روز قیامت اور تین گروہ
(سورۃ الواقعہ کی پہلی11آیات کی روشنی میں)
جامع مسجد شادمان ٹاؤن کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے31دسمبر 2021ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص
خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد!
قرآن مجید کے سلسلہ وار مطالعہ کے ضمن میں آج ہم ان شاء اللہ سورۃ الواقعہ کا مطالعہ شروع کریں گے۔ سورۃالواقعہ مکی سورت ہے۔ مکی سورتوں میں عام طور پر توحید، رسالت اور آخرت کے جو مضامین بیان ہوئے ہیںوہی مضامین سورۃالواقعہ میں بھی ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے بیان کے ساتھ ساتھ غالب بیان آخرت کے حوالے سے ہے ۔ ا بتدائی آیات میں قیامت برپا ہونے کے مناظر کو بیان کیا گیا ہے اور اس خوفناک دن لوگوں کی جو کیفیت ہوگی اس کو بھی بیان کیا گیا ہے ۔ قرآن کے مطابق اس دن لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے جن میں مقربین (اعلیٰ درجات پانے والے )، اصحاب یمین (عام اہل جنت)اور اصحاب الشمال شامل ہیں ۔ انہی تین گروہوں کا ذکر سورۃ الرحمٰن میں بھی آیا تھا ۔ لیکن سورۃ الواقعہ میں ان تین گروہوں کا ذکر کچھ مزید وضاحت کے ساتھ آئے گا ۔ آئیے اب ہم سورۃ الواقعہ کا مطالعہ شروع کرتے ہیں ۔ فرمایا:
{اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ (1)}’’جب وہ ہونے والا واقعہ رونما ہو جائے گا۔‘‘
قرآن مجید میں قیامت کے مختلف نام مختلف اصطلاحات میں بیان ہوئے ہیں جیسے الحآقہ ، التآمہ، النّٰزِعٰت ، الصآخہ اور الساعۃ وغیرہ ، اسی طرح الواقعہ بھی قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے جس کے معنی ہیں سچ مچ میں واقعہ ہونے والی شے ۔آگے فرمایا :
{لَیْسَ لِوَقْعَتِہَا کَاذِبَۃٌ (2)}’’(اور جان لو) اس کے واقع ہونے میں کوئی جھوٹ نہیں ہے ۔‘‘
جس طرح انسان کی موت ایک یقینی شے ہے جو ہر صورت میں واقعہ ہوکر رہتی ہے ، اسی طرح اس عَالَم کی موت قیامت کی صورت میں یقینی ہے ، اس کا ایک وقت مقرر ہے۔ اس سورت کا پس منظر یہ ہے کہ مکہ میں نبی مکرمﷺ کی دعوت کا انکار کرتے ہوئے مشرکین کے سردار مختلف اعتراضات پیش کرتے تھے۔جنہیں قرآن نے بھی نقل کیا ہے ۔ مثلاً کبھی وہ کہتے تھے :
صرف دنیاکی زندگی ہے بس مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے ۔
اسی طرح کبھی وہ کہتے تھے :
{ہَیْہَاتَ ہَیْہَاتَ لِمَا تُوْعَدُوْنَ(36)}(المو ٔ منون)
’’نا ممکن! بالکل نا ممکن ہے یہ بات ‘جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے!‘‘
کوئی مرنے کے بعد لوٹ کرآیاہے جوتم کہتے ہوکہ مرنے کے بعد دوبارہ زندگی ہوگی۔
اسی طرح منکرین بے شمار اعتراضات اٹھا کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی اور ان کے ان باطل عقائد وتصورات کا رد بڑی خوبصورتی کے ساتھ کیا ۔
آج جس دور میں ہم جی رہے ہیں ، اس میں انسانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جو آخرت کا سرے سے ہی انکاری ہے ۔ لہٰذا اس سورت میں اس طبقہ کے لیے بھی نصیحت ہے ۔ اسی طرح ایک طبقہ وہ بھی ہے جو آخرت کا انکار تو نہیں کرتا لیکن ان کا عمل ثبوت نہیں پیش کرتاکہ یہ مرنے کا یقین رکھتے ہیں یامرنے کے بعد کی زندگی کایقین رکھتے ہیں۔ایسے تمام طبقات کو بھی قرآن حکیم ان سورتوں کے ذریعے ایڈریس کرتاہے ۔
ہم الحمدللہ مسلمان ہیں ، آخرت کو ماننے والے ہیں ، ان سورتوں کی تلاوت بھی کرتے ہیں ، نماز میں بھی پڑھتے اور سنتے ہیں ،ہر نماز کے شروع میں اقرار بھی کرتے ہیں کہ :
{مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ3}’’(اللہ ) ہی بدلے کے دن کا مالک ہے ‘‘۔
ہم سے قرآن کی تلاوت اور نماز میں تلاوت اور قرآن سننے کا تقاضا کیوں کیا گیا ؟ اس لیے کہ ہم دنیاداری میں لگ کر آخرت کو بھول نہ جائیں ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے عمل پر سب سے زیادہ جو چیز اثر انداز ہوتی ہے وہ آخرت کا عقیدہ ہے ۔ آخرت پر جتنا ہمارا یقین پختہ ہوگا ، یوم حساب کا خوف جتنا ہمارے دلوں میں گہرا ہوگا اتنا ہی ہمارا عمل درست اور نیک ہو گا ۔ اگر اعمال میں بگاڑ اور بربادیاں نظرآرہی ہیں ،اخلاقیات میں تباہی نظرآرہی ہے، معاملات میں سرکشی،گناہ،معصیت اورنافرمانیاں بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہیںتواس کا سادہ سامفہوم یہ ہے کہ ماننے کا دعویٰ ہے لیکن شاید یقین نہیں ہے ۔ لہٰذا یاددہانی کے لیے ضروری ہے کہ آخرت کے سبق کو انسان ذہن میں تازہ رکھے اور اسی لیے نماز اور اس میں قرآن کی تلاوت مسلمانوں کے لیے لازم قرار دی گئی ۔ اگر سمجھ کر پڑھیں گے ، سنیں گے تو دل میں احتساب کا احساس پیدا ہوگا کہ ہم کچھ غلط کر رہے ہیں ، سیدھے راستے کی طرف مُڑنا چاہیے ورنہ آگے بربادی ہے تو بندہ تھوڑا سنبھل جائے گا اور سرکشی سے ، گناہ سے باز آجائے گا ۔ بقول شاعر
سرکشی نے کردیے دھندلے نقوش بندگی
آئوسجدے میں گریں لوح جبیں تازہ کریں
جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو{مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ3} کے ذریعے آخرت کی یاددہانی کے بعد ہم عہد کی تجدید بھی کرتے ہیں :
{اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ3}’’ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے اور ہم صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں اور چاہتے رہیں گے۔‘‘
اگرپورے یقین کے ساتھ ، توجہ اور شعور کے ساتھ ہم نماز میں یہ پڑھتے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ ہم سے معصیت سرزد ہو جائے ،کیسے ممکن ہے کہ ہم گناہ میں پڑے رہیں اور اپنی اصلاح کی کوشش نہ کریں ۔ ممکن ہی نہیںہے ۔لہٰذا جتناکسی کافر ،ملحد کے لیے یاآخرت کے منکر کے لیے ان مقامات کابیان بہت اہم ہے اتناہم ماننے والوںکے لیے بھی اہم ہے جوکوتاہی کرجاتے ہیں، غفلت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔اللہ ہمیںیقین عطا فرمائے توبہ اور اصلاح کی بھی توفیق عطا فرمائے ۔فرمایا:
{لَیْسَ لِوَقْعَتِہَا کَاذِبَۃٌ (2)}’’(اور جان لو) اس کے واقع ہونے میں کوئی جھوٹ نہیں ہے ۔‘‘
جب اللہ قیامت کوبرپا فرمائے گاتوکسی کے لیے ٹالناممکن نہیں ہوگا۔دوسرے مقام پر فرمایا:
{اِذَا السَّمَآئُ انْفَطَرَتْ(1) وَاِذَا الْکَوَاکِبُ انْتَثَرَتْ(2) وَاِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ(3) وَاِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْ(4) عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْ(5)} (الانفطار)ِ ’’جب آسمان پھٹ جائے گا اور جب تار ے بکھر جائیں گےاور جب سمندرپھاڑ دیے جائیں گےاور جب قبریں تلپٹ کر دی جائیں گی(اُس وقت) ہر جان‘ جان لے گی کہ اُس نے کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑا۔‘‘
یعنی کوئی اللہ کے اس فیصلے کو ٹال نہیں سکے گا،کوئی قیامت کے واقعہ ہونے میں رکاوٹ نہیں بن سکے گا ۔ ایک مفہوم یہ بیان کیاگیا کہ جب قیامت واقع ہوجائے گی تواللہ سب کو دوبارہ کھڑا کرے گا۔وہاں منکر بھی کھڑا ہوگا،وہ دیکھ لے گاکہ قیامت برپا ہوگئی۔ جب برپا ہو جائے گی توکوئی بھی اس کی تکذیب نہیں کرے گا۔آج کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد کون لوٹ کر آیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ہی اس کے جوابات عطا کیے۔بنی اسرائیل کا وہ واقعہ بھی قرآن میں بیان ہوا جب انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اصرار کیا کہ ہمیں اللہ دکھا دو ۔ پھر انہیں ایک کڑک نے آپکڑا ، ان کی موت واقع ہوگئی اور اس کے بعد اللہ نے ان کو دوبارہ زندہ کیا ۔ اسی طرح سورۃالبقرۃ میں گائے کا مشہور واقعہ ہے جس میں ایک مردہ کو اللہ نے دوبارہ زندہ کیا ۔ اللہ ایسے زندگی دینے پرقادر ہے۔اسی طرح اصحاب کہف کا واقعہ بھی قرآن میں بیان ہوا ہے جو صدیوں بعد دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آئے ۔ حضرت عزیرعلیہ السلام کا واقعہ بھی موجود ہے جن کو سوبرس بعد اللہ نے دوبارہ زندہ کیا اور پھر ان کے سامنے ان کے گدھے کو بھی زندہ کیا ۔ اس طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ مرنے کے بعد دوبارہ زندگی عطا فرمائیں گے ۔ پھراللہ یہ بھی فرما تاہے کہ جس رب نے تمہیں تب پیدا کیاجب کہ تم کچھ نہ تھے تواس کے لیے دوبارہ پید اکرنا کیامشکل ہے ؟ آگے فرمایا :
{خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ (3)}(الواقعہ )’’وہ پست کرنے والی اور بلند کرنے والی ہوگی۔‘‘
قیامت کسی کو پست کردے گی کسی کو بلند کردے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کچھ کووہاں کامیابی عطا فرمائے گا،کچھ کو ذلیل ورسوا کردے گا۔سیدنافاروق اعظمؓ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ دین کے دشمنوں کواللہ جہنم میں ڈال کر ذلیل ورسوا کرے گااور متقین کوجنت میں داخل فرما کر ان کااعزاز واکرام کرے گا۔یاد رہے کہ دنیا دارالعمل ہے آخرت دارالجزاء ہے ۔دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور اللہ نے اختیار دیاہے ۔
{اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا(3)}(الدھر)’’اب چاہے تو وہ شکر گزار بن کر رہے ‘چاہے ناشکرا ہوکر۔‘‘
اس دنیا میں کئی ایسے لوگ بھی ہوئے ہیں جنہوں نے عوام کو اپنے آگے سجدے کرائے اور خود خدائی کے دعوے کیے ، جیسے فرعون اور نمرود تھے ۔ اللہ نے انہیں دنیا میں بھی ذلیل کیا اور آخرت میں بھی ان کا مقام جہنم کی گہرائیوں میں ہوگا ۔ اسی طرح دنیا میں کتنے ہی انبیاء ؑ کوشہید کیا گیا ، کتنے ہی اللہ کے نیک بندے ہیں جن کی زندگی اجیرن کی گئی لیکن آخرت میں ان صالحین کا مقام بہت بلند ہوگا ۔ بعض اوقات دنیا میں بھی اس کی جھلک ہمیں مل جاتی ہے ۔ جیسے حضرت بلال ؓ ایک غلام تھے ۔ جب اسلام لے آئے تو سیدنا بلال ؓکہلائے ۔جبکہ مشرکین کے وہ سردار جنہیں اپنی سرداری ، اعلیٰ نسب ، مال و زر پر ناز تھا وہ حضرت بلال ؓ اور حضرت خباب ؓبن ا لارت کا مذاق اڑایا کرتے تھے، وہ دنیا میں بھی ذلیل و رسوا ہوئے ۔اس دنیا میں امتحان کے لیے کچھ اختیار مل گیا ہے ۔ حد یہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام کوبادشاہت بھی عطا ہوئی تووہ بھی فرمارہے ہیں (لیبلونی) میرا اللہ میراا متحان لے رہاہے کہ آیا میں شکر کرتاہوں یاناشکری کرتاہوں۔آج ہماری دنیا میں کتنے ظالم، جابر، متکبر، دولت مندہیں جو سرکشی میں مبتلا ہیں ۔ جنہوں نے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کررکھی ہیں لیکن کل قیامت کی گھڑی ان کو پست کر دے گی ۔ ان کے مقابلے میں کتنے ہی لوگ ہیں جو اس دنیا میں محض اس وجہ سے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ، دبائے گئے ، قتل کیے گئے کہ وہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ سے ڈرتے ہیں ،کتنے اللہ کے نیک بندے اوربندیاں ہیں جنہیں اللہ اوراس کے رسول ﷺ کے احکامات پرعمل کرنے پر لوگوںکی کڑوی باتیں سننا پڑتی ہیں ،ان کودبایاجاتاہے ،کارنرکیاجاتاہے، ان کے بارے میںناشائستہ گفتگو کی جاتی ہے مگروہ اللہ کی خاطر سب کچھ برداشت کررہے ہیں۔ آج دنیا تلی ہوئی ہوتی ہے ان کوحقیر ثابت کرنے پر،دبانےپر،مٹانے پر،کمتر ثابت کرنے پرلیکن جب قیامت ہوگی تو وہ ایسے اللہ کے نیک بندوں کوبلند کردے گی جبکہ جو سرکش اور ظالم ہوں گے وہ اس دن سرنگوں ہو ں گے ۔
آج ہمارے معاشرے میں ایمان لانے یاکلمہ پڑھنے کامسئلہ نہیںہے ۔ہم توسب الحمدللہ مسلمان ہیں ، اصل مسئلہ کلمے کے تقاضوں پر عمل کرنے کا ہے ۔ آج ایک نوجوان سنت رسول ﷺ کوچہرے پرسجانے کی کوشش کرتاہے، آج ہماری بیٹیاں، بہنیں اگر فاطمۃالزہراءؓ کی چادر کواختیار کرتی ہیں ، حیا کا پیکر بننا چاہتی ہیں تو اپنے ہی خاندان برادری کے لوگ فقرے چست کرتے ہیں ۔ کسی نے شریعت پر عمل پیرا ہونے کی خاطر فرسودہ ہندو رسومات کو شادی بیاہ کے مواقع پر ترک کرنے ، بے پردگی ، سرکشی ، گناہوں کو چھوڑنے کا ارادہ کر لیا تو اپنے ہی لوگ دشمن بن جاتے ہیں ۔ ان کو زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مگر یہاں جو اسلام کی خاطر زیر ہے ، اللہ کی خاطر زیر ہے اس کو قیامت بالا کر دے گی اور جو یہاں سرکشی اور ظلم کی وجہ سے بلند ہے اس کو قیامت پست کر دے گی ۔ قرآن حکیم میں ارشادہوتاہے :
{ ذٰلِکَ یَوْمُ التَّـغَابُنِ ط } (التغابن:9)’’ وہی ہے ہاراورجیت کے فیصلے کا دن۔‘‘
اصل میں جیت اُس کی ہو گی جووہاں جیتے گا اور ہار اُس کی جو وہاں پرہارے گا۔اللہ ہمیں اس کایقین عطا فرمائے۔ آج اس یقین کی کمی ہے تودنیا کی چمک دمک کھینچتی ہے اس میں کوئی شک نہیںہے لیکن اس میں حرام کی بھی چمک دمک آجاتی ہے ۔ معصیت کے کام بھی آجاتے ہیں ، گناہوں کے کام بھی آجاتے ہیں۔اللہ ان فتنوں سے محفوظ رکھے ۔ اصل کام یہ ہے کہ آخرت کوسامنے رکھ کراپنے معاملات کو طے کریں کہ وہ { ذالک یوم التغابن}کے میزان پر اُترتے ہیں یا نہیں ۔ اللہ ہمیں یقین عطا فرمائے ۔آگے فرمایا:
{اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا(4)} ’’جب زمین ہلا ڈالی جائے گی جیسے کہ زلزلہ آتا ہے۔‘‘
قیامت کے لیے قرآن مجید میں زلزلہ کا ذکر بھی آتا ہے ۔ حتیٰ کہ ایک پوری سورت ہی الزلزال کے نام سے ہے :
{اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَہَا(1)} ’’جب زمین ہلائی جائے گی جیسے کہ ہلائی جائے گی۔‘‘
کسی ایک خطے کے ایک حصے میںاگر زلزلہ آئے توکیاحالت ہوتی ہے ۔ لوگوں میں کس قدر خوف اور افراتفری پھیل جاتی ہے ، مسلمان کلمہ پڑھتے ہوئے گھروں سے باہر بھاگتے ہیں، اللہ سے فریادیں کرنے لگتے ہیں۔ کہیں بم بلاسٹ ہوتاہے تو کیا کیفیت ہوتی ہے ۔ ذراتصور کیجئے جب پوری زمین ہلادی جائے گی توعالم کیاہوگا۔ آگے فرمایا:
{وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا(5)}’’اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے۔‘‘
آج یہ پہاڑ جو اتنے بلندوبالااور سخت ہیں اور ان کودیکھ کرہیبت بھی طاری ہوجاتی ہے لیکن کل یہی بلند و بالا پہاڑ قیامت کے زلزلے سے ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ کبھی قرآن فرماتاہے:
{کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ}(القارعۃ:5)’’ اون کی مانند ہو جائیں گے۔‘‘
اور کبھی قرآن زمین کے بارے میں کہتاہے کہ :
{کَلَّآ اِذَا دُکَّتِ الْاَرْضُ دَکًّا دَکًّا(21)}(الفجر) ’’ہرگز نہیں! جب زمین کو کوٹ کوٹ کر ہموار کر دیا جائے گا۔‘‘
آگے فرمایا:
{فَکَانَتْ ہَبَآئً مُّنْبَثًّا(6)}’’پس وہ ہو جائیں گے اُڑتا ہوا غبار۔‘‘
جیسے غبار اُڑتا ہے ایسے ہی یہ بلند و بالا پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر غبار کی طرح اڑجائیں گے ۔ آگے ارشاد ہوا:
{وَّکُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَۃً(7)} ’’اور تم تین گروہوں میں منقسم ہو جائو گے۔‘‘
اس دن لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے ۔ پہلے گروہ کے بارے میں فرمایا:
{فَاَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ لا مَآ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ (8)} ’’تو جو داہنے والے ہوں گے‘ کیا خوب ہوں گے وہ داہنے والے!‘‘
ایک گروہ وہ ہوگا جن کا اعمال نامہ ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا ۔ ان کو اصحاب یمین کہا گیا ۔ ایک مراد یہ بھی ہے کہ ان کو داہنے ہاتھ سے پکڑ کر جنت میں پہنچا دیا جائے گا۔ لفظ یمین میںبرکت ، سعادت مندی اور خیر کاپہلو بھی شامل ہے۔یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے دنیا میں سعادت مندی کا مظاہرہ کیا ہوگا ۔ وہ دنیا میںخیر میں آگے بڑھتے رہے ۔یہ موضوع قرآن پاک میں کم وبیش دس مرتبہ آیا۔سورۃالبقرۃ میں فرمایا:
{فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ ط} (البقرہ:148) ’’تو (مسلمانو!) تم نیکیوں میں سبقت کرو۔‘‘
جودنیا میںایمان لانے کے بعد خیرکے کاموں میںآگے بڑھتے رہے،ان کی زندگی اطاعت الٰہی میںگزری۔آگے فرمایا:
{وَاَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ لا مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ(۹)} ’’اور جو بائیں والے ہوں گے‘ تو کیا حال ہو گا بائیں والوں کا!‘‘
لفظ مشئمہ بائیںہاتھ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ جن کااعمال نامہ ان کے بائیںہاتھ میںدیاجائے گایا جن کا بائیں ہاتھ پکڑ کر انہیں جہنم میں ڈالا جائے گا ۔ جس طرح یمین کا لفظ خیر کے لیے آیا اسی طرح مشئمہ کا لفظ نحوست کے لیے آیا ۔ یعنی دنیا میں جن کے ہاں اعمال کی نحوستیں تھیں۔نحوست کسی دن یا رات میں نہیں ہوتی ۔ بلکہ نحوست لوگوںکے اپنے کرتوتوں اور اعمال میںہو تی ہے ۔ارشاد ہوتاہے :
{وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ (30)}(الشوریٰ) ’’اور تم پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ درحقیقت تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی(اعمال) کے سبب آتی ہے اور (تمہاری خطائوں میں سے) اکثر کو تو وہ معاف بھی کر تا رہتا ہے۔‘‘
نحوست والے اعمال گناہ ، کفر اور شرک والے اعمال ہوتے ہیں ۔ وہ اعمال ہوتے ہیں جن میں اللہ اور اس کے رسول ﷺکی نافرمانی کی جارہی ہو۔جن میں اپنے رب کو ناراض کیاجارہا ہو۔آج لوگوں کو راضی کرنے کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی جاتی ہے ۔ شادی بیاہ میں بے حیائی اور ڈانس اور رشتہ داروں کو خوش کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں ہوتا ۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ اس طرح ہمارا رب ناراض ہو جائے گا ۔ یہی اصل میں اعمال کی نحوست ہے ۔ یہ نحوست کے اعمال کل قیامت کے دن اصحاب المشئمہ میں کھڑا کر دیں گے۔آگے فرمایا:
{وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ(10)}’’اور آگے نکل جانے والے تو ہیں ہی آگے نکل جانے والے۔‘‘
سبحان اللہ! یہ وہ ایمان والے ہیں جو جنت کااعلیٰ درجہ پائیںگے ۔یہ نیکی اور خیر کے کاموں میں سبقت لے جانے والے ہوں گے ۔ جب دین کی دعوت دی جارہی تھی تو آگے بڑھ کر قبول کر رہے تھے ،اقامت دین کی جدوجہد میں آگے بڑھ کر حصہ لے رہے تھے ۔ سمع و طاعت کے خوگر تھے ۔ ادھر اللہ کا حکم سنا تو فوراً عمل کیا ، احادیث رسول ﷺ سنیں تو بحث میں نہیں پڑے بلکہ فوراً عمل کیا ۔ یہ قیامت والے دن جنت کی طرف جانے والے راستے پر سب سے آگے ہوں گے اور جنت میں بھی سب سے اعلیٰ مقام حاصل کریں گے ۔ آگے فرمایا:
{اُولٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ (11)} ’’وہی توبہت مقرب ہوں گے۔‘‘
یعنی یہ اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ قرب پانے والے ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مقربین جیسے اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور روز قیامت ہمیں ان میں شامل فرمائے ۔ آمین !
tanzeemdigitallibrary.com © 2025