(دعوت و تحریک) موجودہ احیائی مساعی کا اجمالی جائزہ اور تنظیم ِاسلامی کا محل ومقام (1) - ڈاکٹر اسرار احمد

7 /

موجودہ احیائی مساعی کا اجمالی جائزہاور تنظیم ِاسلامی کا محل ومقام (1)ڈاکٹر اسرار احمدؒ

 

ہم ندائے خلافت کے قارئین کے لیے احیائی تحریکوں اور اس سے متعلقہ مضامین کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔ جس میں تنظیم اسلامی کے’’عزم تنظیم‘‘ نامی کتابچے سے اس سلسلہ کے مضمون کی پہلی قسط شائع کر رہے ہیں۔ (ادارہ)

جہاں تک تجدیدی مساعی کا تعلق ہے واقعہ یہ ہے کہ تاریخ اسلام کا کوئی دور بھی ان سے بالکل خالی نہیں رہا اور ہر زمانے اور ہر ملک میں ایسے اولوالعزم لوگ پیدا ہوتے رہے جنہوں نے اپنے حالات کے تقاضوں کے مطابق اصلاحی اور تجدیدی کارنامے سرانجام دیئے۔ لیکن بیسویں صدی عیسوی سے قبل کی ایسی تمام کوششوں کے بارے میں ایک اصولی بات پیش نظر رہنی چاہئے اور وہ یہ کہ ان کی اصل نوعیت ’احیائِ دین‘ کی نہیں بلکہ حفاظت ومدافعتِ دین کی تھی۔ اس لیے کہ ابھی اسلام کا قصرِ عظیم بالکل زمین بوس نہیں ہوا تھا اور خواہ دین کی حقیقی روح کتنی ہی مضمحل اور پژمردہ ہو چکی ہو بہرحال اسلام نے جو تہذیبی اور عمرانی نظام دنیا میں قائم کیا تھا اس کا ڈھانچہ برقرار (Intact) تھا حتیٰ کہ شریعتِ اسلامی تمام مسلمان ممالک میں بالفعل نافذ تھی۔ چنانچہ تمام تجدیدی مساعی کا اصل ہدف یہ رہا کہ دین کا نظامِ عقائد واعمال محفوظ اور اپنی اصل صورت میں قائم رہے اور خارجی وبیرونی اثرات دین کو مسخ نہ کر دیں۔
یہی وجہ ہے کہ امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے دور تک کے تمام مجددین ِامت علیہم الرحمۃ کی مساعی اکثر وبیشتر علم وفکر کے میدان ہی تک محدود رہیں اور عقائدونظریات کی تصحیح واصلاح ہی کو ان کے اصل ہدف کی حیثیت حاصل رہی۔ اور اس سے آگے اگر قدم بڑھا بھی تو زیادہ سے زیادہ اصلاحِ اخلاق واعمال، تزکیہ نفس اور تربیتِ روحانی تک۔ اس سے آگے بڑھ کر گزشتہ صدی سے قبل کسی بھی مجددِ دین کی مساعی نے سیاسی یا عسکری تحریک کی صورت اختیار نہیں کی۔
یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں کو سابق مجددین کا تجدیدی کام ’’جزوی‘‘ نظر آتا ہے اور انہیں حیرت ہوتی ہے کہ امتِ مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ میں کوئی ایک بھی ’’مجددِ کامل‘‘ پیدا نہیں ہوا۔
حالانکہ بات بالکل واضح اور سیدھی ہے کہ ابھی عمارت بالکل منہدم ہوئی ہی نہ تھی کہ بالکل نئی تعمیر کی حاجت ہوتی بلکہ صرف شکستہ اور بوسیدہ ہوئی تھی اور ضرورت ہی صرف جُزوی اصلاح واستحکام کی تھی۔
جیسا کہ ہم مفصل عرض کر چکے ہیںاس بیسویں صدی کے آغاز میں ہوا کہ ملت ِاسلامی کا بوسیدہ قصر گویا دفعتاً زمین پر آرہا اور اسلام اور مسلمان دونوں اپنے زوال و انحطاط کی آخری حدوں کو پہنچ گئے اور ایک طرف کروڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمانوں کی حالت حدیثِ نبویؐ کے الفاظ کے مطابق غثاء السیل یعنی سیلاب کے جھاگ سے زیادہ نہ رہی اور دوسری طرف اسلام اور قرآن دونوں بھی آنحضور ﷺ کے الفاظ کے مطابق اس حال کو پہنچ گئے کہ لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّااسْمُہٗ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْآنِ اِلَّا رَسْمُہٗ لہٰذا قانونِ فطرت کے عین مطابق احیاء کا ہمہ جہتی عمل شروع ہو گیا۔
اس احیائی عمل کے بارے میں بھی بعض بنیادی حقائق ذہن نشین رہنے چاہئیں مثلاً ایک یہ کہ یہ کوئی سادہ اور بسیط عمل نہیں ہے بلکہ اس کے متعدد گوشے ہیں، جن میں سے ہر ایک میں اولوالعزم افراد اور جماعتیں برسرکار ہیں اور جو بظاہر ایک دوسرے سے جدا اور مختلف بلکہ بعض پہلوئوں کے اعتبار سے متضاد ہونے کے باوجود اس وسیع تر احیائی عمل کے اعتبار سے ایک دوسرے کے لیے باعث ِتقویت ہیں۔ دوسرے یہ کہ اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اور ملت اسلامی کی تجدید کا یہ کام دس بیس برس میں مکمل ہونے والا نہیں ہے بلکہ (لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ) کے مصداق درجہ بدرجہ بہت سے مراتب ومراحل سے گزر کر ہی پایۂ تکمیل کو پہنچے گا، لہٰذا اس ارتقائی عمل کا ہر درجہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے اور چاہے بعد کے مراحل سے گزر کر پہلوں کا کام بہت حقیر بلکہ کسی قدر غلط بھی نظر آئے، اپنے اپنے دور کے اعتبار سے اس کی اہمیت ووقعت سے بالکلیہ انکار ممکن نہیں۔ تیسرے یہ کہ اس ہمہ گیر تجدیدی جدوجہد میں اگرچہ افراد کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے تاہم جماعتوں اور تنظیموں کے مقابلے میں کم تر ہے۔ پھر جماعتیں بھی تحریکوں کی وسعت میں گم ہو جاتی ہیں اور بالآخر تمام تحریکیں بھی اس وسیع احیائی عمل کی پہنائیوں میں گم ہو جاتی ہیں جو ان سب کو محیط ہے۔
ماضی میں ان حقائق کے پیش نظر نہ رہنے کے باعث بہت سے لوگوں کے دلوں میں ’’مہدیٔ موعود ‘‘یا ’’مجدّدِ کامل‘‘ بننے کا شوق پیدا ہوتا رہا ہے جس کے نتیجے میں طرح طرح کے فتنے اٹھتے رہے ہیں اور اچھی بھلی تعمیری کوششوں کا رخ تخریب کی جانب مڑ جاتا رہا ہے!
اس احیائی عمل کا اولین مرحلہ مسلمان اقوام کا مغربی استعمار کے براہِ راست تسلط سے نجات کا حصول تھا جو بحمدللہ گزشتہ تیس چالیس سال کے دوران تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ اور اگرچہ اب بھی ہم مغرب کی علمی وفکری اور تہذیبی وثقافتی غلامی میں مبتلا ہیں اور اقوامِ مغرب کی سائنسی وتکنیکی بالادستی کے باعث بہت سے پہلوئوں سے ان کے دست نگر بھی ہیں، تاہم خدا کا شکر ہے کہ ایک قضیۂ فلسطین سے قطع نظر اور صرف کشمیر اور اریٹیریاکے علاوہ پورے کرئہ ارضی پر مسلم اکثریت کا کوئی علاقہ براہِ راست غلامی ومحکومی کی لعنت میں گرفتار نہیں رہا۔
خالص اصولی ونظریاتی اور تصوریت پسندانہ (Idealistic) نقطۂ نظر سے تو ’’مسلمان اقوام‘‘ کی اصطلاح ہی قطعاً غلط ہے۔ اس لیے کہ ازروئے قرآن وحدیث مسلمانوں کی حیثیت ایک جماعت یا امت یا حزب کی ہے نہ کہ قوم کی۔ اور وہ ایک ناقابلِ تقسیم ’وحدتِ ملی‘ میں منسلک ہیں جس میں تعدّد وتکثّر کا امکان ہی موجود نہیں کہ اقوام کا لفظ صحیح قرار دیا جاسکے۔ لیکن واقعیت پسندانہ (Realistic) نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے ایک جماعت یا امت یا حزب کا کردار (Role) تو بہت پہلے ترک کر دیا تھا اور بالفعل ایک قوم ہی کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔ البتہ وحدتِ ملی کا تصور اس صدی کے آغاز تک برقرار تھا۔ لیکن جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں، اس بیسویںصدی کے رُبع اول کے دوران مغربی استعمار کے ہتھکنڈوں نے اسے بھی ختم کر کے رکھ دیا تھا اور اس وقت فی الواقع روئے ارضی پر کوئی ایک ’امتِ مسلمہ‘ آباد نہیں ہے بلکہ بہت سی مسلمان اقوام آباد ہیں۔
اسی طرح خالص تصوریت پسندانہ نقطہ ٔنظر سے دیکھا جائے تو ع ’’نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے‘‘ کے مِصداق مسلمانوں کی آزادی اور خود مختاری کا احیائے اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن واقعیت پسندانہ نگاہ سے دیکھئے تو مستقبل کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی علمبرداری کی سعادت کسی بالکل ہی نئی قوم کے حوالے فرما دے اور (یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ) کی شان دوبارہ ظاہر ہو۔ لیکن بحالاتِ موجود تو ع ’’کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے، جام رہے‘‘ کے مِصداق اسلام کا مستقبل موجودہ مسلمان اقوام ہی کے ساتھ وابستہ ہے۔ اور دونوں باہم لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اندریں حالات، مسلمان اقوام کا آزادی وخود اختیاری کی نعمت سے ہمکنار ہونا یقینا ًاحیائے اسلام ہی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے اور جن تحریکوں کے ذریعے یہ مشکل مرحلہ سر ہوا ہے ان کی سعی بھی اسلام کی نشاۃِ ثانیہ ہی کی جدوجہد کا جزو قرار پائے گی۔ رہا یہ شبہ کہ ان میں سے اکثر کے قائدین اور زعماء کا دین ومذہب کے ساتھ کوئی واقعی اور عملی تعلق نہ تھا تو اسی کا جواب ہے نبی اکرم ﷺ کے ان الفاظ مبارکہ میں کہ اِنَّ اللّٰہَ یُؤَیِّدُ الدِّیْنَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ(بخاری: کتاب الجہاد) واقعہ یہ ہے کہ اللہ کے کام بہت نرالے ہیں اور اس کی تدبیریں بہت لطیف اور مخفی اور اس کے منصوبے بہت طویل الذیلاور وسیع الاطراف ہوتے ہیں اور وہ بسا اوقات فساق وفجار سے اپنے دین کی خدمت لے لیتا ہے۔{وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰــکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ} (یوسف:21)
اس ضمن میں ایک اور حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ اگرچہ مختلف مسلمان ممالک میں حصولِ آزادی کی تحریکوں کی تقویت کے لیے جن علاقائی یا نسلی عصبیتوں کو استعمال (Invoke) کیا گیا، انہیں بھی خاص اصولی اور نظری اعتبار سے اسلام کے نظامِ فکر کے ساتھ سوائے تبایُن وتضاد کے کوئی نسبت حاصل نہیں ہے، لیکن عالمِ واقعہ میں اس کے سوائے کوئی چارہ کار موجود نہ تھا۔ اس لیے کہ اسلام کے ساتھ مسلمانوں کا ذہنی وقلبی رشتہ اتنا قوی نہ رہا تھا کہ اسے کسی جاندار اور فعال تحریک کی اساس بنایا جا سکتا اور حصولِ استقلال کے لیے جس مؤثر مزاحمت (Effective Resistance) کی ضرورت ہوتی ہے اس کی بنیاد خیالی یا جذباتی نہیں بلکہ حقیقی اور واقعی اساسات (Concrete Ground) ہی پر رکھی جا سکتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر ترک نیشنلزم کا جذبہ فوری طور پر بیدار نہ ہو گیا ہوتا تو شاید آج ترکی کا نام ونشان بھی صفحۂ ارضی پر موجود نہ ہوتا۔ اسی طرح اسلام سے جتنا کچھ حقیقی اور واقعی تعلق اس وقت مسلمانانِ عرب کو ہے وہ کسے معلوم نہیں، اندریں حالات عرب نیشنلزم ہی یورپی سامراج کے چنگل سے نکلنے کی جدوجہد کے لیے واحد موجود (The Only Available) بنیاد بن سکتا تھا اور ایک وقتی ضرورت اور دفاعی تدبیر کی حد تک اس کے استعمال میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے، بشرطیکہ اسے نظامِ فکر کی مستقل اساس کے طور پر قبول نہ کر لیا جائے اور حصولِ آزادی کے عبوری مقصد کی تکمیل کے بعد صحیح اسلامی فکر اور وحدتِ ملی کے شعور واحساس کو اجاگر کیا جائے۔
اس پس منظر میں دیکھئے تو تحریکِ پاکستان کا معاملہ بالکل منفرد نظر آتا ہے۔ برصغیر کے مسلمان بھی اگر برطانوی استعمار سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہندی قومیت کی اساس پر غیر مسلموں کے ساتھ اشتراکِ عمل کرتے تو اس کے لیے بھی وجہ جواز موجود تھی۔ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل وکرم ہے کہ یہاں کے مخصوص حالات کے باعث مسلمانانِ ہند نے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز ہی ’’مسلم قومیت‘‘ کی اساس پر کیا جس کے نتیجے میں وہ ملک وجود میں آیا جوحضرت سلمان فارسیؓ کی طرح جو اپنا نام ’’سلمان ابن اسلام‘‘ بتایا کرتے تھے، صرف اور صرف ’فرزندِ اسلام‘ قرار دیا جا سکتا ہے اور جس کے قیام اور بقا کے لیے کوئی وجہ جواز سوائے اسلام کے موجود نہیں ہے۔ گویا پاکستان ع ’’خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی ؐ‘‘ کے مِصداق اپنی پیدائش (Genesis) اور ہیئت ترکیبی کے اعتبار سے تمام مسلمان ممالک سے ایک قدم آگے ہے اور دوسروں کو ع ’’قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم‘‘ کا جو کٹھن مرحلہ ابھی طے کرنا ہے وہ کم از کم اصولی اور نظری اعتبار سے یہاں پہلے ہی سے طے شدہ ہے۔
مسلمانانِ ہند کی سیاسی جدوجہد کو اس رخ پر ڈالنے والے اسباب وعوامل میں سُلبی و منفی طور پر سب سے زیادہ دخل ہندوئوں کی روایتی تنگ نظری اور تنگ دلی اور اس سے بھی بڑھ کر مسلمانوں سے اپنی ’’ہزار سالہ شکست کا انتقام‘‘ لینے کے اس جذبے کو حاصل ہے جو ان کے سینوں میں کھولتے ہوئے لاوے کی طرح پک رہا تھا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو گویا ان کا یہ طرزِ عمل بھی اسلام کی نشاۃ ِثانیہ کے لیے ممد ومعاون بن گیا اور ہم اپنے سابق ابنائے وطن کی خدمت میں بجا طور پر عرض کر سکتے ہیں کہ؎
تو نے اچھا ہی کیا دوست سہارا نہ دیا
مجھ کو لغزش کی ضرورت تھی سنبھلنے کے لیے
مثبت اسباب کے ضمن میں ایک تو یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہئے کہ مسلمانانِ ہند کے دلوں میں پہلے بھی جذبۂ ملی باقی تمام دنیا کے مسلمانوں سے زیادہ تھا۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تنسیخِ خلافت (Abolition of Caliphate) پر جس قدر شدید ردِعمل یہاں ظاہر ہوااس کا عُشرِ عشیر بھی کہیں اور نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ ایک وقت تھا کہ برصغیر کے ہندوئوں اور مسلمانوں سب کی مشترک سیاسی جدوجہد کا عنوان ہی ’تحریکِ خلافت‘ بن گئی تھی۔ اور دوسرے یہ کہ اس خطے میں علامہ اقبال مرحوم ایسی عظیم شخصیت پیدا ہوئی جس کی انتہائی پُر درد وپُرتاثیر حُدی خوانی نے قافلۂ ملی کو خوابِ غفلت سے بیدار کر دیا اور مسلمانانِ ہند کو جذبۂ ملی سے سرشار کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ پوری امتِ مسلمہ پر علامہ مرحوم کا ایک بہت بڑا احسان ہے اور بلاشبہ ان کی ملی شاعری کو اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اور تجدید واحیائے دین کی وسیع الاطراف جدوجہد میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔
اور اس پس منظر (Context) میں دیکھا جائے تو عالمی اسلامی سربراہی کانفرنس کا پاکستان اور خاص طور پر اس شہر لاہور میں انعقاد بہت معنی خیز ہے، جہاں قریباً ثلث صدی قبل قرارداد پاکستان بھی منظور ہوئی تھی اور جہاں دورِ حاضر میں قافلۂ ملتِ اسلامیہ کا وہ سب سے بڑا حدی خواں بھی مدفون ہے جو آخری دم تک یہ صدا لگاتا رہا کہ ؎
بیاتاکارِ ایں امت بسازیم
قمارِ زندگی مردانہ بازیم
چناں نالیم اندر مسجدِ شہر
دِلے در سینۂ ملا گدازیم
(جاری ہے)