(خصوصی مضمون) امیرسے ملاقات قسط 7 - ابو ابراہیم

7 /

٭کیاسیلاب آزمائش ہے ،عذاب یاحکمرانوں کی نااہلی؟

٭کیاتنظیم اسلامی انتہاپسند مولویوںکی جماعت ہے ؟

٭لوگوں کو مختصرلباس پہننے سے کیسے روکاجائے ؟

٭کسی عالم کو جانچنے کے لیے کیاپیمانہ ہوناچاہیے ؟

٭اسلامی لحاظ سے بچوں کی پرورش کیسے کی جائے ؟

٭تنظیم اسلامی اپناآخری اقدام کب کرے گی ؟

امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات

 

میز بان :آصف حمید

مرتب : محمد رفیق چودھری

 

سوال:پاکستان میں موجودہ سیلاب آزمائش ہے، عذاب یاحکمرانوںکی مس مینجمنٹ ہے؟
امیر تنظیم اسلامی:اس وقت ہمارا ملک بڑے مصائب سے گزررہاہے اور نقصانات کااندازہ ہی کیاجاسکتاہے اور آگے صورت حال مزیددگرگوں ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اس حوالے سے آزمائش،عذاب یا مس مینجمنٹ کے مباحث چل رہے ہیں۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ہمیں تینوںاعتبارات سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا اسباب کے تحت چلتی ہے اور اسباب کے تحت معاملات کو چلالینے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ عقیدہ یہ بتاتا ہے کہ نگاہ مسبب الاسباب کی طر ف رہے ۔ مثال کے طور پر میںکراچی میں رہتا ہوں اور کراچی کی سڑکوںکابراحال ہے تو یہ کہاجائے کہ اس میں ہمارا قصور نہیں ہے تویہ بالکل غلط بات ہے حالانکہ یہ عذاب لگتاہے ۔یہ بالکل کہاجائے کہ یہ ہماری صوبائی حکومت کی نااہلی ہے جس کاشاخسانہ ہمارے سامنے آرہاہے اوراس کی سزا ہرکوئی بھگت رہا ہے ۔اس مثال کو اگر ملکی سطح پر لے جائیںتوسیلاب توپہلے بھی آتے رہے اور فلڈ کمیشن کی رپورٹ 2010ء میں شائع کی گئی جس میںآئندہ کے لیے پیشگی اقدامات اور پلاننگ کرنے کی تجویز دی گئی تھی ۔ اسباب کے تحت پلاننگ کرنے میں دینی اعتبار سے کوئی ممانعت نہیں ہے۔ اگر کمیشن کی رپورٹ 2010ء میں آئی اور سیلاب 2022ء میں آرہاہے توبارہ سال کاعرصہ کوئی کم عرصہ نہیں ہے کہ جس میں پلاننگ نہیںکی جاسکتی تھی ۔ لہٰذا موجودہ صورت حال میں ہماری بیڈگورننس اور نااہلی کاطرزعمل بھی شامل ہے۔
جہاں تک آزمائش یاامتحان کامعاملہ ہے توامتحان انسان کاپوری زندگی کا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{نِ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط}’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔‘‘(الملک:2)
اورکبھی امتحانات کے اندر اللہ کی حکمتیں ہوا کرتی ہیںتووہ بندوںکو سختیوں میں مبتلا کرتاہے ۔یہ اللہ کی سنت ہے ۔ سورۃ الانعام میں اور دوسرے مقامات پر ہم پڑھتے ہیں کہ جب کبھی اللہ نے انبیاء کوبھیجا ہے تو
{ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَہْلَہَا بِالْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ لَعَلَّہُمْ یَضَّرَّعُوْنَ(94)}(الاعراف) ’’ مگر یہ کہ ہم نے پکڑا اُس کے بسنے والوںکو سختیوں سے اور تکلیفوں سے تا کہ وہ گڑ گڑائیں ( اور ان میں عاجزی پیدا ہو جائے )۔‘‘
یعنی اللہ کی سنت یہ بھی رہی کہ لوگوں کو تکالیف میں مبتلا کیاجائے تاکہ وہ میری طرف متوجہ ہوں۔کیونکہ سختیوں، تکالیف اور پریشانیوںمیںبندوں کادل نرم ہوتاہے۔ جب دل نرم ہوگا تولوگ خالق کی طرف رجوع کریںگے اور بالآخر انہیں اس تکلیف کابدلہ راحت کی صور ت میں ملے گا۔ اسی طرح اللہ کہتاہے کہ انسانوں کے کرتوت اور اعمال بھی کسی آزمائش یا تکلیف کی صورت میں لوگوں پرمسلط ہوتے ہیں۔ اس میں بھی حکمت ہوتی ہے۔ سورۃالروم میں فرمایا:
’’بحر و بر میں فساد رونما چکا ہے‘لوگوں کے اعمال کے سبب تاکہ وہ انہیں مزہ چکھائے ان کے بعض اعمال کا تاکہ وہ لوٹ آئیں۔‘‘(آیت:41)
