل پیدا ہوں گے۔ لہٰذا ظاہریہی ہورہاہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کر رہی ہے اورحکومت خاموش ہے ۔
سوال:ٹی ٹی پی کی دہشت گردکارروائیوںکے خلاف پہلے آپریشن ضرب عضب ہوتاہے ،پھر کچھ عرصہ بعدآپریشن رد الفسادہوتاہے لیکن اب اسی کالعدم تناظیم کے ساتھ مذاکرات ہورہے ہیںتوکیایہ ریاست کی پسپائی نہیں ہے ؟
رضاء الحق:اصل میںنائن الیون کے بعدامریکہ نے ایک نیابیانیہ پوری دنیامیںرائج کیااورمسلم ممالک کو ٹارگٹ کرنے کے لیے اس نے حملے کیے ۔پھراس نے دہشت گردی کی جنگ کے عنوان سے مختلف لیبل بنائے ۔ اس فورم کے ذریعے ہم نے پہلے ضرب عضب اوررد الفساد جیسے آپریشنزکی اصولی طور پر مذمت کی تھی کہ ملٹری آپریشن اس کاحل نہیںہے۔ یقینا رٹ آف دی سٹیٹ کوقائم کرنابھی ضروری ہے ۔ ٹی ٹی پی کاپورابیانیہ لال مسجد کے واقعہ کے بعدبڑھا جوایک فوجی طالع آزماجنرل مشرف نے شروع کیاتھا۔ جنرل مشرف مغربی ایجنڈے کو پاکستان میںلاناچاہتاتھاکہ پاکستان کوجدت پسند اور امریکی نواز ریاست بنا دیا جائے جس کا مغرب مشرف سے مطالبہ کر رہا تھا ۔ جب کسی ملک پر ایک غیرملکی طاقت حملہ کرتی ہے ،بمباری کرتی ہے تو پھر وہاں سے مزاحمت بھی آتی ہے جیسے کہ افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا۔لیکن ہمارے اپنے ملک میں ایسے لوگ جو ہمارے مسلمان بھائی ہیں،جن کے ساتھ ظلم بھی بہرحال ہوااوران میں سے بہت سے گمراہ بھی ہوجاتے ہیںلیکن ان کوواپس لانے کاطریقہ آپریشن نہیںتھا۔ٹھیک ہے ہم نے پلان کیااور ان کی militancyکوختم کرنے کی کوشش کی اوران کے خلاف دوآپریشنزکیے ۔لیکن ہم نے دنیابھرمیںدیکھاہے کہ آخری حل مذاکرات ہوتے ہیں۔ آئرلینڈ میںپروٹسٹنٹس اور کیتھولکس کی بڑے عرصے سے جنگ چل رہی تھی لیکن ان کوبھی بالآخرمذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑا۔یہ مذاکرات بھی کسی قسم کی پسپائی نہیںہے ۔ البتہ شرائط کٹھن ہونی چاہئیں۔ ریاست کی شرائط میںپہلی شرط یہی ہوتی ہے کہ اداروںکویاملک کو نقصان نہ پہنچایاجائے اورمعصوم عوام کانقصان نہ کیاجائے ۔ان مذاکرات کے ذریعے اگرپُرامن معاہدہ ہوجائے تویہ بہت بہتر ہے۔
سوال:ملک میںاس وقت معاشی اورسیاسی خلفشارہے اور قوم سیاسی لحاظ سے دوحصوںمیںتقسیم ہوچکی ہے۔ آپ کے خیال میں یہ صورت حال ملک کوکس طرف لے کر جائے گی ؟
ایوب بیگ مرزا:یقیناًہم اس وقت معاشی اور سیاسی لحاظ سےبدترین خلفشارکاشکارہیں۔سیاستدان ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن چکے ہیں۔معاشی لحاظ سے ہم آئی ایم ایف کے سہارے پرہیں۔وہ کچھ روک دے توہم معاشی دیوالیہ پن کا شکا ر ہوجائیں گے اوراگر کچھ دے دے توہم سانس لیتے ہیں ۔چند دن بعد ضمنی الیکشن ہورہے ہیں ۔فرض کیجیے کوئی اپوزیشن جماعت الیکشن کے نتائج سے مطمئن نہ ہوکراحتجاجی تحریک چلاتی ہے توامریکہ ان حالات سے ضرور فائدہ اٹھائے گا۔ چاہے وہ IMF کے ذریعے مشکلات میں ڈالے یا FATFکے ذریعے نقصان پہنچائے ۔ ٹی ٹی پی میں یقینی طور پر کچھ مسلمان غلط فہمی کے طور پر بھی شامل ہوگئے تھے لیکن اس میں بہت بڑاطبقہ پاکستان میں داخلی انتشار پید اکرنے کے لیے امریکہ اور انڈیا نے شامل کروایا تھا۔امریکہ ہماری امداد اس طرح کرتاہے کہ مجھ سے پیسے لواور ضائع کروتاکہ اس کی گرفت اور مضبو ط ہو۔دوسری طرف ٹی ٹی پی میں ایک طبقہ ایسا ہے جو امریکہ، انڈیا کی طرح پاکستان کادشمن ہے ۔ لہٰذاان کی دخل اندازی ضرور ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان میں حالات پہلے سے خراب ہوجائیںگے ۔ میں سمجھتاہوں کہ ہمارے معاشی حالات بہتر ہونے بہت مشکل ہیں جب تک اسٹیبلشمنٹ، پارلیمنٹ اور عوام ایک پیچ پر نہیں آجاتے کوئی بہتری کی صورت قطعی طور پر نظر نہیں آتی ۔پاکستان کے حالات میں آگے روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔ اگر ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تومعاشی استحکام آئے گا لیکن سیاسی لحاظ سے مستقبل میں لڑائی جھگڑے بہت زیادہ نظرآرہے ہیں۔
سوال:ٹی ٹی پی کی طرف سے دوواضح مطالبات آرہے ہیں کہ ہمارے گرفتار راہنمائوں کورہا کیاجائے اور قبائلی علاقوں میں موجود فوج کو واپس بلایاجائے۔ اگر ٹی ٹی پی کے دو نوں مطالبات مان لیے جائیں توپاکستان میں داخلی امن وامان کی گارنٹی کون دے گا؟
رضاء الحق: قبائلی علاقوں کاایک تاریخی پس منظر ہے۔ جب افغانستان اور پاکستان کاوجود نہیں تھا اس وقت سے قبائلی لوگ ان علاقوں میں نسل در نسل رہ رہے ہیں۔ یقینا ًاس کے مثبت پہلو اپنی جگہ پر موجود ہیں ۔لیکن قبائلی علاقہ ماضی میں پاکستان مخالف سرگرمیوں میں بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ افغانستان میںطالبان سے پہلے امریکہ کی puppet حکومت ان قوتوں کی پشت پناہ بنی ہوئی تھی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ وہاںرٹ آف دی سٹیٹ قائم کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ وہاں سے دہشت گردی ہو رہی تھی۔ دشمن قوتیں بھی لوگوں کو استعمال کرکے پاکستان کو نقصان پہنچا رہی تھیں۔افغانستان کے راستے اور ایران کے راستے سے دراندازی ہوتی رہی ہے۔ اس وقت جس علاقے کو secureکیاگیا اس کو سول انتظامیہ کے سپرد کرنے میں وقت لگتا ہے ۔ جومذاکرات چل رہے ہیںہماری دعاہے کہ یہ ایک اچھی نہج کی طرف جائیں اورنتیجہ خیز ثابت ہوں۔ فریقین میں ٹی ٹی پی کے ساتھ ساتھ پاکستان اور افغانستان بھی شامل ہیں ۔ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ بارڈر کے علاقے کواس طرح محفوظ کیاجائے کہ دہشت گردی کے حملے بھی بند ہوں اور یہاںسول انتظامیہ لائی جائے۔پھر یہ بھی اقدام کرنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے بھی کوئی لاعلمی میں ایسا کام نہ کرے جس سے افغان حکومت کے لیے مسائل پیدا ہوںکیونکہ جب افغان طالبان امریکہ کے خلاف جنگ لڑرہے تھے تووہاںہرقسم کے ایلیمنٹس موجود تھے ۔ بہرحال فوری طور پرفوج کوواپس بلانے کا معاملہ ممکن نہیںہے کیونکہ یہ ایک تدریج کاعمل ہے یعنی وقت کے ساتھ ساتھ ہوگا۔
سوال: ٹی ٹی پی پاکستان مخالف کارروائیوں میں ملوث رہی ہے، ا س نے دہشت گرد حملوں میں ہزاروں سویلین اور فوجیوں کو قتل کیا ۔ اگر ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ہوسکتے ہیں توجماعۃ الدعوۃ کے ساتھ کیوں مذاکرات نہیں ہوسکتے ؟
ایوب بیگ مرزا:پہلے میں ٹی ٹی پی کے بارے میں کچھ عرض کردوں۔ 1947ء میں افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے ممبر بننے کی مخالفت کی تھی ۔ٹی ٹی پی نے پاکستان میں کارروائیاںڈاماڈولا پرحملے کے بعد شروع کیں جب مشرف نے اس حملے کے بارے میںکہا کہ یہ حملہ امریکہ نے نہیں بلکہ ہم نے خود کیاہے ۔ اس حملے میں بہت سے معصوم بچے قرآن پڑھتے شہید ہوگئے تھے ۔ اس کو بنیاد بنا کر ٹی ٹی پی میں تین طرح کے لوگ شامل ہوگئے ۔ 1۔ وہ لوگ جوشروع سے پاکستان کے خلاف تھے۔ 2۔ وہ لوگ جن پرامریکہ نے پاکستان کے ساتھ مل کر ڈرون حملوں کیے اور مظالم ڈھائے وہ ردعمل میں ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے ۔ 3۔ وہ لوگ جو امریکہ اورانڈیا کے ایجنٹ کے طورپر ٹی ٹی پی میں شامل ہوئے ۔ ان کانام تحریک طالبان بھی امریکہ نے رکھا تاکہ امریکہ ان کے ذریعے دومقاصد حاصل کرسکے جو وہ پاکستان میں حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ ایک پاکستان کونقصان پہنچا سکے اور دوسرا افغان طالبان کو بدنام کرسکے ۔ جہاںتک جماعۃ الدعوۃ کامعاملہ ہے تواس نے پاکستان کے اندر کوئی عسکری کارروائی نہیںکی اورنہ کوئی دہشت گردی کی ۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جماعۃ الدعوۃ اوراسٹیبلشمنٹ ہمیشہ ایک پیج پررہے ہیں۔ان کااتنابڑا مسئلہ نہیںہے ۔ ان پراگر کوئی الزام ہے توبھارت میںکچھ کرنے کاالزام ہے ۔
سوال: ٹی ٹی پی سے جب پہلے مذاکرات ہوئے تھے تو 30مئی تک فائربندی کااعلان کیاگیا تھا۔ اب اس اعلان میں توسیع کرتے ہوئے غیرمعینہ مدت مقرر کی گئی ہے ۔ کیاآپ کویہ مذاکرات نتیجہ خیز نظرآرہے ہیں ؟
رضاء الحق:یقیناًنتیجہ خیز ہوسکتے ہیں لیکن اس کی بھی کچھ شرائط ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ فریقین کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جوبھی انہوںنے مذاکرات میںشرائط رکھی ہیں وہ ان کوپورا کریں اور درمیان میں اگر کوئی عبوری معاہدہ ہوتاہے تواس پربھی مکمل عمل درآمد کیاجائے ۔یعنی سیزفائر کی پابندی کی جانی چاہیے ۔اگر ٹی ٹی پی کے لوگ یہاںآکر حملے کرتے تھے تووہ بالکل بند کردیں تاکہ اعتماد کی فضا قائم ہو۔ ثالثی کروانے والوں کو بھی غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ دوسری طرف پاکستان میں بھی قانون کوعملی صورت دی جائے کیونکہ لاپتہ افراد کامعاملہ ابھی تک لٹکا ہوا ہے ۔ ماورائے عدالت قتل بالکل نہ کیاجائے ۔
سوال: لاپتہ افراد کے معاملے میں کیا ہماری عدلیہ سنجیدگی سے کام لے رہی ہے ؟
رضاء الحق:سیریس ہم اس وقت کہیںگے جب عدالت اس پر کوئی فیصلہ دے گی اور پھر اس فیصلے پر سب عمل درآمد کریں گے ۔ جب تک لاپتہ افراد کامعاملہ مکمل طور پر ختم نہیںہوگاتواس وقت تک ہماری عدلیہ پر کوئی یقین نہیں کرے گا۔بہرحال اگرفریقین نیک نیتی کے ساتھ اس پورے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے توان شاء اللہ تمام معاملات حل ہوجائیں گے۔
سوال: طالبان اقتدار میں آنے کے بعد پوری دنیا کو یقین دہانیاںکروا رہے ہیں کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے لیے استعمال نہیںہوگی لیکن ٹی ٹی پی کابیس کیمپ افغانستان ہی ہے اور وہاںسے وہ پاکستان کے اندر دہشت گرد کارروائیاں کررہے ہیںاور ایسا بھی ہوا کہ پاکستان کی فورسز نے افغانستان میں موجود ان کے اڈوں کو ٹارگٹ کیاہے ۔ افغانستان اورپاکستان کے نہ چاہتے ہوئے بھی ٹی ٹی پی وہاں سروائیوکیسے کررہی ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:اس وقت افغان طالبان کی پوزیشن یہ ہے کہ وہ ایک طرف ہیں اورباقی ساری دنیا بشمول روس ، چین اورپاکستان دوسری طرف ہیں۔ہمیں توقع یہ تھی کہ امریکہ اوریورپ سے تو پُرامن طور پر معاملہ حل نہیں ہوگا البتہ پاکستان ،روس اور چین افغان طالبان کی مدد کریں گے۔لیکن ابھی تک روس اور چین کی طرف سے کوئی ٹھوس مدد نہیں ہو رہی۔ افغان طالبان کو اپنے داخلی معاملات کو بھی دیکھنا ہے۔ فرض کیجیے ایک گھرانے دوافراد پڑوسیوںسے اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن گھر کی اکثریت اچھے تعلقات نہیں چاہتی توکیا گھر کے سربراہ کے لیے اچھے تعلقات قائم کرنا آسان ہوگا ؟یہی مشکل اس وقت افغان طالبان کو پیش ہے ۔ اگر وہ افغانستان میں موجود پاکستان مخالف حلقوں پر سختی کرتے ہیں تو خود افغان طالبان کا سروائیول مشکل میں پڑ جائے گا ۔ پاکستان کی حکومت اور اداروں کو افغان طالبان کی مشکلات کا بھی لحاظ رکھنا چاہیے ۔ کچھ عرصہ قبل جب بعض افغانوں نے باڈر پر لگی باڑ کو توڑا تھا تو جواب میں ہماری طرف سے بمباری کی گئی جس میں بے گناہ لوگ بھی جان بحق ہوئے حالانکہ جنہوں نے یہ حرکت کی تھی ان پر ہی اٹیک کیا جاتا ۔ ہمیں اپنے جذبات کو کنٹرول کرکے افغان طالبان کی حیثیت کو سمجھ کرکوئی اقدام اٹھانا چاہیے ۔ اگر افغان طالبان ہماری حمایت میں پاکستان مخالف دھڑوں سے کوئی محاذ آرائی کرتے ہیں تو وہاں دوبارہ ایک جنگ شروع ہو جائے گی اور وہ پاکستان کے مفاد میں بھی نہیں ہوگی ۔ فرض کریں اگر اس جنگ میں پاکستان مخالف گروہ افغانستان پر قابض ہو گیا تو پھر ہمارے لیے کیسے حالات ہوں گے ؟ میں سمجھتاہوں کہ ہمیں افغان طالبان کے معاملے میں برداشت کی پالیسی اپنانا چاہیے اور عسکری کارروائی سوچ سمجھ کرکرنی چاہیے ۔