شریعت اپیلیٹ بینچ کا یہ فیصلہ ایوان ہائے اقتدار و طبقہ ہائے استحصال کے لیے ایک شمشیر برہنہ کی صورت اختیار کرگیااور اُن تمام طبقات نے یک زبان ہو کر اعلیٰ عدالت سے ’’دادرسی‘‘ کے لیے رجوع کیا جن کے مفادات پر حرف آنے کا امکان پیدا ہوگیا تھا۔ چنانچہ جون 2001 ء آنے سے پہلے پہلے مشرف حکومت نے ایک درخواست شریعت بینچ کے سامنے دائر کی جس میں فاضل عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ سودی نظام کو ختم کرنے کے لیے مزید دو سال کی مہلت دی جائے۔ بظاہر یہ درخواست حکم امتناعی کی عرضی تھی جو جون2001ء سے پہلے ہی UBLکے ذریعے داخلِ دفتر کروائی گئی تھی۔ چنانچہ اس عرضی کی بنیاد پر عدالت نے درخواست منظور کرتے ہوئے دو سال کی بجائے ایک سال کی مہلت دی اور ہدایت کی کہ جون2002ء تک مطلوبہ آئینی و انتظامی اقدامات مکمل کرلیے جائیں۔ ایمانداری کا تقاضا تو یہ تھا کہ حکومتِ وقت اپنی استدعا پر حاصل ہونے والی اس مہلت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے خلوصِ نیت کے ساتھ قوانین کی تبدیلی کا کام مکمل کرتی۔ لیکن عملاً کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ کی گئی بلکہ حسبِ معمول سود کی بنیاد پر نئی سکیموں کا اجراء اور نئے قرضے حاصل کرنے کا اہتمام کیا جاتا رہا۔
جب عدالت کی دی ہوئی مہلت ختم ہونے کو آئی تو UBLکی جانب سے اب نظر ثانی کی ایک درخواست عدالت میں داخل کی گئی۔ اس دوران ایک بڑاواقعہ یہ رونما ہوچکا تھا کہ PCO پر حلف نہ اٹھانے کی بنا پر جسٹس خلیل الرحمٰن خان اور جسٹس وجیہہ الدین احمد ریٹائر کردیے گئے… ‘ جسٹس محمود احمد غازی بھی ایک اور حکومتی عہدے پر فائزہونے کی بنا پر شریعت اپیلیٹ بینچ کا حصہ نہ رہے۔ صرف جسٹس منیر اے شیخ اور جسٹس مفتی مولانا محمدتقی عثمانی بطورِ فاضل جج بینچ کا حصہ باقی رہ گئے۔ لیکن سماعت سے متصلاً قبل ایک بڑا ’’دھماکہ‘‘یہ کیا گیا کہ جسٹس مولانا تقی عثمانی‘ جو سود سے متعلق اپیل کا فیصلہ لکھنے والے ججوں میں شامل تھے اور اپنی علمی و دینی وجاہت کے اعتبار سے باقی تمام ججز میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے‘ انہیں بغیر کوئی وجہ بتائے اپیلیٹ بینچ سے فارغ کردیا گیا‘ا ور علماء نشستوں پر نئے بینچ میں جناب علامہ خالد محمود اور جناب رشید احمد جالندھری کو شامل کرلیا گیا۔ اس طرح نظر ثانی کی درخواست کی سماعت جس بینچ نے کی ،اُس میں سابقہ بینچ کے شرکاء میں سے صرف جسٹس منیر اے شیخ باقی رہ گئے اور باقی تمام حضرات کی نئے ججز کے طور پر تقرری عمل میں لائی گئی۔ چنانچہ اس نئے بینچ میں جسٹس شیخ ریاض احمد کو بطور چیئر مین منتخب کیا گیا۔ جبکہ جسٹس قاضی محمدفاروق‘ جسٹس ڈاکٹر خالد محموداور جسٹس رشید احمد جالندھری کو اس بینچ کا حصہ بنا دیا گیا۔
اس نئے تشکیل دئیے گئے شریعت اپیلیٹ بینچ میں ہونے والی کارروائی کا خلاصہ اور حاصل یہ ہے کہ نظر ثانی کی اس درخواست پر UBLکے وکیل راجہ محمد اکرم نے 12جون2002ء کو بحث کا آغاز کیا۔ راجہ اکرم نے قرآنِ مجید کی آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ دلیل پیش کی کہ جدید بینکنگ کا نظام ’’بیع‘‘ کے وسیع تر مفہوم پر پورا اترتا ہے‘ اس لیے بینک انٹرسٹ کو ربا قرار دے کر ممنوع کردینا درست نہیں۔ گویا یہ بات از سرِ نو طے کی جائے کہ بینک انٹرسٹ ربا ہے یا نہیں…؟ نیز انہوں نے یہ مؤقف بھی اختیار کیا کہ اسلام کے نزدیک سود کی صرف ظالمانہ شرح ہی ناجائز ہے اور سمپل انٹرسٹ اُن کے بقول ظالمانہ نہیں۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سود کی تعلیمات قانونی درجے کی نہیں ہیں بلکہ اخلاقی درجے کی ہیں۔ اس لیے سود کی ممانعت بذریعہ قانون نافذ کرنا انصاف کے مطابق نہیں۔
حکومت پاکستان کے وکیل رضا کاظم نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ حکومت UBLکی درخواست اور معروضات سے پورا اتفاق کرتی ہے۔ شریعت اپیلیٹ بینچ اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلو ں پر عمل درآمد ناممکن ہے۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ربا اور سود کے امتناع سے ملک میں معاشی انارکی پھیلے گی اور تمام کاروبارِ معیشت درہم برہم ہوجائے گا۔ اس لیے انہوں نے سابقہ فیصلے کی تنسیخ کا مطالبہ کیا اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ حکومت نے غیر سودی نظام نافذ کرنے کے سلسلے میں 53اسلامی ممالک سے رابطہ کیا ہے‘ لیکن تمام ممالک نے یہی مشورہ دیا ہے کہ سود سے پاک بینکنگ کا نظام ناقابلِ عمل ہے …بلکہ یہ بھی کہ یہ معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا … اور اس طرح ہم بین الاقوامی برادری سے کٹ جائیں گے… اور ہمارا زندہ رہنا مشکل ہوجائے گا۔
اس مرحلے پر حکومتی وکیل نے اپنے ساتھی ڈاکٹر ریاض الحسن گیلانی کو بھی عدالت کے سامنے اپنی معروضات اور دلائل دینے کے لیے پیش کیا۔ ڈاکٹر ریاض الحسن گیلانی نے اپنے مخصوص انداز میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ سابقہ بینچ نے قرآن و سنت کے متعدد احکامات سے انحراف کیا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ اور دیگر فقہاء کے نظریات کو مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کے تمام شہریوں کو‘ چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم‘
tanzeemdigitallibrary.com © 2025