(زمانہ گواہ ہے) ضمنی انتخابات اور سیاسی بحران کے موضوع پر - محمد رفیق چودھری

7 /

ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی بھاری کامیابی دراصل عوام میں اس بیانیہ کی قبولیت

 کا عکس ہے کہ پاکستان کی سیاست میں بیرونی مداخلت نہیں ہونی چاہیے ،

خاص طورپر امریکہ کی غلامی اب قطعاً قبول نہیں : ایوب بیگ مرزا

پاکستان میں سیاسی بحران ملک کو معاشی طور پر ڈیفالٹ کی طرف لے کر جارہاہے ۔ 

صورتحال سے نکلنے کاراستہ یہ ہے کہ صاف و شفاف انتخابات کروائے جائیں

تاکہ عوام کی منتخب شدہ حکومت فوری اور وقتی مسائل کو حل کر سکے : رضا ء الحق

 

 

ضمنی انتخابات اور سیاسی بحران کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

سوال:پنجاب کے 20حلقوںمیںضمنی الیکشن ہوا،اس کے نتائج آپ کے سامنے ہیں۔اس ساری صورت حال پرآپ کاکیا تبصرہ ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:یہ پاکستان کی تاریخ کے بڑے انوکھے، اہم اور بڑے عجیب ضمنی انتخابات تھے جنہوں نے ملک کی سیاسی صورتحال کو مکمل طور پر بدل دیا ۔ نہ صرف اس سے صوبے کی سیاست متاثر ہوگی بلکہ اس سے مرکز کی سیاست بھی متاثر ہوگی۔ ابھی کچھ پتانہیں کہ22جولائی کوکون پنجاب کا وزیراعلیٰ بنتاہے لیکن جیسا کہ امکانات نظرآتے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی کے امیدوار پرویز الٰہی وزیراعلیٰ بنتے ہیں توپھرمرکزی حکومت اسلام آباد تک محدود ہوجائے گی کیونکہ مسلم لیگ نواز کے پاس کسی صوبے کی حکومت نہیں ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ یہ انتخابات اتنے مقبول کیوں ہوئے؟ عمران خان اپنی حکومت کے آخری دور میں انتہائی غیرمقبول ہوگئے تھے اور جب رجیم چینج ہوئی تھی تویہی تصور تھاکہ جب ان کو حکومت سے باہر کیاجائے گاتوان کو کوئی پوچھے گا ہی نہیں۔ میں بھی سمجھتا تھاکہ وہ بالکل unknown اورغیر متعلق ہو جائیں گے ۔ لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ جس دن ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی اس دن صبح تک وہ غیرمقبول تھے لیکن رات کوان کی حمایت میں ہرشہر سے عوام باہر نکل کھڑے ہوئے۔ چونکہ ہمارے عوام آج بہت باشعور ہو چکے ہیں۔ اس لیے انہوں نے بیرونی مداخلت کی بنیاد پرمبینہ رجیم چینج کو قطعاً برداشت نہ کیا ۔ اس موقع پر دنیا ٹی وی کے اینکر کامران خان نے کہا کہ صبح حالات کچھ اور تھے لیکن رات کو انقلاب آگیا۔ اس کا مطلب یہ تھاکہ لوگ اس بات کو کسی قیمت پرقبول کرنے کوتیار نہیں تھے کہ کوئی بیرونی قوت پاکستان کی حکومت کو تبدیل کردے ۔اس حوالے سے سوشل میڈیا نے عوام کی شعور کی سطح اتنی بڑھادی ہے کہ یہ بات اب شہروں تک محدود نہیںہے بلکہ دیہاتوں سے آوازیں آتی ہیں کہ کیاہم کوئی غلام ہیں ؟
سوال:یقیناً عوام میں شعوری ترقی ہوئی ہے لیکن ہرپاکستانی جانتا ہے کہ ہمارے ہاں حکومتیں زیادہ تر بیرونی آقائوں کی مرضی کے مطابق ہی تبدیل ہوتی رہی ہیں۔ جنرل حمیدگل مرحوم نے کہا تھاکہ ہمارا توآرمی چیف بھی امریکہ کی مرضی کے بغیر نہیں لگتا۔پھر اس دفعہ نیا کیا ہوا؟
ایوب بیگ مرزا:آپ کی بات درست ہے لیکن اس سے پہلے کبھی یہ کام کھلم کھلا نہیں ہوا تھا۔پہلے زیادہ تر پردے کے پیچھے اس طرح کے کام ہوتے تھے اور پھرکوئی آگاہ کرنے والا بھی نہیں تھا۔ پھر بیرونی طاقتیں ایسے کام کرتی تھیں تو مانتی نہیں تھیں بلکہ چھپاتی تھیں لیکن اس دفعہ امریکہ نے بڑے دھڑلے اورتکبر سے کہا کہ ہم نے یہ کیاہے۔ چنددن پہلے جان بولٹن نےCNNکوانٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جہاں ہمارا مفاد پورا نہ ہورہا ہو وہاں ہم حکومتیں تبدیل کرواتے ہیں۔ ان کا یہ تکبر عوام کو بہت برا محسوس ہوا۔پی ٹی آئی کے مخالفین کے دوبیانیے تھے ۔ ایک مہنگائی بہت ہوگئی ہے یقیناً مہنگائی ہوئی تھی لیکن دوسرا بیانیہ ٹھیک نہیں تھاکہ پی ٹی آئی کی حکومت نے اقتصادی طور پر پاکستان کوتباہ کردیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کے دور میں کوروناکی وبا آئی جس نے پوری دنیا کی اقتصادیات کونقصان پہنچایالیکن اس کے باوجود جب موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے رجوع کیااور اپنا اکنامک سروے پیش کیاتوخود موجودہ حکومت گزشتہ حکومت کی تعریف کرنے پر مجبور ہوگئی کہ اس نے اقتصادی طور پر بڑے اچھے کام کیے ،پاکستان کاجی ڈی پی 31سال بعد 6فیصد ہوا،24ارب ڈالر سے ساڑھے 32ارب ڈالر کی ایکسپورٹ ہوئی ۔ اس وقت ڈالر182 کے قریب تھالیکن آج مارکیٹ میں 230 میں بھی نہیں ملتا۔جب ڈالر مہنگاہوا تویقینی بات ہے کہ ہمارے کھربوں روپے کے قرضے بڑھ گئے ۔پھر جتناامپورٹ کامال آرہاہے وہ سارامہنگاہوگیااور اب ہرچیز آپ کو مہنگی ملے گی ۔ بہرحال میں ہمیشہ یہ بات کہتاہوں کہ میڈیا کے ذریعے غلط پروپیگنڈے کے فائدے بھی ہوتے ہیں لیکن نقصان بھی بہت ہوتے ہیں۔جیسا کہ گزشتہ حکومت کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بٹھایا گیا کہ اقتصادی لحاظ سے ناکام ہے اور اس کا نتیجہ اب عوام کے سامنے ہے۔
سوال:پاکستان میں معاشی کرائسز میں بہت اضافہ ہورہاہے ،ڈالر کا ریٹ اوپر جاچکا ہے ،سٹاک ایکسچینج کریش کرتی جارہی ہے ۔ دوسری طرف سیاسی کشیدگی بھی عروج پرہے ۔اس پوری صورت حال میں ایک رائے یہ بھی آرہی ہے کہ جنرل الیکشن ان تمام مسائل کاحل ہے ؟
رضاء الحق:اس وقت پوری قوم دوسائیڈز کے اوپر ہے ۔ پھر سیاستدانوں کا رویہ ،ان کاسوچنے کاطریقہ ،وہ جوبات کرتے ہیں اور پھر جوعمل کرتے ہیں وہ ساری چیزیں دوپوزیشن میں نظرآتی ہیں ۔یہی چیزعوام اور مختلف شعبہ جات میں نظر آتی ہے ۔ایک پوزیشن یہ ہوگی کہ پی ٹی آئی دور حکومت میں سب کچھ ٹھیک ہوا کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ دوسری پوزیشن یہ ہوگی کہ پی ڈی ایم والوں کاماضی بھی ہمیشہ سے دھلاہوا رہاہے، اب بھی یہ متحد ہوئے ہیں تو پوری نیک نیتی کے ساتھ عوام کی خدمت کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ لیکن حقیقت ان دونوں پوزیشنز سے مختلف ہوتی ہے۔یقیناً جب کوئی مروجہ سیاسی نظام میں رہ کر سیاست کرتاہے تو دوسروں کو ایکسپلائٹ کرنا،دوسروں کی غلطیاں بڑھاچڑھاکرپیش کرنا اور اس طرح کے سارے سیاسی دائو پیج وہ کھیلتاہے ۔پاکستا ن میں دواضافی چیزیں بھی ہیں جوہمارے لیے ایک ناسور کے طورپر سامنے آتی ہیں۔ ہمارے مقتدر حلقے شروع سے ہی پاکستانی سیاست اور ریاستی فیصلوں میں حدسے زیادہ ملوث رہے ہیں۔یعنی انہوںنے ملکی آئین کوبھی پامال کیا۔ چونکہ پاکستان ایک سکیورٹی سٹیٹ ہے۔ ہمارے داخلی اورخارجی مسائل اس طرح کے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں ایک طاقتور فوج کی ضرورت ہے ۔ لیکن بہرحال جب سیاسی معاملات میں مداخلت ہوتی ہے تواس کے نقصانات بھی بہت ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوتاہے کہ سیاسی لیڈرشپ developنہیںہوپاتی۔ پھرہماری عدلیہ میں نظریہ ضرورت تاریخ کاحصہ ہے ۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سب کی توجہ اس پر ہے کہ پنجاب میں حکومت کس کی بنے گی ؟مرکز میں حکومت کس کی رہے گی ؟نومبر میں اہم تقرری کس کی ہوگی یا ہوگی بھی یا نہیں؟ دوسری طرف ہماری معیشت نیچے جارہی ہے اس پر کسی کی توجہ نہیں ہے ۔
سوال: مفتاح اسماعیل دعویٰ کررہے ہیںکہ ہم نے پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچالیاہے ؟
رضاء الحق:حقیقت یہ نہیں ہے ۔ اعداد وشمار ان کے دعوے سے بالکل مختلف ہیں ۔ سٹاک مارکیٹ ایک دن میں ساڑھے نوسو پوائنٹس نیچے گرگئی ہے ۔ سوناتین ہزارفی تولہ مہنگا ہوگیا ۔ بارہ سال کی بدترین صورت حال پرہماری مارکیٹ ایکویٹی چلی گئی ہے جوپاکستان کے لیے بہت بڑا سیٹ بیک ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے موڈیز نے بھی ہماری ریٹنگ ڈائون گریڈ کر دی تھی۔ پھرہماری کریڈٹ ریٹنگ بھی منفی ہوچکی ہے۔ ان کا دعویٰ اس شرط پرتھاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل ہوتی ہے یا نہیں ۔ آئی ایم ایف کی طرف سے کہاجارہا ہے کہ سٹاف لیول معاہدہ ہوگیا ہے لیکن دوسری طرف اس کی شرائط بڑھتی جارہی ہیں،نئی سے نئی شرط سامنے آ رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئی ایم ایف کامعاہدہ ہمارے لیے مستقبل میں فائدہ مند نہیں بلکہ نقصان دہ ہوگا ۔ البتہ فوری طور پر اس سے ہمیں ڈالر مل جائیں گے ۔ اس کی شرائط میں یہ بھی سامنے آرہاہے کہ ہمارے ہاں احتساب کا نظام باہر سے لوگ آکرترتیب دیںگے جس کی وجہ سے خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستا ن کو بلیک میل کرنا چاہتی ہیں جس طرح FATFکے ذریعے کیا جارہا ہے ۔ عالمی حالات ایسے ہیں کہ ہمارے سیاستدانوں اور مقتدر حلقوں کو ملکی مفاد کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ خاص طور پر علاقائی سطح پر جس طرح حالات بدل رہے ہیں اس پر بھی غور کریں۔ ابھی حال ہی میں جوبائیڈن کاسعودی عرب کا دورہ ہوا،اس سے پہلے اس نے اسرائیل کادورہ کیا۔ پھر اس علاقے میں امریکہ، اسرائیل،یواے ای اور بھارت کا آپس میںاتحاد چل رہاہے ۔انہی دنوں میں پیوٹن ایران کا دورہ کررہاہے، ترکی کے صدر اردگان بھی وہاں موجود ہیں جنہوں نے تقریباً تیس بلین ڈالر کامعاہدہ ایران سے کیا ہے ۔جبکہ پاکستان کو یہ ساری طاقتیں نظر انداز کرتی چلی جارہی ہیں ۔ جب پاکستان قابل اعتبار اتحادی نہ رہا تو سب نے اس سے منہ موڑ لیا ہے ۔ وہ یہی سمجھتے ہیںکہ پاکستان کسی وقت بھی اپنی پالیسی میں یوٹرن لے سکتاہے ۔ ہمارے مقتدر حلقوں کی اس پر توجہ ہونی چاہیے ۔ موجودہ صورتحال سے نکلنے کافوری ایک ہی راستہ ہے کہ صاف و شفاف انتخابات کروائے جائیں تاکہ عوام اپنے ووٹ سے اپنی نمائندہ حکومت منتخب کر سکیں اور جب ایسی حکومت آئے گی تواس سے بہتر فیصلے کرنے کی اُمید ہوگی ۔
سوال:اگر ا س وقت الیکشن ہوجائیں توکوئی پارٹی بھی اس پوزیشن میںنہیںہے کہ دوتہائی اکثریت سے اپنی حکومت بنالے ۔ ہمیں مستقبل میں بھی اتحادی حکومت بنتے ہوئے نظر آتی ہے ۔جب اتحادیوں کی حکومت بنے گی اور اتحادیوں کی اپوزیشن ہوگی تومعاملات پھر اسی طرح نہیں رہیںگے ؟
رضاء الحق:پاکستان میں 1997ء میں نواز شریف صاحب کو دوتہائی اکثریت ملی تھی اس کے بعد یہاں کسی کواتنی اکثریت نہیں ملی ۔ اگر دیکھاجائے توملک میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن دوبڑی پارٹیاں ہیں جوایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔انہی دو پارٹیوں میں جس کا بیانیہ زیادہ مضبوط اور عوام میں مقبول ہوگا وہی زیادہ اکثریت حاصل کرے گی ۔ حالیہ ضمنی الیکشن میں اس کی عکاسی نظر آتی ہے۔ لہٰذا اگر صاف و شفاف الیکشن ہوں تو دو تہائی یا تین چوتھائی اکثریت بھی کسی پارٹی کو مل سکتی ہے ۔
ایوب بیگ مرزا: اگلے انتخابات میں کسی کودو تہائی اکثریت ملے یا تین چوتھائی لیکن پاکستان کے مسائل اس طرح کے ہیں کہ چھ ماہ یا سال بعد نئی حکومت کو گالیاں پڑنی شروع ہوجائیں گی ۔ اس وقت پاکستان دیوالیہ ہونے سے صرف ایک پوائنٹ پیچھے رہ گیا ہے ۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ پاکستان کوby designڈیفالٹ کیاجارہاہے ۔ لہٰذا اصل ایشو دوتہائی اکثریت لینا نہیں ہے بلکہ اس وقت اصل ایشو پاکستان کی معاشی حالت ہے ۔ زمینی حقائق کوسامنے رکھیں تویہ مسائل ناقابل حل ہیں۔ اللہ غیب سے ہماری مدد کردے تو وہ الگ بات ہے ۔ جیسے بانی تـنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرارا حمدؒ فرماتے تھے کہ جب پاکستان بالکل گرنے لگتاہے تواللہ تعالیٰ اس کے لیے کچھ نہ کچھ سبب بنا دیتاہے ۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کوئی معجزہ ہو جائے ورنہ بعض قوتیں بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ پاکستان کو ڈیفالٹ کی طرف لے کر جارہی ہیں اورپچھلے دوچارمہینوںمیںہم اس طرف بڑی تیزی سے بڑھے ہیں ۔ آئی ایم ایف نے معاہدہ توکرلیا لیکن پیسے نہیں دے رہا،یعنی جان بوجھ کر پاکستان کو اس حالت میںلے جایاجارہاہے۔ پاکستان کے علاوہ کسی دوسرے ملک کاڈیفالٹ ہوجانا بالکل دوسری بات ہے لیکن پاکستان کاڈیفالٹ ہوجانا بالکل الگ بات ہے ۔ پاکستان اگر ڈیفالٹ ہوا توگویاایک اسلامی ایٹمی قوت ڈیفالٹ ہوگی اورپورے عالم اسلام کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی ۔
سوال: ضمنی الیکشن ہوچکے ہیںاور ا ن کے نتائج بھی سامنے آچکے ہیں۔حکومت نے صاف اور شفاف الیکشن کرانے کادعویٰ کیاہے لیکن پی ٹی آئی اب بھی دھاندلی کاالزام لگارہی ہے ۔ کیاواقعی اس الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:سوال یہ ہے کہ پاکستان میں آج تک کوئی ایسا الیکشن ہوا ہے جس میںدھاندلی نہ ہوئی ہو۔ کچھ لوگ کہتے ہیںکہ1970ء کے الیکشن میںدھاندلی نہیںہوئی تھی حالانکہ یہ بالکل غلط بات ہے۔ اس وقت بھی مشرقی اور مغربی پاکستان میں دھاندلی ہوئی تھی ۔ پاکستان میں الیکشن کادوسرا نام دھاندلی ہے ۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گااللہ ہی بہتر جانتاہے ۔
سوال: پاکستان میں لیڈرشپ کافقدان ہے ۔اگر ہم امریکہ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی غلامی سے نکل بھی جائیں تب بھی ہم دوسری غلامی یعنی چین اور روس کے بلاک میںجانا چاہتے ہیں،حقیقی آزادی کی طرف تو ہم جاہی نہیںرہے جوہمارا صل کام ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:قائد اعظم پاکستان کے عظیم ترین لیڈر تھے لیکن انہوں نے بھی امریکہ اور مغرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بڑھائے۔آزادی سے پہلے قائداعظم کے یہ الفاظ تاریخ میں محفوظ ہیں کہ ہم خطہ میں امریکی مفادات کاتحفظ کریں گے ۔اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کی بنیاد اسلام یعنی مذہب پر تھی۔ ایسی صورت میں پاکستان بے خدا اور مذہب دشمن سپر پاور یعنی سویت یونین سے اچھے تعلقات کیسے قائم کر سکتا تھا لہٰذا امریکہ سے اچھے تعلقات قائم کرنے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔لیکن قائداعظم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ آنے والے وقت میں پاکستان امریکہ کی غلامی اختیار کرے گا ۔ انہوں نے یہ اس لیے کہاتھاکہ ہم بھارت کے مقابلے میں بہت کمزور تھے۔ بہرحال میں سمجھتا ہوں کہ اب کوئی روحانی لیڈرشپ ہوتوبات الگ ہے لیکن کوئی سیاسی لیڈرشپ پاکستان کو موجودہ بحران سے نہیں نکال سکتی ۔ ہم عالمی قوتوں کوصاف صاف انکار بھی نہیںکرسکتے کیونکہ ان کی پابندیاں ہم برداشت کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں۔ایران پرپابندیاں لگیں لیکن برداشت کے قابل تھیں لیکن پاکستان پر جو پابندیاں لگیں گی تو وہ پاکستان برداشت نہیں کر سکے گا ۔البتہ اللہ کوئی راستہ بنادے توبات الگ ہے ۔ مثال کے طورپر اگر چین یہ سمجھے کہ پاکستان کازندہ رہنامیری اپنی ضرورت ہے او ر وہ پاکستان کی مدد کے لیے پوری طاقت سے میدان میں آجائے اور اللہ اس کووسیلہ بنادے گا۔ میں یہ بھی سمجھتاہوں کہ امریکہ کے مقابلے میں چین کارویہ بہت بہتر ہے ۔ اس نے کبھی اس طرح کارویہ نہیںاپنایاکہ کسی ملک پرباقاعدہ قبضہ کر لیا جائے ۔ اپنی ڈکٹیشن دینااور اپنی باتیں منوانا ایک الگ بات ہے ۔ امریکہ کی طرح دھونس ،دھاندلی والا معاملہ اوروہاں فوجیں اتار دیناچین کی پالیسی نہیںہے ۔البتہ اس کے لیے پاکستان میں ایک مضبوط لیڈرشپ کی ضرورت ہے جو اکثریت لے کر حکومت بنائے اورپھر آزادانہ فیصلے کرے۔ ا گر سادہ اکثریت بھی ہولیکن لیڈر مضبوط ہواور چین کا ساتھ بھی ہو تو بات بن سکتی ہے ورنہ حالات بہت مشکل ہیں ۔