(اداریہ) آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتےتک - ایوب بیگ مرزا

6 /

اداریہ


ایوب بیگ مرزا


آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتےتک

آج اہل پاکستان برصغیر کی تاریخ کی بدترین ناگہانی آفت سے دو چار ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ سیلاب کی بے رحم موجوں کی زد میں موت و حیات کی کشمکش میں ہے اور وسیع زمینی رقبہ سمندر کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ کچے گھروندے ہی نہیں اچھی خاصی مضبوط عمارتیں پانی کی دیوہیکل لہروں کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہو رہی ہیں۔ لاکھوں گھرانے بے گھر ہو کر کھلے آسمان کے نیچے وقت گزارنے پر مجبور ہیں۔ خوراک کی عدم دستیابی اور سیلابی پانی کا استعمال بیماریوں کا باعث بن رہا ہے۔ گویا اہل پاکستان پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ مذہبی لوگ اسے اللہ تعالیٰ کا عذاب اور محتاط الفاظ میں آزمائش قرار دے رہے ہیں اور دانشور حضرات اسے سابقہ اور موجودہ اہل اقتدار کی نااہلی، غفلت، خودغرضی اور نکما پن قرار دے رہے ہیں۔ ہم آخر میں عرض کرنے کی کوشش کریں گے کہ اصلاً یہ کیا ہے بہرحال اس حقیقت سے تو کوئی بقائم ہوش و حواس انکار نہیں کر سکتا کہ ایک قہر ہے جو ہم پر نازل ہو چکا ہے وجہ اس کی جو بھی ہو۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ سطور رقم کرنے تک ملک میں حالیہ سیلاب اور بارشوں سے 4کروڑ سے زائد افراد براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔ سندھ میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ، بلوچستان میں ایک کروڑ دس لاکھ، جنوبی پنجاب میں 48 لاکھ، خیبر پختونخوا میں 40 لاکھ اور گلگت بلتستان میں 25لاکھ کے قریب لوگ متاثر ہوئے۔ متاثرین سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا سب کچھ تباہ و برباد ہوگیا نہ گھر بچا نہ سامان اور نہ ہی کوئی ذریعہ معاش۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سیلاب اوربارشوں سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد تقریباً 1200 سے تجاوز کر چکی ہے۔ ملک بھر میں اب تک تقریباً 20 لاکھ گھروں کو نقصان پہنچا جبکہ سیلاب اور بارشوں سے اب تک 10 لاکھ کے قریب مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔ بارشوں اور سیلاب سے 162 پلوں کو نقصان پہنچا ہے، 72 اضلاع بری طرح متاثر ہوئے ، 151 شہروں میں تباہی آئی۔ جس وقت سیلاب اپنے عروج پر تھا، پاکستان کا تقریباً دوتہائی رقبہ زیرآب تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل نقصان سرکاری اعدادوشمار سے کہیں بڑھ کر ہوا ہے۔
پاکستانی ایک جذباتی قوم ہے جو کروٹ تو ذرا دیر سے لیتی ہے لیکن جب جاگ جاتی ہے تو قابل فخر مثالیں بھی قائم کرتی ہے یہاں ایک حقیقت لازمی طور پر بیان کی جانی چاہیے کہ پاکستان کی مذہبی جماعتیں جو نارمل حالات میں ایسی کارکردگی نہیں دکھاتیں کہ ہم اُن پر اظہارِ اطمینان بھی کر سکیں لیکن جب بھی ملک پر کوئی آفت نازل ہوئی وہ 2005ء کا زلزلہ ہو یا 2010ء کا سیلاب نام نہاد دانشور اور اُن کے گروپ تو صرف بند کمروں میں فلسفے بگھارتے رہتے ہیں لیکن ان مذہبی جماعتوں کے کارکن جس طرح جان ہتھیلی پر رکھ کر متاثرین کی مدد کو پہنچے ہیں وہ جدید دور میں اور کہیں نظر نہیں آتی۔ اگرچہ سیاسی جماعتوں نے بھی چندے اکٹھا کیے اور مالی امداد کی ہے لیکن اس موقع پر دور آفتادہ آفت زدہ علاقوں میں خود پہنچ کر امداد کرنا انتہائی گراں قدر کارگزاری ہے اور یہ کام جس جانفشانی سے مذہبی جماعتوں کے کارکن اس مصیبت کے وقت میں کر رہے ہیں اس کی تعریف اور تحسین کے لیے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ رازق ہے لیکن ہمیں رزق حلال کے لیے جدوجہد کی ترغیب دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شافی ہے لیکن وہ دعا کے ساتھ دوا کا بھی کہتا ہے۔ اللہ واحد مشکل کشا ہے لیکن وہ مشکل سے نجات کے لیے محنت اور جدوجہد کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس پیمانے پر 2022ء کے ’’سپریم فلڈ‘‘ نے تباہی مچائی ہے اُس کے مداوے کے لیے کئی برسوں کی انتھک محنت درکار ہوگی۔ کچھ ابتدائی تخمینوں کے مطابق حالیہ سیلاب سے معاشی سطح پہ 10 ارب ڈالر روپے کا نقصان ہوا ہے جو آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں بڑھ سکتا ہے ۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بنیادی انتظامی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ جس میں سڑکیں، پل، مکانات، کئی ڈیم، بجلی، ٹیلی فون، انٹرنیٹ وغیرہ کا نظام، سکول، ہسپتال سب شامل ہیں۔ بڑے پیمانے پر فصلوں کے تباہ ہونے کی وجہ سے پھل اور سبزیوں وغیرہ کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی بیماریوں کا شدید خطرہ ہے۔ جب کئی کروڑ خاندان متاثر ہوں تو بے روزگاری یقیناً بڑھے گی اور پاکستان کے لیے شرح نمو کے اہداف کو حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔ پھر ملک پر قرضوں کا نیا بوجھ لاد دیا جائے گا۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ انتظامی سطح پر پاکستان سیلاب کو روکنے اور اس کے نقصانات کو کم کرنے میں ناکام کیوں رہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان پانی کو ایک ہتھیار کے طور پر پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے البتہ پاکستان کے آبی مسائل اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی وجہ صرف ہندوستان کی پاکستان دشمنی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سیلاب پاکستان میں سب سے تباہ کن قدرتی آفت ہے۔ 2010ء میں آنے والا سیلاب ملکی تاریخ میں ’’سپر فلڈ ‘‘ قرار دیا گیا۔ جس نے ہر سطح پر بے پناہ تباہی مچائی۔ اس کے بعد فیڈرل فلڈ کمیشن نےسیلاب سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی جسے آئندہ کے لائحہ عمل اور سیلاب کے روک تھام اور نقصانات کو کم کرنے کے حوالے سے ایک سنگ میل قرار دیا گیا۔ ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا چاہئے کہ ہم سیلاب سے نمٹنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ ہم نے 2010 کے سیلاب کے بعد سیلابی شدت میں کمی لانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے کہ جب ایمرجنسی سامنے آتی ہے تو ہم بغیر منصوبہ بندی کے اقدامات شروع کردیتے ہیں، کیونکہ ہم اس کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے، جب سیلاب گزر جاتا ہے تو ہم پھر سو جاتے ہیں اور جب اگلا بحران جھنجھوڑ کر اٹھاتا ہے تو وہی افراتفری میں اقدامات کی مشق شروع ہوجاتی ہے۔ اگرچہ سیلاب کومکمل طور پر روکا تو نہیں جاسکتا تاہم متعدد ممالک نے فلڈ مینجمنٹ اور کنٹرول کی حکمت عملیوں کے ذریعے انسانی جانوں کے ضیاع اور املاک اور فصلوں کی تباہی کو کم کرلیا ہے۔ اگر فیڈرل فلڈ کمیشن کی 2010ء کی رپورٹ پر عمل درآمد کیا جاتا اور سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے تباہ کن اثرات کو زائل کرنے کے لیے کام کرنے والے ادارے جن میں این ڈی ایم اے اور ارسا وغیرہ شامل ہیں اس رپورٹ کی سفارشات کے مطابق تیاری کرتے تو 2022ء کے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کم ہوتے۔ رپورٹ میں جو سفارشات دی گئیں اُن میں درج ذیل خصوصی توجہ کی حامل ہیں۔ (1) این ڈی ایم اے سمیت ڈیزاسٹر مینجمنٹ اینڈ کنٹرول کے تمام اداروں کی صلاحیت کو بڑھایا جائے۔ (2) صوبائی اور ضلعی سطح پر فلڈ مینجمنٹ اور کنٹرول کے ادارے قائم کیے جائیں اور فلڈ کنٹرول کے واضح ایس او پیز مرتب کیے جائیں۔ (3) فلڈ کنٹرول انفراسٹرکچر کو مضبوط کیا جائے۔ پشتوں اور بندوں کو مضبوط بنایا جائے۔ سیلابی پانی کا رخ بدلنے کے لیے چینلز کو ترتیب دیا جائے۔ سیلابی پانی ذخیرہ کرنے کے مقامات کو قائم کیا جائے۔ بیراجوں کی صلاحیت بڑھائی جائے۔ (4) نئے ڈیم تعمیر کیے جائیں جن میں بڑے ڈیموں کے ساتھ چھوٹے ڈیم بھی شامل ہوں۔ (5) وہ پانی جو پہاڑوں سے برف پگھلنے پر بہہ آتا ہے اُسے بحیرۂ عرب میں گر کر ضائع ہونے سے بچانے کے منصوبے بنائیں جائیں۔ (6) سیلابی ریلوں کو روکنے اور زمین کے کٹاؤ میں کمی لانے کے لیے بڑے پیمانے پر درخت لگائے جائیں۔ (7) پہاڑی اور میدانی علاقوں کے لیے بہتر فلڈ مینجمنٹ اور کنٹرول کی علیحدہ علیحدہ پالیسیاں ترتیب دی جائیں۔ (8) ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارشوں اور خشک سالی بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے بھی ایک مربوط پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ (9) سیلاب کے حوالے سے وہ علاقے جو زیادہ خطرے میں آ سکتے ہیں وہاں سے آبادیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے نیز غیر قانونی تعمیرات کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ (10) سیلاب کی پیشگی اطلاع اور انتباہ کی صلاحیت بڑھائی جائے اور میٹ آفس سمیت موسمیاتی پیشین گوئی کے ادارے دیگر اداروں کے ساتھ بہتر انداز میں مل کر کام کریں۔(11) سیلاب سے متاثرہ افراد اور علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف اور پھر تعمیر نو کے لیے مربوط منصوبہ بندی کی جائے۔
اب آئیے اُس بحث کی طرف کہ یہ عذاب ہے، آزمائش ہے یا اہل اقتدار کے سیاہ کرتوتوں اور نااہلیوں کا نتیجہ ہے۔ ہماری رائے میں پاکستان کے حوالے سے یہ تینوں عوامل کسی نہ کسی انداز میں کار فرما نظر آتے ہیں جہاں تک عذاب یا آزمائش کا تعلق ہے کسی مسلمان معاشرے پر نازل ہونے والی آسمانی آفات عذاب بھی ہو سکتی ہیں اور آزمائش بھی پھر یہ کہ پاکستان جیسا ملک جس کی نظریاتی اساس ہی اسلام اور صرف اسلام ہو جس کا اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرکے مطالبہ کیا گیا ہو کہ اے اللہ ہمیں آزادی عطا فرما دے ہم زمین کے اس ٹکڑے پر تیرے دین کا نفاذ کریں گے اُس کا اپنے وعدے سے منحرف ہو جانا یقیناً استثنائی صورت حال اختیار کر لیتا ہے۔ اس پس منظر کے باوجود، بحیثیت مسلمان یہ فیصلہ آسان کام نہیں بلکہ انتہائی مشکل کام ہے کہ یہ فرق کیسے کیا جائے کہ یہ عذاب ہے یا آزمائش ہے۔ اس پر بھی غور کرنا ہوگا کہ ہم عام انسانی اخلاقی ضوابط کے حوالے سے کہاں کھڑے ہیں دیانت اور امانت کے الفاظ ہمارے ہاں شاید اپنا حقیقی معنی کھو چکے ہیں۔ قومیت، فرقہ اور لسانی عصبیت پر کس قدر خون بہایا جا چکا ہے۔ یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ جھوٹ سچ کی جگہ لے چکا ہے اور دجل و فریب کو ایک ’’آرٹ‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ قومی خزانے کو ہم نے شیر مادر سمجھ کر یوں غٹ غٹ پیا ہے کہ مادرِ وطن اب اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں، کشکول حکمرانوں کے سر اپا کا حصہ بن گیا ہے۔ ہم کیوں غور نہیں کرتے کہ بادل ہمارے سروں پر پھٹ رہے ہیں زلزلوں سے کتنی بار زمین دھل چکی ہے۔ گروہوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کو اپنی طاقت کا مزہ چکھا کر تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ یعنی سورۃ الانعام کی آیت نمبر 65 میں بیان کردہ عذاب کی تینوں قسمیں ہم پر مسلط ہو چکی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ بڑا رحیم و کریم ہے آج بھی اگر ہم سیدھے راستے پر آجائیں۔ صراطِ مستقیم اختیار کر لیں، انفرادی اور اجتماعی سطح پر توبہ کر لیں، اپنے رب کی طرف رجوع کر لیں تو یہ آزمائش ہے یہ تنبیہ ہے عذاب نہیں پھر ہم ایسی آزمائشوں سے سرخرو ہو کر نکلیں گے لیکن اگر ہم ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور منافقت کا یہ طرز عمل جاری رہتا ہے تو دنیا کے عذاب میں تو گرفتار ہیں ہی آخرت کے عذاب سے بھی نہیں بچ سکیں گے۔ نظریاتی سطح پر ہم ماضی میں بہت روگردانی کر چکے ہیں اب ہمارے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ یاد رہے ’’آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک‘‘