یہاں کچھ اعمال کامعاملہ ہے وگرنہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں دومقامات پر فرماتاہے کہ اگر اللہ لوگوںکے ہرعمل پر پکڑنا شروع کردے تواللہ زمین پرایک جانداز کوباقی نہ چھوڑے۔پھرقرآن حکیم یہ بھی بتاتاہے :
’’اور ہم لازماً چکھائیں گے انہیں مزہ چھوٹے عذاب کا بڑے عذاب سے پہلے‘ شاید کہ یہ لوگ پلٹ آئیں۔‘‘ (السجدہ:21)
ایک بڑا عذاب توآخرت میں ہے لیکن دنیا میںبھی قوموں پر بڑے اور تباہ کن عذاب آئے۔ ان بڑے عذابوں سے پہلے اللہ تعالیٰ لوگوں پر سختیاں اور مصیبتیں نازل کرتا ہے تاکہ لوگ اللہ کی طرف رجوع کریں ۔
موجودہ سیلاب کے بارے میں ہم تعین کے ساتھ عذاب کہہ دیں تو شاید یہ ہمارے لیے مشکل ہوگامگر ہم یہ ضرور کہیںگے کہ اس میں ہماری نااہلی کادخل بھی ہے ، ہمارے کرتوتوں کا نتیجہ بھی ہے اورہمارے اوپر کسی چھوٹے عذاب کی کیفیت بھی ہوسکتی ہے۔قرآن حکیم میں دوسری قوموںپرعذابوں کاتذکرہ موجود ہے ۔وہ قومیں شرک کے ساتھ ساتھ دوسرے سیاسی،معاشی اور معاشرتی جرائم میں بھی ملوث تھیں ۔ چنانچہ نوح ؑ کی قوم شرک میں مبتلا تھی توان کوغرق کیاگیا،شعیب ؑ کی قوم ناپ تول میں کمی کی مرتکب ہوئی تھی تو ان پرشعلے برسائے گئے۔ لوط d کی قوم ہم جنس پرستی کے گندے عمل میں مبتلا تھی توان کو اندھابھی کیاگیااوران پر پتھر بھی برسائے گئے اور اس قوم کو بحرمردار میں غرق بھی کیاگیا۔ البتہ دنیا میں فزیکل فنامنا کے تحت زلزلے اور طوفانی بارشیں بھی آجاتی ہیں لیکن اللہ کاکلام بتاتاہے کہ میٹافزیکل کازز(قوموں کے کردار میں بگاڑ)کی وجہ سے بھی اللہ کی طرف سے زلزلے آتے ہیں ۔البتہ پہلے اللہ کے عذاب سے پوری کی پوری قومیں صفحہ ہستی سے مٹادی جاتی تھیں لیکن اب رسول اللہ ﷺ کی دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ امت محمد یہ کو عذاب استیصال سے محفوظ رکھے گا ۔ لیکن دوسری احادیث میںرسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب معاشرے میں امانت میںخیانت ہونے لگے ، ذلیل ترین لوگ حکمران بن جائیںتوپھر طوفان، سیلاب،زلزلے جیسے عذاب بھی آئیںگے۔ بہرحال موجودہ صورتحال حکمرانوں کی نااہلی، کرتوتوں کی وجہ سے پکڑ اور عذاب کی کیفیت بھی ہو سکتی ہے ۔
پھرپاکستان کامعاملہ دوسرے ممالک سے مختلف ہے ۔جیسے امت مسلمہ بقیہ امتوں سے مختلف ہے ۔ بقول شاعر ؎
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ؐ
پاکستان کامعاملہ باقی دنیا سے مختلف ہے ۔ ہم نے اللہ سے اس وعدے پر ملک مانگا تھا کہ ہم اس میں اللہ کی شریعت کو نافذ کریں گے لیکن 75برس ہوگئے، عہد وفا کرنے کی بجائے ہم ٹھوک بجاکراللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ کوجاری رکھنے پرتلے ہوئے ہیں،ہم ٹھوک بجاکر14اگست کی سرکاری تقریب میں اور دوسرے جلسوں میںناچ گاناکروا کردنیا کو فحاشی اور بے حیائی کا پیغام دے رہے ہیں۔یہ ہمارے وہ اعمال ہیں جوعذاب کو دعوت دینے والے ہیں۔ ہمیں ڈرناچاہیے کہ یہ چھوٹے چھوٹے عذاب کل کسی بڑے عذاب کاپیش خیمہ نہ بن جائیں۔ چنانچہ ہمیں توبہ واستغفار کی طرف پلٹنا چاہیے اور اجتماعی توبہ کی طرف آـناچاہیے جوکہ یہ ہے کہ ہم اس ملک میں اللہ کے دین کوقائم کرنے کی کوشش کریں ۔
سوال:ان مشکل حالات میںہیومن رائٹس کے نعرے لگانے والی این جی اوز کاکیاکردار ہے؟
امیر تنظیم اسلامی:ان آزمائشوں کے بہت سارے پہلو ہوتے ہیں۔ ہم یہاں بڑے ٹھنڈے ماحول میں بیٹھ کربات کررہے ہیں، یہ بھی آزمائش ہے کہ ان ساری تکالیف سے ہمیں اللہ نے بچایاہے تو کیاہم شکر کررہے ہیں ؟ پھراللہ نے اگر ہمیں دے کررکھا تو ((واحسن کمااحسن اللہ الیہ)) کے مصداق ہمیں بھی لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنی چاہیے ۔ یہ ہمارا امتحان ہے ۔ پھرکیاہمارا دل نرم ہوا کہ نہیں ہوا؟کیاہم اللہ کے حضور تنہائی میں روتے ہیں ؟کیاہم نے گڑگڑا کراللہ سے معافی مانگی ہے یا نہیں ، توبہ کی ہے یا نہیں ۔ اسی طرح ہیومن رائٹس کے نام پر’’ میرا جسم میری مرضی‘‘کے نعرے لگانے والے اور لبرلز عورتوں کو گھر سے باہر نکالنے کے لیے آکر کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن اس مشکل گھڑی میں وہ نظر نہیں آتے بلکہ دوسرے لوگ بالخصوص دینی جماعتوں کے لوگ، مدارس کے طلبہ واساتذہ اس کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کرحصہ لے رہے ہیں ۔ شاید ان کی تصاویر اور بینزز ہمیں نظر نہیں آتے لیکن وہ اللہ کے بندے لگے ہوئے ہیں۔ یہ سب ہماری آزمائش ہے کہ کیاحق کو حق اور باطل کوباطل سمجھ رہے ہیںیا نہیں ۔ اس طرح کے ایک امتحان میں بہت ساری آزمائشوں کے پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں ۔
سوال:پاکستان میں لوگ سیاسی جماعتوںکی کال پر باہر نکلتے ہیںاورمیںسمجھتاہوں کہ پاکستان کے عوام دینی شعور رکھتے ہیں اور وہ دین کے قائم کرنے کے لیے باہر نکلیں گے ۔ آپ ایسی کال کیوں نہیںدیتے جس سے لوگ اقامت دین کے لیے میدان میں آئیں؟
امیر تنظیم اسلامی:بڑا اچھا اور درد مندانہ سوال ہے۔ اس کو دوتین اعتبارات سے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اصل میں ہماری وقتی اورفوری نوعیت کی ضروریات محسوس بھی فوری ہوتی ہیں ۔ لہٰذا جہاں کہیں بندوں کواس تعلق سے کسی درجے میں بھی امید نظر آتی ہے تووہ فوراً اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ لیکن ایمان کی پکار اور اس کے تقاضوں پر عمل درآمد کے لیے جومشقتیں اور رکاوٹیں ہیں وہ اپنی جگہ پرہیںمگراس کااصل نتیجہ آخرت میں نکلناہے وہ فوراً نظرنہیں آتااس لیے اس کی فوری ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی۔اس لیے جس طرح کا جارحانہ ردعمل مادی ضروریات کی کالز پر ہمارا ہوتا ہے وہ طرزعمل ایمان کی پکار پر نظر نہیں آتا ۔ سوال یہ ہے کہ کیااللہ اور اس کے رسولﷺ کی کچھ کالز پہلے سے ہمارے لیے نہیں ہیں۔ اللہ اکبر،حی علی الصلٰوۃ اور الصلٰوۃ خیرمن النوم کی پکار کس مسلمان کے سامنے نہیںہے؟ کیاواقعی اس پکار پر فوراً لبیک کہنااورفوراًعمل کرنامیرے بس میںہے ؟ہماری اکثریت پنج وقتہ نماز کی پابندی نہیںکرتی۔ سوال یہی ہے کہ ایسی آسان کال جس پرعمل کرناآسان ہے اس پر یہ قوم اٹھتی ہوئی نظر نہیں آرہی تو پھر ہمیں سوچناپڑے گاکہ وہ کال جس کوہم اقامت دین کی جدوجہد کہتے ہیں ، جس میں تن من دھن لگانے کی بات ہے ،جس میں گھربار چھوڑنے کے تقاضے بھی آسکتے ہیں، قربانیوں کے معاملات بھی آسکتے ہیں،کیایہ قوم اس پکار پر اٹھ سکے گی ؟یہ اپنی جگہ ایک جواب ہے ۔ البتہ ہم اس قوم کویہ کہیں گے کہ یہ مر دہ نہیں ہے ،اس کو ڈساگیاہے، دھوکا دیا گیا ہے لیکن اگربعض مواقع کاجائزہ لیں تو یہی قوم دینی تقاضوں کے لیے کھڑی بھی ہوئی ہے اور اپنے مطالبات کو منوایا بھی ہے ۔ مثال کے طور پر1974ء میں قادیانیوں کے خلاف فیصلہ آیاتواس میں قانونی ضابطے بھی پورے ہوئے اورقوم نے سڑکوں پر قربانیاںبھی دیں ۔ پھر پیپلزپارٹی کے دور میںتحفظ ناموس رسالت کے قانون میں تبدیلی کی کوشش کی گئی جس پر تمام مکاتب فکر کی طرف سے آواز بلند ہوئی لہٰذا عوامی پریشر کی بدولت تبدیلی کی وہ کوشش رُک گئی ۔لیکن بہرحال اللہ اوراس کے رسولﷺ کی پکار پرلبیک کہتے ہوئے اگر ہم وہ نہیں کرپارہے جو ہمارے بس میںہے توجس کے لیے زیادہ محنت اور قربانیوں کی ضرورت ہے اس کے لیے کال دینے والوں کو کافی سوچنا پڑے گا ۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ فرماتے تھے کہ پہلے ہم اپنی ذات کے اعتبار سے مکلف ہیںکیونکہ اللہ فرماتاہے :{لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَاط} (البقرہ:286) ’’اللہ تعالیٰ نہیں ذمّہ دار ٹھہرائے گا کسی جان کو مگر اس کی وسعت کے مطابق۔‘‘
جہاں میرے بس میںہے وہاںمیںکرنے کی کوشش نہیںکررہاتوجومیرے بس میں نہیںہے وہاںکھڑا کیسے ہوں گا۔ پھراللہ کی نصرت کے بغیر دین کاکام نہیںہوسکتا۔ اللہ سورۃالنحل کے آخر میں فرماتاہے:
{اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا}(نحل:128)’’یقینا ًاللہ اہل ِتقویٰ کے ساتھ ہے۔‘‘
باغیوں اورسرکشوںکے لیے اللہ کی مدد نہیں ہے ۔جولوگ اس کام کے لیے اٹھیںوہ پہلے دین کو اپنی ذات پرممکنہ حد تک نافذ کیے ہوںتبھی تواللہ سے مانگنے کا منہ ہوگااور توقع آئے گی کہ اللہ تعالیٰ کی مدد بھی آئے گی ۔اس کے لیے پہلے قرآن حکیم کے ذریعے ایمان کی آبیاری، افراد کو اللہ والابنانے کی کوشش کرنا،ان کوسمع وطاعت کاپابند بنا نا تاکہ وقت پکار پر وہ لبیک کہنے کوتیار ہوں۔ یعنی ایک منظم جماعت بنانا،پھر جب وہ میدان میں اتریں گے تواللہ تعالیٰ کی مدد بھی ان شاء اللہ شامل حال ہوگی ۔
اسی کے تسلسل میںیہ بات بھی آجائے کہ اس رمضان میں وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دیا۔ سود کی حرمت تمام مکاتب فکر کے ہاںمتفق علیہ ہے۔اس میں کسی کا اختلاف نہیں ۔ اس پراگر کوئی پکاراٹھے گی توان شاء اللہ یہ قوم کھڑی ہوگی اور اپناوزن ڈالے گی ۔ تیس سال ہوگئے ہیںاورسودکے خلاف تین فیصلے آچکے ہیں اس کے بعد بھی اگر عملی پیش رفت نہیںہورہی تو صاف ظاہر ہے کہ حکمرانوں کی نیت میں اس حوالے سے فرق ہے۔ ہم تمام دینی جماعتوں سے درخواست کررہے ہیں کہ اس معاملے میں اپناوزن ڈالیں اور ایک پُرامن مطالباتی نوعیت کی تحریک کے لیے اگر تمام مکاتب فکر کے لوگوں کی طرف سے بات آئے گی تو پھر حکمرانوں پرپریشر بڑھے گا۔ اس کے ہم قائل ہیں۔
سوال:آج کل لوگوںکی اکثریت اپناستر نہیں چھپاتی اور وہ مختصر لباس پہن کرنکلتے ہیں۔ہم کیسے ان کوروکنے کے لیے اقدامات کرسکتے ہیں؟
امیر تنظیم اسلامی:عجیب معاملہ ہے ۔ بڑی بڑی کمپنیزکے بڑے بڑے آفیشلزہفتے کے دن شارٹس پہن کرباہرگھوم رہے ہوتے ہیں اور شاپنگ بھی کررہے ہوتے ہیں ان کے اس خلاف شریعت عمل پرکسی کو کوئی پریشانی نہیں لیکن جوبندہ سنت رسول ؐ کی پیروی میں صرف ٹخنے کھولے رکھے اس پرلوگوں کو پریشانی ہو جاتی ہے ۔ اندازہ کیاجاسکتاہے کہ معاشرے میں کیسی سوچ پروان چڑھ رہی ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی عظمت، اللہ کی محبت کاعنصراور رسول اللہﷺ سے محبت اور آپﷺ کی عظمت کا عنصر اگر دل میں ہوتو پھر شریعت کا ہر حکم انسان بجا لائے گا ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اس پہلو کے حوالے سے ہمارے ہاں کمی ہے ۔ یہ پہلو اگر ہم پہلے اُجاگر کرسکیںتوپھر اللہ اور رسولﷺ کی بات ماننے میں مشکل نہیںہوگی ۔ یقینا ً قرآن پاک میں اعمال کا تقاضا ہے مگر ایمان کامعاملہ پہلے ہے ۔ اماں عائشہ k فرماتی ہیںکہ اول اول اللہ تعالیٰ نے مکی سورتیںنازل فرمائیں جن میں ایمانیات ،جنت ، جہنم اور آخرت کابیا ن ہے اور کچھ اخلاقی ہدایات بھی ہیں۔اگر اللہ تعالیٰ نے اول اول شراب اور سود کی حرمت اور دیگر احکامات دیے ہوتے تو لوگوں کوعمل پیرا ہونے میںکافی مشکلات ہوئیں۔گویااسلام میں پہلے ایمان کو اجاگر کرنے میں محنت ہوئی اور اس کے بعد اعمال کے تقاضے آئے ۔ چنانچہ پھرلوگ خود پوچھ رہے ہیں :
{یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِط} (البقرہ:219)
{وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْیَتٰمٰی ط}(البقرہ:220)
یعنی سوال کب ہوئے جب ایمان کی آبیاری ہوچکی تھی ۔ بہرحال جب معرفت رب اور ایمان کی آبیاری ہوگی توپھر چاہے ستر وپردہ یادیگر احکامات ہوںان پر عمل کرنے میں پیش قدمی ہوگی ۔ ان شاء اللہ!
سوال:عربوں کو سب چیزیں معلوم ہیں کیونکہ وہ عربی جانتے ہیں اور قرآن عربی میں نازل ہوا۔لیکن پھربھی وہ اسلام ،شریعت اور خلافت کے نظام کوکیوں نہیں اپناتے؟
امیر تنظیم اسلامی: بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرارا حمدؒ فرمایاکرتے تھے کہ اگر ہم اس دور میں مجرمین کی لسٹ بنائیں توبہرحال مجرم نمبرایک عرب ہیں ،جن کے ہاں قرآن حکیم موجودہے اور ان میں سے کئی اس کے جاننے والے ہیں مگرانہوں نے اس کونافذ نہیں کیا۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ مجرم نمبر دو ہم پاکستانی ہیں کہ جنہوں نے اسلام کے نام پر ملک کو حاصل کیالیکن اس کو نافذ نہیں کیا۔ اگر ہم سوال عربوں کے بارے میںکررہے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ان کو عربی آتی ہے لیکن جوعجمی ہیں، اردو بولنے والے ہیںان کو اردو میں بھی توقرآن پاک کی basicsسمجھ میں آتی ہیں اوریہ دعویٰ بھی ہم کرتے ہیں کہ ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر لیا ہے ۔ یہ دعویٰ کسی عرب ملک نے بھی نہیں کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ جس طرح ہم دنیا کی محبت میں ڈوب کر قرآن حکیم اور دین کو پس پشت ڈال رہے ہیںعین ممکن ہے اسی حب دنیا کی وجہ سے کتاب الٰہی اور دین کی تعلیمات کوعرب میں پس پشت ڈالاجارہا ہو۔وہاں بادشاہت ہے ۔جوحکمرانی پرفائز ہو چکا ہو عین ممکن ہے کہ وہ دنیا کی محبت میں ڈوب کراللہ کے احکامات کو پس پشت ڈالے۔ جن کے پاس حکمرانی ہے ان کامعاملہ زیادہ سخت ہوجاتاہے کیونکہ حدیث کے مطابق: ((الناس علیٰ الدین ملوک)) ’’لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پرہوا کرتے ہیں ۔ ‘‘
بہرحال ہرایک اپنی محنت کاذمہ دارہے، وہ محنت کرلے تاکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جوابدہی آسان ہوجائے ورنہ یہ تبصرے آسان توہیں لیکن ان پرعمل کرنازیادہ اہم ہے۔ہمیں چاہیے کہ حکمرانوںکے لیے دعا کریں جوہرایک کر سکتا ہے ۔حدیث مبارکہ میں ہے کہ بندوں کے دل اللہ کی دوانگلیوںکے درمیان ہوتے ہیں۔ اللہ جب چاہے انہیں پھیر دے۔ اللہ کے رسولﷺ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ !عمرو بن ہشام یاعمربن خطاب میں سے کسی ایک کو میری جھولی میں ڈال دے ۔ لیکن آپﷺ صرف دعا نہیں کرتے تھے بلکہ آپ ﷺ نے ابوجہل کے دروازے پر جاکردعوت بھی دی ہے ۔ ہمارے لیے جتناکرناممکن ہے وہ توہم کریں ۔
سوال: میں تنظیم اسلامی میں شامل ہوناچاہتاہوں لیکن میرے والدین کامؤقف ہے کہ دین کاکام دوسرے درجے کاہے اور مولویوں کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہیںہے اورتنظیم اسلامی والے توانتہاپسند مولوی ہیں۔ یعنی وہ سب کوعلماء سوء سمجھتے ہیں۔ایسی صورت حال میں، میں کیاکروں؟
امیر تنظیم اسلامی:پہلی بات یہ ہے کہ علماء دوقسم کے ہیں۔ ایک علماء حق ہیں جن سے اللہ کی زمین کبھی خالی نہیں رہے گی چاہے وہ تعداد میں کم ہوں۔ دوسرے علماء سوء ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ علماء سوء کے شر سے اللہ ہمیں اورامت کومحفوظ رکھے اور ہمیں علماء حق کی قدر کرنے اور ان سے جڑے رہنے کی توفیق دے ۔اس وقت امت کے زوال کادور ہے اور یہ زوال ہرطبقے میں ہے لہٰذا دینی طبقات میں بھی زوال پایاجائے گا۔ اس میں دورائے نہیںہوسکتیں۔ بعض مرتبہ کچھ لوگوں کے ایسے تجربات ہو جاتے ہیں ۔ یعنی ان کامشاہدہ درست ہوتا ہے لیکن سامنے والے کاطرزعمل غلط ہوتاہے ۔ اس مشاہدے اورتجربے کی بنیادپر وہ اس ایک مثال کو across the board applyکردیتے ہیں کہ یہ مولوی توہوتے ہی ایسے ہیں۔ اگر کسی کے والدین یابزرگ خدانخواستہ اس طرح کی کیفیت میںہیںاوران کابیٹایابھائی تنظیم اسلامی میں شامل ہونا چاہتاہے توہم اس کو مشورہ دیتے ہیں کہ تم تنظیم میں شامل نہ ہو لیکن نماز،دروس میں شرکت اور دوسرے تنظیمی امور میں شریک ہوجایا کروجہاں تک ممکن ہو۔ یہاں تک کہ پھر آپ کاکردار او رعمل ان کو اس بات پرآمادہ کرے کہ ہمارا بیٹا غلط جگہ نہیں جارہا۔ پھر ساتھ ساتھ تنظیم کے سینئر حضرات کی اپنے والدین سے ملاقات کااہتمام کروائیں تاکہ ان کواطمینان ہوکہ صحیح لوگ ہیں۔ کوئی ان کی دنیوی منفعت نہیں ہے،کوئی گدیوں کامسئلہ نہیں ہے یامال کمانے کا مسئلہ نہیںہے ۔ جب والدین بالکل مطمئن ہوجائیں توپھر باقاعدہ تنظیم میں شمولیت اختیار کرو۔ اس وقت اگروہ آپ کو شامل نہیںہونے دے رہے توہم بھی آپ پرزبردستی نہیں کریںگے۔ آپ ان کی فرمانبرداری کرواور کردار سے ثابت کروکہ میں صحیح سمت میں جارہا ہوں ۔ یہ اطمینان آپ ان کو دو گے تووہ نہ صرف آپ کو شامل ہونے دیں گے بلکہ ہوسکتاہے خود بھی شامل ہوجائیں۔ہمارے ہاںاس طرح کے کیسز پہلے بھی آئے ہیں لیکن ان کے سامنے یہی عملی تجربات اپنانے کامشورہ دیااور الحمدللہ کامیابی ملی ہے ۔اس کے علاوہ بھی بعض ایسے حضرات ہیں جو شادی شدہ ہیں ،ان کے بھی مسائل ہوتے ہیں۔ آخر مرد قوام ہیں وہ شامل ہوجاتے ہیں لیکن ہم ان کو بھی مشورہ دیتے ہیں کہ فیملی کوآن بورڈ لیں۔ان کی جائز حاجات پوری کریں ،ان کووقت دیں اور پھران کا بھی اطمینا ن ہوکہ ہمارا بندہ غلط لوگوں کے ساتھ نہیں ہے ۔ فیملیز کے لیے بھی انٹریکشن ہوسکتی ہے، ہمارے دروس قرآن میں علیحدہ انتظام ہوتا ہےوہاں خواتین کولایا جاسکتا ہے ۔ اگر اس طرح فیملیز کوآن بورڈ لیاجائے گاتوپھربندہ بہت عمدہ دلجمعی سے کام کرسکے گا۔
سوال:آج کل کسی کے صحیح یاغلط ہونے کامعیار پہچاننا مشکل ہوگیاہے ۔ ڈاکٹر اسراراحمد ؒ فرماتے تھے کہ دین کے لیے کون کتنامخلص ہے تم دیکھو اس کااختتام کیسا ہے ،یاوہ کتناامیر ہے۔ موجودہ دورمیں کسی عالم کوصحیح یاغلط سمجھنے کاکیامعیار ہوناچا ہیے ؟
امیر تنظیم اسلامی:جہاں تک اس بات کاتعلق ہے کہ کسی کے اختتام کودیکھاجائے کہ وہ کتناامیر ہے ۔ اس میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے فرمانے کایہ مطلب نہیںتھا۔ ہوسکتاہے کہ ایک شخص کواپنے والدین کی وراثت میں اتناپیسہ ملاہوکہ اس کاکاروبار چلتا رہااور اس کی سورس آف انکم چلتی رہی اوراس کے پاس مال موجود ہے ۔ الحمدللہ وہ زکوٰۃ بھی ادا کررہا ہوگااور راہ خدا میں بھی خرچ کررہا ہوگااور ایک مناسب حال زندگی بھی گزار رہا ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک بندے کو اللہ نے صلاحیت دی ہے اوراس نے کوئی کاروبار کیاہے یاوہ پروفیشنل اعتبار سے بڑا ماہر تھااور ترقی کر گیا ۔ غالباً ہمارے ان بھائی کے ذہن میں سورۃالتوبہ کی آیت:34،35 کے درس کے حوالے سے بات ہوگی ۔ قرآن کے اس مقام کی روشنی میں ڈاکٹر صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ایک شخص کودینی اعتبار سے اللہ نے ایک مقام دیا،اب وہ اپنی اس دینی پوزیشن کو بنیاد بنا کر کمائی کررہاہے تو یہ واقعی غلط ہے ۔ البتہ اگر کوئی دینی شخصیت اپنے پیشے ،وراثت کے مال یاحلال کاروبار کی وجہ سے امیر ہو گیا تو وہ الگ شے ہے ۔ پھریہ کیسے معلوم کریں کہ کون حق پرہے اور کون باطل پرہے۔ ڈاکٹر صاحب اس ضمن میں ایک حدیث بیان کیا کرتے تھے کہ آپﷺ نے فرمایا:مومن وہ ہے جسے دیکھ کراللہ تعالیٰ یاد آئے۔ لہٰذا جس کے معاملات اور کردار کو دیکھ کرتمہیں اللہ تعالیٰ یاد آتا ہو،جس کے پاس بیٹھ کرتمہیں آخرت کی فکر پید اہو،دنیا سے بے رغبتی تمہارے اندر پیدا ہو تووہ بندہ صاحب حق ہو گا۔ ان شاء اللہ!باقی رہا ایک دوسرے پر الزام لگانا ، ہر ایک یہی کہتا ہے کہ میں صحیح ہوں دوسرا غلط ہے ۔ اس کا حل وہی ہے جومفتی تقی عثمانی صاحب نے بتایاہے ۔ ان سے سوال کیاگیا کہ کون حق پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کم سے کم اتنے پر توآجائوکہ جوسب کے نزدیک متفق علیہ ہے، اس پر عمل پیرا ہو جاؤ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے مکاتب فکر میں اتفاقی معاملات زیادہ ہیںاور اختلافی کم ہیں لیکن بدقسمتی سے لڑانے اور بحث ومباحثے والی باتیں زیادہ ہائی لائٹ ہوجاتی ہیں ۔ تمام مکاتب فکر کے ہاں جھوٹ بولنا،غیبت کرنا،سود کھانا، فلمیں ناچ گانادیکھنا وغیرہ متفق علیہ منکرات ہیں۔ جو چیزیں متفق علیہ ہیں ان پر عمل درآمد شروع کر دیں تو میرا گمان ہے کہ پھرتھوڑے بہت اختلافی معاملات پربحث ومباحثے کاوقت عام آدمی کے پاس نہیں بچے گا۔ قرآن مجید اہل کتاب سے کہتاہے :
{ تَـعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍم بَیْنَنَا وَبَیْنَـکُمْ}(آل عمران:64) ’’ آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان بالکل برابر ہے‘‘
یہ نصاریٰ سے بات ہورہی ہے جوعیسیٰ d کوخدا،خدا کابیٹا مانتے ہیں جوبہت بڑا شر ک ہے ۔ اورہم آپؑ کو اللہ کا بندہ اور اللہ کارسول مانتے ہیں ۔ وہ انجیل کومانتے ہیں جس میں تحریف ہوگئی،قرآن پاک کونہیںمانتے ، نبی اکرم ﷺ کونہیںمانتے ۔ لیکن اللہ فرماتاہے :
{ اَ لَّا نَعْبُدَ اِلَّااللّٰہَ} ’’کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں‘‘
کم زکم اس بات پرتوآئو کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیںکریںگے۔ نصاریٰ سے ہمارے اختلافات زیادہ اور اتفاقات کم ہیں،وہاں قرآن کہتاہے کہ اتفاق کو ہائی لائٹ کرو ۔اسی طرح جہاں اتفاقات زیادہ اور اختلافات کم ہیںوہاںہم اتفاقات کوفوکس کرکے عمل کے میدان میں آگے نہیںبڑھ سکتے؟بہرحال اگر کسی کوپھربھی کنفیوژن ہے تووہ اللہ تعالیٰ سے مانگے ۔ اھدناالصراط المستقیم کی دعا جنت میں داخلے کے لیے ہے ۔ کیااللہ تعالیٰ صدق دل سے مانگنے والے بندے کی کنفیوژن دور کرکے اس کو صحیح راہ نہیں دکھاسکتا؟ اللہ تعالیٰ قادر ہے وہ ضرور دکھائے گا۔
سوال:اسلامی لحاظ سے بچوں کی پرورش کیسے کی جائے ؟
امیر تنظیم اسلامی:رسول اللہ ﷺ کی مشہور حدیث ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:ہربچہ فطرت( اسلام) پرپیدا ہوتا ہے ، اس کے ماں باپ اس کو یہودی ،نصرانی اور مجوسی (مشرک) بناتے ہیں۔ بچے کا پہلا مدرسہ، سکول، ٹرینر، مینٹورس اس کے والدین ہیں۔ ماں کاکردار بہت بڑا ہے لیکن باپ کارول بھی کم نہیں ہے ۔ اگر ہم والدین اپنے آپ کو سیدھارکھیں گے توہماری اولاد بھی سیدھی رہے گی ۔ ان شاء اللہ !موجودہ دور میں ہرشے آئوٹ آف سورس ہو گئی ہے۔ ایک سال کے بچے کے لیے بھی ڈے کیئراور بے بی سنٹر دستیاب ہے۔ یعنی جس بچے کو ماں کی ممتا نہیں مل رہی ، ماں کا لمس اس کے وجود کو نہیں مل رہا تو اس بچے کو کہاں سے شفقت ملے گی اور اس کا کردار اور اخلاق کیسے بنے گا ؟پھرہم اپنے بچوں کو اداروں میں ڈالتے ہیں۔ یقینا ًادارے مددگار ہوسکتے ہیں لیکن بچے کی فطری تربیت میں جو کردار والدین ادا کر سکتے ہیں وہ کوئی ادارہ نہیں کر سکتا۔ یہ بھی کہاجاتاکہ بچے بڑے ہوگئے ہیں کیاکریں۔ حضرت یعقوب ؑ دنیا سے جارہے تھے ، وہ اپنے بیٹوں اور پوتوں سے پوچھتے ہیں :
{مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ م بَعْدِیْ ط}(البقرہ:133)
’’ تم کس کی عبادت کرو گے میرے بعد؟‘‘
دنیا سے جاتے وقت بھی یعقوب ؑ اپنے بیٹوں کونصیحت فرمارہے ہیں ۔ یعنی بچوں کی تربیت لائف ٹائم چلتی رہے ۔ والدین خود باعمل ہوں گے توان کے بچے بھی باعمل بنیں گے ۔ شریعت میں نمازکی بہت تاکید ہے ۔باپ کوکہاگیا ہے کہ فرض نماز مسجد میں ادا کرے لیکن سنت ونوافل گھرمیںادا کرے۔ جب وہ یہ عمل کرے گا توبچے خود بخود کاپی کریں گے ۔ پھروالدین اللہ سے دعا بھی کریں ۔
{رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ}(الفرقان:74) ’’ اے ہمارے پروردگار! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطافرما۔‘‘
ہمارے ہاں تنظیم اسلامی میںنظم کے تحت اسرہ کانظام ہے جس میں ہفتہ وار سب لوگ بیٹھیں ،قرآن اور حدیث کا درس ہو،سیرت کابیان ہو،کچھ لٹریچر کامطالعہ ہواور کچھ حالات حاضرہ پربھی تھوڑا بہت کلام ہوجائے۔ایسے ہی تنظیم یہ چاہتی ہے کہ رفقاء اپنے گھروں میں پورے خاندان کولے کربیٹھیں اور ایک گھرکااسرہ قائم ہوتا ہے۔ پھر خواتین کے حلقے کے لیے کچھ کتابوں کاایک پیکیج ہے۔ اس سے بھی فائدہ ہوتاہے۔ وہ میںبھی اپنے بچوں کے لیے استعمال کرتاہوں۔ یعنی اپنے گھر کے اندر تعلیم وتربیت کاسیٹ اپ بنائیں۔پھرجب بچے بڑے ہورہے ہیں تو باپ مسجد میںساتھ لے کرجائے۔اسی طرح دینی اجتماعات میں ہمارے بچوںاورخواتین کی شمولیت ہونی چاہیے۔ یہ ایک سپورٹیو رول ہوجائے گا۔ لیکن بنیادی طور پر والدین کو خود صراط مستقیم پر گامزن ہونا پڑے گا ۔
سوال:امیرتنظیم اسلامی کے تمام اوقات تنظیمی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں صرف ہوتے ہیں۔تنظیم اسلامی میں امیر کے حصول معاش کاذریعہ کیاہوتاہے ؟
امیر تنظیم اسلامی:تنظیم اسلامی میں امیر کاٹائٹل امیرتنظیم اسلامی کے ساتھ ساتھ دوسرے ذمہ داران (امیرحلقہ، مقامی تنظیم کے امیر) کے لیے بھی استعمال ہوتاہے ۔ پھراس سے نیچے بھی ذمہ داریاں ہیں ۔ بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے دور سے ہم نے باہمی مشاورت سے یہ طے کیاہوا ہے کہ تنظیم کے ذمہ داران بامعاوضہ نہیںہوں گے البتہ ان کو ٹرانسپورٹ یارہائش کی سہولت تنظیم حسب ضرورت مہیاکرے گی ۔ البتہ تنظیم کے دفاتر میں جولوگ کا م کررہے ہیں (فل ٹائم یاپارٹ ٹائم )ان کومشاہرہ دیاجاتاہے ۔اللہ رب العالمین کایہ احسان ہے کہ جولوگ بھی ان ذمہ داریوںپررہے ہیں یااس وقت ہیں ان کے پاس کوئی متبادل ذریعہ معاش موجود ہے ۔یہ ان کے لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سہولت کامعاملہ فرمایا ہے ۔کچھ استثنائی صورتوں میں کچھ لوگوں کو تنظیم کی طرف سے مشاہرے کی معاونت کی گئی۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے جس سادگی اور قناعت پر زندگی بسر کی ہے ہمارے لیے انہوں نے ایک بڑااچھا رول ماڈل چھوڑا ہے ۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے ۔
سوال: تنظیم اسلامی اپناآخری اقدام کب کرے گی ؟
امیر تنظیم اسلامی:ڈاکٹر اسرارا حمدؒ نے فرمایا تھاکہ اگر کم وبیش دولاکھ افراد ہوںجواپنی ذات پر ممکنہ حد تک دین پرعمل پیر ا ہوںاور سمع وطاعت کے خوگر ہوںتوپھرہم کسی آخری اقدام کی بات کریں گے ۔ سابق امیرحافظ عاکف سعید نے ترغیب کے لیے کہاتھاکہ تم کم سے کم پچاس ہزار تو ایسے آجائوتوشاید ہم اقدام کے بارے میں سوچیں۔بہرحال اقدام اپنے وقت پرہوگا کب ہوگا اللہ بہتر جانتاہے۔ لیکن وہ اللہ کے فضل اور توفیق سے ہو گا اور باہمی مشاورت سے ہوگا۔ سردست ابھی بہت محنت کرنی ہے جوہم کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس میں آسانی فرمائے ۔ آمین !