(اداریہ) بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں - ایوب بیگ مرزا

7 /

اداریہ

ایوب بیگ مرزا

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاںاکبرــؔ    زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا

سیاسی اور معاشی محاذ پر عالم اسلام نہ صرف مغرب سے شکست کھا چکا ہے بلکہ شرم ناک بات یہ ہے کہ اس شکست کا فخریہ اعلان بھی کرتا ہے۔ ہم مغربی جمہوریت کو آئیڈیل طرز حکومت تسلیم کر چکے ہیں۔ اپنے حریف کو چاہے وہ فرد ہو، جماعت یا حکومت اُسے غیر جمہوری ہونے کا طعنہ نفرت انگیز انداز میں دیتے ہیں، گویا مغربی جمہوریت کے گُن گانا ’’آرڈر آف دی ڈے‘‘ ہے۔ اسی طرح معاشی سطح پر ہم مغرب کے اُس سرمایہ دارانہ نظام کے بُری طرح اسیر ہو چکے ہیں جس کی بنیاد ،مرکز اور محور سو دی لین دین ہے۔ کوئی ایک اسلامی ملک بھی ایسا نہیں ہے جس کی معیشت میں سود کا مرکزی رول نہ ہو۔ وہی سود جسے قرآن پاک میں ربا کہا گیا ہے اور اللہ اور رسول ﷺ کے خلاف جنگ قرار دیا ہے۔ سودی معیشت کے حوالے سے ایک بات بہت اہم ہے کہ یورپ نے تجربے سے یہ جان لیا کہ سود ملک یا قوم کے لیے ضرر رساں ہے۔ لہٰذا اُنہوں نے سود کی شرح میں بتدریج کمی کرنا شروع کر دی۔ یہاں تک کہ بعض ممالک میں یہ صفر کے لیول پر بھی آگئی، لیکن وہ سود کو کھلے عام غلط یا نقصان دہ قرار نہیں دیتے۔ کیونکہ اوّل تو اس سے سرمایہ دارانہ نظام جو عالمی سامراجیت کا اہم ترین سہارا ہے، اُس کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے گی اور شاید ختم ہی ہو جائے۔ پھر یہ کہ اسلام جو آج امریکہ اور مغرب کا اوّلین اور حقیقی ٹارگٹ ہے اُس کی حقانیت ثابت ہو جائے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ سیاسی اور معاشی سطح پر امریکہ اور مغرب جنگ جیت چکے ہیں اور ہم اپنی شکست تسلیم کر چکے ہیں۔ البتہ اجتماعی زندگی کے تیسرے گوشے معاشرتی نظام کے حوالے سے جنگ ابھی جاری ہے۔ اگرچہ اس میدان میں بھی ہماری اوّلین صفیں مغرب تہس نہس کر چکا ہے۔ اصل صورتِ حال یہ ہے کہ پسپائی کے ساتھ ساتھ ہم کچھ نہ کچھ مزاحمت بھی کر رہے ہیں، لیکن دشمن کے حملے دن بدن بڑھ بھی رہے ہیں اور جارحیت میں شدت بھی آ رہی ہے۔ عجب اور حیران کن بات یہ ہے کہ جب ہندوستان میں انگریز حکمران تھا اور ہم باقاعدہ غلام تھے۔ اُس وقت ہم پر مغرب کی تہذیب کا اتنا تسلط نہیں تھا جتنا آج ہے جبکہ ہم آزاد قوم ہونے کے دعوے دار ہیں۔ وہ کیا وقت تھا کہ جب اکبر الہ آبادی کو چند بیبیاں بے پردہ نظر آگئی تھیں اور وہ غیرت قومی سے زمیں میں گڑ گئے تھے اور آج مغرب کی نقالی میں ہماری معاشرت زمین میں گڑ چکی ہے۔
غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر کیوں قرآن پاک میں ایک حقیقی اسلامی معاشرہ کا نقشہ پیش کرتے ہوئے اجتماعی زندگی کے سیاسی اور معاشی گوشوں کا صرف ایک خاکہ بنا کر دیا گیا یعنی ایک سمت کا تعین کر دیا، تفصیلات سے گریز کیا مثلاً سیاسیات کے حوالے سے اسی پر اکتفا کیا کہ حقیقی مالک اور حکمران صرف اللہ رب العزت ہے، انبیاء اور رسل دنیا میں اُس کے نمائندے ہیں اُن کے احکامات یعنی شریعت کے دائرے میں حکمران کو محض نیابت کرنا اور مشاورت کے ساتھ حق خلافت ادا کرنا ہے۔ معاشی میدان میں دو بنیادی اصول وضع کر دیئے۔ وہ یہ کہ سود حرام اور تجارت حلال ہے پھر تجارت کو بھی حلال و حرام میں تقسیم کر کے اصلاً ارتکاز دولت کے تمام چور دروازے بند کر دیئے۔ البتہ اسلامی معاشرت کو خوب تفصیل سے اور کھول کھول کر بیان کیا۔ حیا کو مسلمان کا بنیادی وصف قرار دیا۔ محرم و غیر محرم کی وضاحت کی۔ عورت کو پردے کا حکم دیا جبکہ مرد اور عورت دونوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا۔ مخلوط محفلوں سے اجتناب کرنے کا کہا گیا۔ مرد اور عورت کے بلاضرورت اختلاط سے روکا گیا۔ کیونکہ جنسی خواہش کی تکمیل فطری امر ہے لہٰذا قواعد و ضوابط کا پابند کیا۔ پردہ اور حجاب ان ہی قواعد کا حصہ ہے اور کون نہیں جانتا کہ بے پردگی بے حیائی کی طرف پہلا قدم ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کہ فرد جو معاشرے کی بنیادی اکائی ہے اور گھرانہ جو تعلیم و تربیت کا ابتدائی ادارہ ہے اُس کی اُٹھان صحیح اور صالح بنیادوں پر ہو تاکہ فرد جو ملت کے مقدر کا ستارہ ہے اُس کی چمک دمک ماحول کو اس قدر روشن کر دے کہ اُس سے اللہ کی مخلوق کو صراطِ مستقیم صاف نظر آئے۔
یاد رہے معاشرہ، حکومت اور ریاست افراد کے ہی مجموعے کا نام ہے۔ اگرچہ اچھے میٹریل سے تعمیر شدہ عمارت بھی مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ اُس کی پائیداری دنیا تک محدود ہے جبکہ اچھے بلکہ صالح انسانوں سے تشکیل شدہ معاشرہ دنیا ہی میں نہیں بلکہ آخرت میں بھی خوبصورت و خوشنما نتائج برآمد کرے گا جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ دشمنانِ اسلام کو چونکہ صرف دنیا سے تعلق ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو معاشرتی سطح پر نیست و نابود نہ کیا گیا یعنی اُنہیں اسلام سے مکمل طور پر دور نہ کیا گیا تو اُن کے معاشرے میں رہی سہی یہ چنگاری کسی وقت شعلہ جوالہ بن سکتی ہے جو مغرب کے اُس مصنوعی چمن کو خاکستر کر دے گی جو اُنہوں نے دجل کی بنیاد پر مہکایا ہوا ہے۔ لہٰذا اب اسلامی معاشرت پر مغرب کے حملے میں بڑی تیزی اور شدت آگئی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران اپنے اقتدار اور دولت کی خاطر اُن کے آلہ کار بن چکے ہیں اور اُن کی فرمائش یا حکم پر اسلامی ممالک میں ایسے قوانین بنائے جا رہے ہیں جو معاشرے کو بے حیائی اور غلط کاریوں کی طرف دھکیل دیں گے۔
2018ء میں ملکی قانون کا درجہ حاصل کرنے والا ٹرانس جینڈر افراد (حقوق کے تحفظ) کا ایکٹ اس کی برہنہ مثال ہے۔ 2018ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے آخری دنوں میں ’’خواجہ سرا‘‘ کے حقوق کی آڑ میں پیپلز پارٹی نے ایک بل پیش کیا۔ مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور تمام لبرل پارٹیوں نے اپنے تمام سیاسی اختلافات بھلا کر اس بل کی حمایت کی ۔ 18 مئی 2018ء کو صدر ممنون حسین نے قانون پر دستخط کر دیے اور 24 مئی 2018ء کو یہ مملکت خدادادِ پاکستان کے Official Gazette میں شائع کر دیا گیا۔ بل پیش کرنے والوں نے خواجہ سراؤں کے حقوق کا سہارا لے کر ایسی چابکدستی اور عیاری سے اس قانون کا مسودہ تیار کیا کہ اس میں ہم جنس پرستوں کے لیے قانونی تحفظ کا ایک چور دروازہ رکھ دیا گیا۔ اس طرح ہم جنس پرستی کو باقاعدہ قانونی تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے۔ یہ ایکٹ نہ صرف کئی اسلامی اصولوں کے خلاف ہے اور آئین پاکستان کی اسلامی دفعات کی کھلی خلاف ورزی پر مبنی ہے بلکہ اس سے ہم جنس پرستی جیسے کبیرہ گناہ کا راستہ اس طرح کھل جائے گا کہ اس کا سدباب بہت مشکل ہو جائے گا۔
قانون میں کئی بنیادی سقم ہیں۔ پہلی خامی یہ ہے کہ ٹرانس جینڈر کی تعریف (جس کے لیے درست لفظ انٹرسیکس ہے) میں بائیولوجیکل ساخت کے اعتبار سے مکمل مرد اور عورت کو بھی محض اپنے احساسات کی بنا پر ٹرانس جینڈر قراردیا گیا۔ دوسرا ان افراد کو یہ حق دیا گیا کہ وہ چاہیں تو مکمل مرد یا عورت ہونے کے باوجود اپنی جنس اپنی مرضی سے، اپنے شناختی کاغذات میں اپنے احساسات کے مطابق تبدیل کر سکتے ہیں اور Nadra یہ تبدیلی کرنے کا قانونی طور پر پابند ہوگا اور اس کے لیے اس قانون میں Self Perceived Gender Identity کی اصطلاح ڈالی گئی ہے۔ قانون میں لفظ ٹرانس جینڈر استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے لیے درست لفظ ’’ٹرانس جینڈر‘‘ نہیں بلکہ ’’انٹر سیکس‘‘ ہے۔ جسے عربی میںخُنثیٰ اور فارسی میں دو جنسہ ہے۔
بہرحال ٹرانس جینڈر کی تین تعریفیں کی گئی ہیں۔ پہلی تعریف یہ ہے کہ وہ شخص ٹرانس جینڈر ہے جس کے اعضاء میں پیدائشی صنفی ابہام(Sexual ambiguity) ہے۔ لیکن اس کے لیے درست لفظ ’’انٹرسیکس‘‘ ہے اور درحقیقت اگر یہ قانون انٹرسیکس کے تحفظ کے لیے ہوتا تو بات مختلف ہوتی۔ کیونکہ اس میں شک نہیں کہ انٹرسیکس افراد حقیقی طور پر ایک پسا ہوا طبقہ ہیں اور اُن کے تحفظ بلکہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے عزت افزائی ریاست اور اُس کے باشندوں کا فرض ہے۔ دوسری تعریف کے مطابق وہ شخص جو مکمل مرد ہے وہ کسی وجہ سے مثلاً دوایا ایکسیڈنٹ کی وجہ سے مردانہ صلاحیت سے محروم ہو جائے، وہ بھی اس ایکٹ کے مطابق ٹرانس جینڈر ہے حالانکہ وہ مکمل مرد ہے۔ اس کے احساسات، جذبات، اس کی بائیولوجیکل ساخت مردوں کی ہے صرف اس کی مردانہ قوت زائل ہونے سے اس کی جنس ہرگز تبدیل نہیں ہوسکتی۔ تیسری تعریف جو فساد کی اصل جڑ ہے اُس کے مطابق ایسے افراد جو پیدائشی طور پر جسمانی اور ہارمونز بلکہ ڈی این اے کے اعتبار سے مکمل عورت یا مرد کی جنس کے ساتھ پیدا ہوئے مگر بڑے ہو کر کسی نفسیاتی الجھن یا پیچیدگی، معاشرتی دباؤ، ٹرینڈ، ذاتی پسند نا پسند کی بنیاد پر اپنی جنس سے ناخوش ہیں۔ اس ناخوشی یا نفسیاتی بیماری کو "Gender dysphoria" کہا جاتا ہے۔ ایسے افراد کو بھی ایکٹ میں ٹرانس جینڈر کہا گیا۔ حالانکہ بائیولوجیکل ساخت کے اعتبار سے وہ ایک مکمل مرد یا عورت ہے۔ گویا ’’جنس‘‘ جیسی واضح بنیاد کی بجائے ’’صنف‘‘ جیسی subjective شے کو معیار کے طور پر استعمال کیا گیا اور مغربی معاشرتی نظام کی یلغار کا راستہ کھول دیا گیا۔ سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس سے ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ حاصل ہو جائے گا۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ایک مرد جس میں کسی بھی قسم کی کوئی صنفی خرابی نہیں ہے یہاں تک کہ وہ شادی شدہ اور صاحب اولاد ہے مگر اس کی خواہش / میلان طبع(Inclination and self-percived gender identity / expression)یہ ہے کہ وہ ایک عورت کی طرح پہچانا جائے تو وہ بغیر کسی میڈیکل ٹیسٹ / سرٹیفکیٹ کے اس ایکٹ کی شق نمبر 3 اور سب شق نمبر 2 کے تحت نہ صرف نادرا بلکہ کسی بھی حکومتی ادارے میں خود بحیثیت عورت رجسٹر کروا سکتا ہے یا چاہے تو ٹرانس جینڈر بھی رجسٹر کروا سکتا ہے اور یہی حق ایک عورت کو بھی حاصل ہے۔ اس کے نتیجہ میں وہ کسی دوسرے مرد سے شادی بھی کر سکتا ہے۔ عورتوں کے لیے مختص تمام جگہوں، ٹائلٹ، سوئمنگ پول جا سکتا ہے، عورتوں کے تمام قوانین اس پر لاگو ہوں گے۔ ایک عورت جو پیدائشی طور پر عورت ہے، مرد رجسٹر ہو کر وراثت میں اپنا حصہ دگنا کروا سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں خاندانی نظام میں جو تباہی آئے گی وہ ناقابل بیان ہے نیز ہم جنس پرستی کا طوفان پورے معاشرے کو گھیر لے گا۔ نعوذ باللہ من ذٰلک۔
افسوس کہ جس مظلوم صنف یعنی حقیقی مخنث (intersex) کے لیے یہ قانون بنایا گیا ہے اور جن کی تعداد بہت ہی کم ہوتی ہے، ان کو اس سے کچھ فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ بلکہ جعلی مرد و عورت قانونی طور پر اپنے آپ کو ٹرانس جینڈر بنا کر اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ کوئی خدشہ یا خیالی بات نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے سینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق میں اس وقت کے وزیر داخلہ سے یہ سوال پوچھا کہ جولائی 2018ء میں قانون منظور ہونے کے بعد سے لے کر جون 2021ء تک کتنے لوگوں نے جنس کی تبدیلی کے لیے درخواست دی؟ وزرات داخلہ سے تحریری طور پر موصول ہونے والا جواب اور اعدادوشمار انتہائی خوفناک ہیں۔ جولائی 2018ء سے لے کر جون 2021ء تک 28,723 افراد نے اپنی میلان طبع اور اندرونی طور پر محسوس کیے گئے احساسات اور جذبات کی بنیاد پر خود کو اپنی اس جنس سے علیحدہ شناخت کے لیے درخواست دی ہے جو انہیں پیدائشی طور پر عطا (Allot) کی گئی تھی اور اب وہ اپنی جنس شناختی کاغذات میں تبدیل کروا چکے ۔ ان میں سب سے زیادہ مرد ہیں، یعنی 16,530 ایسے مرد تھے جنہوں نے اپنے آپ کو عورت رجسٹر کروا لیا۔ اس کے بعد 12,154 ایسی عورتیں ہیں جنہیں پیدائش کے وقت لڑکی بتایا گیا تھا، مگر وہ اب خود کو مرد کہلوانا اور قانونی طور پر مرد بننا پسند کرتی ہیں۔ صرف 9 ایسے مرد ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم دراصل خواجہ سرا ہیں مگر ہمیں غلطی سے مردوں کے کھاتے میں ڈال دیا گیا تھا۔ اس کے بالکل برعکس 21 خواجہ سرا وہ ہیں جو یہ کہتے ہیں ہم تو مکمل طور پر مرد ہیں اور اب ہمیں مرد کہا جائے جبکہ 9 خواجہ سراؤں نے خود کو عورت کہلوانے کے لیے درخواست دی۔ اور اس پورے طریقہ کار میں سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ اس قانون کے تحت کسی میڈیکل معائنے یا ڈاکٹر کی گواہی کی ضرورت نہیں۔ سب سے بڑی گواہی اور سب سے بڑا قانون انسان کے پوشیدہ جذبات و احساسات کی گواہی ہے جو حتمی فیصلہ ہے اس گواہی کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔
یہاں یہ بھی ذکر کرتے چلیں کہ اگر یہ معاملہ دردِ دل رکھنے والے کچھ افراد وفاقی شرعی عدالت میں بھی لے جا چکے ہیں اور مقدمہ زیر سماعت ہے جس میں اس قانون کے دفاع میں جس طرح حکومتی اور LGBTIQ+ کے افراد پیش ہو رہے ہیں وہ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے کہ اصل ایجنڈا کیا ہے۔ پھر یہ کہ قانون بننے سے قبل اور بعد میں اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی ایک اسلامی جماعت کے رکن اسمبلی کی جانب سے تحقیق کے لیے بھجوائے جانے پر اس کی بھرپور مخالفت کی اور اس میں کئی خامیوں کی بھی نشاندہی کی۔ جمہور علماء اس کے اسلامی تعلیمات کے خلاف ہونے پر متفق ہیں۔ مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں نہ اُس وقت رینگی اور نہ آج وہ اس معاملے میں سنجیدہ نظر آتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی گناہ میں مبتلا ہونا بہت برا فعل ہے لیکن اس گناہ پر اصرار اور نڈر اور بے خوف ہو جانا، ایسا بڑا گناہ ہے جس پر اللہ کا عذاب نازل ہو جاتا ہے۔ ہم جنس پرستی بذات خود اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس پر قوموں پر عذاب نازل ہو جاتا ہے لیکن اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے حکومتی سطح پر باقاعدہ قانون سازی کرنا بہت بڑی جسارت ہے۔ وطن عزیز پہلے ہی ایک عذاب اور آزمائش سے گزر رہا ہے۔ خدارا! اللہ کے عذاب کو مزید دعوت نہ دیں۔ اہل پاکستان کا یہ فرض بنتا ہے کہ اس کے خلاف متحد ہو کر عوامی سطح پر آواز اٹھائی جائے۔ مسجدوں میں اس حوالے سے بات ہو۔ علمائے کرام عوام کی ذہن سازی کریں تاکہ یہ سازش کامیاب نہ ہو سکے۔ حکومت میں شامل مذہبی جماعتیں اس غیر شرعی اور اللہ کے عذاب کو دعوت دینے والے قانون کے خلاف عملی اقدامات کریں۔ ہم سب اللہ کے حضور انفرادی اور اجتماعی سطح پر توبہ کریں۔ تمام نئے قوانین قرآن و سنت کے عین مطابق بنائیں اور پہلے سے موجود قوانین میں انہی خطوط میں اصلاح کریں تاکہ دنیا میں بھی کامیاب ہو سکیں اور اُخروی نجات بھی حاصل ہو سکے۔
بے پردہ کل جوآئیں نظر چند بیبیاں
اکبرؔ زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا