(منبرو محراب) سود کی حرمت اور سیلابی طوفان - ابو ابراہیم

6 /


سود کی حرمت اور سیلابی طوفان

(قرآن و حدیث کی روشنی میں)


مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی DHA کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ  کے26اگست 2022ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
آج کے خطاب میں ان شاء اللہ انسداد سود کے حوالے سے یاددہانی اور تذکیر کے طور پر سود کی حرمت کو قرآن واحادیث کی روشنی میں زیربحث لایاجائے گا۔ رسول اللہ ﷺ جب جمعہ کاخطبہ دیتے تھے توروایت میں موجود ہے کہ :(( یقرأ القرآن و یذکر الناس)) ’’قراء تِ قرآن فرماتے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے۔‘‘اسی اصول کوسامنے رکھتے ہوئے آج قرآن و حدیث کی روشنی میں سود کی حرمت کوواضح کرنا مقصود ہے ۔ گفتگو کے دوسرے حصے میں سیلاب کے بارے میں بات ہوگی اور پھر اس پر بھی گفتگو ہوگی کہ ان حالات میں ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں اور ان کو کیسے پورا کرنا چاہیے ۔
پہلاحصہ
ہم جانتے ہیںکہ ایک دن میں قرآن نازل نہیں ہوا بلکہ کم وبیش23 برس میں اس کانزول ہوا۔چنانچہ شریعت کے احکامات تدریجاً بھی آئے ہیں۔ جیسے شراب کی حرمت کے حوالے سے پہلے ذہن سازی کے لیے دو تین مقامات پر ذکر ہوا اور پھر حرمت کا حکم آیا ۔ اسی طرح سود کا معاملہ ہے ۔ جب نبی اکرمﷺ کی بعثت ہوئی تواس وقت عرب معاشرے میں سود کے معاملات موجود تھے۔اللہ تعالیٰ نے آیات قرآنی تدریجاً اتاریں اور پھراللہ کے رسولﷺ نے بھی تذکرہ فرمایا۔ سب سے پہلے مکی دور میں سود کاتذکرہ آیا۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ شریعت کے زیادہ تراحکامات مدنی دور میںنازل ہوئے ہیں جبکہ مکی سورتوںمیں ایمانیات،توحید کے دلائل اور انبیاء ورسل کی داستانیں اور واقعات ،آخرت کی فکراور اس کے بارے میں اعتراضات کے جوابات، شرک کی نفی اور کچھ اخلاقی ہدایات اور چندا حکامات کا تذکرہ ہے ۔ لیکن مدنی دور میں قتال فی سبیل اللہ، ہجرت، نفاق، عبادات، معاملات سے متعلق شریعت کے احکامات کاتذکرہ ہے۔ لیکن سود جیسے منکر کے خلاف احکام مکہ میں ہی آنا شروع ہوگئے ۔ سود کی حرمت کی طرف توجہ دلانے کے لیے پہلی آیت 6نبوی میں نازل ہوئی ۔ ارشا د ہوتاہے:
’’اور جو کچھ تم دیتے ہو سود پر تا کہ بڑھتا رہے لوگوں کے مال میں تو اللہ کے ہاں اس میں کوئی بڑھوتری نہیں ہوتی۔اور جو تم زکوٰۃ دیتے ہو (اوراس سے) اللہ کی رضا چاہتے ہو‘تو یہی لوگ ہیں جو (اللہ کے ہاں اپنے مال کو) بڑھانے والے ہیں۔‘‘ (روم :39)
اگر کسی نے لاکھ روپے کسی کو 10فیصد سود پر دیے تو واپسی میں اس کو 1لاکھ 10ہزارروپے ملیں گے۔ بظاہر یہ نفع ہے لیکن اللہ کہتاہے کہ سود میں نفع نہیں بلکہ الٹا نقصان ہی نقصان ہے ۔ اس کی بجائے اگر کسی کے پاس 1لاکھ روپے ہیں اُن میں سے 2.5فیصد زکوٰۃ دے دی تو بظاہر لاکھ میں سے اڑھائی ہزار کم ہو جائیں گے لیکن اللہ کہتا ہے کہ اس طرح یہ مال کم نہیںہوا بلکہ بڑھ گیا۔ اللہ کے رسول ﷺ بھی یہی فرماتے ہیں ۔یعنی عقل کہتی ہے کہ سود بڑھتاہے لیکن اللہ اور رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ سود کامعاملہ تباہی کے سوا کچھ نہیں اورزکوٰۃ وصدقات سے مال کبھی کم نہیں ہوتا۔ دوسری آیت کا نزول 3ھ ہجری میں غزوئہ احد کے موقع پر ہوا ۔ فرمایا:
