(منبرو محراب) عہد اور امانت کی پاسداری - ابو ابراہیم

9 /

عہد اور امانت کی پاسداری(سورۃالانفال کی آیات 27اور28کی روشنی میں )

 


مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے11نومبر 2022ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد!
جمعہ کی گفتگو کاایک اہم مقصد وعظ، نصیحت اور یاددہانی ہوا کرتا ہے ۔ قرآن حکیم اپنے لیے بھی وعظ کالفظ استعمال کرتاہے ۔ ارشاد ہوتا ہے :
{یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ قَدْجَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ }(یونس:57) ’’اے لوگو! آ گئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے ۔‘‘

وعظ اس بات کوکہتے ہیں جودل کو نرم کردے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺکی بات سے بڑھ کر کوئی بات دلوں کونرم کرنے والی نہیں ۔ لہٰذا خطاب جمعہ کا مقصد اصل میں دلوں کی نرمی ہے کہ ہفتے بھر میں انسان پر جو غفلت طاری ہو جاتی ہے وہ دور ہو جائے ۔ اسی لیے رسول اللہﷺ کا وعظ قرآن کریم کے ذریعے ہوتا تھا ۔ سنن ابی دائود کی روایت کے مطابق ((کان یقراء القرآن ویذکر الناس)) ’’اللہ کے رسول ﷺ قرآن پڑھتے اورلوگوں کوتذکیر فرمایا کرتے تھے ۔‘‘ ہماری بھی کوشش ہوتی ہے کہ قرآن کی آیات کے ذریعے یاددہانی کاسامان ہو۔بعض اوقات بہت اعلیٰ سطح کی باتیں ہو رہی ہوتی ہیں جو کہ ضروری بھی ہوتی ہیں لیکن بہت بنیادی باتوں سے لوگ صرف نظر کرتے ہیں۔آج ان شاء اللہ ہم سورۃ الانفال کی آیات (27، 28)کی روشنی میں چند بنیادی باتوں کی یاددہانی کریں گے ۔ ان دوآیات میں بنیادی طورپرخیانت سے بچنے کی تعلیم دی گئی ہے اوربتایاگیاکہ کئی مرتبہ مال اوراولاد کی محبت کی وجہ سے بندہ اللہ کے احکامات کوفراموش کردیتاہے اوراس عارضی دنیا کے کچھ فائدوں کی خاطراللہ کے احکام کوپامال کرنے لگ جاتا ہے۔ اس حوالے سے یہاں یہ یاددہانی کرائی گئی ہے کہ یہ دنیا عارضی ہے اور اللہ کے ہاں آخرت کی زندگی کی صورت میں جو اجر ہے وہ دائمی اور عظیم ہے ۔ اگر یہ بات ذہن میں رہے تو پھر اللہ کے احکامات کی پاسداری کرنااورگناہوں سے بچنا آسان ہوجائے گا۔ارشاد ہوتاہے :
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ} ’’اے اہل ایمان! مت خیانت کرو اللہ سے اور رسول(ﷺ) سے‘‘(الانفال :27)
جب اللہ تعالیٰ {یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا} فرماتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ پیغام یا حکم مخصوص لوگوں کے لیے ہے۔ اگر کم وبیش سات آٹھ ارب انسان زمین پرہیں تودوارب کے لگ بھگ کم وبیش محمدرسول اللہﷺ کواللہ کاآخری رسول مانتے ہیں ۔ جو نہیں مانتے ان سے قرآن پہلے ایمان لانے کا مطالبہ کرتا ہے اور جو ایمان لا چکے ہیں ان سے عمل کا مطالبہ کرتاہے ۔ معلوم ہوا کہ کلمہ کااقرار فقط کافی نہیں ،اللہ اوراس کے رسولﷺ کومان لیناکافی نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم ماننا بھی لازم ہے اور یہ ماننے کاتقاضا توپورے اسلام کے اعتبار سے ہے۔ ارشاد ہوتاہے :
{ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص } (البقرۃ:208) ’’ اسلام میں داخل ہو جائو پورے کے پورے۔‘‘
بہرحال جب اللہ کی طرف سے خطاب کاانداز یہ ہو{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا} توہمیں اپنے صاحب ایمان ہونے کی نعمت کاادراک بھی ہوناچاہیے ۔ اگر کسی کافر کے گھر میں پیدا ہوئے ہوتے توہم کب ریسرچ کرتے اور غوروفکر کر کے خالق کائنات کوپہچانتے، پھر رسالت کی اہمیت وضرورت کوپہچانتے اور پھرآخری رسول ﷺ کو ماننے تک ہم پہنچ جاتے اور پھر عمل صالح تک پہنچتے ،آج اس کے لیے لوگوں کے پاس کہاں وقت ہے ۔ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمارے پاس موقع بھی ہے اور اللہ پاک براہ راست ہمیں یاددہانی کرا رہا ہے : {یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ} ’’اے اہل ایمان! مت خیانت کرو اللہ سے اور رسول(ﷺ) سے‘‘(الانفال :27)
ہمارے دین میں امانت کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اللہ کے رسولﷺ اکثراپنے خطبات میں یہ جملے ادا فرماتے تھے:((لا إیمان لمن لا امانۃ لہ ولا دین لمن لا عہد لہ))’’اس میں کوئی ایمان نہیں جس میں امانت داری کاکوئی وصف نہیں اوراس کا کوئی دین نہیں جس میں وعدے کی پاسداری نہ ہو۔‘آج دین کے حوالے سے عام تصور یہ ہے کہ نماز، روزہ ، زکوٰۃ، حج ادا کر لیے تو اُسی کو دین سمجھ لیا گیا ۔ حالانکہ ا س سے آگے بھی دین ہے اورخاص طور پرمعاملات زندگی میں ہمارا امتحان زیادہ ہے ۔
اسی طرح سورۃ المومنون کی ابتدائی گیارہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے جنت الفردوس پانے والے خوش قسمت لوگوں کی صفات گنوائیں ان میں بھی امانت اور عہد کی پاسداری کی صفت شامل ہے ۔
{وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ(8)}(المو ٔمنون) ’’اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘
معلوم ہوا کہ ایک بندہ مومن کی بنیادی صفات میں امانت کی حفاظت شامل ہے ۔ اگر اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان کادعویٰ ہے توامانت اور عہد کی پاسداری کا تقاضا بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں ۔ جب بات کرے گاجھوٹ بولے گا،جب وعدے کرے گاتوڑے گا، جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے گی توخیانت کرے گااور مسلم شریف میں چوتھی نشانی ہے کہ جب جھگڑے کاموقع آئے گا توگالیاں دے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایاکہ جس میں یہ چاروں باتیں ہیں وہ پکامنافق ہے۔‘‘
آج ہمارا قومی مزاج کیا بن چکا ہے ؟بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمد ؒ فرماتے تھے کہ جوجتنے بڑے عہدے پرہے اتنابڑا جھوٹا،اتنابڑا وعدہ خلاف ،اتنابڑا خیانت کرنے والا اورآج اس میں چوتھی نشانی بھی شامل کر لیجئے کہ اتنا بڑا گالیاں دینے والا ہے ۔ آج ٹی وی ٹاک شوز میں سیاستدانوں کے درمیان جوزبان استعمال ہوتی ہے کیاشریف گھرانوں کے بچے اپنے والدین کے ساتھ بیٹھ کر سن سکتے ہیں ؟یعنی جھوٹ،وعدہ خلافی اور گالیاں آج ہمارا قومی مزاج بناہواہے۔الاماشاء اللہ!البتہ کسی پرمنافق کافتویٰ نہیں لگایاجائے گابلکہ سچی بات یہ ہے کہ اس تبصرہ میں دوسروں کے بارے میں کم اور اپنے بارے میں زیادہ غوروفکر کرنا چاہیے ۔ یعنی میں بھی اپنے اندر جھانکوں کہ ان چار نشانیوں کے اعتبار سے میں کہاں کھڑا ہوں؟
امانت کا تصور بھی بہت وسیع ہے ۔ ایک عام تصور ہے کہ کسی نے آپ کے پاس کوئی شے رکھوائی اور آپ نے واپس کر دی مگر یہ امانت کاکل تصور نہیں ہے ۔اگر امانت کے تصور کوکھولیں توزندگی کاہرگوشہ ہی اس میں شامل ہو جاتاہے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:((المجالس بالامانۃ))
مجالس میں جو گفتگو ہوتی ہے ، ،کمپنیز کی میٹنگز ہوا کرتی ہیں ،ہائی آفیشلز کی میٹنگز ہوتی ہیں اورو ہ معاملات انہی تک محدود رہنے چاہئیں جومتعلقہ لوگ ہیں۔اگر مجالس کی بات لیک ہوجاتی ہے تویہ بھی خیانت ہے ۔ حدیث میں ذکر آیا کہ ایک شخص تمہیں کہتاہے کہ میرا سلام فلاں کو پہنچادینا یہ سلام پہنچانا بھی آپ کے پاس امانت ہے ۔ اسی طرح یہ زندگی ، یہ ہمارا وجود ، ہماری صلاحیتیں اور تمام نعمتیں جو ہمیں ملی ہوئی ہیں یہ سب اللہ کی امانت ہیں ۔ ہم سے ان سب کے بارے میں سوال ہوگا ۔ آج جو ’’ میرا جسم میری مرضی ‘‘ کے نعرے لگ رہے ہیں یا Its my choice, Its my styleجیسے باغیانہ اور سرکشی والے جملے عام ہو رہے ہیں یہ بھی خیانت ہے ۔ ہمارا جسم اللہ کا دیا ہوا ہے تو اس پر مرضی بھی اللہ کی چلے گی ۔ جامع ترمذی کی مشہور حدیث ہے کہ قیامت کے دن پانچ سوال پوچھے جائیں گے۔ اپنی عمر کہاں گزاری؟ جوانی کن کاموں میں خرچ کی؟مال کہاں سے کمایا؟ اور کہاں پر خرچ کیا؟ اپنے علم پر کیا عمل کیا؟
یہ وجود اللہ کی امانت ہے، اس میں روح پھونکی گئی ہے ،یہ روح اللہ کی امانت ہے ۔ اللہ نے ہمیں ایمان کی دولت دی ہے یہ ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے ۔اللہ نے ہمیں قرآن کی نعمت دی ہے یہ ہمارے پاس امانت ہے۔ محمدرسول اللہﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: میں چلاجائوں گاتمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑ جائوں گا۔ ایک روایت کے مطابق:اللہ کی کتاب قرآن اور رسول اللہﷺ کی سنت۔اس امانت کو آگے پہنچانا اس اُمت کی ذمہ داری ہے۔ پھراللہ کا دین جو محمدرسول اللہ ﷺ پر مکمل ہوا ، یہ دین کامل آج ہمارے پاس بطور امانت موجود ہے ۔اللہ کے رسولﷺ کی جدوجہد جوان کوطائف لے گئی ، جس کے لیے آپ ﷺ نے ہجرت کی تکالیف برداشت کیں ، جس کے لیے اُحد میں خون بہایا ، جس میں اپنے ستر صحابہ کرامj شہید ہوگئے اقامت دین کی وہ جدوجہد جس میں آپ ﷺ نے اپنے پیٹ پر پتھر باندھے ، وہ محنت جس میں 259صحابہؓ کی جانیں اللہ کی راہ میں پیش ہوئیں ، تب قرآن کہتاہے :
{وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ طاِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقًا(81)}(بنی اسرائیل)’’اور آپؐ کہہ دیجیے کہ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا۔یقینا ًباطل ہے ہی بھاگ جانے والا ۔‘‘
اس ساری محنت ، جدوجہد اور قربانیاں کا قرض آج اس امت کے پاس امانت ہے ۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھناہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
اللہ کی جنت سستی نہیں ہے کہ آن لائن آرڈرپرنہیں ملے گی۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایاکہ اللہ کی جنت تومشقتوں سے گری ہوئی ہے ۔
تم اللہ کے رسول ﷺپر ایمان لاتے ہو اور انہیں آخری رسول مانتے ہوتو وہ تمہیں قرآن دے کرگئے ہیں ، وہ دین کوقائم کرکے دکھاکرگئے ہیں، وہ نظام عدل تمہارے پاس امانت ہے جسے تم نے دنیا میں قائم کرنا تھا تاکہ انسانیت اس کے ذریعے اللہ کی رحمتوں سے مستفید ہو مگر وہ دین آج مغلوب ہے کیونکہ ہم نے بحیثیت امتی اس امانت کی پاسداری نہیں کی ، کیا منہ دکھائیں گے قیامت کے دن اللہ کے رسول ﷺ کو ؟ ہر مسلمان کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ آگے فرمایا : {وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(27)} ’’اور نہ ہی اپنی (آپس کی) امانتوں میں خیانت کروجانتے بوجھتے ۔‘‘
اگر کسی سے قرض لیاہے تواحسن طریقے سے واپس کرنا چاہیے لیکن ہمارے ہاں کہاجاتاہے کہ وہ قرض ہی کیاجوادا ہوجائے اور وہ وعدہ ہی کیاجووفا ہوجائے ۔جبکہ اللہ کا قرآن کہتا ہے :
{اِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْئُوْلًا(24)}(بنی اسرائیل) ’’یقیناًعہد کے بارے میںباز پرس ہو گی۔‘‘
اللہ کے کلام کی طویل ترین آیت(البقرۃ:۲۸۲) قرض کے موضوع پر ہے ۔ یہ اتنااہم معاملہ ہے ۔اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں کہ شہید کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں لیکن قرض معاف نہیںہوتا۔ ایک دوسری حدیث میں فرمایاکہ ایک شخص بالفرض اللہ کی راہ میں قتل (شہید) ہو پھر زندہ ہو، پھر شہید ہو پھر زندہ ہو پھر شہید ہو، پھر زندہ ہو،پھرشہیدہو جائے اس کی بھی بخشش نہیںہے جب تک اس کاقرض ادا نہ ہوجائے ۔ ایک مرتبہ اللہ کے رسولﷺ کے سامنے تین جنازے آئے ۔ ایک کے ذمہ قرض نہیں تھا،آپ ﷺ نے جنازہ پڑھادیا۔دوسرے کے ذمہ قرض تھاآپ ﷺ نے پوچھاکوئی اس کاذمہ لیتا ہے کسی نے کہا میں اس کاقرض ادا کروں گا۔توآپﷺ نے اس کا بھی جنازہ پڑھا دیا ۔ تیسرے کے ذمہ قرض تھا توآپ ﷺنے پوچھاکہ کوئی اس کے قرض کاذمہ لیتاہے توکسی نے ذمہ داری نہیں لی۔ آپﷺ نے فرمایا:تم اس کاجنازہ پڑھومیں نہیں پڑھاتا۔یعنی ایساشخص نبی ﷺ کی شفاعت سے محروم ہوگیا۔لیکن ہم قرض کے معاملات کوبڑا لائٹ لیتے ہیں، وعدوں کوبڑا ہلکالیتے ہیں ۔ حالانکہ یہ بھی امانت ہے ۔ قرض کے علاوہ بھی امانت کی شکلیں ہیں۔ ایک گھرمیں باپ فوت ہوگیا تواس کابڑا بیٹا باپ کی وراثت کاامین ہے، ا س کودرست انداز میں تقسیم کرنااس کی ذمہ داری ہے ۔یہاں {وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(27)}کے الفاظ وارننگ کی حیثیت رکھتے ہیں کہ تمہیں معلوم ہے کہ خیانت کسے کہتے ہیں ؟ بندہ دوسروں کوبیوقوف بناسکتاہے، چھپ سکتاہے، چھپا سکتا ہے لیکن خود کو معلوم ہوتا ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں ۔ اللہ تو انسان کا خالق ہے وہ جانتاہے کہ انسان کیا کرتاہے ۔ فرمایا: {بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌNوَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَہٗ O}(القیامہ)’’بلکہ انسان تو اپنے نفس کے احوال پر خود ہی خوب بصیرت رکھتا ہے۔اور چاہے وہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔‘‘
ہر شخص اپنے اعمال کے بارے میں خوب جانتاہے ،وہ جانتاہے کہ خیانت کیا ہے ، کرپشن کیا ہے لیکن جانتے بوجھتے بھی اگر امانت میں خیانت کر رہا ہے تو پھر اس کی پکڑ شدید ہوگی ۔ خدا کی قسم! اگر مسلمان ہے اللہ کوماننے والا ہے تودومرتبہ ضرور سوچے گا۔پھر ہم سے بھی بڑھ کر اللہ تعالیٰ کو پتا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں ۔ فرمایا :
{اَحْصٰىہُ اللّٰہُ وَنَسُوْہُ ط}(المجادلہ:7) ’’اللہ نے ان (اعمال) کو محفوظ کر رکھا ہے جبکہ وہ انہیں بھول چکے ہیں۔‘‘
ہم توکرکے بھول جاتے ہیں لیکن اللہ نہیں بھولتا۔ بس اللہ پردے میں رکھ کرمعاف فرمادے ورنہ ایک ایک عمل کا حساب لیا جائے گا ۔ آگے فرمایا:
{وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌلا} ’’اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد فتنہ ہیں‘‘(الانفال :28)
فتنہ عربی میںآزمائش کو کہتے ہیں۔اللہ نے یہ دنیا امتحان کے لیے بنائی ہے ۔ فرمایا:
{نِ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط}(الملک:2)’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔
ہم پرجوبیت رہاہے وہ امتحان ہے ۔ہمیں جو مال ، اولاد اور جو بھی کچھ عطا کیا گیا ہے وہ امتحان کے لیے ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے : {وَمَا ہٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَہْوٌ وَّلَعِبٌ طوَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَہِیَ الْحَیَوَانُ م}(العنکبوت:64)
’’اور یہ دنیا کی زندگی تو کھیل اور تماشے کے سواکچھ نہیں۔اور آخرت کا گھر ہی یقینا ًاصل زندگی ہے۔ ‘‘
اصل میں انسان کو آخرت کی فکر کرنی چاہیے جہاں ہمیشہ رہنا ہے لیکن دنیا کے مال کے لیے ، اپنی اولاد کے لیے ، دنیا کی خواہش کے لیے انسان آخرت کا نقصان کر جاتاہے ، امانت میں خیانت کر جاتاہے ، کرپشن ، چوری ، ظلم ،ناانصافی کر بیٹھتا ہے۔ البتہ مال حلال سے کمایا جائے ،جائز طریقے سے خرچ کیاجائے توثواب ملے گا، راہ خدا میں خرچ کیاجائے تواجر بڑھتا چلاجائے گا۔ اولاد کی جائز طریقے پر کفالت کریں توثواب ملے گااور جوحرام کمائے گاگناہ پائے گا۔اولاد کوکھلائیں پلائیں، اس کی کفالت کریں لیکن اس کو پہلے اللہ کا بندہ توبنائیں، اللہ کے رسول ﷺ کاامتی بنائیں تویہ اولاد ہمارے لیے صدقہ جاریہ بن جائے گی ۔ لیکن کئی مرتبہ اسی اولاد کی جائز ناجائز فرمائشوںکی وجہ سے لوگ حرام میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ اللہ کے حقوق پامال کرتے ہیں نبی ﷺکی تعلیم کوپامال کرتے ہیں۔اس طرح وہ اپنی آخرت برباد کرلیتے ہیں ، اسی لیے یہاں خبردار کیا گیا اور آگے فرمایا:{وَّاَنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌعَظِیْمٌ (128)} ’’اور یہ کہ اللہ ہی کے پاس ہے بڑا اجر۔‘‘(الانفال :28)
آخرت کا یقین ایسی شے ہے جو ہمیں سیدھے راستے پر رکھے گی ۔ یہی چیز ہمیں دنیا میں قناعت کرنے پر آمادہ رکھے گی ، آخرت کاعقیدہ جس قدر پختہ ہوگا اُتنا ہی ہم امانت کی پاسداری کریں گے ، اللہ کے اورا س کے رسول ﷺسے وفاداری نبھائیں گے تو آخرت میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین !