(کارِ ترقیاتی) غمِ جاں بیاں نہ ہوپائے - عامرہ احسان

6 /

غمِ جاں بیاں نہ ہوپائے

عامرہ احسان[email protected]

 

تباہ کن سیلابوں نے ہر ذی شعور ذی حس کو ہلا مارا ہے۔ 3 کروڑ آبادی جو اس کے تھپیڑے کھا رہی ہے۔ گھربار، اولاد، عزیز و اقارب، چشم زدن میں دنیا تلپٹ ہوگئی۔ ایک لامنتہا کرب سے سیلاب زدگان گزر رہے ہیں اور ایک درد والم اس فرد کا ہے، جو اپنے ان بھائی بندوں کی کسمپرسی اور اللہ کے غضب کے دوہرے احساس تلے پس رہا ہے۔ سندھ میں 784 فیصد معمول سے زیادہ بارش اس ماہ ہوئی۔ بلوچستان میں 496 فیصد زیادہ حد توڑ قسم کی بارش برسی۔ 5 لاکھ گھروں کو نقصان پہنچا۔ 31 لاکھ افراد بے گھر، ایک ہزار سے زائد بشمول بچے جاں بحق ہوئے۔ سات لاکھ سے زائد مویشی بہہ/ مر گئے۔ ہزاروں کلو میٹر سڑکیں اور پُل (جن پر بیس سال نیٹو سپلائز ہوئیں) بہہ گئیں۔ رابطے کٹ گئے۔ فصلوں کا اربوں کا سرمایہ ڈوب گیا۔ سندھ میں کپاس اور کھجور کی فصل مکمل تباہ ہوگئی۔ انسانوں کی بے بسی، بے چارگی، ننھے بچوں کی لاشیں رنج والم سے ادھ موا کیے دیتی ہیں۔ کمال حوصلہ ہے خبروں کے چینل والوں کا کہ تھرکتی موسیقی کے بیچ یہ ساری خبریں سناتے زبان نہیں اٹکتی ٹھٹکتی؟ یہ تضاد محسوس نہیں کرتے؟ موسیقی پر رقص کرتی موت؟
طوفان، سیلاب، یہ آسمانی آفات کہاں سے آتی اور کیوں اچانک گرفت میں لے لیتی ہیں؟ آج کی سیکولر دنیا میں خدائی سائنس کی ہے۔ وہ کچھ حقائق بتاکر، گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کی کہانیاں سناکر، حکومتوں، کارخانوں اور صنعتی کیمیائی فضلے کو مورد الزام ٹھہراکر آگے چل دیتی ہیں۔ یہ الگ داستان ہے کہ پوری زمین پر اندھا دھند پھاڑے جانے والے بموں، میزائلوں کے دھماکوں پر بارود سے پھیلنے والی موسمیاتی تباہی کا تذکرہ کانے دجال کی کانی، یک چشم سائنس آنے نہیں دیتی۔ نیو کلیئر بم پھٹنے سے 65 تا 75 فیصد اوزون کی حفاظتی تہہ تباہ ہوجاتی ہے، 15 سال لگتے ہیں اس کی بہتری میں۔ اس کا تذکرہ ہیروشیما ناگاساکی کے باوجود امریکی جنگی جرائم میں سامنے نہیں آتا۔ گلوبل وارمنگ میں بم ساز اور بم باز عالمی قوتوں کا حصّہ کہیں بیان نہیں ہوتا۔ انہی کرتوتوں سے سورج کی گرمی روکنے کی تحفظ کی ڈھال کمزور پڑ گئی۔ تپش بڑھ جانے سے گلیشیر پگھل رہے ہیں، سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ موسم کے تھپیڑے سائنس پر ایمان لانے والوں کو ششدر کیے دے رہے ہیں! کیسے روکیں؟ یورپ امریکا سمیت سبھی اب بھگت رہے ہیں۔
یہ تو ٹھہریں زمینی وجوہات۔ تاہم ان آفات کی وجوہات سائنس کے خالق، مالک اور رب سے پوچھنا خلافِ دستور ہے! سائنس اس کے سوا کچھ نہیں کہ رب تعالیٰ نے اس عظیم الشان کائنات کو (جس کا ننھا سا ایک حصہ یہ زمین ہے) اٹل ضابطوں اور قوانین پر استوار کیا ہے، جس کی باگ ڈور خالق کے ہاتھ میں ہے۔ یہی قاعدے ضابطے جان لینے کا نام سائنس ہے۔ سائنس دان یہ قوانین بناتا نہیں، ان کی معلومات حاصل کرلیتا اور اس کے مطابق انہیں برتتا ہے۔ اللہ کا کُل اختیار ہے، جب چاہے ان میں ردّ و بدل کرے۔ آگ کو گلزار بنا سکتا ہے۔ ننھے اسماعیل ؑ کے قدموں تلے زمزم نکال دیتا ہے۔ کنواری بی بی مریم ؑ کو حضرت عیسیٰ ؑ سے نوازتا ہے۔ بڑھاپے میں بانجھ بیوی سے اسحاق، یحییٰ علیہما السلام سے نواز سکتا ہے۔ سارے قاعدے قوانین اس کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں، حکم کے تابع! بلاشبہ زلزلوں میں زمین کی پلیٹیں سرکتی ہیں، سیلابوں میں بادل پھٹتے، لامنتہا بارش برساتے، زمین پانی اگلتی ہے، مگر اختیار، حکم اور ہاتھ خالقِ کائنات ہی کا کار فرما ہوتا ہے۔ آفاتِ سماوی کے حوالے سے بھی توجہات کا مرکز درست رکھیے۔ درست دروازہ مدد کے لیے کھٹکھٹائیے۔ زمینی حقائق کے ساتھ کائنات میں اخلاقی قانون بھی کارفرما ہے۔ بادلوں کو برسانے اور رکوانے کے لیے ہاتھ اٹھانے پڑتے ہیں! اپنا وہ علم بروئے کار لائیے جو دنیا میں صرف آپ کو جبرئیل امین کے ذریعے محمدﷺ کے مبارک سینے سے منتقل ہوا۔ عَلَّمَ الانسانَ ما لم یَعلم۔ ’’انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔‘‘ (العلق: 5) اور جس علم تک رسائی کا کوئی ذریعہ دنیا کے بڑے بڑے علم کے دعویداروں کے پاس نہیں! آئیے ایک منظر دیکھیے، تازہ کیجیے۔
ایک بار مکہ میں قحط پڑا۔ لوگوں نے ابوطالب سے درخواست کی کہ آپ بارش کے لیے دعا کیجیے۔ (قبل از اسلام بھی کفّار ِمکہ بارش برسانے، طلب کرنے کا طریقہ جانتے تھے! آج کا انسان ان سے زیادہ جاہل ہوگیا۔ محکمۂ موسمیات سے پوچھ کر دم سادھ لیتا ہے!) ابوطالب کی کفالت میں محمدﷺ تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ ابوطالب کے ساتھ ایک بچہ تھا جو ابرآلود سورج معلوم ہوتا تھا۔ (آخر کو ’’سراجِ منیر‘‘ کہلایا جانا تھا!) ابوطالب آپؐ کو لے کر ایک مجمع کے ساتھ حرم میں داخل ہوئے اور آپؐ کی پشت کو خانہ کعبہ کے ساتھ لگا دیا۔ آپؐ نے بطور تضرع والتجا، انگشت شہادت سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ بادل کا ایک ٹکڑا بھی اُس وقت آسمان پر نہ تھا۔ اشارہ کرتے ہی ہر طرف بادل امڈ آئے۔ آسمان بادلوں سے ڈھک گیا۔ بارش خوب برسی، شادابی چھا گئی۔ ابوطالب آپؐ کی خیر وخوبی سے واقف تھے۔ اس بارے شعر کہا: ’’ایسے روشن اور منور کہ ان کے چہرے کی برکت سے خدا سے بارش مانگی جاتی ہے۔ جو یتیموں کی پناہ اور بیواؤں کا ماویٰ وملجا ہے۔‘‘
لہٰذا ہمارا انحصار صرف بے روح بے جان سائنس پر نہیں، قرآن اس کے وجود کو روح عطا کرتا ہے۔ ہمارے دنیاوی علم کو خالق سے جوڑکر ایمان افروز کر دیتا ہے۔ سائنس مومن کا خدا نہیں۔ محض ایک ہتھیار، طریق کار اور ایک سواری ہے، جس کی سرکشی پر وہ سُبحٰن الذی سخَّر لنا ھٰذا پڑھ کر، اسے مسخر کر لیتا اور ہمہ پہلو استعمال کرتا ہے۔ نہ اس سے منہ موڑتا اور رد کرتا ہے، نہ اسے خدا بناکر پوجتا اور اعصاب پر سوار کرتا ہے!
قرآن مسلسل قوموں پر آنے والے عذابوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ پوری انسانیت کی مستند اور کامل ترین تاریخ سامنے لا رکھتا ہے۔ لاریب فیہ… جس میں کوئی شبہ نہیں! یہ کھدائیاں کرکے نامانوس زبانوں کے کتبوں سے جوڑجاڑکر کھڑی اور گھڑی گئی تاریخ نہیں، ربّ تعالیٰ کے کامل ترین ازل تا ابد پر محیط علم پر مبنی ہے، جس کے ہم وارث ہیں۔ سیلابوں کی تاریخ سورۂ ہود میں قوم نوح اور سورۂ سبا میں قوم سبا کے بند توڑ سیلاب میں واضح پڑھی جاسکتی ہے۔ سورۃ القمر میں پے درپے رسولوں کے جھٹلائے جانے اور مہلت عمل طویل دیے جانے کے بعد پانچ قومیں جس طرح عذابوں میں پکڑی گئیں، عبرت آمیز ہے۔ بالآخر طوفان ِنوح تھما کیسے، کس نے جاری کیا، کس نے روکا، کس کو بچایا کس کو ڈبویا، وجوہات کیا تھیں، سب ہمارے لیے اظہر من الشمس ہے! سورۂ ہود، آیات 25تا 48 پڑھ لیجیے۔ یہ غرقابی کا سمندر تھما کیسے؟ ’’حکم ہوا: اے زمین اپنا سارا پانی نگل جا اور اے آسمان رک جا! چنانچہ پانی زمین میں بیٹھ گیا، فیصلہ چکا دیا گیا، اور کشتی جودی پر ٹک گئی۔‘‘ ہم اللہ سے عجز و گلوگیری کے ساتھ بہ چشم نم سربسجود ہوکر اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے اس کی مغفرت ورحمت کو پکارتے ہیں۔ میرے رب تو نے یقین دہانی کروائی تھی: ورَبُّک الغَفُورُ ذُوالرَّحمۃ… تُو اپنے نادان، بھول جانے والے بندوں کی کرتوتوں پر درگزر کیے چلا جاتا ہے، کیونکہ تیری رحمت… وَسِعَتْ کُلَّ شَیئٍ … ہر شے پر محیط اور ہمارے عیبوں اور گناہوں کو ڈھانپ لینے کو کافی ہے۔
یا اللہ! تجھے تیری شانِ کریمی کا واسطہ ہے، رحم کر اس مسکین غریب بوڑھے پر جو اپنے گھر میں گردن تک پانی میں ڈوبا سر پر دو دیگچے (اپنی کل متاع!) اٹھائے پانی کی گرفت سے نکلنے کی کوشش میں ہے۔ وہ بے یار ومددگار باہمت بے وسیلہ عورت جو شانوں تک پانی میں ٹوکری سر پر رکھے جس میں اُس کا معصوم سال بھر کا بچہ بیٹھا ہے، سہارے، کنارے کی تلاش میں ہے! ہمارے حالوں پر رحم فرما۔ وہ پانچ ننھی مٹی کیچڑ میں لتھڑی لاشیں، جو یوں تو جنت کی پھلواریوں میں ابراہیم خلیل اللہ کو سونپ دیے گئے پھول بن چکے ہوں گے، مگر یہاں ہمارے کلیجے شق کرنے اور ہماری خطاؤں کا احساس دینے کے لیے کافی ہیں۔ اس حال میں بھی ڈِنر اُڑانے والوں، سیاست بازی لاشوں پر کرنے والوں کو نہ دیکھ، پاکستان پر رحم کر جس کی 75 سال کی عمر کا لمحہ لمحہ صرف تیری چشم پوشیوں اور عنایتوں اور ہمارے گناہوں کی داستان ہے۔ اخبار کے صفحے کے ایک طرف یہ بلکتی تصاویر ہیں اور دوسری طرف شوبز کی حسیناؤں قتالاؤں سے سجی ہے۔ کالی اسکرینوں پر نہ ڈراموں کھیل تماشوں میں کوئی کمی ہے، نہ مساجد خوف سے لرزاں تیرے حضور جھکنے والوں سے بھری ہیں۔ اللہ! دل تیری دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ صَرّف قُلوبَنا علی طاعتک ہمارے دل اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔ اپنے دین پر جما دے۔ (آمین!)
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں: ’’تم ایسے کام کیا کرتے ہو جو تمہاری نگاہوں میں بال سے باریک اور معمولی نظر آتے ہیں، لیکن ہم ایسے کاموں کو عہدِ نبویؐ میں مہلکات میں شمار کرتے تھے۔‘‘ (بخاری) عام انسانوں پر یہ افتاد کیوں ٹوٹی؟ امام احمدؒ حضرت جریرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسولِ مکرمﷺ نے فرمایا: ’’جس قوم میں گناہوں کا ارتکاب ہو اور بدکرداروں کے مقابلے میں دوسرے لوگ غالب ہوں (تعداد میں بھی زیادہ ہوں) اور پھر بھی وہ ان کو نہ روکیں، تو اللہ تعالیٰ تمام پر اپنا عذاب نازل فرمائے گا۔‘‘ بے شمار ہلاکت خیز، ایمان شکن اقدامات سبھی حکومتوں کی جانب سے، بدکرداروں، اَشرار کی جانب سے ہوتے رہے، ہم نے بڑھ کر ہاتھ نہ روکا۔ 27 رمضان کو معجزے کے طور پر ’’لاالٰہ الااللہ‘‘ کا مقصد لے کر وجود میں آنے والی مملکت کو اس کے مقصد ِوجود سے بے بہرہ کرنے کی بھرپور مسلسل سازشیں ہر سطح پر کی گئیں، بالخصوص تعلیمی، ثقافتی، معاشرتی، معیشت کی سطح پر، ہم نے راستے میں دیوار کھڑی نہ کی،پناہ بخدا… ہمیں توبۃ النصوح کی ضرورت ہے۔ ہوش میں آنے کی ضرورت ہے!
ورق کے بعد ورق اور اِک سیاہ کریں
کریں بھی کیا، جو غمِ جاں بیاں نہ ہوپائے!