’’اے اہل ایمان! سود مت کھائو دگنا چوگنا بڑھتا ہوا۔‘‘ (آل عمران :130)
اس کو کمپائونڈ انٹرسٹ کہتے ہیں کہ لاکھ روپے دو او ر ایک مہینے کے بعد ایک لاکھ دس ہزارواپس لو ،دومہینے گزر جائیں تو پھر دس ہزار مزید بڑھ جائے گا یعنی ، تب ایک لاکھ بیس ہزار واپس کرے گا ۔ یہ بڑھتاچڑھتا سود ہے ۔ اس کی حرمت سن 3ھ میں آرہی ہے ۔آگے فرمایا:
’’اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم فلاح پائو۔‘‘ (آل عمران :130)
خوف خدا کاتذکرہ با ر بار قرآن کریم میں آتا ہے کیونکہ اگر خوف خدا دل میں نہ ہوتولوگ اللہ کے کلام کا بھی مذاق بنالیتے ہیں اور ڈٹ کرسود کے دھندوں کو جاری رکھنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اور خوف خدا ہوگا توسود توبڑی بات ہے جہاں سود کا شک بھی ہوگا وہاں سے بھی دوری اختیار کریں گے۔جیسے سیدناعمرفاروق h فرماتے ہیں :’’سود توچھوڑواور اگر کہیں سودکاشک بھی آئے اس کو بھی چھوڑ دو۔‘‘
یعنی جب انسان کو خو ف خدا ہوگا تووہ شک والی چیز کو بھی چھوڑ دے گااور اگر خوف خدا نہیں ہے تووہ بڑے بڑے حرام کاموںکابھی ارتکاب کرلے گا۔اللہ محفوظ رکھے۔ اس لیے بار بار احکام کے ساتھ تقویٰ کا ذکرآتاہے ۔
تیسرا مقام سورۃ النساء کی دوآیات ہیں۔جن کانزول5 ہجری میںہوا۔فرمایا:’’توبسبب اُن یہودی بن جانے والوں کی ظالمانہ روش کے ہم نے ان پر وہ پاکیزہ چیزیں بھی حرام کر دیں جو اصلاً ان کے لیے حلال تھیں۔‘‘ (النساء:160)
ان آیات میں یہود کاذکر آرہاہے۔ آج دنیا کے مالیاتی نظام کوسود کے دھندوںکے ذریعے چلاکراقوام کو غلام بنانے والوںمیںیہود سب سے آگے ہیں لیکن ان کی شریعت میں بھی سود حرام تھا۔یہود نے اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈالا۔اللہ کے دین کے احکامات کو بدلا،یہاںتک کہ اللہ کی کتاب میں تحریف کی، جب یہ نافرمانیاں کیں تواللہ نے سزا کے طورپر پاکیزہ اور حلال چیزیںان پرحرام کر دیں۔جب قومیں نافرمانی پراترتی ہیںتواللہ ان کے لیے حلال کو حرام کردیتاہے ۔حرام کاایک مطلب روک دیاجانا بھی ہے ، حرام کاایک مطلب ہے کہ استعمال ہی نہیںکرسکتے ، اللہ ان نعمتوں سے محروم کردیتاہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن اکثر آٹے اور چینی کا بحران آجاتاہے ۔ یہ ہم لوگوں کی نافرمانیوں کی وجہ سے ہم پر تنگیاں آرہی ہیں ۔ آگے فرمایا:
’’اور بسبب اس کے کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے (خود رُکتے ہیں اور دوسروں کو بھی) روکتے ہیں۔‘‘(النساء:160)
