جس طرح ایک متکبر آدمی فقیر کودھتکارتا ہے اسی طرح امریکہ پاکستان کو دھتکارتا ہے
کیونکہ ہمارے حکمران اس کے سامنے بچھ جاتے ہیں: ایوب بیگ مرزا
امریکہ پاکستان کے ایٹمی دانت توڑنا چاہتا ہے تاکہ مملکت خداداد پاکستان بھارت اور
اسرائیل کے ماتحت رہ کر کام کرے: رضا ء الحق
جوبائیڈن کا پاکستان مخالف بیان کے موضوع پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال:امریکی صدر جوبائیڈن نے پاکستان کودنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک قرار دیا اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کوبے ربط کہاہے ۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے بھی اس بیان کی توثیق کی البتہ دوسری طرف امریکی دفترخارجہ کی طرف سے اس بیان کی وضاحتیں دی جارہی ہیں۔ جوبائیڈن کے اس بیان کاسیاق وسباق کیاتھااور امریکہ پاکستان سے کیاچاہتاہے؟
رضاء الحق: 13اکتوبر کوڈیموکریٹک کانگریشنل کمپین کمیٹی لاس اینجلس کی تقریب میں جوبائیڈن نے یہ بیان دیا اور یہ سیمی آفیشل قسم کابیان ہوتاہے لیکن چونکہ وائٹ ہائوس نے اس کو اپنی ویب سائٹ پرپبلک کے لیے عام کیا تواس کوآفیشل بیانیہ کہاجاسکتاہے۔ یہ اصل میں صدر جوبائیڈن کی لمبی تقریر تھی جس میں زیادہ ترموضوع چین تھا۔ امریکی صدر نے اپنی تقریر میں کہاکہ چین کا صدر شی جانتاہے کہ میں کیاچاہتاہوںلیکن اس کے بہت سارے مسائل ہیں۔ ہم نے چین کے معاملے میں پاکستان اور روس کو کس طرح tackleکرناہے اس کے لیے ہمیں پالیسی بنانے ،سوچنے اور سمجھنے اورا س کے مطابق عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد امریکی صدر نے کہا: ’’ پاکستان دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے اور اس کے ایٹمی اثاثے بے ربط ہیں ۔ ‘‘ اس پردودن کے بعد وائٹ ہائوس نے یہ وضاحت دی کہ یہ کوئی ایسابیان نہیں ہے کہ جوہم نے نیادیاہوالبتہ ان کا سوچاسمجھابیان نہیں تھابلکہ یہ ان کاذاتی بیان ہے۔نائن الیون کے بعد پاکستان جب امریکہ کافرنٹ لائن اتحادی بن گیاتواس کا بے پناہ نقصان پاکستان نے اٹھایااورامریکہ اپنے مقاصد کے لیے پاکستان کوڈکٹیٹ کرتا رہااور ڈرونز حملے بھی کرتا رہا۔ 2011ء میں سلالہ چیک پوسٹ کاواقعہ ہواجس میں پاکستانی فوجیوںکو شہید کیاگیااوراسی سال کے مئی میں اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن ایبٹ آباد ہوا۔پھر2018ء کو پاکستان کے حوالے سے صدر ٹرمپ نے ٹویٹ میں کہاکہ پاکستان ایک دھوکے باز ملک ہے۔جس پر شدید ردعمل دیاگیا۔ اس سے پہلے 2012ء میں صدر اوباما کے دور میں امریکہ کی یہ پالیسی آچکی تھی کہ آئندہ ہماری جنگوں کا مسکن ایشیا ہوگا۔ پھر2018ء میں امریکہ نے اپنی نیشنل ڈیفنس سٹریٹیجی میں بھی ڈیکلیئر کیا کہ ہمارے سب سے بڑے دشمن چین اورروس ہیںاوراس علاقے میں جوان کا ساتھ دے گاوہ بھی ۔
سوال: آپ نے امریکہ کی تاریخ بتائی جس میں اس کی ریشہ دوانیاںہی نظر آتی ہیں لیکن دوسری طرف پاکستان نے ہمیشہ وفاداری کامظاہرہ کیا۔ پاکستان کوکب اس سے سبق ملے گا؟
رضاء الحق:2014ء کے بعد سے 2021ء تک بظاہرلگا تھاکہ پاکستان امریکی کیمپ سے نکل کرچین کے کیمپ کی طرف جارہا ہے ۔ سی پیک کے اندر پاکستان بڑھ چڑھ کرحصہ لے رہاتھا۔ پھرآگے چل کرپاکستان نے چین کی ڈپلومیسی میں امریکہ سے ہاں میں ہاں ملانی شروع کر دی تھی، ابھی بھی یہ انداز چل رہاہے، ہم چاہیں گے اس کو جاری رکھے۔ابھی چنددنوں پہلے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روس کی قرار داد کوپاکستان نے abstain کیا ہے ۔ لیکن امریکہ اب چاہتاہے کہ پاکستان ،روس اور چین سے دور رہے اور بھارت کے ماتحت رہ کرکام کرے۔ پھر پاکستان چین اور روس کے گھیرائو میں فعال کردارادا کرے۔ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان کی معیشت مفلوج و محکوم رہے بلکہ تباہ وبرباد ہوجائے ۔ امریکہ پاکستان کے ایٹمی دانت توڑناچاہتاہے تاکہ مستقبل میں ناجائز ریاست اسرائیل کوپاکستان تسلیم کرے۔بہرحال امریکہ کی اپنی خواہشات ہیں اوراسی حوالے سے وہ پاکستان پرپریشر ڈالتا رہے گا اور جوبائیڈن کابیان انہی پالیسیوں کاایک تسلسل ہے۔
سوال:امریکی صدر کے بیان پرپاکستانی وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ردعمل دیا۔ دوسری طرف پاکستان کی فوج نے بھی فورا ً کورکمانڈرز کااجلاس بلایا اور پاکستان کاموقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے جوہری ہتھیار عالمی سٹینڈر کے مطابق محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ کیا پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کا موقف درست ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:امریکہ نے جس طرح پاکستان پر الزام لگایاہے اسے پہلے اپنے گریبان میںمنہ ڈالنا چاہیے۔ امریکہ دنیا کی واحد غیرذمہ دار سپرپاور ہے جس نے ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرا کرانسانیت کو تباہ وبرباد کردیا، ابھی تک اس ایٹمی حملے کے اثرات دنیا دیکھ رہی ہے۔ جہاں تک پاکستان کے ردعمل کی بات ہے توبلاول بھٹو نے توامریکی صدر کوڈیفنڈ کیا ہے کہ ان کے منہ سے بات نکل گئی وہ ایسا چاہتے نہیں تھے۔ کیابلاول سے کسی نے پوچھا ہے؟ان کے پاس کیاثبوت ہے ؟اس میں کوئی شک نہیں کہ سفیر کو طلب کیاگیا ہے لیکن وزیرخارجہ کو آگے بڑھ کرزوردار انداز میںمذمت کرنی چاہیے تھی لیکن ان کاانداز ہی منت سماجت والا تھا۔ ISPRکی طرف سے بھی فوری طور پر کوئی ردعمل نہیں آیا ۔ البتہ کورکمانڈرز کی میٹنگ میں اس ایشو کو سنجیدگی سے لیا گیا لیکن یہ بھی کہناچاہیے تھاکہ جوالزام لگایاگیا ہے وہ غلط ہے اورجنہوںنے لگایا ہے وہ اپنے الفاظ واپس لیںاوراس حوالے سے اپناریکارڈ چیک کریں۔یقیناً پاکستان نے اپنے ایٹمی اثاثہ جات کی حفاظت کے لیے عمدہ اقدامات کیے ہیںاور تقریباً25ہزار انتہائی تربیت یافتہ اور چاق و چوبند نفری ایٹمی اثاثوں کی ہمہ وقت سخت ترین حفاظت کے لیے مامور کی ہوئی ہے اور الحمد اللہ آج تک کوئی حادثہ پیش نہیں آیا ۔ لیکن ہم میں جرات کی کمی ہے ۔ چین اور روس امریکہ کوزور دار انداز میںجواب دیتے ہیںلیکن جس طرح کاہماراجواب گیاہے میں اس سے مطمئن نہیںہوا۔
سوال: ایک رائے یہ آرہی ہے کہ امریکی صدر کے اس متنازع بیان کے ذریعے 2024ء کے امریکی صدارتی انتخابات کے لیے ایک ٹون سیٹ کی جارہی ہے ۔ اگر ایسا ہی ہے توپاکستان کواس حوالے سے کیاچیلنجز درپیش ہیں ؟
