(منبرو محراب) جمعۃ ُ المبارک:اہمیت،فضیلت اور اعمال - ابو ابراہیم

7 /

جمعۃ ُ المبارک:اہمیت،فضیلت اور اعمال(قرآن و حدیث کی روشنی میں)

 

مسجد جامع القرآن، قرآن اکیڈمی DHA کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخs کے22جولائی2022ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

مرتب: ابو ابراہیم

خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد!
تنظیم اسلامی کے نظم کے تحت طے ہوا ہے کہ وہ مقامات جہاں بانی تنظیم اسلامی ،استاد محترم ڈاکٹرا سرارا حمد ؒ جمعہ کے خطابات دیتے رہے ہیں اب ان مقامات پر مجھے یہ سعادت میسر آئے گی ۔ اس ضمن میں طے ہوا ہے کہ ہرمہینے کادوسرا اور چوتھاجمعہ قرآن اکیڈمی کراچی میں پڑھاؤں اور دوجمعہ قرآن اکیڈمی ماڈل ٹائون لاہور میں پڑھائوں گا۔ ان شاء اللہ!اللہ تعالیٰ اخلاص عطا فرمائے اور ہم سب کو دین کی خدمت کے لیے قبول فرمائے ۔
آج ہمارا موضوع بھی جمعہ ہے۔ اس حوالے سے قرآن حکیم میں سورۃالجمعہ کے دوسرےرکوع کی تین آیات میں جمعہ کے حوالے سے کچھ ہدایات ہمارے سامنے آتی ہیں ۔ سیرت رسول ﷺ کی روشنی میں خطاب جمعہ کا اصل مقصد تذکیر ہے ۔ قرآن حکیم میں ارشا د ہوتاہے :
{وَّذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(55)} ’’اور آپ تذکیر کرتے رہیے‘ کیونکہ یہ تذکیر اہل ایمان کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔‘‘(الذاریات)
انسان میں نسیان (بھول جانے ) کی کمزوری ہے۔ اس کمزوری کی وجہ سے وہ کبھی کبھی اہم باتیں بھی بھول جاتاہے۔ بالخصوص دینی فرائض کا بھول جانا بڑے خسارے کا باعث ہو سکتا ہے لہٰذا یاددہانی ضروری ہے ۔ جیسے نماز دن میں پانچ مرتبہ زندگی کی مصروفیات سے نکال لاتی ہے اورہماری بنیادی ذمہ داری کی یاددہانی کراتی ہے۔ اسی طرح ہفتہ وار بنیادوں پر یہ جمعہ کادن ہے جہاں وعظ، خطبہ،نصیحت کے ذریعے دلوں کے زنگ کاعلاج کیا جاتاہے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس طرح لوہے کو زنگ لگ جاتاہے اسی طرح دلوں کو بھی زنگ لگتا ہے۔ پوچھاگیایارسول اللہﷺ !دلوںکے زنگ کودور کرنے کا کیا علاج ہے ؟آپﷺ نے فرمایاکہ کثرت سے مو ت کو یادرکھنااور کثرت سے اللہ کی کتاب کی تلاوت کرنا۔ یہاں تلاوت سے مقصود قرآن کو ہدایت کی طلب اور تڑپ کے ساتھ پڑھنا اور سمجھنے کی کوشش کرنا ہے۔ خوداللہ کے رسول ﷺ کاجوخطبہ جمعہ ہوتا تھا اس میں آپﷺ اللہ کی حمد و ثنا اور درود وسلام کے ساتھ ساتھ قرآن کی آیات کے ذریعے تذکیر کااہتمام فرماتے تھے۔ اسی طرح مسلمانوں کے مسائل پر گفتگو کرنااوران کے لیے دعائوں کا اہتمام کرنا بھی رسول اللہﷺ کے خطبہ جمعہ کے اہم اجزا ءہیں ۔ ان سب میں اہم جُز قرآن حکیم کے ذریعے نصیحت ویاددہانی تھا۔ زیر مطالعہ آیا ت میں پہلی آیت میں جمعہ کے بارے میں فرمایا:
{یٰٓــاَیـُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ }’’اے ایمان والو! جب تمہیں پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو دوڑو اللہ کے ذکر کی طرف۔‘‘(آیت:9)
