کوئی پرسان نہیں غموں کا…
عامرہ احسان[email protected]
سبھی کو پاکستان کے بگڑتے حالات کی فکر ہے سوائے حکمرانی کی ’میوزیکل چیئرز‘ کھیل کھیلتے کرسی طلب ’قوم کی غم خواری کے دعویداروں‘ کے۔ کرسی کے گرد دھماچوکڑی مچی ہے۔ لانگ مارچ مچانے میں قوم کا پیسہ (سیکورٹی کے لیے) اپریل سے اب تک دونوں ہاتھوں سے لٹانا پڑ رہا ہے۔ اب بھی پی ٹی آئی مارچ کے خدشے سے سندھ سے ایک ہزار پولیس اہلکار روانہ ہوئے ہیں جن کا خرچ وفاق برداشت کرے گا اور بھی نجانے کہاں کہاں سے آتش افروز تقاریر کے ہاتھوں حسب سابق گھر پھونک تماشے کھڑے ہوںگے۔ سو کنٹینر، پولیس، جلسے، جلوس نجانے کتنے پیداواری دنوں سے قوم کو محروم کر کے انتشار اور افراتفری کا طوفان کھڑا کریں گے۔ کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری۔
خان صاحب کی عمر اب پوتے نواسے کھلانے کی آ چکی ہے۔ اسٹیج سے اترکر اولاد کی طرف لوٹیں تو دل گداز ہوگا، نرمی اور رافت، احساسِ ذمہ داری پیدا ہوگا۔ قوم پیچھا چھوڑے، ان کی عام معافی کا اعلان کر دے۔ بنی گالہ رہیں یا برطانیہ، خود بھی قرار سے بیٹھیں ملک میں اٹھتے گردباد بھی تھمیں۔ یہ مرفوع القلم ہونے کو ہیں، کہتے ہیں: ’رکھ کے کیا کرتا، تحفے آخر بیچنے ہی تھے‘۔ ایسی بہکی بہکی کرنے والے سے کیسی باز پرس جبکہ اس کے باوجود وزارت عظمیٰ کا چاند ہی کھیلن کو مانگتے رہیں۔
ورلڈ بینک، آئی ایم ایف (ہمارے غم خوار!) یونیسیف، چین سبھی، ہمیں اور دنیا کو سیلاب یاد دلا رہے ہیں، مگر یہاں کس کو پروا ہے۔ بڑے شہروں اور بڑے لوگوں کے شب وروز دیکھ لیجیے، یوں گویا راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ سیلابی علاقوں میں شدید غذائی قلت، 16لاکھ بچے متاثر، 10 لاکھ افراد صاف پانی سے محروم، ہنگامی امداد کی سفارش! چینی ’ڈیزاسٹر مینجمنٹ ‘ وفدیہ رپورٹ پیش کر رہا ہے۔ ہمیں سیاسی ڈیزاسٹر مینجمنٹ سے فرصت ملے تو سیلابیوں کو دیکھیں۔ آئی ایم ایف کو بے روزگاری بڑھنے کا خدشہ ہے۔ ورلڈ بینک دنیا کو مدد دینے کو ہانک پکار رہا ہے۔ پاکستان کو اصلاحات کرنے کی تلقین کر رہا ہے۔ حکومت ہر طرف سے قرضے معاف، مؤخر کروانے اور بھیک اکٹھی کرنے کی مہم پر ہے۔ نوجوان اتنے فارغ کہاں کہ ملک وملت کا غم کھائیں، ان کے پاس تو تعلیم حاصل کرنے اور ڈھنگ سے پڑھ لکھ لینے کی فرصت نہیں۔ دھواں دھار بیٹنگ بالنگ چوکے چھکے اعصاب شکن کرکٹ مقابلوں نے ہلکان کر رکھا ہے۔ گھروں سے نوجوانوں کی میچ پر فلک شگاف نعروں کی دھواں دھاری ان کی حب الوطنی، ملک وقوم سے محبت کی آئینہ دار ہے، اسی کو کافی سمجھیے! والدین پیٹ کاٹ کر اعلیٰ تعلیم کے لیے نجی اداروں میں بھیجتے ہیں۔ جوان اولاد اپنا بوجھ، ذمہ داری خود کیا اٹھاتی، باپ بہنوں کی مدد کو کیا آتی، تماشوں میں مگن ہے۔ اور بھی غم ہیں زمانے میں پڑھائی کے سوا۔
اعلیٰ تعلیم کس ’’اعلیٰ درجے‘‘ کی ہے۔ دیگ کا ایک دانہ کافی ہے (ایسے کئی آپ دیکھ چکے ہیں)۔ پشاور NCS (نجی یونیورسٹی) میں بدترین، غیراخلاقی عریاں حلیے میں فحش ناچ کی وڈیو وائرل ہوئی۔ نوجوان طلبہ چہار جانب جمگھٹا کیے تعلیم وتربیت کے گہوارے میں محظوظ ہوتے پائے گئے۔ یہ آئے دن کی کہانی سبھی ’اعلیٰ تعلیمی مراکز‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ کراچی کے معروف ادارے ’IBA‘ میں بھی یہی سب ہوچکا۔ لوگوں کے واویلے پر سوئے ہوئے ذمہ داران اٹھ کر نوٹس لینے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ اشک شوئی اقدامات اگلے پروگراموں کی راہ ہموار کر دیتے ہیں۔ نوجوان عیش وطرب کے دلدادہ، راتوں رات امیر بن جانے کے نسخے تلاش کرتے، بے ہدف غیرذمہ دارانہ زندگی کا چلن پیش کر رہے ہیں۔ یہ عالمی سطح پر بلائیں جوانیاں نگل رہی ہیں۔ اس وقت انٹرپول کے مطابق 200 ممالک میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے مالیاتی اور سائبر جرائم سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔
حکومتی بیان جاری ہوا ہے: ’پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔‘ پاکستان کے تناظر میں یہ بیان نہایت درست یوں ہے کہ ماحولیاتی (تباہ کن) تبدیلیوں نے موسمیاتی تبدیلی پیدا کی ہے۔ گزشتہ 20 سالوں میں روشن خیالی ہی روشن خیالی میں ہم نے معاشرے کو تاریکیوں سے بھر دیا۔ پورا ماحول آلودگیوں سے اٹ گیا۔ پاکیزگی اور تقدس پامال ہوا۔ عورت نے گھر کو خیرباد کہہ کر سڑکوں بازاروں، شاپنگ مالز، بل بورڈوں، فیشن انڈسٹری، ماڈلنگ کی راہ لی۔ مہذب لباس جاتا رہا۔ کم سے کم ترین۔ کالی اسکرینوں، موبائلوں، سوشل میڈیائی تماشوں، تماش بینوں کو فراوانیوں نے ماحول کو سفلہ پن، سطحیت اور بالآخر مجرمانہ سفاکی سے بھر دیا۔ نسوانیت، نسائیت کا تقدس مٹنے لگا، شہوانیت چھا گئی۔ ماحولیاتی تبدیلی بپھر کر موسمیاتی طوفان بن کر اٹھی۔ پورا ملک تھپیڑوں کی زد میں تھا۔ کاش آپ بروقت کمربستہ ہو جاتے۔ حالت جنگ میں تو ہم سودخوری کی بنا پر پہلے ہی (قرآن کے فرمان کے مطابق) ڈھٹائی سے خم ٹھونکے کھڑے تھے۔ ’اس کے بعد اس کی قوم پر ہم نے آسمان سے کوئی لشکر نہیں اتارا۔ ہمیں لشکر بھیجنے کی کوئی حاجت نہ تھی۔‘ (یٰسین: 28) اللہ کی گرفت خاموشی سے آن پکڑتی ہے۔کلمح بالبصر۔ آن کی آن میں۔ پلک جھپکنے میں اللہ کا حکم آن کھڑا ہوتا ہے۔ سو شرق تا غرب موسمی تھپیڑوں نے ہمیں آ لیا۔
سیلاب زدہ علاقوں کی خبروں کو سیاسی بگولوں، معاشی جھکولوں نے بلیک آؤٹ کر رکھا ہے۔ وبائیں، بیماریاں، ڈینگی، دواؤں، ڈاکٹروں، طبی سہولتوں، خوراک، صاف پانی کی کمیابی۔ ابھی تک کھڑا پانی۔ اس پر مستزاد کچھ علاقوں پر دیمک کی یلغار۔ حکومت اور رؤسا کے پاس فرصت کہاں۔ پنبہ کجا کجا نہم۔ وہ سو چھیدوں والی جھولی پھیلاکر انہی کے لیے بھیک اکٹھی کر رہی ہے۔ علماء، دینی جماعتوں اور ان کے خدمتی اداروں نے وقت لگایا۔ ان مسکینوں لاچاروں کو اللہ سے جوڑ دیں۔ دنیا تو لٹ گئی۔ صبر کے بدلے جنت پکی ہو جائے۔ حکومت بھی عوام کی خیرخواہ ہی ہے۔ ہمہ گیر صبر سکھاتی ہے۔ گیس بجلی، بنیادی ضروریات سے محرومی دے کر۔ دفتروں میں ناروا بلوں، راشن کی، سستے آٹے دال کی جھانسوں کی لائنوں میں رلتے رلاتے مر جائیں گے۔ کلمہ پکا رہے تو آگے گریس مارکس (رحمدلی کے نمبر) لگ جائیں گے۔ سو حکمران کہتے ہیں: پھر اس کے بعد کا ہر منظر سہانا ہے۔ آخر ہم سب شکر گزاری کیوں نہ کریں اپنے سے کمتر، مشکل تر حالات میں گرفتاروں کو دیکھ کر۔ ہم عزت آبرو سے شہروں میں مر کر جنازہ اور تدفین اپنے پیاروں کے ہاتھوں پاتے ہیں۔ کیا یہ نعمتِ عظمیٰ کم ہے؟ ناقدری نہ کیجیے۔
آخر نشتر اسپتال ملتان سے 56 لاوارث لاشیں بھی تو منظر عام پر آئیں۔ وہ جو جنگل کے وحشی قبیلوں کے رہنے بسنے والے تو نہ تھے۔ ترقی کے بلند بانگ دعوؤں کے بیچ یہ سب پس پردہ جاری رہتا ہے۔ مسخ شدہ گلتی سڑتی لاشیں ڈھیر کی صورت چھت پر پھینکی گئیں۔ مگر آپ پریشان نہ ہوں۔ سرکاری انکوائری کے لیے 6 ممبروں کا کمیشن بنا دیا گیا ہے۔ انہی کمیشنوں کی طرح جن میں سے ایک شرمناک، المناک جاوید اقبال اسکنڈلوں والا لاپتا افراد کمیشن تھا۔ سرکار کو ایسی خبروں پر ایک دو دن پریشانی ہوتی اور سوالوں کے جواب دینے پڑتے ہیں۔ پھر میڈیا اگلی خبروں پر چل پڑتا ہے۔ کس میں جرأت ہے کہ پوچھے ایسی لاشوں کا جواز! ڈی این اے ٹسٹ سے فوری شناخت کے اس دور میں بھی انہیں خاموشی سے اٹھاکر دفن کر دیا گیا! قبل ازیں لاہور میں سینکڑوں ایسی میتیں دفن کروا دیں ایدھی سینٹرز کے ذریعے۔ ہزاروں دید کی پیاسی آنکھیں گھر کے دروازے پر اپنے پیارے لاپتگان، جبری گمشدگان کی آہٹ کے منتظر بینائی شنوائی کھوکر خود قبروں میں اتر گئے۔ دہشت گردی نامی کوئی بلا ہے تو اس سے بھاری دہشت گردی اور کیا ہوگی۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت تو یہ جرم ہے۔ تاہم عالمی جنگ کی مددگاری کی بنا پر پاکستان کو یہ استثناء حاصل رہا کہ دنیا نے انہیں ہلکے پھلکے بیان دے کر چھوڑ دیا۔ چشم پوشی رکھی۔ یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔ اس کا جواب ایک ہی دفعہ مانگا جائے گا اور وہ دن بڑا بھاری ہوگا جس پر ایمان ہم بھلا بیٹھے۔ یہ مقدمہ اسی فرد جرم کے تحت جوابدہی طلب ہوگا: ’جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟‘ (التکویر: 8،9)
ہمارے اپنے جھگڑے لامنتہا، تصفیہ طلب ہیں۔ اسی کے بیچوں بیچ وزیراعلیٰ پنجاب دیوالی کا کیک کاٹ رہے ہیں اور بھارت مسلمانوں پر اندھا دھند قیامت ڈھا رہا ہے۔ حجاب، نماز، اذان جرم بنا دی ہے۔ کشمیر پر مظالم بھی لامنتہا ہیں۔ ان بے یار ومددگار مسلمانوں کے عرب (دینی) بھائی دبئی میں فخر وانبساط سے دوسرے بڑے مندر کا افتتاح کرکے دبئی کو ’ہندو دوست‘ بنا رہے ہیں:
کوئی پرساں نہیں غموں کا ظفرؔ
دیکھنے میں ہزار رشتے ہیں
tanzeemdigitallibrary.com © 2024