(اداریہ) مجبوریاں…… - ایوب بیگ مرزا

9 /


مجبوریاں……پاکستان کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور اگر سیا سی حالات کو عسکری معاملات سے الگ کرکے دیکھیں تو اس قدر حساس بلکہ حساس ترین شعبہ بھی اسی الجھی ہوئی گتھی کا حصہ نظر آتا ہے۔ دنیا کے کسی جمہوری یا غیر جمہوری ملک میں فوج کے سربراہ کی تعیناتی یوں مذاق نہیںبنی ہوگی جیسی پاکستان میں بنا دی گئی ہے۔ انتہائی حساس معاملات میںبھی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ہو رہا ہے اور آرمی چیف کی تعیناتی کو بازیچۂ اطفال بنا دیا گیا ہے۔ 16 اکتوبر کو لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ہماری سیاست قلابازیاں کھانے لگی۔ اس موقع پر خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل کی بجائے وزیراعظم بنا دیا گیا اور ملک غلام محمد نامی ایک بیوروکریٹ کو گورنر جنرل لگا دیا گیا۔ یہ پہلا کھلواڑ تھا جو سیاسی میدان میں کیاگیا۔ اور سیاسی سطح پر ملک میں ’’بلی چوہے‘‘ کا کھیل شروع ہوگیا۔ 1951 ءسے 1958 ءتک سات سالوں میں یعنی لیاقت علی خان کی شہادت کے بعدسے 1958 ءتک چھ وزیراعظم بدل دیے گئے۔
گورنر جنرل ملک غلام محمد کو فالج ہو چکا تھا جس کے باعث سے وہ نہ آسانی سے حرکت کرسکتے تھے اور نہ بول سکتے تھے لیکن ٹوٹی پھوٹی زبان میں یہ کہتے سنائی دیتے تھے کہ کرسی نہیں چھوڑوں گا۔ پھر جب انہیں موقع ملا اُنہوں نے خواجہ ناظم الدین کی حکومت برطرف کردی۔قومی اسمبلی توڑدی گئی ۔ سندھ ہائی کورٹ نے قومی اسمبلی بحال کردی اور گورنر جنرل کے فیصلے کو غیر قانونی قراردے دیا لیکن سپریم کورٹ نے نظریہ ٔضرورت کے تحت گونرر جنرل کے احکامات قانونی قرار دیئے ۔ ان کے بعد ریٹائرڈ میجر جنرل سکندر مرزا گورنر جنرل بن بیٹھے ۔وہ بھی غیر جمہوری رویہ اختیار کرتے ہوئے حکومتی امور میں بے جا دخل اندازی کرتے رہے۔ وزرائےاعظم کے اس زنجیرکی فیروز خان نون آخری کڑی تھے ۔ انہوں نے ایک انتہائی غیر سیاسی قدم اٹھایا اور ایوب خان جو اُس وقت آرمی چیف تھے،ا ُنہیں وزیر دفاع کا عہد ہ دے کر کابینہ کا حصہ بنا لیا اور فوج کے لیے ایسی کھڑکی بلکہ در کھول دیا جو آج تک صحیح طور بند نہیں ہوسکااور قوم اس غلط فیصلے کی سزا اب تک بھگت رہی ہے ۔
7 اکتوبر 1958 ء کو ایوب خان نے مارشل لاء لگا کر تمام اختیارات خود سنبھال لیے ۔ ایوب خان کے 10 سالہ مارشل لاء کے دور میں سیاسی مخالفت کی گنجائش نہ تھی۔ ابتدائی 8 سالوں میں بحرِ قرار کی مانند سیاسی معاملات پُر سکون دکھائی دیے لیکن مارشل لاء کی قدغنوں کا ’پھل‘ آخری دو سالوں میں طلاطم کی صورت دکھائی دیا۔ بہرحال معیشت نے بہت ترقی کی۔ اہم بات یہ ہے کہ معاشی حوالے سے پاکستان کے لیے ا پنے پاؤں پر کھڑے ہوجانے کا سنہری موقع تھا لیکن امریکہ سے معاشی امداد بلا ضرورت لی گئی تاکہ امریکہ سے رشتہ بندھا رہے اور وہ سیاسی سرپرستی کرتا رہے ۔لیکن چونکہ ایوب خان کا حکومت حاصل کرنا ایک غیر قانونی فعل تھا اور اُسے عوامی پشت پناہی حاصل نہیں تھی لہٰذا اُنہوں نے یہ کمی امریکہ کی سرپرستی حاصل کرنے سے پوری کرنے کی کوشش کی ۔ ایک عوامی تحریک نے نہ صرف سیاسی استحکام کو غتر بود کردیا بلکہ اقتصادی ترقی کو بھی بہا کر لے گئی۔ دوسری طرف کیونکہ پاکستان کے محل وقوع کی وجہ سے امریکہ کو پاکستان کے قریب رہنے کی بڑی ضرورت تھی بلکہ خطے میں موجودگی کے لیے پاکستان سے تعلقات امریکہ کی شدید مجبوری تھی ۔ لہٰذا پاکستان پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے امریکہ نے پاکستان کو اقتصادی شکنجے میں کسنے کا فیصلہ کیا۔بڑے بڑے پروجیکٹس کا اعلان کیا گیا اُن کے لئے امریکی امداد کا اعلان ہوا اور ہمارے تجزیے کے مطابق ان پروجیکٹس میں خرچ ہونے والی رقم سے پاکستان کی سیاسی اور غیر سیاسی قیادت اور بیوروکریسی کو کرپشن کے ذریعے قابو کیا گیا جس کے نتیجہ میں اقتصادی لحاظ سے مسلسل ترقی کرنےو الا پاکستان تیزی سے زوال پذیر ہو نا شروع ہو گیا ۔پاکستان کے سیاست دانوں ،سول ملٹری بیورو کریٹس کی ہوس زر اور بددیانتی نے پاکستان کو ہر لحاظ سے کمزور کردیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ غیر ملکی قوتوں نے پاکستان کی اقتصادی کمزوری کو اپنے سیاسی اور عسکری مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔
حقیقت یہ ہے کہ کر پٹ مافیا اپنی کرپشن کی وجہ سے دوسروں کے ہاتھوں بلیک میل ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ اور وہ اپنے ملکی مفادات کو بھی تج کرنا شروع کردیتا ہے ۔ یہ ہے اُس کہانی کا مختصر ترین خلاصہ جو ہماری اقتصادی تباہی کا باعث بنی۔ جس سے ہماری اقتصادی حالت تباہ و برباد ہوگئی اور ہم دوسروں کے مقروض اور محتاج ہوگئے۔ یہ واضح رہے کہ یہ سب کچھ غیر ملکی قوتوں نے ایک پلان کے تحت ہمیں سیاسی اور عسکری لحاظ سے اپنے شکنجے میں کسے رکھنے کے لیے کیا۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں ایک بڑے اہم سوال کا جواب دینا ہے وہ یہ کہ دنیا میں نصف صد سے زیادہ مسلمان ممالک ہیں۔ سامراجی قوتوں نے خاص طور پر پاکستان کو کیوں ہدف بنایا اور ہمارے سیاسی و معاشی نظام پر کیوں حملہ آور ہوئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ وہ ہمارے معاشرتی نظام پر بھی شروع سے ہی حملہ آور ہیں لیکن وہ پہلے ہمیں معاشی اور سیاسی سطح پر مکمل شکست دینا چاہتے تھے تاکہ جب معاشرتی نظام پرحملہ کیا جائے تو ہماری مزاحمتی قوت ختم ہو چکی ہو یا انتہائی کم ہو چکی ہو۔ عالمی طاغوتی قوتوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ پاکستان کے قیام کے لیے اسلام بنیادی نظریہ کے طور پر سامنے آیا تھا گویا ایک خالص اسلامی ریاست معرضِ وجود میں لانے کا واضح پروگرام تھا۔ یہ مخالف قوتیں جانتی تھیں کہ اس نظریہ کی عملی تعبیر کا مطلب یہ ہوگا کہ عدل و قسط پر مبنی ایک ناقابل تسخیر نظام جب اس ریاست کی پشت پر ہوگا تو اُن کا سرمایہ دارانہ نظام جو انتہائی ظالمانہ اور استحصالی نظام ہے۔اُس کے سامنے ڈھیر ہو جائے گا۔ لہٰذا"nip the evil in the bud" کی پالیسی سامنے رکھ کر پاکستان پر تمام اطراف سے شروع سے ہی حملہ کر دیا گیا ایک دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ اُنہیں پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے چند سال بعد ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کی فوج بڑی پروفیشنل اور بڑی جفاکش ہے اور صحیح معنوں میں ایک جانباز فورس ہے۔ پھر یہ ہوا کہ حالات کے جبر نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنا دیا۔ جس سے دشمن طاغوتی قوتوں کے خدشات مزید بڑھ گئے۔لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ پہلے پاکستان کو سیاسی، معاشی اور عسکری طور پر کمزور کیا جائے پھر اُس کے معاشرتی نظام پر بھرپور وار کیا جائے اور اس حملے میں ہر ممکن شدت لائی جائے ۔
آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس طے شدہ پالیسی کے مطابق ہے۔ ہم اس وقت صرف اُن اقدامات کی طرف اشارہ کیے دیتے ہیں جو اُنہوں نے ہماری معاشرت تباہ کرنے کے لیے کیے ہیں۔ کبھی یہ قوتیں عورت کے حقوق کے نام پر دنیا بھر میں کانفرنسیں کراتی ہیں اور اُن میں مادرپدر آزادی کا درس دیتی ہیں۔ پھر گھریلو تشدد بل پیش کرکے ایک گھرانے میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی یہ لوگ روشن خیالی اور نام نہاد اعتدال پسندی کی اصطلاحات استعمال کرکے معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم جنس پرستی جیسے غلیظ کام کو قانونی حیثیت دلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ٹرانس جینڈر قانون بنوانے میںتو وہ پانچ سال پہلے کامیاب ہوگئے تھے اب اُسے قائم دائم رکھنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ ’’جوائے لینڈ‘‘ جیسی بیہودہ فلم کو سینما گھروں کے تعفن کو مزید بڑھانے کی وفاقی حکومت کی جانب سے سرکاری طور پر اجازت دے دی گئی ہے۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس محاذ پر مسلمانانِ پاکستان کچھ نہ کچھ مزاحمت کر رہے ہیں اگرچہ ہمیں خدشہ ہے کہ اگر ہم سیاسی اور معاشی طور پر کمزور ہوتے چلے گئے تو یہ مزاحمت بھی کمزور پڑ جائے گی۔ اس محاذ پر اگر مسلمانانِ پاکستان شکست کھا گئے تو پھر اُن کے قدم مکمل طور پر اُکھڑ جائیں گے اور ہماری اسلامی شناخت بھی خدانخواستہ ختم ہو جائے گی۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو مسئلہ پاکستان کی سلامتی کا ہی نہیں بلکہ ہمارے دین اور ایمان کا بھی ہے۔ اور بآوازِ بلند یہ کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنے معاشرتی نظام کا تحفظ درحقیقت پاکستان کا تحفظ ہے ،گویا خالص اور مکمل اسلامی نظام ہی مضبوط اور مستحکم پاکستان کا ضامن بن سکتا ہے۔