(اداریہ) یہ ہمارے بڑے - ایوب بیگ مرزا

6 /

اداریہایوب بیگ مرزا
یہ ہمارے بڑے

پنجاب میں ہونے والے 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی واضح جیت نے ملک کی سیاسی صورت حال میں زبردست ہلچل مچا دی ہے۔ پنجاب میں اگر اگلا مرحلہ آئین و قانون کے مطابق طے پاتا ہے اور اگر کوئی بڑا اپ سیٹ نہیں ہوتا تو تخت پنجاب اب مسلم لیگ ن کے ہاتھوں سے نکل کر تحریک انصاف کے قبضہ میں چلا جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے صرف PDM کے گیارہ جماعتی اتحاد کو ہی شکست نہیں دی بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی ایک بڑی واضح شکست دی ہے، یہ پنجاب کی بیوروکریسی کی بھی شکست تھی۔ یہ اُن تمام حکومتی ہتھکنڈوں کو شکست تھی جو پری پول رگنگ میں ملوث تھے اور حکومتی وسائل کے انتخابات میں بے دریغ استعمال سے حکومتی جماعت کو فتح دلانے کی کوشش کر رہے تھے اور اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ اُس الیکشن کمیشن کی شکست تھی جو بددیانتی اور ناانصافی اپنے لیے لازم کر چکا ہے۔ یہ اُن مافیاز کی بدترین شکست تھی جو گزشتہ چالیس سال میں پاکستان اور خاص طور پر پنجاب میں بڑی گہری جڑیں رکھتے ہیں۔
لیکن اور یہ بہت بڑا لیکن ہے کہ عمران خان صاحب !آپ اتنا بڑا معرکہ مار کر لائے کس کو ہیں اور کس کے سپرد آپ پنجاب کرنا چاہتے ہیں۔ جسے آپ وقت کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے، جسے جب مشرف اپنے قریب لایا تو آپ نے احتجاج کیا اور مشرف سے دوری پیدا کر لی۔ آپ نے اُس پرویز الٰہی کو پنجاب میں تخت نشین کیا جس کے بیٹے مونس الٰہی کو آپ بدترین کرپٹ شخص قرار دیتے تھے اور اپنے دور میں ’’ق‘‘ لیگ سے اتحاد کے باوجود کوئی اہم وزارت دینے کو تیار نہیں تھے۔ اس کے بعد آپ خود کو ایک اصول پسند سیاسی رہنما کیسے کہیں گے۔ عمران خان صاحب! انقلاب انقلابی اقدامات سے آتا ہے۔ عمران خان صاحب ! یقیناً آپ کے دشمن چاہے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے کچھ بھی کہتے رہیں اصلاً جانتے ہیں کہ آپ نے اپنی ذات کی حد تک اپنے دامن کو مالی کرپشن سے جو آج کی سب سے بڑی لعنت ہے کبھی آلودہ نہیں ہونے دیا۔ لیکن آپ نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں بھی ساتھیوں کے انتخاب میں شفافیت اور دیانت داری کا وہ معیار قائم نہیں کیا تھا جس کی آپ سے توقع تھی اور اب پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کو ایک ایسے شخص کے حوالے کرکے جس کی reputation کسی طرح بھی اچھی نہیں۔ اگر آئندہ انتخابات میں ملک کی باگ دوڑ آپ کے ہاتھ میں آگئی تو سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں جبکہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں مالی لحاظ سے بدنام شخص برسراقتدار ہوگا تو ملک کے جملہ مسائل کیسے حل ہو سکیں گے؟ بہرحال ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں بھی ہدایت دے اور آپ کو بھی سیاسی مفادات نہیں صرف ملکی مفادات کو ترجیح دینے کی توفیق دے۔ آمین!
اب آئیے اُس نظام کی طرف جس کا ہر ہر حصہ گل سڑ چکا ہے اور بادی النظر میں کسی طرح بھی قابل اصلاح نظر نہیں آتا۔ سب سے پہلے اس نظام میں سب سے طاقتور شعبہ کی بات کرتے ہیں جو ہر روز کہتا ہے کہ ہمارا ملک کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں لیکن آزادی کے پہلے چند سالوں کو چھوڑ دیجئے۔ اُس کے بعد وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے بلکہ ملکی سیاست کی طنابیں قابو کرنے کے حوالے سے ایک دن بھی باز نہیں رہے کسی کو کرسی سے اتار کر پھانسی پر چڑھا رہے ہیں اور کسی ملزم کو مسند اقتدار پر بٹھا رہے ہیں۔ اُنہوں نے کبھی سیاسی حکمرانوں کو اپنا باس نہیں سمجھا بلکہ وہ اپنی قوت اور طاقت کے بل بوتے پر خود کو ہمیشہ حکمرانوں کا حکمران سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ قوم جو کبھی ان سے بے حد پیار کرتی تھی اب اظہار بے زاری کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس نظام کا دوسرا بڑا ستون سول بیوروکریسی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ حکمرانوں کو ایسے داؤ پیچ سکھائے جس سے اقتدار اصلاً انہیں یعنی سیکرٹریوں اور افسران کو منتقل ہو جائے۔ یہ طبقہ پون صدی گزرنے کے باوجود آج تک سفید چمڑی والے انگریز حکمرانوں کے طور طریقے چھوڑنے کو تیار نہیں۔ سگار منہ میں دابے ٹیڑھی زبان سے انگریزی بولتا ہے اور عوام کو اپنا غلام سمجھتا ہے کیونکہ سیاسی یا فوجی حکمران اس سول بیوروکریسی کی مُٹھی میں ہوتے ہیں۔
سیاست دانوں کا معاملہ یہ ہے کہ زیادہ پرانے سیاست دانوں کو فی الحال بھول جائیے۔ اب ایک طویل عرصہ سے پاکستان پر دو خاندان مسلط ہیں اور وہ پاکستان میں حکومت کرنا اپنا اور اپنی اگلی نسلوں کا حق سمجھتے ہیں۔ ایک خاندان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے جو 1967ء میں قائم ہوئی۔ اُس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو تھے جن سے سو اختلافات ہونے کے باوجود ہم برملا کہیں گے کہ وہ ایک بہادر آدمی تھا۔ اُس کا ایک ویژن تھا اور وہ آزاد خارجہ پالیسی کا معمار بننا چاہتا تھا۔ ظاہر ہے امریکہ اپنے گھڑے کی مچھلی پاکستان کو کیوں آزاد ہونے دیتا، بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کو بعض صفات اپنے والد سے وراثت میں ملی تھیں لیکن بدقسمتی سے اُسے ایسے شخص سے بیاہ دیا گیا جس کے بارے میں کسی نے بہت صحیح کہا ہے کہ وہ مجرمانہ ذہنیت کا حامل شخص ہے۔ امریکہ نے جب بے نظیر کو اپنے باپ کی لائن پر چلتے دیکھا تو اُسے بھی مروا دیا گیا اور پاکستان کی حکومت زرداری جیسے شخص کے حوالے کر دی گئی جس کے دشمن ہی نہیں دوست بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کرپشن کرنا، دوسروں کا مال زبردستی ہتھیا لینا اور عہدوپیمان سے مکر جانے کو وہ اپنا حق سمجھتا ہے۔ 2007ء سے زرداری خاندان اپنے ان تمام اوصاف کے ساتھ پاکستان پر کسی نہ کسی انداز میں حکومت کر رہا ہے۔
دوسرا خاندان میاں شریف کا خاندان ہے جب یہ فیملی اقتدار میں آئی تو شروع ہی میں اُس وقت کے آرمی چیف مرزا اسلم بیگ جو آج بھی زندہ ہیں، نے میاں شریف اور اُن کے صاحبزادگان سے ایک میٹنگ کی اور اُنہیں سمجھایا کہ آپ حکومت میں آگئے، اب اپنے مالی معاملات کو حکومتی معاملات سے بالکل الگ رکھیں۔ لیکن میاں شریف جو بڑے سلجھے ہوئے ذہین انسان تھے دفعتاً اُن کے منہ سے نکل گیا کہ پھر ہم حکومت میں کیا لینے آئے ہیں ( یہ مرزا اسلم بیگ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا جو اخبار میں شائع ہوا تھا) بدقسمتی سے اُن کے صاحبزادگان میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف اس بری طرح کرپشن میں ملوث ہوگئے کہ پاکستان کے مالی مفادات کو ہی نہیں سیکورٹی مفادات بھی تج کرنے لگے۔ BBC نے اُن کی مالی کرپشن پر ایک ڈاکومنٹری بنائی جس کے خلاف شریف فیملی نے بہت شوروغوغا کیا اور BBC کے خلاف قانونی کارروائی کی بات کی، لیکن صرف دو ہفتہ تک بعد میں خاموشی اختیار کر لی۔ کیونکہ BBC جیسا ادارہ خاص طور پر جب کسی کی ذات کو نشانہ بناتا ہے تو اُس کے پاس پورے ثبوت اور شواہد ہوتے ہیں۔ لہٰذا شریف فیملی نے اس بات کو آگے نہ بڑھایا۔ یہ پرانی بات ہے۔ اُس کے بعد پھر اس فیملی کو اقتدار ملا۔ مستند ذرائع کے مطابق لوٹ کھسوٹ میں مزید اضافہ ہوا۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی مدد سے تحریک انصاف کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے گرانے کا اصل مقصد جو وزیر توانائی خرم دستگیر کی زبان سے بھی نکل گیا تھا،جاری کرپشن کیسز کو منطقی انجام تک پہنچنے کی صورت میں سزاؤں کا خدشہ تھا۔ ہمارا ایک آئینی ادارہ الیکشن کمیشن بھی ہے۔ یہ ادارہ بھی اکثر و بیشتر متنازع رہا ہے، لیکن موجودہ الیکشن کمیشن کھلی بددیانتی اور ناانصافی پر اترا ہوا ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ آخری کام الیکشن کمیشن نے یہ دکھایا کہ سندھ کے بلدیاتی انتخابات ایک مضحکہ خیز عذر کی بنا پر ملتوی کر دیے، وہ یہ کہ بارش کے امکانات ہیں۔ بہرحال اپنے ملک میں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ ہم باتکرار اور بآواز بلند یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کے تمام مسائل چاہے وہ سیاسی، معاشی یا معاشرتی ہوں وہ مغربی جمہوریت سے نہیں بلکہ اُس نظام سے حل ہوں گے جسے نظام خلافت کہہ لیجئے یا نظام مصطفےٰ ؐکہہ لیں یا حکومت الٰہیہ کا قیام کہہ لیں۔ لیکن اُس میں قرآن اور سنت کی بالادستی ہو اور آئین پاکستان کی اُس دفعہ پر مکمل طور پر اور حقیقی طور پر عمل ہو کہ ملک میں کوئی قانون قرآن اور سنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکے گا۔ آخر میں ہم زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے پاکستانی مسلمانوں سے پُرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے لیے بھرپور جدوجہد کریں یہی نظام پاکستان کو مستحکم اور ناقابل تسخیر بنائے گا۔ یہی نظام ہمارے دلوں کو جوڑے گا اور دنیا و آخرت میں ہماری کامیابی کا ضامن ہوگا۔ ہم جمہوریت مارشل لاء سب کچھ آزما چکے ہیں لیکن ناکامی اور ذلت ہمارا مقدر بنی ۔
آئیے! اسلامی نظام کو اپنائیں۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اسلامی نظام نعروں سے یا سہل اندازی سے اور اپنے اپنے کاموں میں شب و روز مصروف رہنے سے نہیں آئے گا۔ اس کے لیے جُہد ِ مسلسل کرنا ہوگی اس کے لیے پیٹ پر پتھر باندھنے ہوں گے اس لیے کہ آپ کو مقامی اور ملکی مخالفین سے ہی نہیں بلکہ اُن عالمی طاغوتی قوتوں سے بھی ٹکرانا ہوگا جو معاشی اور عسکری لحاظ سے بہت طاقتور ہیں۔ لیکن اگر مسلمانان پاکستان کی اکثریت یا متعدد بہ تعداد سر دھڑ کی بازی لگانے کا عزم کر لیں تو ان شاء اللہ! اللہ کی مدد آئے گی اور کوئی دنیوی قوت اُس کے سامنے ٹھہر نہیں سکے گی۔