یہاں اہل ایمان سے خطاب ہے ۔ یعنی جو رسول اللہﷺ کی دعوت قبول کرچکے ہیں، اب ان کے سامنے اعمال اور احکام کاتذکرہ آتاہے ،کرنے کے کام کیا ہوں گے ،نہ کرنے کے کام کیاہوں گے ،یہ تقاضا بندو ں کے سامنے رکھاجاتاہے ۔ آج یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ کلمہ ہمیں ماں کی گود میں مل گیا ہے۔ اللہ کا شکر ادا کریں لیکن اتنا کافی نہیں ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کرشعوری طور پر ایمان کاحصول ،ا س کی حفاظت ، اس کی آبیاری اور اس کی بڑھوتری کے لیے مسلسل کوششیں کرنا ایک مسلمان کی اولین ذمہ داری ہے ۔ یہاں اہل ایمان سے تقاضاہے کہ جب نماز جمعہ کے لیے پکارا جائے تو دوڑو اللہ کے ذکر کی طرف اور کاروبار چھوڑ دو ۔ یہاںایسادوڑنامراد نہیں کہ آدمی بھاگتے ہوئے مسجد کی طرف آرہاہوبلکہ یہاں اہتمام کی طرف اشار ہ ہے ۔یعنی جمعہ کے دن نما زکے لیے پکارا جائے توآپ اہتمام سے ذکر کی طرف آئو۔عمومی طور پر ذکرکی تشریح یہ کی گئی کہ :((استحضار اللہ فی القلب)) دل میں اللہ کو دیارکھنا۔ جب اللہ دل میں یاد رہے گا توزبان پر بھی اللہ کاذکر ہوگا اور جب اللہ دل میں یاد رہے گا تو پھر پورے وجود سے اللہ کاذکر ہوگا۔یعنی اللہ نے جن کاموں سے منع فرمادیاان سے انسان رک جائے گا اور جن کاموں کے کرنے کا حکم دے دیاہے ان کوبجالائے گا ۔ چنانچہ ذکر تلاوت قرآن بھی ہے ، اذکار بھی ہیں، استغفار کے کلمات بھی ہیں ، درود وسلام بھی ہے ، دعائیں بھی ہیں اور ذکربالجوارح بھی ہے ،پورے وجود سے بھی اللہ کا ذکر ہے اوروہ ہے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت اختیار کرنا اور اللہ اوراس کے رسولﷺ کی نافرمانی سے بچنا۔ البتہ سورۃ الجمعہ کی زیر مطالعہ آیت میں ذکر کی طرف لپکنے سے مراداہتمام کے ساتھ جمعہ کے خطبہ میں پہنچنا ہے ۔ احادیث مبارکہ میں اس کے لیے اہتمام اور تیاری کی کچھ تفصیلات بھی بیان ہوئی ہیں کہ خطبہ جمعہ میں شریک ہونے سے پہلے کیا کیا کام کرنے چاہئیں اور ان کے فضائل بھی بیان ہوئے ہیں ۔ عالم عرب میں عربی کاخطبہ بیس پچیس منٹ کاہوتاہے ۔عجم میں چونکہ لوگوں کو عربی سمجھ نہیں آتی اس لیے وہاں مختلف زبانوں میں خطبہ ہوتاہے اور اس کے بعد سنت رسولﷺ کے تسلسل کوبرقرار رکھنے کے لیے مختصر عربی خطبہ بھی رکھاگیا ہے۔ چنانچہ جمعہ کا اصل مقصد واعظ و نصیحت میں شریک ہونا ہے۔ جولوگ بھاگتے ہوئے دورکعت کے لیے آتے ہیں کہ بس دوسری آذان آجائے اور پھردورکعت پڑھی اور بھاگ گئے تو یہ جمعہ ادا کرنا نہیں ہے بلکہ یہ جمعہ سے بھاگنا ہے ۔ فقہی اعتبار سے تو نماز ادا ہو جاتی ہے لیکن حقیقت کے اعتبار سے جمعہ حاصل نہیں ہوا کیونکہ جمعہ کوجمعہ بنانے والی شے خطبہ جمعہ ہے۔ عام دنوں میں ظہر کی نماز کے چار فرض ہوتے ہیں لیکن جمعہ میں دو فرض ہوتے ہیں کیونکہ بقیہ دو فرائض کی جگہ خطبہ ہوتاہے ۔ چنانچہ اس خطاب میں شریک ہونے کے لیے نہا دھو کر اور تیاری کرکے آؤ ۔ رسول اللہ ﷺ نے یہاں تک فرمایاکہ کیاہی اچھاہو کہ تم اپنے عام ، کام کا ج کے کپڑوں کے علاوہ ایک جوڑا جمعہ کے لیے رکھ لو جو صاف ستھرا ہو ۔ وہ پہن کر جمعہ میں آؤ۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ جمعہ میں شریک ہونے سے قبل غسل کرنے والے کے صغیرہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔ اسی طرح مردوں کے لیے خوشبو لگا کر جمعہ میں شریک ہونے کا بھی اجر بیان ہوا ہے ۔ البتہ خواتین کی اصل زیبائش اور آرائش اس کے شوہر کے لیے ہے۔ اس لیے عورت پر خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلنے کی ممانعت ہے ۔ البتہ پردے کا اہتمام ہو تو باحجاب عورتیں بھی جمعہ میں شریک ہو سکتی ہیں ۔ پھر جمعہ کے دن جلدی مسجد میں پہنچنے کے بھی فضائل بیان ہوئے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جوپہلے پہلے پہنچتاہے اس کو ایک اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہے ، اس کے بعد میں آنے والے کو گائے، اس کے بعد آنے والے کو دنبے، اس کے بعد آنے والے کو مرغی، اس کے بعد آنے والے کو انڈے کی قربانی کا اور جب خطیب ممبر پر آجائے تو اس کے بعد فرشتے رجسٹر بند کر دیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اردو خطبے میں شامل ہونا مطلوب ہے تاکہ یہ اجروثواب بھی مل سکے اور وعظ ونصیحت بھی سن سکیںتاکہ ہمارے دلوں کازنگ دور ہو سکے۔ اس زنگ کودور کرنے کے لیے اللہ کے کلام سے نصیحت خطبہ جمعہ کا لازمی حصہ ہے ۔ نبی اکرمﷺ باقاعدہ اس کا اہتمام فرماتے تھے ۔
نصیحت کے اس اجتماع میں جہاں عام مسلمانوں کا اہتمام کے ساتھ پہنچنا ضروری ہے وہاں واعظین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بھی خطاب کے لیے بھرپور تیاری کرکے آئیں۔ اس دن کروڑوں مسلمان اپنے کام کاج چھوڑ کر نصیحت سننے کے لیے آتے ہیں لہٰذا واعظین کے لیے کتنا بڑا موقع ہوتاہے کہ وہ اسلام کی اصل روح قرآن و حدیث کی روشنی میں عوام میں نصیحت کے ذریعے پھونکنے کی کوشش کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔آگے ارشاد ہوا:
{وَذَرُوا الْبَیْعَ ط}’’ اور کاروبار چھوڑ دو۔‘‘(آیت:9)
یعنی جمعہ کے مبارک اجتماع اور نماز میں شریک ہونے کے لیے معاش ، روزگار سمیت تمام مصروفیات کو چھوڑ دیا جائے ۔ سابقہ مسلمان اُمت کے لیے ہفتہ کا پورا دن مخصوص تھا ۔ جمعہ کی شام سے لے کر ہفتہ کے دن مغرب تک کوئی بھی کاروبار کرنا ان کے لیے ممنوع تھا ۔ لیکن موجودہ مسلمان اُمت کو اللہ تعالیٰ نے بڑی آسانیاں دی ہیں ۔ ان کے لیے صرف اذان جمعہ سے لے کر نماز جمعہ ادا ہونے تک پابندی ہے کہ اس دوران جمعہ میں شریک ہونے کے علاوہ کوئی مصروفیات نہ رکھی جائے ۔ البتہ مسافر ،معذور افراد ، بچے اور عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں ۔جن کے پاس کوئی شرعی عذر نہیں ہے اور اس کے باوجود وہ جمعہ کے لیے مسجد میں نہیں آتے تو ان کے لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا:میرا جی چاہتاہے ایسے لوگوں کے گھروں کو جاکرمیں آگ لگادوںجوبلاعذر گھر میں بیٹھے ہیں اور جمعہ کے لیے نہیں آرہے۔اسی طرح آپﷺ نے فرمایا: جو تین جمعہ لگاتار جمعہ میں شریک نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگادیتاہے ۔یعنی اللہ تعالیٰ ہدایت کی طلب ہی سلب کر لیتاہے ۔ جس انسان کی ہدایت کی طلب سلب کر لی جائے تو پھر سوچئے اس کا انجام کیا ہوگا ؟ ایک اور حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:جو شخص جمعہ میں جان بوجھ کر شریک نہیں ہوتا وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں غافلین میں شمار ہو گا۔
جمعہ کے اجتماع کا ایک دوسرا فائدہ یہ ہے کہ یہ ملت کو نظریاتی بنیادوں پر جوڑتاہے ۔اس اُمت کو جوڑنے کے لیے نظریہ کی یاددہانی بھی ضروری ہے ۔ ہم سب ایک نظریہ کی بنیاد پر ، ایک کلمہ اور ایک کتاب کی بنیاد پر ایک امت ہیں ۔ مختلف رنگ ، نسل اور علاقوں کے لوگ ایک اجتماع میں اکٹھے ہوتے ہیں اور قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنی نظریاتی بنیادوں کو مستحکم کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ پھر وہ لوگ جوکسی تحریک سے جڑے ہوئے ہیں،جواللہ کی اس زمین پر اللہ کے دین کے غلبے کی جدوجہد میں اپنے آپ کو کھپارہے ہیں ان کے لیے تو قرآن سے یاددہانی کی زیادہ ضرورت ہے ۔ بدر میں 313صحابہؓکی بدولت اسلام کی فتح ممکن ہوئی لیکن ان کی تربیت 13برس مکہ میں قرآن کی روشنی میں ہوئی۔ لہٰذا وہ لوگ جونظریاتی جماعتوں اور تحریکوں سے جڑے ہوئے ہیںاور دعوت دین اور اقامت دین کی جدوجہد سے وابستہ ہیں ان کے لیے اپنی نظریاتی اور تحریکی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے جمعہ کی اہمیت کا معاملہ اور زیادہ بڑھ جاتاہے۔ آگے فرمایا:
{ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّــکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ} ’’یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔‘‘ (الجمعہ:9)
آج ہم فضولیات میں کتنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ اگر جمعہ کے دن گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ہدایت کے حصول کے لیے نکال لیں گے تو کوئی بڑا سانحہ رونما نہیں ہوجائے گا لیکن اگر ہدایت سے محرومی کی مہر لگ گئی تو پھر ہماری دنیا اور آخرت تباہ ہو جائے گی ۔ اصل معاملہ ترجیح کاہے ۔ اگرجمعہ کی اہمیت سامنے ہوگی توسارے معاملات سیٹل ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ سمجھ عطا فرمائے ۔آگے فرمایا:
{فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ}’’پھر جب نماز پوری ہو چکے تو زمین میں منتشر ہو جائو اوراللہ کا فضل تلاش کرو‘‘(الجمعہ:10)
نماز جمعہ ادا ہوجائے تو پھر تم دوبارہ اپنے کاروبار زندگی میں بے شک مصروف ہو جاؤ ۔ یہ حکم نہیں بلکہ اجازت ہے ۔ لہٰذا اگر کوئی جمعہ کے بعد ہا ف ڈے منانا چاہتاہے تو بے شک منائے لیکن کوئی کاروبار کرنا چاہتاہے تو اس کی بھی اجازت ہے ۔ یہاں بڑا اہم نکتہ آیا کہ :
{وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ}’’ اوراللہ کا فضل تلاش کرو‘‘(الجمعہ:10)
اگر کسی کاخیال ہے کہ وہ عقل کی بنیاد پرکما رہا ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ بھی انسان کو مل رہا ہے وہ اللہ کے فضل کی وجہ سے ہے ۔ بڑے بڑے ڈگری ہولڈر اس وقت دنیا میں روزگار کے لیے مظاہرے کر رہے ہیں جبکہ کئی انگوٹھا چھا پ ایسے ہیں جن کے ماتحت ڈگری ہولڈر کام کر رہے ہیں ۔لہٰذا اللہ پر یقین رکھنا چاہیے اور حلال رزق کی کوشش کرنا چاہیے ۔ حرام کا پیسہ اللہ کا فضل نہیں بلکہ جہنم کے انگارے ہیں ۔ آگے فرمایا:
{وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّــعَلَّــکُمْ تُفْلِحُوْنَ(10)} ’’اور اللہ کو یاد کرو کثرت سے تاکہ تم فلاح پائو۔‘‘
ایسا نہیں کہ جمعہ کے دن بڑا اہتمام ہوا اور اس کے بعد ایک ہفتے کے لیے اللہ کو بھول گئے ۔ نہیں !بلکہ جمعہ کے بعد بھی اللہ کاذکر (یاد) ہر وقت رہنا چاہیے ۔ یہ قرآن کامستقل اصول ہے ۔ حج مکمل ہوگیاتو حج کے بعد بھی اللہ کاذکر کرو(البقرۃ)۔ نماز مکمل ہوگئی اس کے بعد بھی اللہ کاذکر کرو(ق ٓکے آخر میں )۔جمعہ کی نماز ادا ہوگئی اس کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کاذکر کرو۔ان قرآنی ہدایات سے ذکر کی وسیع تر تصویر ہمارے سامنے آتی ہے ۔یہ ذکرنماز میں بھی،روزے میں بھی ، دکان پربھی مطلوب ہے اور معاملات میں بھی مطلوب ہے ۔ یہ ذکرشادی بیاہ کے موقع پر بھی مطلوب ہے ۔ یہ نہیں کہ مسجد میں تواللہ کو بڑا مانیں اور شادی بیاہ کے موقع پربھیگی بلی بن جائیں کہ کیاکریں جی عورتیں نہیں مانتیں۔اناللہ واناالیہ راجعون! اسی طرح پارلیمنٹ میں بھی اللہ بڑا ہوناچاہیے ۔یہ ہے ذکرمستقل جوجمعہ کے بعد بھی مطلوب ہے ۔آگے فرمایا:
{وَاِذَا رَاَوْ تِجَارَۃً اَوْ لَہْوَا نِ انْفَضُّوْآ اِلَـیْہَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًاط}’’اور جب انہوں نے دیکھا تجارت کا معاملہ یا کوئی کھیل تماشا تو اس کی طرف چل دیے اور آپؐ کو کھڑا چھوڑ دیا۔‘‘
اس آیت کا شانِ نزول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مدینہ طیبہ میں شام سے ایک تجارتی قافلہ عین نمازِ جمعہ کے وقت آیا اور اہل شہر کو اطلاع دینے کے لیے ڈھول بجانے شروع کر دیے۔ چونکہ قحط کا زمانہ تھا ‘ لہٰذا حاضرین مسجد قافلے کی آمد کی اطلاع پا کر فوراً اس کی طرف لپکے ۔ رسول اللہﷺ اُس وقت خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ اکثر لوگ اس دوران اٹھ کر چلے گئے اور تھوڑے لوگ باقی رہ گئے جن میں عشرئہ مبشرہ بھی شامل تھے۔ واضح رہے کہ یہ واقعہ ہجرت کے بعد بالکل قریبی دور کا ہے جبکہ لوگوں کو صحبت ِنبویؐ سے فیض یاب ہونے کا موقع بہت کم ملا تھا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ابتدا میں عیدین کے خطبہ کی طرح جمعہ کا خطبہ بھی نماز کے بعد ہوتا تھا‘ اس لیے خطبہ کے دوران اٹھ کر جانے والے لوگوں نے یہی سمجھا ہو گا کہ نماز تو پڑھی جا چکی ہے اس لیے اب اُٹھ جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
اس واقعہ کے بعد اللہ کے رسولﷺ نے جمعہ کی ترتیب بدل دی۔ یعنی جمعہ کے دن خطبہ پہلے ہوگیااور نما ز بعد میں۔ اسی موقع پر آگے فرمایا:
{قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْـرٌ مِّنَ اللَّہْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِط} ’’(اے نبیﷺ!) آپ کہہ دیجیے کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کہیں بہتر ہے کھیل کود اور تجارت سے۔‘‘
دوسری طرف توجہ یہ دلائی گئی کہ یہ تمہارا جمعہ کے لیے آنااور اپنے معمولات کو چھوڑ دینایہ زیادہ بہترہے ۔ آگے فرمایا:
{ وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(11)}’’اور اللہ بہترین رزق عطا کرنے والا ہے۔‘‘
یہ آج ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے کہ لوگ رزق کے چکر میں رازق کوبھلادیتے ہیں،رازق کی حدود کوپامال کردیتے ہیں ،اس کے اوامر ونواہی کو فراموش کردیتے ہیں۔حالانکہ رزق دینا ہمارا نہیں بلکہ اللہ کا مسئلہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کاارشادہے : (باقی صفحہ12 پر)
بقیہ: منبر و محراب
{وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلاَّ عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا}(ہود:6) ’’اور نہیں ہے کوئی بھی چلنے پھر نے والا (جاندار) زمین پر ‘مگر اس کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘
اللہ نے ذمہ داری لی ہے ۔ ہم دنیا میں بعد میں آئے ہیں، یہ دنیااللہ نے پہلے بنا کرسجائی ہے ۔ سورۃحم السجدہ ( آیات:9تا12) میں اللہ نے بتایا کہ اُس نے چار دن میں یہ زمین بھی بنائی اور تمام جانداروں کی غذا بھی معین کر دی ۔ بچہ بعد میں پیدا ہوتاہے لیکن ماں کے وجود میں بچے کی غذا کا اہتمام اللہ تعالیٰ پہلے کر دیتا ہے ۔ حدیث میں آتاہے کہ جب بچہ ماں کے بطن میں چار ماہ کا ہوجاتا ہے تو فرشتہ اللہ کے حکم سے اس میں روح پھونک دیتاہے اور اُس کے رزق سمیت چند باتیں طے کر دی جاتی ہیں ۔ لہٰذا رزق ہمارا ایشو نہیں ہے ۔ ہمارا کام صرف حلال رزق کے لیے محنت کرنا ہے ۔ باقی عطا اللہ کی ہے ۔
جمعہ کے روز کچھ اعمال اہمیت رکھتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:کثرت سے مجھ پر صلوٰۃ و سلام بھیجا کرو۔ تمہارا درود مجھ پر پیش کیاجاتاہے اور اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ جوکثرت سے مجھ پر درود بھیجتاہے میں کل قیامت کے دن اس کی شفاعت بھی کروں گا۔لہٰذا جمعہ کی شب اور دن میں کثرت سے درود وسلام کااہتمام کرنایہ بھی ایک خاص عمل ہے ۔اسی طرح جمعہ کے روز سورۃالکہف کی تلاوت دجال کے فتنے سے بچنے کے لیے ضروری ہے۔ اگر کبھی پوری سورت تلاوت نہ ہوسکے توابتدائی دس یا آخری دس آیات کی تلاوت کاذکر بھی ہمیں حدیث میں ملتاہے ۔اسی طرح جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے جس کے حوالے سے دومعروف اقوال یہ ہیں کہ امام جب خطبہ دینے کے لیے آجائے اور نماز کے شروع ہونے تک توامام کے بیٹھنے کے درمیان میں ہی وقت ملتاہے۔ یہ مختصر وقت ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے ۔ دوسرا غروب سے پہلے کاوقت ہے یعنی عصر کے بعد کہہ لیجیے، یہ وقت ذرا طویل ہوتا ہے۔ اس موقع پر بھی اللہ سے مانگنے کااہتما م ہونا چاہیے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں جمعہ کی اہمیت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے،اس کی برکات ہمیں عطا فرمائے ۔ آمین !