(سیرتِ رسولﷺ) رحمت عالم ﷺ کا اسوہ حسنہ - سید حامد

8 /

رحمت عالم ﷺ کا اسوہ حسنہ

سید حامد

 

خالق عالم نے خاتم المرسلین حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کو سب انبیا کرام ؑ سے افضل و برتر قراردیا ہے۔
آپ ؐ کی حیات ِ طیبہ بہترین زندگی کا اعلیٰ نمونہ ہے، جس کا تجربہ انسانیت ابتدائے حیات سے اب تک کرتی آئی ہے۔ یہ زندگی اس انسان کامل کی زندگی ہے، جو دنیائے بشریت میں عبدیت و بندگی کا حقیقی نمونہ ہیں۔ آپﷺ وہ نابغہ ذات ہستی ہیں، جنہیں روئے زمین پر ’’دانائے سبل مولائے کل ختم الرسل‘‘ کے لقب سے نوازاگیا۔
آپﷺ کی زندگی اس قدر پرکشش اور جاذب ہے، جو دوستوں کو اپنی محبت کی بالاترین حد تک پہنچا دیتی ہے۔ یہ وہ نمونہ کامل ہے جسے{ لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنۃ} قراردیا گیا جن کے بارے میںارشاد رب العزت ہے کہ وہ رسول انہیں آیات سناتا ہے، تزکیہ اخلاق کرتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اسی بنا پر حضورﷺ کو راہبر و معلم انسانیت کہا گیا۔ چنانچہ آپﷺ کا فرمان ہے: ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘
ہادیٔ برحق ؐ کو جس زمانے میں مبعوث فرمایا گیا۔ اس کی تصویر کشی اللہ تعالیٰ نے اپنے عظیم پیغمبرؐ کو ایسے زمانے میں مبعوث فرمایا، جب ایک عرصے سے کوئی پیغمبر مبعوث برسالت نہ ہوا تھا نتیجتاً قومیں خوابِ غفلت میں جاپڑی تھیں۔ عملیات کا سلسلہ منقطع ہوچکا تھا، ہر طرف جدل و جدال کی آگ بھڑک رہی تھی اور جہالت و ذلالت کی ظلمتوں نے دنیا کو تاریک کررکھا تھا، فریب کاری دھوکے بازی کی اعلانیہ عالم ِ بشریت پر حکمرانی تھی۔
انسان کے رشد و ہدایت اور عروجِ زندگی کے پتے مرجھا کر جل چکے تھے، بدبختی و بدنصیبی اپنے مکروہ اور بدنما چہرے کے ساتھ حضرت انسان کی حالت پر مسکرا رہی تھی۔ فتنہ و فساد اور بدقسمتی کا حاصل سوائے پریشانی، بربادی و تباہی کے کچھ نہ تھا، خوف و ہراس اور خطرات کے بادل چھائے ہوئے تھے، عوام میں کوئی فرد محفوظ نہیں تھا، حکمرانوں، ظلم و جور اور خون آشام تلواروں کے سامنے کسی قسم کی پناہ گاہ نہیں تھی۔
لوگ بدترین حالت میں زندگی گزار رہے تھے۔ بتوں کی پرستش کا عام رواج تھا کوتاہیوں، برائیوں اور بدعنوانیوں نے لوگوں کے دست و بازو اور فکر و شعور پر تسلط جما رکھا تھا۔‘‘
زور زبردستی اور سیم و زر کی حکومت، عوام کی بے کسی اور بے بسی صرف دنیائے عرب ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں یہی کیفیت تھی۔ ایسے وحشت ناک حالات اور گھٹن کے ماحول میں سرورِ کائناتﷺ کی نجات بخش تبلیغِ رسالت کا آغاز ہوا، جو ((وماارسلنک الا رحمۃ للعالمین)) کے حامل تھے۔ آپؐ مختصر سی مدت میں دنیا کو مادیت اور حیوانیت سے انسانی مدارج کی اعلیٰ منزل اور اخلاقِ کریمہ کی صفاتِ حمیدہ کی طرف لانے میں سرفراز ہوئے۔
آپﷺ نے صراطِ مستقیم اور عدل و انصاف کے قیام اور عدالتِ الٰہی کی جانب راہ نمائی فرمائی آپﷺ کو خاص لطف الٰہی بھی حاصل تھا کہ آپؐ کی صدائے حق کی گونج اس وقت سے اب تک طویل ترین عرصے سے فضائے عالم میں سنائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق و مغرب شمال و جنوب میں اسم’’ محمّد‘‘ انتہائی عزت و کمال شوق اشتیاق سے پکارا جاتا ہے۔ آپ ؐ کے شیدائیوں اور فدائیوں کے دل آپ کے طاہر و مطہر وجود کی طرف ہمہ وقت مبذول رہتے ہیں۔
آج اسلام کا درد رکھنے والے اس جدوجہد میں مصروف ہیں کہ عالم کفر کے مقابلے میں مسلمانان عالم کا ناقابل ِتسخیر متحدہ مسلم محاذ بن جائے کیوںکہ بڑی طاقتوں نے انسانیت کو وحشت و اضطراب کے گرداب میں پھنسا رکھا ہے۔ پوری دنیا ان کے حصار میں ہے، مسلم ریاستوں میں افراتفری انتشار کا شور و غوغا ہے۔
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کیا مگر اسے دہشت گردی کے دوزخ میں جھونک دیا گیا ہے۔ پاکستان کی اساس اسلام ہے جو دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہے۔ اسے غیر مستحکم کرنے کے لیے ابلیس عالم نئے ہتھکنڈے اور ایجنڈے لارہا ہے۔
حضورﷺ نے تو اپنے بے گانوں سے حتیٰ کہ جنگی قیدیوں سے بھی صلہ رحمی کا سلوک فرمایا۔ فتح مکہ کے موقع پر پیغمبر اسلامﷺ نے عفو و فراخ دلی کی انتہا کردی اور تمام کفار کو معاف فرما دیا اور انہیں بھی جو زندگی بھر آپﷺ کی مخالفت اور نقصان پہنچانے کے درپے رہے ان کو بھی معاف فرما دیا۔
آپﷺ ہی کے اخلاق کریمہ اور عفو درگزر کی حکمتِ عملی سے بڑے سے بڑا دشمن آپﷺ سے مرعوب ہوجاتا تھا۔ جانی دشمن اسلام کے پیروکار بنتے گئے، حضورﷺ نے جنگوں میں تشدد اور مُثلہ بنانے سے منع فرمایا، جو دورِ جاہلیت میں روا تھے۔ آپﷺ نے عساکر کو ہدایت فرمائی کہ عورتوں، بوڑھوں، سفیروں اور بچوں کو قتل نہ کیا جائے۔
حدیث ِمبارکہ ہے کہ ’’میری امت کے دو طبقے اصلاح کر لیں تو امت کی اصلاح ہوجائے گی اور اگر یہ دوطبقے فاسد ہوئے تو امت بھی فاسد ہوجائے گی۔ یہ دو طبقے کون سے ہیں ایک علماء اور دوسرے حکمران۔
ایک اور مقام پر فرمانِ رسالتﷺ ہے کہ ’’بہترین لوگ وہ ہیں، جن کے اخلاق اچھے ہوں، جو لوگوں سے محبت کرتے ہوں اور لوگ بھی ان سے دوستی رکھتے ہوں۔
ایک حدیث میں ہے کہ’’ جو جنت کا شوق رکھتا ہے نیکی کے کاموں میں جلدی کرے ۔‘‘(کنزالاعمال)

اللہ تعالیٰ ہمیں پیغمبر اسلامؐ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین یا رب العالمین!