(دعوت و تحریک) کیا نظام باطل میں اطاعت رسول ﷺ ممکن ہے؟ (۳) - ڈاکٹر اسرار احمد

9 /

کیا نظام باطل میں اطاعت رسول ؐ ممکن ہے؟(3)

ڈاکٹر اسرار احمد ؒ

 

 

(گزشتہ سے پیوستہ)
اطاعت ِرسولؐ کے ضمن میں نظامِ خلافت کی اہمیت
سورۃ النور کی آیت 56 میں جو مضمون آ رہا ہے وہ دراصل اسی خلا کو پُر کرنے والا ہے ----- یہ خلا نظامِ خلافت کے ذریعے سے پُر ہو گا۔رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیقh منصب خلافت پر فائز ہوئے تو آپؓ ہی قاضی القضاۃ تھے اور آپؓ ہی امیر اور سپہ سالار تھے ۔آپؓ ہی نے فیصلہ کرنا تھا کہ مانعین ِزکوٰۃ سے جنگ کرنی ہے یا نہیں؟ حضورﷺ کے وصال کے بعد اب فیصلہ کرنے کا اختیار خلیفہ کے پاس آگیا۔ اسی لیے تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا تھا: اَنَا خَلِیْفَۃُ رَسُوْلِ اللہِ ’’میں اللہ کے رسول کا خلیفہ ہوں!‘‘
آپ کے علم میں ہو گا --- اس لیے کہ سیرتِ صحابہؓ کی یہ باتیں بہت معروف ہیں --- کہ حضرت عمر فاروقؓ بھی یہ مشورہ دے رہے تھے کہ مانعین ِ زکوٰۃ کے معاملے میں آپؓ ذرا نرمی کیجیے اور مصلحت کو پیش نظر رکھیے‘ اس لیے کہ مسلمانوں کا مورال اِس وقت بہت گرا ہوا ہے۔ حضورﷺ کے انتقال کے بعد سب کا دل پژمردہ ہے اورہم اس وقت جنگ کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔ جیسے کہ اُمّ ایمن ؓ کے بارے میں آتا ہے کہ آپؓ بیٹھی رو رہی تھیں کہ حضرات ابوبکر اور عمرiان کے پاس پہنچے اور پوچھا: آپؓ کیوں رو رہی ہیں؟ انہوں نے کہا :میں اس لیے رو رہی ہوں کہ وہ ہدایت جو ہر آن محمدﷺ پر چلی آرہی تھی وہ ختم ہوگئی ہے اور وحی کا دروازہ بند ہو گیا ہے۔ اس لیے کہ وحی تو نبی کے ساتھ خاص ہے اورنبوت کا دروازہ بند ہونے سے وحی کا دروازہ بھی ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ اس اعتبار سے مسلمانوں کے دل بہت زخمی تھے۔
اس کے ساتھ دوسرا مسئلہ جیش ِاسامہؓکی روانگی کا تھا ‘جسے حضورﷺ نے خود تیار کیا تھا۔ وہ تو آپﷺ کے مرضِ وفات کی وجہ سے رک گیا تھا‘ورنہ سلطنت ِروما کے ساتھ جنگ کا معاملہ حضورﷺ کی حیاتِ طیبہ میں شروع ہو چکا تھا۔ غزوئہ موتہ اور غزوۂ تبوک ہوچکے تھے اوراگلا جیش آپؐ نے حضرت اُسامہ بن زید ؓ کی قیادت میںتیار کیا ہوا تھا تو کیسے ممکن تھا کہ جو جیش حضورﷺ نے خود تیار کیا ہو اسے حضرت ابوبکرؓ روک لیں!وہ تو جائے گا ہی ۔مزید برآں نئی نبوت کے مدعی کھڑے ہو گئے اوران ’’مرتدین‘‘ کے خلاف بھی جہاد کرنا لازم ہوگیا۔
ان میں سب سے اہم اور نازک معاملہ مانعین ِ زکوٰۃکاتھا جوکہتے تھے کہ ہم اللہ کی وحدانیت کی شہادت بھی دیتے ہیں اور محمد ﷺ کی رسالت کوبھی مانتے ہیں۔ہم نماز بھی پڑھیںگے‘ لیکن زکوٰۃ حکومت کو نہیں دیں گے بلکہ ہم اپنے طور پر دیں گے۔ایسے لوگوں کے خلاف جہاد کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ یہ ایک بڑا پیچیدہ مسئلہ تھا۔ان کے خلاف اقدام کا فیصلہ خلیفہ وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کیا اور یہاں تک فرمایا کہ اگر کوئی میرے ساتھ نہیں جائے گا تو میں تنہا جائوں گا اور ان کے خلاف جہاد کروں گا۔ اس طرح کے تمام فیصلے خلیفۃ المسلمین حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کیے اور اس طریقے سے اب گاڑی آگے چلی۔
معلوم ہوا کہ اگر کسی ملک میں نظامِ خلافت نہیں ہے تو اطاعت ِرسول کے یہ دو دائرے تو بالکل معطل ہو جائیں گے۔ ٹھیک ہے آپ نماز اسی طور سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ ہمیں نبی اکرمﷺ نے سکھائی‘ آپ حج بھی اسی طرح کر سکتے ہیں جیسے ہمیں حضورﷺ نے سکھایا --- جزئیات میں اختلاف بھی ہوسکتا ہے ‘جیسے کہ مختلف ائمہ فقہ کے مابین ہوا ہے‘ لیکن اصولی طو رپر مناسک ِحج متفق علیہ ہیں --- چنانچہ عبادات کے ضمن میں اطاعت کا پہلا دائرہ ہر زمانے کے لیے جوں کا توں ہے۔اسی طرح اطاعت کا دوسرا دائرہ شریعت کے وہ احکام ہیں جو رسول اللہﷺ نے کتاب و سُنّت کی صورت میں ہم تک پہنچائے ہیں‘وہ بھی جوں کے توں رہیں گے۔ اگر کوئی نئی صور ت پیدا ہو گی تو کتاب وسُنّت ہی سے استنباط کرتے ہوئے اجتہاد کیا جائے گا‘جبکہ ان سے آزاد ہو کر کیا گیا استنباط بھی قابل قبول نہیں ہے --- ہمارے ہاں ایک گروہ ’’اہل ِ قرآن‘‘ کا ہے جو سُنّت کو ایک طرف رکھ کے کہتے ہیں کہ قرآن سے استنباط کریں۔ ہمارے نزدیک وہ گمراہ ہیں‘ اس لیے کہ کتاب و سُنّت دونوںقانونِ اسلامی کی مستقل بالذات بنیادیں اور اصل اساسات ہیں ‘ لہٰذا ان میں سے کسی کو بھی ساقط نہیں کیا جا سکتا۔قیاس اور اجتہاد ہو گا تو کتاب و سُنّت کی روشنی میں ہو گا ---بہرحال ان دو دائروںکی حیثیت جیسے حضور ﷺ کے حیاتِ طیبہ میں تھی ویسی ہی ا ب ہے۔
ان کے علاوہ اطاعت رسول کے دو دائرے اور ہیں ۔ایک تو ہے اپنے خصومات اور مقدمات میں آپ ﷺ سے فیصلہ کرانا۔نبی اکرمﷺ کی حیاتِ طیبہ میں تو اس پر عمل درآمد ممکن تھا‘مگر آپؐ کی وفات کے بعد اس حوالے سے ایک خلا پیدا ہوگیا ہے اور اس خلا کو خلافت کا نظام پر کرے گااور خلیفہ ہی قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز ہوگا۔ اسی طرح دین کے غلبے کی جدّوجُہداور اس کے لیے محنت و کوشش کرنا‘حضورﷺ کی حیات میں تو آپ ؐکی قیادت میں ہورہا تھا‘مگر آپؐ کی وفات کے بعد نظامِ خلافت میں خلیفہ یہ ذِمّہ داری نبھائے گا ۔
اس ضمن میں یہ بھی نوٹ کرلیجیے کہ اگر خلافت کا نظام موجود نہیں ہے تو آپ کو یہ نظام لانے کے لیے جدّوجُہد کرنی پڑے گی ۔ اگر آپ اس کے لیے جدّوجُہد نہیں کرتے اور خلافت کا نظام قائم نہیں ہوتا تو گویا اطاعت ِرسول کے دو خانے بند پڑے ر ہیں گے۔
چاک کر دی ترکِ ناداں نے خلافت کی قبا
یہ ہماری بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ اس دور میں خلافت کا ادارہ علامتی طور پر بھی موجود نہیں رہا۔ آئیڈیل سطح پر تو خلافت راشدہ کا دور تھا‘ جو خلافت علیٰ منہاج النبوۃ تھی۔ اس کے بعد کا دورِ خلافت ملوکیت پر مبنی تھا۔ نظامِ خلافت یک دم سارے کا سارا ختم نہیں ہو گیا تھا‘ بلکہ تدریجاً اس میں زوال آیا ہے۔ میں اس کی مثال وہی دیا کرتا ہوں جو شاہ اسمٰعیل شہیدؒ نے ’’منصب ِامامت‘‘ نامی کتاب میں لکھی ہے کہ چھ منزلہ عمارت میں سے اگر ایک منزل گر گئی تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ پوری عمارت ختم ہو گئی۔ ہمارے ہاں یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ جیسے خلافت راشدہ کے بعد اسلام بالکل ختم ہو گیا ‘ حالانکہ اسلام ختم تو نہیں ہوا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ چھ منزلوں میں سے ایک گر گئی‘لیکن پانچ تو بہرحال باقی ہیں۔ پھر آگے اور زوال آیا تو پانچویں منزل بھی گر گئی‘ چار رہ گئیں۔ ہوتے ہوتے معاملہ یہاں تک پہنچا کہ جب مغربی امپیریلزم کا سیلاب آیا تو وہ ساری مسلمان حکومتوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا۔ اس سے تو سب کچھ ختم ہو گیا‘ نہ اسلامی قانون رہا‘نہ مفتی رہے‘ نہ قاضی رہے۔ جہاں جہاں بھی انگریزوں‘ فرانسیسیوں‘ اطالویوں اور ولندیزیوں کی حکومتیں آئیں وہاں خلافت کا پورے کا پورا نظام ختم ہو گیا۔ بالآخر خلافت کا ادارہ جو ترکی میں‘ کم از کم علامتی طورپر (symbolic)ہی سہی‘موجود تھا وہ بھی بدقسمتی سے 1924ء میں مصطفیٰ کمال پاشا نے ختم کر دیا۔ علامہ اقبال کو ابتدا میں مصطفیٰ کمال سے بڑی امیدیں تھیں‘ لیکن آخر وقت میں انہیں بڑی مایوسی ہوئی اور انہوں نے یہ اشعار کہے: ؎
نہ مصطفیٰ نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی!
اورخاص طور پر خلافت کے ادار ے کو ختم کرنے پر ان کا یہ شعر بڑا ہی درد انگیز ہے ؎
چاک کر دی ترکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی اپنوں کی دیکھ‘ اوروں کی عیاری بھی دیکھ!
اس لیے کہ بعد میں یہ بات کھل گئی کہ یہ یہود کی فری میسن تحریک کی سازش تھی اور مصطفیٰ کمال پاشانے ان کا آلہ کار بن کر خلافت کو ختم کیا۔ ہم یہ وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ شعوری طور پر مصطفیٰ کمال پاشا یہودیوں کی اس سازش کوجانتے تھے ۔یہ تو اللہ کے ہاں جواب طلبی ہوگی اور وہیںسارا حساب کتاب ہو جائے گا۔
بہرحال میں یہ عرض کر رہا تھا کہ آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے سب سے پہلی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ آپﷺ کی حیاتِ طیبہ کے دوران چار اعتبارات سے آپؐ کی اطاعت ہو رہی تھی۔ خلافت کا نظام رہے یا نہ رہے ‘دو اطاعتیں تو اب بھی ہو سکتی ہیں‘ لیکن بقیہ دو اطاعتیں تو ممکن ہی نہیں جب تک کہ خلافت کا نظام قائم نہ ہو۔
اطاعت ِرسولؐ سے روگردانی کا نتیجہ
آیت زیر مطالعہ کا اگلا ٹکڑا اطاعت ِرسولؐ سے روگردانی اور اس کے نتیجے سے متعلق ہے۔فرمایا: {فَاِنْ تَوَلَّوْا}’’پس اگر یہ لوگ روگردانی کریں ‘‘ یعنی اطاعت کرنے کو تیار نہ ہوں۔{فَاِنَّمَا عَلَیْہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْکُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ ط}--یہ بہت جامع الفاظ ہیں۔ حمل کہتے ہیں بوجھ کو۔ حَمَلَ کا معنی ہے: ا س نے بوجھ اٹھایا۔ قرآن مجید میں الفاظ آئے ہیں :{حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ}(لقمٰن:14) ’’اُسے اُس کی ماں نے تکلیف پر تکلیف سہہ کر (پیٹ میں) اُٹھائے رکھا ‘‘۔لیکن یہ لفظ جب باب تفعیل (تحمیل ) اور پھر اس میں بھی مجہول (حُمِّلَ)کے صیغے میں آئے گا تو اس کے معنی ہوں گے: کسی پر بوجھ لاد دیا گیا ۔
اس آیت میں اس لفظ سے ذِمّہ داری کا بوجھ مراد ہے‘ جبکہ ایک جسمانی بوجھ ہوتاہے‘ مثلاً آپ نے دو من کی بوری اٹھا لی یا کسی نے آپ کے کندھے پر یہ بوری رکھ دی۔ یہ ہے حملکہ دو من کا بوجھ آپ کے اوپر رکھ دیا گیا۔ایک ہے ذِمّہ داریوں اور فرائض کا بوجھ ‘ جیسے زیر مطالعہ آیت میں فرمایا: {فَاِنَّمَا عَلَیْہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْکُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ ط}
اے مسلمانو! اگر تم روگردانی کرو گے تو یاد رکھوکہ ہمارے پیغمبر ﷺ پر صرف وہی ذِمّہ داری ہے جو ان پر ڈالی گئی ہے اور تم پر وہ ذِمّہ داری ہے جو تم پر ڈالی گئی ہے۔ اگر انہوں نے اپنی ذِمّہ داری ادا کر دی تو وہ بری ہو گئے‘مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ تم بھی بری ہو گئے‘ بلکہ تم سے تمہاری ذِمّہ داریوں کے متعلق پوچھاجائے گا کہ تم نے وہ پوری کیں یا نہیں؟
آپ میں سے بہت سے حضرات کے علم میں ہوگا کہ سورۃ البقرۃ کے سولہویں رکوع میں دو مرتبہ یہ آیت (134اور141) آئی ہے : {تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ ج لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ ج وَلَا تُسْئَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ4}’’یہ ایک جماعت تھی جو گزر گئی (یعنی حضرات ابراہیم‘ اسماعیل‘ اسحاق اور یعقوب ؑ‘ جو ہمارے برگزیدہ بندے تھے‘ وہ چلے گئے اور) جو کچھ انہوں نے کمایا وہ ان کے لیے ہے اور تمہارے لیے وہ ہو گا جو تم کمائو گے۔ اور تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے رہے تھے ‘‘۔یعنی تم صرف ان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے نہیں بخش دیے جائو گے بلکہ تمہیں اپنا حساب لازماًپیش کرنا ہو گا کہ تم کیا کرکے لائے ہو ع ’’پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے!‘‘