رضاء الحق: اصل میں امریکی صدارتی الیکشنز میں ان لابیز کو بھی مطمئن کرنا ہوتا ہے جو ان کو الیکشن میں فنڈنگ کرتی ہیں، ان میں نیوکانز، یہودی لابیز اورویپن مینی فیکچرز کی لابیاں ہیں۔ پھر ریپبلیکنز اور ڈیموکریٹس کامقابلہ شروع ہوجاتاہے جس میں لابیز دیکھتی ہیں کہ کون ان کے زیادہ مفاد میں ہے ۔ لہٰذا ایسی تقریریں اور بیانات ان کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں ۔ مثال کے طورپر نائن الیون کاواقعہ جب ہوا تو اس کے بعد جارج بش نے اسی واقعہ کو سامنے رکھتے ہوئے دہشت گردی کی جنگ کو موضوع بنایاتھاکہ نائن الیون کا بدلہ لیناہے ۔ چنانچہ ایک طرف عوام کو بھی مطمئن رکھنا ہوتا ہے اور دوسری طرف لابیز کو بھی مختلف پیغام دے رہے ہوتے ہیں ۔ خاص طور پر اسلحہ بنانے والی کمپنیز کو بھی کہ ہم جنگ میں کہاں تک جانے والے ہیں ۔ اس وقت جوجتناآگے بڑھ کربات کرتا تھااس کے منتخب ہونے کے چانسززیادہ تھے۔ اب بھی اگر وہ یہ سوچ چکے ہیں کہ چین اور روس ان کے دشمن نمبر ایک ہیں، ان دونوں کو ملنے نہیں دینا اور ان کے ساتھ جو بھی ہمارے لیے خطرہ بن سکتاہے جس میں پاکستان اور افغانستان ٹاپ آف دی لسٹ ہیں توان کے اوپرہم نے سختی کرنا ہے ۔ ہنری کسنجر نے کہاتھاکہ امریکہ کادوست امریکہ کے دشمن سے زیادہ خطرے میں ہوتاہے ۔ جب پاکستان امریکہ سے دور ہورہا تھا تواس وقت امریکہ بیک فٹ پر چلاگیا تھا لیکن جب پاکستان امریکہ کی طرف جھکائو بڑھاتا ہے تووہ اتنا ہی زیادہ پاکستان کے اوپر اپنا دبائو بڑھاتاہے۔ اب یہی چیز جوبائیڈن نے شروع کی ہے تودوسرا امیدوار بھی یہی چاہے گا کہ میں اس سے دوہاتھ آگے بڑھ کربات کروں۔ اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ وہ 2024ء تک پاکستان کوایک واضح دشمن کے طور پر دیکھ رہے ہوںگے چاہے پاکستان قریب ہونے کی جتنی بھی کوشش کرے۔ ان کی پالیسی یہی بن چکی ہے۔پھرامریکہ کی ہمارے معاملات میں پہنچ زیادہ ہے۔ خاص طور پر معیشت، سیاست، سول سوسائٹی، این جی اوز اور ہمارا میڈیا وغیرہ، ان میں امریکہ کا اثرورسوخ بہت ہے۔ پاکستان کو اب دیکھناپڑے گاکہ اپنی خارجہ پالیسی کوزیادہ نیوٹرل رکھنے کے لیے اور شایدپروچین و روس کرنے کے لیے کون سے عملی اقدامات کرنے ہوں گے جوملک وقوم کے مفاد میں ہوں گے ۔
سوال: امریکی صدر کے بیان پرانڈیا میں ایک جشن کا سماں ہے ۔ انڈیا کہہ رہاہے کہ یہ بیان پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے ۔کیاواقعی پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:بھارت پہلے اپنے گریبان میں جھانکے کیونکہ اس کایورینیم آوازیں لگا کربیچاگیا ہے۔ اصل میں امریکہ اور انڈیاسٹریٹیجکل پارٹنر کے ساتھ ساتھ پاکستان کے نظریاتی دشمن بھی ہیںکیونکہ پاکستان اسلام کے نام پروجود میں آیاتھا ۔ لیکن پاکستان کے ایٹمی ہتھیار امریکہ کے لیے خطرناک نہیں ہیں بلکہ یہ زیادہ خطرناک اسرائیل کے لیے ہیں اور امریکہ اس کا سب سے بڑا محافظ ہے۔ اسے واشنگٹن سے زیادہ تل ابیب کی حفاظت مطلوب ہے ۔ اس لیے اس کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں ۔ بھارت چونکہ پاکستان کاپیدائشی اور ازلی دشمن ہے لہٰذا وہ بھی پاکستان کے معاملے میں اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔اگر پاکستان ڈیفالٹ ہوگیا توامریکہ او ر انڈیا جوکر سکیں گے کریں گے کیونکہ پاکستان کی جغرافیائی صورت حال بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس لیے ایک امریکی سینیٹر نے کہا تھا کہ ہم جب بھی پاکستان کے خلاف کوئی سخت فیصلہ کرتے ہیں توایسی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے کہ ہمیں پاکستان کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔یہ اللہ کی طرف سے ہے ورنہ ہمارے اعمال ا س فضل کے مستحق نہیں ہیں ۔ یہ بھی درست ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی بھی کوئی خاص کردارادا نہیں کر رہی۔ ابھی حالیہ نیویارک کے دور ے کے بعد وزیراعظم وفد کے ہمراہ واپس آگئے تووزیرخارجہ بلاول بھٹو وہیں پر رک گئے اور پیپلز پارٹی کی طرف سے کہاگیاکہ بلاول سفارت کاری کررہے ہیں او ر بڑے کامیاب لوٹیں گے لیکن اس سفارت کاری کانتیجہ یہ متنازعہ بیان ہے ۔ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات کے مصداق کمزور کی کون سنتاہے اور اصل وجہ بھی یہی ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میںجارحانہ انداز اپنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے لیکن ہمیں بالکل ہی نیچے نہیں لگناچاہیے، جیسے ہم بھیک مانگ رہے ہیں بلکہ جس طرح افغانستان امریکہ کے سامنے ڈٹ کرجواب دیتاہے ہمیں اس کے ساتھ ایساانداز اپنانا چاہیے ۔جس طرح ایک متکبر آدمی فقیر کودھتکارتا ہے اسی طرح امریکہ ہمیں دھتکارتا ہے کیونکہ ہم اس کے سامنے بچھ جاتے ہیں۔
سوال: امریکہ کاچین اورروس کوکھلادشمن قرار دینے پر چین اورروس کے صدور کابھی بڑا سخت ردعمل آیاہے ۔ یہ بڑھتی ہوئی تلخیاں او ر بیانات کیارنگ لائیں گے اوران ساری سٹریٹیجیز کے کیانتائج ہوں گے ؟
رضاء الحق:روسی صدر پیوٹن توپہلے ہی کہہ چکے ہیں اگر نیٹو یوکرائن کی مد د کے لیے آگے آیااورہماری دفاعی لائن کونشانہ بنایا گیا توپھراس جنگ کے بڑھنے کے امکانات زیاد ہ ہوجائیں گے۔ حال ہی میں چین میں کمیونسٹ پارٹی کی بیسیویں کانگریس ہوئی جس میں صدر شی کو تیسری مرتبہ صدر منتخب کیاگیا۔ اس موقع پرانہوں نے یہ بیان دیا کہ تائیوان چین کاحصہ ہے۔ یعنی انہوں نے جارحیت کے ساتھ حملہ کرکے اسے اپنے ساتھ ضم کرنے کے’حق‘ کو برقرار رکھا۔صدر شی نے یہاں تک کہاکہ مستقبل میں سمندر کے اندر طوفان آتا دیکھ رہاہوں۔ اگر دیکھاجائے تویہ دوسال بین الااقوامی حالات کے اعتبار سے بہت اہم ہیں اور تجزیہ نگاروںکاکہناہے کہ روس یوکرائن جنگ طول پکڑ سکتی ہے اور کسی بڑی جنگ کاپیش خیمہ بن سکتی ہے ۔
سوال: پاکستان میں ضمنی الیکشن ہوئے جس میں عمران خان سات سیٹوںمیں سے ایک ہارے اورچھ سیٹوں پر کامیاب ہوئے ہیں۔ اب وہ نئے الیکشن کاایجنڈا لے کراسلام آباد میں دھرنادیناچاہتے ہیں۔ سیلاب کے بعد پاکستان معاشی طورپر شدید مشکلات کاشکار ہے کیااس وقت سیاسی عدم استحکام کاپاکستان متحمل ہوسکتاہے ؟
ایوب بیگ مرزا:عدم استحکام کبھی فیزایبل نہیں ہوتا۔میں سمجھتاہوں کہ یہ الیکشن نہیں تھے کیونکہ کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنی ہی چھوڑی ہوئی سیٹیں جیتی ہیں ۔
لیکن بات کچھ مختلف ہے۔ جب سیٹیں حاصل کی گئی تھیںتواس وقت تمام جماعتیں الگ الگ الیکشن لڑرہی تھیں۔ حکومت نے وہ سیٹیں سلیکٹ کرکے ان کے استعفے منظور کیے جہاںپی ٹی آئی بڑے چھوٹے مارجن سے جیتی ہوئی تھی لیکن وہاں ساری جماعتیںلڑرہی تھیں اورتب جاکریہ سیٹیںجیتی گئی تھیں ۔ لیکن اب یہ ہوا کہ ان سب کے ووٹ اکٹھے ہوئے اور سب شکست کھاگئے تواس کو یہ کیسے کہاجاسکتاہے کہ اپنی جیتی ہوئی سیٹیں واپس لی ہیں ۔ بلکہ اس میں توسب کے ووٹ چھین لیے ہیں ۔یہ کیسے الیکشن ہوئے کہ ایک ووٹ ڈالنے والے کو معلوم ہے کہ جس کومیں ووٹ ڈال رہاہوں وہ اسمبلی میں نہیں جائے گا۔ اصل میں 7اپریل کوجوکچھ ہوااس کے جواب میںیہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے ایک ریفرنڈم کرایا ہے کہ آیاوہ قدم عوام کی نظر میں درست تھایاغلط تھا،اس پرعوام نے فیصلہ دیا۔جہاں تک کال دینے اوردھرنے کی بات ہے تومیں کسی صورت اس کے حق میں نہیں ہوں۔ کیونکہ بہرحال لانک مارچ کے نقصانات زیادہ ہو سکتے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ بیک ڈور رابطے جاری ہیں اور امید ہے کہ الیکشن کے معاملے پرمفاہمت ہوجائے گی۔ اصل میں الیکشن کی تاریخ پرضدبازی چل رہی ہے ۔ ایک کاموقف ہے کہ فوری الیکشن ہوں جبکہ دوسرے کا موقف ہے کہ اگست2023ء میں الیکشن ہوں گے۔ تودرمیان میں مفاہمت کرانے والاگروپ کوئی نہ کوئی درمیانی تاریخ طے کرو ا دے گااورمعاملہ حل ہوجائے گا۔
سوال: آئی ایم ایف نے پاکستان کی شرح نمو5 3. طے کی ہے ۔ آئندہ جوحکومت منتخب ہوکرآئے گی وہ پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز کامقابلہ کیسے کرپائے گی ؟
رضاء الحق:آئی ایم ایف نے یہ شرح نمو کی فگر دی ہے لیکن ساتھ یہ بھی کہاہے کہ یہ سیلاب سے پہلے کی بات ہے۔ سیلاب میں پاکستان کوتقریباً28بلین ڈالر معاشی نقصان ہوا ہے۔ ابھی اسحاق ڈار بھی کوششیں کررہے ہیں کہ قرضہ پردوبارہ بات چیت ہو۔ تقریباً 27بلین ڈالر کی ادائیگی اس سال کرنا ہے۔ گزشتہ سال کے دوران پاکستان کے بانڈ60فیصد گرچکے انفیلیشن ریٹ کے فگر25فیصد ہیں جودنیا بھر میں دس فیصد دکھائی دے رہی ہے ۔ کرنسی میں ڈالر دوبارہ نیچے آرہاہے حالانکہ دنیا بھر کی تمام کرنسیاں ڈالر کے مقابلے میں نیچے جارہی ہیں۔ پھر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی طر ف سے یہ بات آرہی ہے کہ دنیا کی اکانومی انہدام کی طرف جارہی ہے۔ بہرحال چیلنجز سے نبردآزما ہونے کے لیے ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ اسلام کامعاشی نظام (غیرسودی معیشت )کا نفاذ شروع کردیا جائے۔ اگر 1991ء کے سود کے خلاف فیصلے کے مطابق ہم چل رہے ہوتے توہم معاشی بہتری کی طر ف گامزن ہوتے ۔بہرحال اب بھی اگرہم 2022ء کے فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کے مطابق عمل کریں تو بہتری آسکتی ہے۔ فیصلہ دینے والے بنچ کے اہم رکن محمد نور مسکان زئی صاحب تھے جوپچھلے دنوں شہید ہوگئے ۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے ۔یہ بہت اہم فیصلہ تھاجس میں ایک روڈمیپ دے دیا گیا تھاکہ آگے کیا کرناہے ۔لیکن کچھ لوگ اپیل لے کر سپریم کورٹ چلے گئے ہیں، اگر یہی کرتے رہیں گے توپھرہمارے پاس معاشی مشکلات سے نکلنے کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے ۔کیونکہ اسلام کے معاشی نظام کو سمجھنے والے معروف معیشت دان نشاندہی کر چکے ہیں کہ جب تک ربا کوختم نہیں کریں گے اورغیر سودی معیشت لے کر نہیں آئیں گے اس وقت تک کوئی حل نہیں ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024