(منبرو محراب) قربانی کا اصل مقصد - ابو ابراہیم

6 /

قربانی کا اصل مقصد(قرآن و حدیث کی روشنی میں)

 

مسجد دارالسلام باغ جناح میں صدر مرکزی انجمن خدام القرآن محترم ڈاکٹر عارف رشید کے 10 جولائی 2022ء کے خطابِ عید الاضحی کی تلخیص

 

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد!
حضرات! آج عیدالاضحی کابہت مقدس اور مبارک دن ہے۔اس دن جو قربانی کی جاتی ہے اس کے بارے میں صحابہ کرامؓ نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا تھا۔ نبی اکرمﷺ نے جواباً ارشادفرمایاتھا:
((سنۃابیکم ابراہیم))’’یہ تمہارے باپ ابراہیم ؑ کی سنت ہے ۔‘‘
واقعہ یہ ہے کہ حج کے بہت سارے مناسک حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کے دورکی عکاسی کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ کا جومقام اورمرتبہ ہے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں جابجا ذکر فرمایا ہے ۔ سورۃ البقرہ میں فرمایا :
{ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ط} (البقرہ:124) ’’ (اے ابراہیم ؑ!) اب میں تمہیں نوعِ انسانی کا امام بنانے والا ہوں!‘‘
پھرسورۃالنساء میں فرمایاگیا:
{وَاتَّخَذَ اللّٰہُ اِبْرٰہِیْمَ خَلِیْلًا(125)}’’ اور اللہ نے تو ابراہیم ؑکو اپنا دوست بنا لیا تھا۔‘‘
یہ دوالقابات اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کوقرآن حکیم میں مرحمت فرمائے۔پھرحضرت ابراہیم ؑ کاذکر قرآن میں 26سورتوں میں موجود ہے ۔ 71مرتبہ حضرت ابراہیم ؑ کانام نامی اس مقدس قرآن حکیم میں آیاہے ۔ اس کے علاوہ ہم مسلمان ہر نماز میں جو درود پڑھتے ہیں اس کو درود ابراہیمی کہا جاتاہے ۔
اسی طرح ملت ابراہیمی کاذکربھی قرآن حکیم میں سات مرتبہ موجود ہے۔ سورۃالنحل میں نبی اکرم ﷺ سے واحد کے صیغے میں خطاب ہے ۔ فرمایا :
{ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًاط}(النحل:123)’’پھر (اے محمدﷺ!) ہم نے وحی کی آپؐ کی طرف کہ پیروی کیجئے ملت ِابراہیم ؑکی یکسو ہوکر۔‘‘
گویاکہ ملت محمدیﷺ حضرت ابراہیمؑ کی ملت کا ہی تسلسل ہے ۔ سورۃالحج کے آخر میں فرمایا:
{مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰہِیْمَ ط ہُوَ سَمّٰٹکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ لا مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ہٰذَا}’’ تمہارے جدّامجد ابراہیم ؑکی ملت،اُسی نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے‘اس سے پہلے بھی (تمہارا یہی نام تھا) اور اس (کتاب) میں بھی ہے‘‘ (الحج:78)
حضرت ابراہیم ؑ جب بیت اللہ کی دیواریں  تعمیر کر رہے تھے تو آپ ؑ نے دعا فرمائی تھی :
{رَبَّـنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَـآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ ص} (البقرہ:128)’’اور اے ہمارے رب! ہمیں اپنا مطیع فرمان بنائے رکھ‘ اور ہم دونوں کی نسل سے ایک اُمت اٹھائیو جو تیری فرمانبردار ہو۔‘‘
گویاآج جو اُمت مسلمہ تقریباً پونے دو ارب مسلمانوں پر مشتمل ہے تویہ حضرت ابراہیم ؑ کی دعا کاہی نتیجہ ہے ۔ پھرحضرت ابراہیم ؑ کی شخصیت وہ شخصیت ہے جسے یہودی اور عیسائی بھی تسلیم کرتے ہیں ۔ یہودی کہتے تھے کہ حضرت ابراہیم ؑ یہودی تھے۔ جبکہ نصاریٰ اور عیسائی کہتے تھے کہ ابراہیم نصاریٰ تھے،عیسائی تھے لیکن قرآن حکیم میں واضح فرمایا گیا:
{مَا کَانَ اِبْرٰہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّلاَ نَصْرَانِیًّا وَّلٰــکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًاط}(آل عمران:67)’’(تمہیں بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ) ابراہیم ؑ نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی‘بلکہ وہ تو بالکل یکسو ہو کر اللہ کے فرمانبردار تھے۔‘‘
حضرت ابراہیم ؑ کوتسلیم کرنایہودو نصاریٰ کاحق ہے کیونکہ آپؑ کی نسل جوحضرت اسحاق ؑ سے چلی ہے اسی میں حضرت موسیٰ اورحضرت عیسیٰ علیہما السلام بھی ہیں لیکن دوسری نسل جوحضرت اسمعٰیل ؑ سے چلی اس میں نبوت کے حوالے سے محمدرسول اللہﷺ تک تقریباً ڈھائی ہزار سال کاوقفہ ہے اور اس کا اختتام محمدرسول اللہ ﷺ کی بعثت پرہوا۔ آج عیدقربان کے موقع پر لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں قربانیاں ہوں گی ،یہ اصل میں حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کے سب سے بڑے امتحان کا مظہر ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
{وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ط} (البقرہ:124)’’اور ذرا یاد کرو جب ابراہیم ؑ کو آزمایا اُس کے رب نے بہت سی باتوں میں تواس نے ان سب کو پورا کردکھایا۔‘‘
حضرت ابراہیم ؑ تمام امتحانات میں امتیازی حیثیت سے پاس ہوئے ۔ سب سے بڑا امتحان وہ تھا جس کی یا د میں اس دن کروڑوں کی تعداد میں قربانیاں ہوتی ہیں ۔ اس امتحان کے وقت حضرت ابراہیم ؑ سو سال کے بوڑھے ہو چکے تھے۔ روایات میں ہے کہ اس وقت حضرت ابراہیم ؑ نے مسلسل تین راتیں خواب دیکھا کہ آپ ؑ اپنے بیٹے اسمعٰیل ؑ کو ذبح کر رہے ہیں ۔ حضرت اسمعٰیل ؑ کی عمر اس وقت تیرہ چودہ برس تھی۔یہ وہ وقت ہوتاہے کہ باپ کے لیے اس کا بیٹا دست وبازو بن رہا ہے ،اس وقت بوڑھے باپ کو بیٹا کتنا محبوب ہو گا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے یہ سب سے بڑی محبت بھی حضرت ابراہیم ؑ نے قربان کر دی ۔ قرآن میں ارشاد ہوتاہے :
{اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی ط }’’میں دیکھ رہا ہوں خواب میں کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوںتو دیکھو! تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘
بیٹے نے کیاجواب دیا:
{یٰٓاَ بَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُز سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ(102)}(الصافات)’’ ابا جان! آپ کر گزرئیے جس کا آپ کو حکم ہو رہا ہے۔ اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔‘‘
یہ الگ بات ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔ قرآن میںوہ نقشہ کھینچاگیا ہے :
{فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ(103) وَنَادَیْنٰہُ اَنْ یّٰٓاِبْرٰہِیْمُ (104)قَدْ صَدَّقْتَ الرُّئْ یَاج اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ (105)اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْبَلٰٓؤُاالْمُبِیْنُ (106)وَفَدَیْنٰـہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ (107) }(الصافات)’’پھر جب دونوں نے فرمانبرداری کی روش اختیار کر لی اور ابراہیم نے اس کو پیشانی کے َبل لٹا دیا۔اور ہم نے اسے پکارا کہ اے ابراہیم ؑ!تم نے خواب سچ کر دکھایا‘ یقیناً ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں محسنین کو۔یقینا ًیہ بہت بڑی آزمائش تھی۔اور ہم نے ایک ذبح عظیم اس کا فدیہ دیا۔‘‘
اس قربانی اور جذبہ &فرمانبرداری کا اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو بہت بڑا انعام دیا ۔
اصل سبق
حضرت ابراہیمؑ کی زندگی میں ہمارے لیے اصل سبق یہ ہے کہ اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے سامنے سرنڈر کردیں ۔ ہم اپنی جان ، مال ، صلاحیتیں ، اولاد سب کچھ اللہ کی فرمانبرداری میں لگا دیں ۔ جیسے آپ ؑ نے اللہ کی فرمانبرداری کی تھی ۔ آپ ؑ پہلے کلمہ حق پر قائم رہے یہاں تک کہ آپ ؑ کو آگ کے الاؤ میں ڈالا گیا لیکن آپؑ کی استقامت میں لغزش نہیں آئی ۔ بقول شاعر ؎
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
یعنی آپ ؑ قربانی سے پہلے اپنی جان کی قربانی بھی اللہ کے دین کے لیے پیش کرنے کے لیے پرعزم تھے ۔ حضرت ابراہیم ؑ کی بقیہ زندگی میں بھی وعظ ونصیحت ہے ،تبلیغ ہے ،دعوت ہے ،لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا جارہا ہے ،پکار ا جارہاہے ۔ یہ بھی وہ سنت ہے جو ہمیںادا کرنی چاہیے ۔ سورۃالحج میں ارشادہوتاہے :
{لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَآؤُہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ط}(الحج:37) ’’اللہ تک نہ تو ان کے گوشت پہنچتے ہیں اورنہ ان کے خون ‘لیکن اس تک پہنچتا ہے تمہاری طرف سے تقویٰ۔‘‘
اگر دل میں خلوص موجود ہے ، اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری ہے تو اللہ تعالیٰ کو وہ قربانی قبول ہے چاہے وہ مال کی قربانی ہو یا جان کی قربانی ہو یا صلاحیتوں کی قربانی ہو ۔
وفاداری صرف اللہ کے ساتھ نہیں بلکہ اللہ کے رسولوں ، الکتاب اور مسلمانوں کے ساتھ بھی وفاداری ہونی چاہیے ۔ جیسے رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو ایک نصیحت فرمائی تھی۔ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: دین خیر خواہی کا نام ہے، صحابہؓ نے پوچھا کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ، اس کی کتاب، اس کے رسول، مسلمانوں کے امراء (حکمرانوں) اور عام لوگوں کے لیے۔
اگراحکام شریعت کو پاؤں تلے روندا جارہا ہے تو یہ اللہ سے وفاداری نہیں ہے بلکہ اللہ سے غداری ہے ۔ اسی طرح رسول اللہﷺ کااسوہ ہم سب کے لیے راہنمائی ہے ۔ ارشاد ہوتاہے :
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (الاحزاب:21)’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول ؐمیں ایک بہترین نمونہ ہے ‘‘
اسوہ حسنہ کی اصطلاح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کے لیے بھی استعمال کی ۔ ارشاد ہوتاہے :
{قَدْ کَانَتْ لَـکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ ج}(الممتحنہ:4) ’’تمہارے لیے بہت اچھا نمونہ ہے ابراہیم ؑاور ان کے ساتھیوں (کے طرزِعمل) میں۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کے اُسوہ کی پیروی کرنا دراصل حضرت ابراہیم ؑ کے اسوہ کی پیروی کا ہی تسلسل ہے ۔ اگر ہم رسول اللہ کی نافرمانی کے مرتکب ہو رہے ہیں تو یہ بھی وفاداری نہیں بلکہ غداری ہے ۔ علامہ اقبال نے آج سے بہت عرصہ پہلے کہاتھا:
رہ گئی رسم اذاں، روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی
آج کروڑوں کی تعداد میں قربانیاں ہوں گی لیکن قربانی کی جو اصل روح ہے وہ اللہ اور رسولﷺ کے ساتھ وفاداری ہے ۔ اگر یہ وفاداری نہیں ہے تو قربانی کا کوئی مقصد نہیں ہے ۔
اسی طرح اللہ کی کتاب کے ساتھ وفاداری نہیں ہے تو بھی قربانی کا کوئی مقصد نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم صرف ثواب حاصل کرنے کے لیے تونازل نہیںکیاتھا۔ثواب ایک بونس ہے لیکن اصل میں یہ کتاب ہدایت ہے ۔ ھدی للمتقین بھی اور ھدی للناس بھی ہے۔
آج امت مسلمہ کی زبوںحالی اوردین سے دوری کودیکھاجائےتو یہ اسی وجہ سے ہے کہ ہم نے الکتاب کے ساتھ اپنے تعلق کو دانستہ منقطع کر لیا ۔ مولانامحمود الحسن دیوبندیؒکےوہ الفاظ نوٹ کرنے کے قابل ہیں جو مالٹا کی  اسیری کے بعد انہوں نے کہے تھے :
میں نے جیل کی تنہائیوں میں جہاں تک غور وفکر کیا تو معلوم ہوا کہ اس امت کی زبوں حالی کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ قرآن حکیم کے ساتھ اپنے تعلق کومنقطع کرلینا ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس شخص نے قرآن کے علاوہ ہدایت کہیں سے حاصل کرناچاہی اللہ تعالیٰ اسے لازماً گمراہ کردے گا۔یہی نقشہ علامہ اقبال نے آج سے ایک صدی پہلے کھینچا تھا؎
عید آزاداں شکوہ ملک و دیں
عید محکوماں ہجوم مومنیں
عید کے موقع پر جوولولہ اورخوشی ہے وہ تمام لوگوں کو مبارک ہولیکن حقائق یہ ہیں کہ آج اگر اس روئے ارضی پر مسلمانوں کاکوئی وزن ہوتا تووہ نقشہ دیکھنے میں نہ آتاجو آج مسلمانوں کے ساتھ ہورہاہے۔ حتیٰ کہ بیت اللہ اور مسجدنبوی ؐ کے امین ہم مسلمان تھے مگر آج معاشی ، معاشرتی اور سیاسی سطح پر ہم اغیار کے اشاروں پر چل رہے ہیں ۔ جس طرح علامہ اقبال نے کہاتھا؎
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہےفرنگ تو فرنگ آج مسلمان بھی اتنی پاتال میں پہنچ چکے ہیں کہ وہ بھی گویا یہود کے پنجے میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ معاش ہو یا سیاست ہر معاملے میں ہم ان کے سامنے کشکول لیے کھڑے ہیں کہ ہمیں وہاں سے کوئی راہنمائی ملے گی توہم آگے چلیں گے ۔ اسی طرح علامہ اقبال نے بہت خوبصورت الفاظ کہے تھے ؎
رگوں میں وہ لہُو باقی نہیں ہے
وہ دل، وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں، تُو باقی نہیں ہے
صرف قربانی کے جانور ذبح کردینا مقصود نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اس کی کتاب سے وفاداری ہماری اصل بنیاد ہونی چاہیے ۔مسلمان ہیں توہم اس بنیاد پرہیں ۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ سے یہ دعا کی تھی : ’’اے پروردگار ہم دونوں باپ بیٹوں کواپنامسلمان بندہ بنائے رکھ۔‘‘اقبال نے کہا ؎
چومی گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لاالٰہ را
والد محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کہاکرتے تھے کہ واقعہ یہ ہے کہ قرآن حکیم کے بعض مقامات کی جوتشریح علامہ اقبال نے کی ہے اس کی کہیں اور مثال نہیں ملتی ؎
خوار از مہجوری قرآں شدی
شکوہ سنج گردش دوراں شدی
مسلمان آج صرف اس وجہ سے ذلیل ہو رہے ہیں کہ وہ عروۃ الوثقیٰ جوبندے کواللہ کے ساتھ ایک تعلق نصیب کرتی ہے اس کو ہم نے اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کاوعدہ بالکل سچا ہے ۔ارشاد ہوتاہے :
{وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(139)} (آل عمران)’’اور تم ہی سربلند رہو گے اگر تم مؤمن ہوئے۔‘‘
آج اگر ہم ذلیل ورسوا ہیں تواس کی وجہ یہی ہے کہ وہ حقیقی ایمان جوہماری انفرادی زندگیوں میں ایک انقلاب پیدا کرے اور ہماری اجتماعیت کے لیے راہنمائی کاذریعہ اور منبع ہووہ الکتاب سے دوری کی وجہ سے ناپید ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس موقع پراپنی ان خواہشات کو قربان کرنے کی توفیق عطا فرمائےجن کی وجہ سے ہم اصل مقصد بھولے ہوئے ہیں ۔ قرآن میں کہاگیا:
{کَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ(20)وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ(21)}(القیامہ)’’ہرگز نہیں! اصل بات یہ ہے کہ تم لوگ جلدی ملنے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو۔اور تم آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔‘‘
سب سے بڑا مرض جوانسانوں بالخصوص مسلمانوں کے اندر پیدا ہوتا ہے وہ مال دنیا سے محبت ہے ۔ اس کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہو کر مسلمانوں کا قبلہ ہی تبدیل ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگیوںکو جانچنے کی توفیق عطا فرمائے اوراللہ ،اس کے رسولﷺ اور اس کی کتاب سے وفاداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !