(اداریہ) کوئی روکے ، خدارا کوئی اِنہیں روکے - ایوب بیگ مرزا

7 /

اداریہ

ایوب بیگ مرزا


کوئی روکے ، خدارا کوئی اِنہیں روکے


پنجابی کی ایک ضرب المثل جس کے اصل الفاظ لکھتے ہوئے تو ہمیں گِھن آتی ہے، بہرحال مفہوم یہ ہے کہ گمراہ انسان کا مالی خسارہ جب تمام حدود کراس کر جاتا ہے تو وہ زندگی کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے دیانت، محنت اور خود داری کا سہارا لے کر مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے گھر کے برتن بیچنا شروع کر دیتا ہے۔ پاکستان کے مالی معاملات تو یقیناً ایک عرصہ سے سدھر نہیں رہے تھے اور پسپائی اختیار کیے ہوئے تھے لیکن گزشتہ 4 ماہ میں مالی لحاظ سے ہم جس طرح اوندھے منہ گرے ہیں اس کی ماضی میں بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حیرت کی بات ہے گزشتہ سال کی شرح نمو 5.97 فیصد یعنی قریباً 6 فیصد تھی اور اُس سے پچھلے سال 5.37 فیصد تھی۔ زرمبادلہ کے ذخائر 7 مارچ 2022ء کو 22.6 بلین ڈالر تھے۔ یقیناً صورتِ حال کوئی آئیڈیل یا قابل فخر نہیں تھی لیکن اکثر اقتصادی عشاریے مثبت دکھائی دے رہے تھے۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو موجودہ حکومت نے اکنامک سروے 2022ء میں خود اپنے دستخطوں کے ساتھ شائع کیے۔ اُس وقت ڈیفالٹ کا کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں تھا۔ پاکستان نے IMF کا پروگرام بھی بعض سخت شرائط کی وجہ سے معطل کر رکھا تھا۔ 9 اپریل 2022ء سے صورتِ حال تیزی سے بدلنا شروع ہوگئی اور اقتصادی صورتِ حال کے حوالے سے بُری خبریں آنا شروع ہوئیں۔ چار ماہ میں زرمبادلہ کے ذخائر سنگل ڈیجٹ میں چلے گئے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ روزانہ اوسطاً تین یا چار روپے گر جاتا ہے اور چار ماہ میں قریباً پچپن روپے کمزور ہو چکا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اپنی اصلاح اور ایسے اقدامات کرتی جس سے ڈیفالٹ کا خطرہ بھی ٹل جائے اور ہماری سلامتی کو بھی خطرہ لاحق نہ ہو۔ لیکن ہوا یہ کہ گزشتہ جمعرات یعنی 21 جولائی 2022ء کو وفاقی کابینہ نے ایک آرڈیننس کی منظوری دی جس کے مطابق آئل اور گیس سے متعلقہ اثاثہ جات اور حکومتی پاور پلانٹ UAE کو دو (2) سے اڑھائی بلین ڈالر کے درمیان فروخت کرنے کی منظوری دے دی گئی۔
ہم قارئین کو تمام حقائق اور پس منظر سے آگاہ کرنے کے لیے بات 1989ء سے شروع کرتے ہیں جب پاکستان آئی ایم ایف کے Extended Facility Fund کا پہلی مرتبہ حصہ بنا تو اس کے بعد ملک کو بدترین معاشی بدحالی، افراط زر، بے روزگاری اور معیشت کے ہر میدان میں گراوٹ اور غلامی کے سوا کچھ نہ ملا۔ پاکستان 23 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس کشکول لے کے جا چکا ہے اور ہر مرتبہ ایسی سخت سے سخت شرائط کے ساتھ قرضہ دیا جاتا ہے کہ نہ صرف معاشی بلکہ سیاسی، سماجی، معاشرتی اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی ہماری خود مختاری سلب ہو جاتی ہے۔ ماضی میں آئی ایم ایف سے یہی چند ارب ڈالروں کی بھیک حاصل کرنے کے لیے ہم نے ملک کے اہم ترین اثاثہ جات کو گروی رکھوا دیا۔ ہر آنے والی حکومت نے ڈیفالٹ سے بچنے کے بیانیہ اور عالمی مالیاتی اداروں کو گارنٹی دینے کے نام پر کئی کئی مرتبہ موٹروے، ائیرپورٹس، بڑی شاہرائیں، ریڈیو پاکستان، پی ٹی وی الغرض قومی اثاثوں کو گروی رکھوایا لیکن گروی رکھوانے اور فروخت کرنے میں بڑا فرق ہے۔ قومی اثاثوں کو فروخت کرنے کی بات پہلی مرتبہ سامنے آ رہی ہے جو اس بات کاثبوت ہے کہ حکمران طبقہ اور ملک کی اشرافیہ کو شاید اس امر سے غرض ہے نہ ندامت کہ پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کو دوسرے ملکوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔ مجوزہ آرڈیننس کے تحت ان تمام قوانین کو بائی پاس کر دیا جائے گا جو اس بات کی ضمانت دیتے ہیں اور یقینی بناتے ہیں کہ قواعد و ضوابط اور اصولی طریقہ کار کو اثاثہ جات کی خرید و فروخت اور نجکاری کے وقت بروئے کار لایا جائے۔ جن قوانین کو بائی پاس کرنے کی بات ہو رہی ہے اُن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
1. Companies Act, 2017.
2. Privatisation Commission Ordinacnce, 2000.
3. Public Procurement Regulatory Authority Ordinance, 2002.
4. Public-Private Partnership Authority Act, 2017.
5. Securities and Exchange Commission of Pakistan Act, 1997.
6. Securities Act, 2015.
علاوہ ازیں آرڈیننس کے مطابق قومی اثاثہ جات کی فروخت یا نجکاری کے کسی معاہدے کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔
کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف اپنے موجودہ حکومت سے کیے گئے معاہدے کے تحت رقم اس وقت تک دینے کو تیار نہیں جب تک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کو قرضہ نہیں دیتے۔ جبکہ کوئی دوست ملک اس غیر یقینی صورت حال میں پاکستان کو قرضہ دینے اور پچھلے قرضے کو مؤخر کرنے کے لیے تیار نہیں لہٰذا حکومت کے مطابق جلد از جلد ملکی اثاثوں کو فروخت کیا جائے۔ ملکی اثاثہ جات کی یہ فروخت جب بین الاقوامی قوتوں اور دیگر ممالک کو ہوگی تو کیا پاکستان کی سلامتی و خود مختاری خطرے میں نہیں پڑ جائے گی؟
گزشتہ ساڑھے چار ماہ کے دوران حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کیا۔ بجلی، گیس انتہائی مہنگی کر دی۔ جس کی وجہ سے روز مرہ ضرورت کی تمام اشیاء عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ ڈالر کی اونچی اڑان مسلسل جاری ہے۔ سٹاک مارکیٹ روز گر رہی ہے اور سونا ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا بھی خطرناک حد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک گر چکے ہیں۔ تو کیا اس کا حل یہ ہے کہ ایل۔ این۔ جی پلانٹس بمعہ مشینری اور ایسی قومی صنعتیں جو نقصان میں جا رہی ہیں، انہیں بیرونی قوتوں کو بیچ دیا جائے؟
معاہدے چاہے G2G (گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ) ہی ہوں۔ کیا ملکی سرمایہ کار اس معاملے میں آگے بڑھ کر اپنا حصہ ڈالنے کو تیار نہیں؟ کیا ہم اہم ترین ملکی اداروں جیسے ریلوے، پی آئی اے، سٹیل مل اور اہم اور قیمتی ترین عمارات و زمین کو غیر ملکیوں کے ہاتھ بیچ دیں گے؟
پھر یہ کہ اس تمام معاملے کو جلد از جلد کی بنیاد پر پورا کرنے کے حکومتی مطالبہ کا مطلب یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ نہ شفاف Bidding ہوگی۔ نہ قانونی و آئینی طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔ نہ عدالت میں چیلنج ہو سکے گا۔ نہ ہی ان معاملات میں کسی نوع کی بددیانتی، چاہے وہ شخصی ہو یا ادارے کی سطح پر، کو قابل گرفت بنایا جاسکے گا۔ کسی تحقیقاتی ادارے کو تفتیش یا انکوائری کا اختیار بھی نہ ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور پاکستان کے دشمن امریکہ، اسرائیل اور بھارت کو کسی طرح ایک اسلامی ملک بطور ایٹمی قوت قبول نہیں۔ یہ ممالک پہلے بھی بہت سی ایسی تدابیر اختیار کر چکے ہیں جن سے پاکستان کو ایٹمی قوت سے محروم کیا جا سکے جس میں کہوٹہ پر حملہ کی کوشش وغیرہ بھی شامل ہے لیکن اللہ کے فضل و کرم سے ناکام ہوئے۔ جنگ کا آپشن بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پاکستان اپنی سلامتی خطرے میں دیکھ کر ہمسایہ پر ایٹمی حملہ کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ لہٰذا اب ایک عرصہ سے اس پالیسی پر چلنے کا فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کو معاشی طور پر تباہ و برباد کر دیا جائے۔ یہاں تک کہ پاکستان بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے ایٹمی اثاثہ جات سرنڈر کر دے۔ دکھائی یہ دے رہا ہے کہ پہلے پاکستان کو ڈیفالٹ کیا جائے گا جس سے بیرونی دنیا پاکستان کو سنگل آؤٹ کر دے گی،امپورٹ ایکسپورٹ ناممکن ہو جائے گی، مقامی کارخانے بند ہو جائیں گے، لاکھوں اور شاید کروڑوں مزدور فارغ ہو جائیں گے۔ بھوک سے انسان انسان کا دشمن ہو جائے گا۔ پھر حکمرانوں سے پوچھا جائے گا کہ آیا تمہیں بچا لیں اور بچنے کے دو طریقے ہوں گے۔ ایک یہ کہ اپنے ایٹمی اثاثہ جات ہمارے حوالے کر دو، دوسرا اسرائیل کو تسلیم کر لو۔ یعنی ہمیں دینی اور دنیوی خودکشی کی طرف راغب کیا جائے گا گویا ہمیں کہا جائے گا اپنی نظریاتی یعنی دینی بنیاد کو زمین میں دفن کر دو اور اپنی سلامتی ہمارے پاس گروی رکھ دو۔ ہم حکومت سے ہاتھ جوڑ کر استدعا کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے اثاثے فروخت نہ کرے اپنی پالیسیاں درست کرے، اپنے اخراجات میں کمی کرے۔ بیرون ملک پاکستانیوں سے کہے کہ وہ ملک بچانے کے لیے آگے بڑھیں۔ ہم پاکستان کے تمام ریاستی اداروں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ حکومت کو اس پاگل پن سے روکے۔ کوئی روکے، خدارا کوئی اِنہیں روکے۔