اصلاح امت کا فریضہ
ناصر الدین البانی ؒ
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت امت مسلمہ اپنے نازک دور سے گزر رہی ہے اور حالات انتہائی کٹھن اور نا مساعد ہیں لیکن اتنے بھی مشکل نہیں کہ جن کا علاج ناممکن ہو، ہمارا معاشرہ عرب کے اس معاشرے سے زیادہ برا نہیں ہے جسے دور جاہلیت کہا جاتا ہے۔ دین اسلام نے جب اس کی تمام برائیوں اور خرابیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور وہ معاشرہ انسانیت کی تاریخ کا مثالی معاشرہ بن گیا جو رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے مینارۂ نور ہے تو ناامید ہونے کی کوئی ضرورت نہیں! تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ اس امت کے علماء،مصلحین اور داعی حضرات وہی طریقہ کار اپنائیں جس کو امام کائنات نبی آخر الزمان محمدﷺ نے اپنایا تھا۔
جیساکہ فرمان باری تعالیٰ ہے :{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا(21)} (الاحزاب)
’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول ؐمیں ایک بہترین نمونہ ہے ‘(یہ اُسوہ ہے) ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ سے ملاقات اور آخرت کی امید رکھتا ہو‘اور کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتا ہو۔ ‘‘
اپنی دعوت کا نکتۂ اساس عقیدہ توحید کو بنائیں جو تمام انبیاء ورسلf کی دعوت کا بنیادی نکتہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج } (نحل:36) ’’ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔‘‘
نبی کریم ﷺ کی مکی زندگی اس بات پر شاہد ہے کہ دعوت کی ابتدا دعوت توحید سے ہونی چاہیے اور اس امر پر کوئی مداہنت اور سودے بازی روا نہیں!
آج اس امت میں سب سے زیادہ خلل بھی عقیدۂ توحید کا ہے بنابریں نوبت بایں جا رسید کہ شرک اکثریت میں رچ بس گیا ہے! والعیاذ باللہ!
کفار مکہ کلمہء توحید کے مفہوم اور تقاضوں کو سمجھتے تھے کہ اس کلمہ کو تسلیم کرنے کا مطلب ہے اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تمام معبودانِ باطلہ کا انکار۔ تبھی تو انہوں نے اس کلمہ کا اقرار نہیں کیا بلکہ کھلی دشمنی اور عناد پر اتر آئے۔ جبکہ آج کے مسلمان یہ کلمہ تو پڑھتے ہیں لیکن افسوس کہ وہ اس کے معنی، مفہوم اور تقاضوں سے بالکل نابلد اور قطعی طور پر ناآشنا ہیں!
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء امت اور مصلحین ملت عقیدۂ توحید کے پرچار اور نشر واشاعت میں اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں اور اس چیز کو اپنی دعوت کا محور بنائیں لیکن یہاں پر بھی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت بیشتر جماعتیں اور تحریکیں جو امت کی نشاۃ ثانیہ کے لیے میدان عمل میں ہیں ، عقیدہ توحید ان کے منشور میں ہی نہیں ہے بلکہ ان میں سے بعض تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں ہم امت کو جوڑنا چاہتے ہیں عقیدہ توحید کی بات کریں گے تو لوگ ہم سے دور ہو جائیں گے ۔ والی اللہ المشتکی !
حضرت مالک بن انسh فرمایا کرتے تھے : ((لن يصلح آخر هذه الأمة إلا بما أصلح أولها)) ’’ اس امت کے آخر کی اصلاح بھی اسی نہج پر ہوگی جس پر اس امت کے اوّل کی اصلاح ہوئی ہے۔‘‘ (اقتضاء الصراط / ص: 367)
معلوم ہوا کہ امت کی نشاۃ ثانیہ کے لیے کسی نئے تجربے یا نئے علاج کی ضرورت نہیں ہے بلکہ امت کے تمام امراض کا مداوا اور اصلاح کا طریقہ کار آج سے چودہ صدیاں قبل اتر چکا ہے۔
قارئین کرام! قطع نظرعوام کے بعض خواص جو دعوت کے میدان کے’’شہسوار“ سمجھے جاتے ہیں وہ بھی صرف توحید ربوبیت کو بیان کرتے ہیں؛ جس کا اعتراف مشرکین مکہ بھی کیا کرتے تھے! جیساکہ فرمان باری تعالیٰ ہے: { وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَلَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ ج فَاَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ(61)}(العنکبوت)’’اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ زمین وآسمان کا خالق اور سورج چاند کو کام میں لگانے والاکون ہے؟ تو ان کا جواب یہی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ، پھر کدھر الٹے جا رہے ہیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ اصول بھی پیش نظر رہے کہ عبادات توقیفی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہی عبادات کی جائیں گی جن کا ثبوت کتاب و سنت میں ہے اور وہ نبی کریم ﷺ کے طريقے اور سنت کے مطابق ادا کی جائیں، اپنے مذاہب اور خود ساختہ طریقوں کو چھوڑ کر صرف اسوۂ رسول ﷺ کی کامل پیروی کی جائے۔
علاوہ ازیں اپنے اخلاق اور معاملات کو بھی منہج نبوی کے سانچے میں ڈھالا جائے، نیزحقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بھی ادائیگی یقینی بنائی جائے اوراپنی معیشت وتجارت کو بھی اسلامی اصولوں کے مطابق بنانا چاہیے ۔
شیخ البانی رحمہ اللہ اصلاح امت کے اس طریقہ کار کو ”تصفیہ اور تربیہ“ سے بھی تعبیر کرتے ہیں، یعنی اپنے عقائد و اعمال اور سلوک واخلاق کو درست کرکے امت کے دیگر افراد کی تربیت اسی اساس اور منہج پر کی جائے۔
اصلاح کا عمل اپنی ذات سے شروع کیا جائے پھر اپنے گھر ، محلہ ، اعزہ واقارب سے ہوتا ہوا امت کے دیگر افراد تک پھیل جائے،اس طریقے سے ایک صالح اسلامی معاشرے کی داغ بیل ڈالی جائے گی،ایسا معاشرہ کہ جس کی اکثریت صحیح عقائد و اعمال کی حامل ہوگی، اب ایسے صالح و مصلح معاشرے پر جو حکمران ہوںگے وہ بھی اچھے اور صالح ہی ہوںگے لیکن اس طریقے سے ہٹ کر یہ کہنا کہ حکومتی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے اور حکمرانوں کا قبلہ درست کرنے سے حالات کی اصلاح ہو جائے گی اور امت سر بلند ہو جائے گی تو یہ سراسر اپنے آپ کو فریب میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے؛ کیونکہ اصلاح نیچے سے اوپر تلے ہوگی، صالح فرد ہی سے صالح قوم اور صالح قوم سے ہی صالح معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
تاریخ کے بعض ادوار میں یہ مقولہ معروف ہوا تھا کہ جیسی رعایا ویسے حکمران!
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{وَکَذٰلِکَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضًام بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ(129)} (الانعام) ’’ اور اسی طرح ہم ظالموں کو ان کے اعمال کے سبب جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے پر مسلط کر دیتے ہیں۔‘‘
قارئین کرام ! بتانا یہ مقصود ہے کہ صرف حکمران طبقے کو کوسنے اور انہیں قصور وار ٹہرانے کے بجائے ہمیں من حیث القوم اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کہ کہیں یہ ظالم حکمران ہمارے ہی کرتوتوں کی وجہ سے تو ہم پر مسلط نہیں ہیں !؟
ہم اپنی چھوٹی سی ذات اور اپنے حلقہ احباب میں تو اسلام نافذ نہیں کرسکتے لیکن حکمرانوں سے یہ مطالبہ کرتے نہیں تھکتے کہ وہ پورے ملک پر اسلام نافذ کیوں نہیں کردیتے!؟
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعض مصلحین کا یہ قول مجھے بے حد پسند ہے جس میں انہوں نے کہا: ’’ تم اسلامی ریاست کی اقامت اپنے دلوں میں کرو، تو وہ زمین میں بھی تمہارے لیے قائم ہوجائے گی۔‘‘
حاصل کلام یہ ہےکہ علماء کرام اور اصلاح امت کے فریضے سے وابستہ افراد کی یہ ذمے داری ہے کہ امت کی اصلاح کے اس طریقہ کار کو اپنائیں جس پر نصوص شرعیہ اور اسوہ رسول ﷺ کا نور ہے اور اپنی دعوت کی اساس عقیدۂ توحید کو بنائیں نیز عبادات،سلوک واخلاق و جمیع معاملات میں رسول اللہﷺ کی کامل اتباع اور پیروی کریں، تصفیہ اور تربیہ کے زریں اصولوں پر کاربند ہوکر اس عظیم نصب العین کے لیے اپنے اپنے حصے کے چراغ روشن کردیں، اخلاص کے ساتھ کوشش ہم کریں، کامیابی اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا ؎
محرومِ تماشا کو پھر دیدۂ بِینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اَوروں کو بھی دِکھلا دےاللہ تعالیٰ سے خلوصِ دل کے ساتھ دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اسلام کے سائے میں عروج اور سربلندی سے ہم کنار کردے، ذلت اور ادبار کے یہ گھٹا ٹوپ اندھیرے چھٹ جائیں، اور ہم سب مسلمان عقیدہ توحید اور اسوۂ رسول اللہ ﷺکی روشنی میں یک جان دو قالب کی عملی تصویر بن کر دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوجائیں!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024