اللہ کے راستے سے روکنے میں یہ بھی شامل تھا کہ لوگوںکے سامنے حق پیش نہ کرنا،کتاب کوچھپانا،اس میں تحریف کرنا،حق بات کوپوشیدہ رکھنا۔ جیسے رسول اللہ ﷺ کے دور میں یہود کے علماء کرتے تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں۔ قرآن میں آتاہے :
’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کو پہچانتے ہیں جیسا کہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں البتہ ان میں سے ایک گروہ وہ ہے جو جانتے بوجھتے حق کو چھپاتا ہے۔‘‘(البقرۃ:146)
مگراس حسد کی وجہ سے کہ نبوت بنی اسرائیل سے بنی اسماعیل میں کیوں چلی گئی یہود نے آپ ﷺ کو نہیں مانا بلکہ لوگوں کو بھی حق سے روکا۔ اس وجہ سے بھی اللہ نے ان پر پاکیزہ چیزوںکو حرام قرار دیا ۔آگے فرمایا:
’’ اور بسبب ان کے سود کھانے کے جبکہ اس سے انہیں منع کیا گیا تھا‘‘ (النساء:161)
سود خوری کی وجہ سے بھی حلال چیزیںاللہ نے روک دیں۔ کوئی سمجھناچاہے کہ سود خوری کے نتائج کیا ہوتے ہیں تواللہ حلال کوبھی روک دیتاہے ،نعمتوں سے محروم کردیتاہے ،زندگی کواجیرن کردیتاہے۔آج یہ سارے حالات ہم اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔پہلے یہ یہود کے ساتھ بھی ہوا۔ان کو بھی سودسے منع کیاگیا تھا۔ آج بھی ان کی کتابوں کے اندر یہ جملے مل جائیںگے لیکن جب اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال کر ہر کام کو انہوں نے اپنے لیے حلال کر ڈالا تو پھر اللہ نے بھی سزا کے طور پر ان کوحلال چیزوں سے روک دیا ۔
یہ آیت بتارہی ہے کہ سود کی حرمت صرف اللہ کے آخری رسول ﷺ کی شریعت میں ہی نہیں تھی بلکہ پچھلی شریعتوں میںبھی سود حرام تھا ۔
قرآن میں سود کی حرمت کے حوالے سے اگلی آیات 9ھ میں نازل ہوئیں۔ وہ سورۃ البقرہ کی آیات 275 اور 276ہیں ۔ فرمایا :
’’جو لوگ سود کھاتے ہیں ۔ وہ نہیں کھڑے ہوتے مگر اُس شخص کی طرح جس کو شیطان نے چھو کر مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔‘‘ (البقرہ:275)
یعنی جس کوشیطان نے چھو کرپاگل کردیاہو۔ یہ پاگل پنے کی کیفیت سود خوروںکی اور مال کی محبت میں ڈوب کرپاگل بن جانے والوںکی دنیا میں بھی دیکھی جا سکتی ہے البتہ اس کی اصل کیفیت کاظہور آخرت میں ہو گا۔ بندہ جس حال میں دنیا سے جاتاہے اس حال میں کھڑا بھی کیاجاسکتاہے ۔ احادیث مبارکہ میںہے کہ ایک بندہ حالت احرام میںہواور لبیک اللھم لبیک کہہ کراس کی موت آجائے تووہ اسی حال میں قیامت کے دن اٹھایاجائے گا۔جوسود خور آج پاگل پنے میںمبتلاہیںوہ اسی پاگل پنے کی کیفیت میںاٹھائے جائیں گے ۔فرمایا:
’’اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں بیع بھی تو سود ہی کی طرح ہے حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال قرار دیا ہے اور ربا کو حرام ٹھہرایاہے۔‘‘ (البقرہ:275)
یہ عقل پرستوںکے دلائل ہیںجوشیطان کے ورغلانے میں آکرپاگل بن جاتے ہیںاور کہتے ہیںکہ میںنے کسی کولاکھ روپیہ دیااور دس ہزار اس پرمیں لے رہاہوں تویہ بھی تجارت کی طرح ہے۔لاکھ روپے کی ایک چیز تھی جومیں نے ایک لاکھ دس ہزار میں بیچ دی۔ دس ہزار جیسے میں منافع لے رہاہوںایسے ہی میں ایک لاکھ دے کراس پردس ہزار سود لے رہاہوں توپھرفرق کیا ہوا؟ دونوں ایک جیسے ہی توہیں۔بظاہر لگ رہاہے لیکن ایک ریڑھی والے سے لے کر بڑی کمپنی چلانے والے تک سب کو پتاہے کہ تجارت کسے کہتے ہیںاور محض مال دے کر بیٹھ کرکمانا کسے کہتے ہیں۔جب رب نے کہہ دیاکہ سود حرام اور تجارت حلال ہے تو بس معاملہ ختم، یہاںہماری ہمت نہیںہے کہ اس کے جواب میں کوئی عقلی دلیل پیش کریں۔آگے فرمایا:
’’تو جس شخص کے پاس اس کے ربّ کی طرف سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ باز آ گیا تو جو کچھ وہ پہلے لے چکا ہے وہ اس کا ہے۔اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔‘‘ (البقرہ:275)
پہلے کامعاملہ تواللہ کے حوالے ہے لیکن ڈرتا پھر بھی رہے کہ پکڑا نہ جائوںاور استغفار کرتار ہے لیکن اس کے بعدسود کھایا تو پھر معافی ہرگز نہیں ۔ فرمایا:
’’اور جس نے (اس نصیحت کے آ جانے کے بعد بھی) دوبارہ یہ حرکت کی تو یہ لوگ جہنمی ہیں‘ وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔‘‘ (البقرہ:275)
اللہ ہم سب کو جہنم کی آگ سے بچائے ۔ یہاں سود خوروں کاانجام بھی بتادیاگیا۔ اگلی آیت میں فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔اور اللہ کسی ناشکرے اور گناہگار کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (البقرہ:276)
یعنی سود سے مال بڑھتے نہیں بلکہ برباد ہوتے ہیں اور زکوٰۃ وصدقات سے مالوں میں اضافہ ہوتاہے ۔اس کے بعد سن 9ھ میں سود کی حرمت کے حوالے سے آخری آیات(البقرۃ :278تا281) نازل ہوتی ہیں ۔ فرمایا:
’’اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور سود میں سے جو باقی رہ گیا ہے اُسے چھوڑ دو‘اگر تم واقعی مؤمن ہو۔‘‘ (البقرہ:278)
اس آیت کے شروع میں بھی ایمان کاذکراور آخر میں بھی ایمان کاذکرہے ۔مطلب یہ کہ ایمان اور سود ایک جگہ جمع نہیںہوسکتے۔ اگر سود خوری ہے تو حقیقی ایمان نہیں ہے، کلمہ گو مسلمان توہوگا۔ا گر حقیقی ایمان ہے توآدمی سود سے ہراعتبا رسے بچنے کی کوشش کرے گا۔ آگے فرمایا:
’’پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو خبردار ہو جائو کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔‘‘ (البقرہ:279)
جنگ کامطلب ہے کسی ایک فریق کی تباہی اور جب اللہ سے جنگ پرکوئی آجائے تو اس کی تباہی کاعالم کیا ہوگا؟ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ یہ شدید ترین الفاظ ہیں جو قرآن پاک میں کسی اور گناہ کے عمل کے لیے نہیں آئے۔ آگے فرمایا:
’’اور اگر تم توبہ کر لو تو پھر اصل اموال تمہارے ہی ہیں۔نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔‘‘ (البقرہ:279)
تمہارا ظلم یہ ہے کہ تم لاکھ پردوچار روپے بھی اوپر لواور تمہارے ساتھ ظلم کیاہوجائے گاجس نے تمہارا لاکھ لیا وہ تمہارا لاکھ بھی نہ لوٹائے ۔فرمایا:
’’اور اگر مقروض تنگ دست ہو تو فراخی حاصل ہونے تک اسے مہلت دو۔اور اگر تم صدقہ ہی کر دو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے‘اگر تم جانتے ہو۔‘‘
(البقرہ:280)
یعنی اگر کوئی مقروض ہے او ر اس کی مجبوری ہے تواس کو تھوڑی مہلت دواور اگر معاف کردو تواللہ کے نزدیک یہ تمہارے حق میںبہتر ہے ۔اگلی آیت کریمہ آخرت کے بارے میںہے ۔سیدناعبداللہ بن عباسk کی رائے کے مطابق یہ نزول کی ترتیب میں آخری آیت ہے جونازل ہوئی ہے ۔ فرمایا:
’’اور ڈرو اُس دن سے کہ جس دن تم لوٹا دیے جائو گے اللہ کی طرف۔پھر ہر جان کو پورا پورا دے دیا جائے گا جو کمائی اس نے کی ہوگی اور اُن پر کچھ ظلم نہ ہوگا۔‘‘ (البقرہ:280)
سود کی ممانعت کی آخری آیات کے بعدمیں یہ آیت آئی ہے جس کامطلب ہے کہ جب تک کل کی جوابدہی کا احساس نہ ہوبندہ کوئی گناہ چھوڑنے کو تیار نہیںہوگا اور اگر آخرت کاعقیدہ پختہ نہ ہوتو سود جیسا گناہ بندہ چھوڑنے کو تیار نہیںہوتا۔ اللہ ہم سب کوآخرت کایقین عطافرمائے ۔
احادیث میں سود کا ذکر
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی سودلینے والے اور کھانے والے پر ، سود دینے اور کھلانے والے پر اور اس کے لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر اور آپ ﷺ نے فرمایا (گناہ کی شرکت میں) یہ سب برابر ہیں ‘‘۔(مسلم)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ سودخوری کے گناہ کے ستر حصے ہیں ، ان میں ادنیٰ اور معمولی ایسا ہے جیسے اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرنا۔‘‘(ابن ماجہ)
حضرت عبداللہ بن حنظلہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ سود کا ایک درہم جس کو آدمی جان بوجھ کر کھاتا ہے چھتیس بار زنا کرنے سے زیادہ گناہ رکھتا ہے ۔ ‘‘ (مسند احمد)
’’ سات مہلک اور تباہ کن گناہوں سے بچو ۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ، جادو کرنا ، ناحق کسی کو قتل کرنا ، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، میدان جہاد سے بھاگنا اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا ‘‘ ۔ ( مسلم )
حضرت ابو ہریرہ ؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معراج کی رات میرا گزر ہوا ایک ایسے گروہ پر جن کے پیٹ گھروں کی طرح تھے ان میں سانپ بھرے ہوئے تھے جو باہر سے نظر آتے تھے۔ میں نے پوچھا جبرائیل ؑ! یہ کون لوگ ہیں ؟انہوں نے بتلایا یہ سود خور لوگ ہیں ‘‘۔ (ابن ماجہ )
حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایات ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا معراج کی رات میں نے دیکھا ایک شخص نہر(اس کا رنگ خون کی طرح سرخ تھا) میں تیر رہا ہے اور اسے پتھروں سے مارا جارہا ہے میں نے پوچھا یہ کیا ہے ! مجھے بتایا گیا یہ سود کھانے والا ہے‘‘۔(مسند احمد )
وہ مرے گانہیں کیونکہ وہاںموت نہیںآنی ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :ـ
’’پھر نہ اس میں وہ مرے گا نہ زندہ رہے گا۔‘‘(اعلیٰ:13)
اللہ ہم سب کو جہنم کے عذاب سے بچائے اور اللہ سود کی ہرشکل سے ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔
تنظیم اسلامی کے تحت انسداد سود مہم جاری ہے اور ان شاء اللہ11ستمبر تک جاری رہے گی ۔بہرحال اس وقت ملک ایک بہت بڑی آزمائش سے گزر رہاہے کیونکہ ملک کے بہت بڑے حصے میں سیلاب آچکا ہے ۔ زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں کہیں کہیں اپنے قانون عذاب کوبیان کیاہے ۔ اللہ کی طرف سے آزمائشیں آتی ہیںاور ان میں مقاصد ہوتے ہیں۔ یعنی سیلاب، طوفان، قحط وغیرہ کاآجانا کوئی نہ کوئی مقصد رکھتاہے ۔قرآن میں ارشادباری تعالیٰ ہے :
’’اور ہم نے نہیں بھیجا کسی بھی بستی میں کسی بھی نبی کو مگر یہ کہ ہم نے پکڑا اُس کے بسنے والوںکو سختیوں سے اور تکلیفوں سے تا کہ وہ گڑ گڑائیں ( اور ان میں عاجزی پیدا ہو جائے) ۔‘‘ (الاعراف:94)
یعنی ان آزمائشوں ،طوفانوں کے آنے کاایک بڑا مقصد یہ ہے کہ لوگوںکے دل نرم ہوںاوروہ اللہ کی طرف رجوع کریںاور گڑگڑائیں۔لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ جب کبھی سمند ر میں طوفان کی پیشین گوئی ہوتی ہے توقوم سڑکوں پرآکرلہروں کودیکھتی ہے اورپکنک مناتی ہے۔ پولیس والے سمندر کے آس پاس بیرئیرز لگاتے ہیںلیکن من چلے نوجوان ان کو لات مار کرسمندر میں جاکرکھڑے ہوتے ہیں اور وکٹری کانشان بناتے ہیں۔اناللہ واناالیہ راجعون!رسول اللہ ﷺ کا طرز عمل تو یہ تھا کہ جب کبھی کالی آندھیاں چلتیں،کالے بادل آسمان پر آجاتے تو رسول اللہ ﷺ حالت سجدہ میں چلے جاتے ۔ اس لیے کہ اس طرح کے طوفانوں سے ہی اللہ نے بعض بستیوں اور قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا تھا ۔ آج ہم ان کے کھنڈرات پر بڑے بڑے فنگشنز منعقد کرتے ہیں اور ان بستیوں پر فخر کرتے ہیں ۔ موہنجو داڑو کے فنگشن میں سندھ حکومت کے کروڑوں روپے لگتے ہیں ۔یعنی ٹنوں مٹی تونکال لی لیکن تھوڑی سی عبرت حاصل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
’’اور ہم لازماً چکھائیں گے انہیں مزہ چھوٹے عذاب کا بڑے عذاب سے پہلے‘ شاید کہ یہ لوگ پلٹ آئیں۔‘‘(السجدہ:21)
بڑے عذاب توقوم نوح ، قوم ھود ، قوم صالح ، قوم لوط پر آئے اور وہ قومیں مٹا دی گئیں ۔ مگر ان بڑے عذابوں سے پہلے چھوٹے چھوٹے عذابوں کا مقصد یہ ہوتاہے کہ لوگ اللہ کی طرف لوٹیں ۔پھرارشادہوتاہے :
’’بحر و بر میں فساد رونما چکا ہے‘لوگوں کے اعمال کے سبب
تا کہ وہ انہیں مزہ چکھائے ان کے بعض اعمال کا‘ تا کہ وہ لوٹ آئیں۔‘‘(الروم:41)
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ دومرتبہ فرماتاہے کہ اگر اللہ ہرہرکرتوت پرپکڑناچاہے تواللہ ایک جاندار زمین پرنہ چھوڑتا لیکن کچھ اعمال کامزہ ضرور چکھاتاہے تاکہ لوگ اللہ کی طر ف لوٹیں،توبہ کریں اور گناہوںکو چھوڑ دیں ،اپنے اعمال کی اصلاح کرلیں اور اللہ کے حضور استغفار کریں۔ پھرارشاد ہوتاہے :
’’کہہ دیجیے کہ وہ قادر ہے اس پر کہ تم پر بھیج دے کوئی عذاب تمہارے اوپر سے یا تمہارے قدموں کے نیچے سے‘یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر دے اور ایک کی طاقت کا مزا دوسرے کو چکھائے۔ دیکھو کس کس طرح ہم اپنی آیات کی تصریف کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں۔‘‘(الانعام:65)
اللہ نے قوم لوط پراوپر سے پتھر بھی برسائے، قوم شعیب پر شعلے بھی برسائے ،قوم نوح پرطوفانی بارش بھی برسائی۔ فرعون اور آل فرعون کوغرق کردیاگیا،قارون کو دھنسا دیا گیا۔علماء نے یہ بھی لکھاہے کہ اوپر سے عذاب یہ بھی ہے کہ اللہ ظالم حکمرانوں کومسلط کردے یاظالم قسم کے Bossesکوایمپلائز پرمسلط کردے ،یاظالم قسم کے مالکان کوکرایہ داروں پرمسلط کردے ۔ پھرنیچے کاعذاب یہ بھی ہے کہ عوام ان کے کنٹرول میںنہ ہو، اولاد ماںباپ کے کنٹرول میںنہ ہو۔تیسرا عذاب یہ ہے کہ اللہ گروہوں میںتقسیم کردے اور ایک کی طاقت کامزہ دوسرے کو چکھائے ۔یہ اللہ کے عذابوں کی کیفیت ہے ۔ اس وقت بھی ملک کی صورت حال کیاہے کہ عیدالفطر کے موقع پر علماء کرام کوکہنا پڑا کہ اپنی زبانوں کوکنٹرول میں رکھیںکہ ملک کوتوڑنے کی طرف لے جانے والی باتیں تونہیںہورہی ۔ اس وقت سیاست میں جوکچھ ہورہاہے ، یہ سب مختلف نوعیت کی کیفیات عذاب ہوا کرتے ہیں ۔ تنبیہات اور آزمائشیں ہوا کرتی ہیں۔
کرنے کاکام
سب سے پہلے تو ہم سب کو توبہ کرنی چاہیے ۔ اپنے گناہوں کی رب سے معافی مانگنی چاہیے۔ امریکہ، ورلڈبنک، آئی ایم ایف وغیرہ سب کے سامنے جھک کر دیکھ لیااب ایک اللہ کی طرف جھکنے کی کوشش کرو ۔ ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پرلیاتھا لیکن ہم نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ غداری کی ہے جس کی وجہ سے ہم مصائب کاشکار ہیں۔لہٰذا اصل توبہ یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ کیے گئے وعدے کوپورا کریں اور اس ملک میں اسلام کونافذ کرنے کی کوشش کریں ۔ البتہ سردست ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ملک میں اتنی بڑی تباہی آچکی ہے لیکن یہ اپنے سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میںلگے ہوئے ہیں اور سیلاب کے معاملے میں بالکل سیریس نہیںہیں۔ اللہ ان کوہدایت دے۔ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم توبہ استغفار کرتے ہوئے سیلاب زدہ بھائیوں کی مدد کریں ۔تنظیم اسلامی کے رفقاء کو ہم متوجہ کریںگے کہ جہاںجہاںتنظیم کا نظم قائم ہے وہاں اس نظم کے تحت متاثرین کی مدد کریں اور عوام سے ہم گزارش کریں گے کہ جس پرآپ کو اعتماد ہے اس ادارے کو امداد دیجئے ۔ قرآن کہتاہے :
’’یقینا ًتمام اہل ِایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘(الحجرات:10)
اسی طرح رسول اللہﷺ فرماتے ہیں :’’جب تک ایک مسلمان اپنے بھائی کی حاجت کو پورا کرنے میں لگا رہتاہے تب تک اللہ تعالیٰ ایسے بندے کی حاجت کو پورا کرنے میں لگا رہتاہے ۔لہٰذا جس کو جتنی توفیق ہواس کے مطابق وہ متاثرین کی مدد ضرور کرے ۔ یہ بھی ہمارا امتحان ہے ۔کیونکہ یہ ہمارا دینی ،ملی ،قومی فریضہ ہے ۔ کسی کاامتحان شکر کاہوگا اور کسی کاامتحان صبر کاہوگا۔اللہ تعالیٰ ہمیں شکرگزار بندوں میں شامل رکھے ۔آمین !