حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا بنت زید(53)
فرید اللہ مروت
عاتکہ بنت زید پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی صحابیہ تھیں اور ان کا تعلق قریش کےخاندان عدی سے تھا ۔
نام و نسب:
نام عاتکہ رضی اللہ عنہا ،ان کا سلسلہ نسب یہ ہے: عاتکہ بنت زید بن عمروبن نفیل بن عبدالعزیٰ بن ریاح بن عبد اللہ بن قرظ بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی ۔
جلیل القدر صحابی حضرت سعید رضی اللہ عنہ بن زید (یکےازاصحاب عشرہ مبشرہ ) ان کے حقیقی بھائی تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب ان کے چچا زاد بھائی تھے ۔ مشہور صحابیہ حضرت فاطمہؓ بنت خطاب ان کی چچا زاد بہن اور بھائوج تھیں۔
(سیرت رسول اللہ، محمد ابن اسحاق)
ابتدائی زندگی
حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا کے والد زید بن عمرو ان لوگوں میں سے تھے جو زمانہ جاہلیت میں ہی توحید کے قائل تھے۔ زید کو حضور ﷺ کی بعثت سے چند سال قبل 605ء میں کسی دشمن نے قتل کر ڈالا تھا اور عاتکہ یتیم ہو گئی تھیں۔
قبولِ اسلام اور ہجرت
سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نہایت حسین و جمیل اور خوش اخلاق تھیں۔ انہوں نے مکہ معظمہ میں اسلام قبول کیا اور دیگر مسلمان خواتین کے ساتھ بیعت کرنے کا شرف حاصل کیا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی تو سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نے بھی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کی سعادت حاصل کی، تاکہ رسول اللہ ﷺ کے قریب رہتے ہوئے ہدایت الٰہی کے چشمے سے سیراب ہو سکیں۔
سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا بڑی فصیح و بلیغ شاعرہ خاتون تھیں، بلکہ انہیں عرب شعراء میںبڑا بلند مقام حاصل تھا۔ مرثیہ کہنے میں انہیںبڑی مہارت حاصل تھی، ان کی یہ خوبی اس وقت آشکار ہوئی جب انہوں نے یکے بعد دیگر اپنے فوت ہونے والے خاوندوں کے بارے میں فصاحت و بلاغت کے شاہکار مرثیے کہے۔
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ علیہ سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا کےبارے میں
لکھتے ہیں کہ وہ بڑی حسین وجمیل اور عبادت گزار خاتون تھیں۔
پہلی شادیان کی پہلی شادی زید رضی اللہ عنہ بن خطاب سے ہوئی جو اسلام لا چکے تھے اور ان سے عمر میں بڑے تھے۔ ان کی معیت میں عاتکہ نے مدینہ منورہ کی جانب 622ء میں ہجرت کی تھی۔ بعد میں دونوںکے درمیان طلاق ہوگئی۔ دسمبر 632ء میںجنگ یمامہ میں زید شہید ہو گئے ۔
(الاصابہ ، حافظ ابن حجر عسقلانی)
دوسری شادیان کی دوسری شادی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ بن ابو بکر رضی اللہ عنہما سے ہوئی۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو ان سے اس قدر محبت تھی کہ ان کے عشق میں جہاد تک کو ترک کر دیا تھا۔ وہ بھی شوہر پر جان چھڑکتی تھیں اور ہمیشہ ان کے آرام کو اپنے آرام پر ترجیح دیتی تھیں۔
(الاصابہ ،جلد8)
چونکہ انہوں نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو جہاد پر جانے کے لیے مجبور نہیں کیا تھا، اس لیے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ عاتکہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دیں۔پہلے تو وہ کچھ عرصہ ٹالتے رہے لیکن جب والد ماجد کی طرف سے سخت اصرار ہوا تو انہوں نے حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا کو ’’ایک ‘‘ طلاق دے دی۔ لیکن بیوی کے فراق نے انھیں نڈھال کر دیا اور انہوں نے یہ شعر کہے:
اعاتك لا انساك ماذر شارق
وما ناح قمر ي الحمام المطوق
اعاتك قلبي كل يوم و ليلة
اليك بما تخفي النفوس معلق
ولم ارمثلي طلق اليوم مثلها
ولا مثلها في غير جرم تطلق
لَھَا خُلْقٌ جَزْلٌ وَرَأْیٌ وَمَنْصَبٌ
وَخَلْقٌ سَوِیٌ فِی الْحَیَاءِ وَمَصْدَقُ
(الاصابہ ، جلد8)
”اے عاتکہؓ! جب تک بادسبا چلتی ہے اور گلے میںپڑی گانی(ہار) والی فاختہ نوحہ کناں ہے، میں تجھے نہیں بھول سکتا۔ اے عاتکہؓ! جب تک مسافروں کے قافلے کوچ کا ارادہ رکھتے ہوں اور آسمان پر ستارے روشن ہوں، میں تجھے نہیںبھول سکتا۔ اے عاتکہؓ! میرا دل ہر دن ہر رات تیری طرف معلق رہتا ہے۔ میں نے آج تک اپنےجیسا کوئی نہیں دیکھا جس نے اُس جیسی کو طلاق دی ہواور نہ اسی جیسی دیکھی جسے بغیر جرم کے طلاق دی گئی ہو۔ اس کی اچھی عادت اور عمدہ رائے اور اچھی سیرت تھی۔ وہ سچ بولنے والی تھی۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑے نرم دل تھے، جب رات کو ان کے کانوں تک یہ اشعار پہنچے تو انہوں نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو رجعت کرنے کی اجازت دے دی۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اس بات سے بہت خوش ہوئے اور خوشی میں اپنے غلام کو آزاد کر دیا۔ اور حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا کو رجوع کی بشارت دینے کے لیے روانہ ہوئے۔
اس کے بعد وہ ہر غزوے میں شریک ہونے لگے ۔ طائف کےمحاصرے میں ایک دن وہ دشمن کی طرف سے آنے والے ایک تیر سے سخت زخمی ہو گئے۔
اگر چہ یہ زخم اس وقت تو مندمل ہو گیا لیکن تیر کا زہر اندر ہی اندر کام کرتا رہا۔ سرور عالم ﷺ کے وصال کے کچھ عرصہ بعد شوال 11 ہجری میں یہ زخم عود کر آیا اور اسی کے صدمہ سے حضرت عبد اللہ بن ابو بکر رضی اللہ عنہما نے وفات پائی۔ حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا کو ان کی وفات سے سخت صدمہ پہنچا ، مرحوم خاوند کی طرح وہ بھی شعر وشاعری میں درک رکھتی تھیں ۔ اس موقع پر انہوں نے ایک پُر درد مرثیہ کہا جس کے کچھ اشعار یہ ہیں: (طبقات ابن سعد، جلد8)
رزئت بخیر الناس بعد نبیھم
وبعد ابی بکر و ما کان قصرا
فاليت لاينفك عني حزنية
عليك ولا ينفك جلدي اغبرا
فللہ عينا من رأي مثلہ فتی
اكرو احمي في الهياج و اصبرا
اذا شرعت فيہ الاسنة خاضها
الي الموت حتی یترک الرمح احمرا
”مجھے نبی کریم ﷺ اور سید نا ابوبکر ؓ کے بعد سب سے بہتر انسان کی جدائی کا صدمہ پہنچا ہے جو کسی طرح بھی کم نہ تھا۔ میں نے قسم کھالی ہے کہ میری آنکھوں سے غم کے آنسو ختم نہ ہوں گے اور میرا جسم گرد آلود ہی رہے گا۔ جب تک درختوں کے جھنڈ میں فاختہ گاتی رہے گی اورجب تک روشن صبح رات کو دھکیلتی رہے گی۔ میری آہ و زاری جاری رہے گی۔ اللہ کی قسم! کوئی آنکھ ایسی نہیں جس نے اس جیسا کوئی جوان دیکھا ہو۔ جب جنگ میں نیزے حرکت میںآتے ہیں تو یہ موت کی وادی میں گھس جاتا ہے، حتیٰ کہ نیزے کو سرخ حالت میں چھوڑتا ہے۔‘‘
تیسری شادیجب انہوں نے عدت پوری کر لی توکچھ عرصہ بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نےحضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا۔ اس سے قبل انہوں نے شادی اور دنیاوی زندگی سے خود کو کنارہ کش کر لیا تھا۔ مگر ام المو ٔمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں ایسا نہ کرنے کی تاکید کی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھی ان کی وفاداری اور محبت ہمیشہ مثالی رہی۔
(الاصابہ،جلد8 )
حضرت عمر رضی اللہ عنہسے عاتکہ کو ایک بیٹا ہوا جن کا نام ایاد رکھا گیا۔شادی کے بعد عاتکہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مسجد میں جا کر نماز پڑھنے کی اجازت مانگی اور عمر خاموش رہے کیونکہ جس چیز کی اجازت خود نبی کریمﷺ دے چکے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے کیسے منع کرسکتے تھے؟ لہٰذا حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا مسجد جا کر نماز ادا کرتی تھیں۔
644ء میںحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے شہادت پائی۔اس موقع پر بھی انہوں نے ایک درد ناک مرثیہ کہا اس کے چند اشعار یہ ہیں:
من لنفس عادها احزانها
ولعين شفها طول السهد
وجسد لفف في الكفانہ
رحمة اللہ علي ذاك الجسد
فيہ تفجيع لمولي عَارم
لم يدعہ اللہ يمشي بسبد
”وہ کون ہے جس کے دل پرغم ٹوٹ پڑے اور اس کی آنکھ کو طویل بیداری نے چھوٹا کر دیا۔ وہ جسم جسے کفن میں لپیٹ دیاگیا اللہ کی اس جسم پر رحمت ہو۔ اس میں تکلیف پہنچی ہے ایک مقروض غلام کو، جس کے پاس اللہ نے کچھ نہ چھوڑا، تاکہ وہ کنگال چلے۔‘‘
(تاریخ الخلفاء، علامہ جلال الدین سیوطی)
چوتھی شادیحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حواری رسو ل حضرت زبیرؓ بن العوام سے ہوا۔ شادی میں انہوں نے دو شرطیں رکھیں۔ ایک یہ کہ زبیر انہیں ماریں گے نہیں، ان کے حقوق سلب نہیں کیے جائیں گے اور دوسرے یہ کہ انہیں مسجد جانے کی اجازت ہوگی۔
(تاریخ الرسل.....ابن جریر طبری)
حضرت زبیررضی اللہ عنہ نے 656ء میں جنگ جمل کے موقع پر شہادت پائی۔ حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا فرط غم سے نڈھا ل ہو گئیں اور بے اختیار ان کی زبان پر یہ مرثیہ جاری ہو گیا :
غدر ابن جرموز بفارس بهمة
يوم اللقاء وكان غير معرّد
يا عمرو! لونبهة لوجدتہٗ
لا طائشار عش الجنان ولا اليد
اِنّ الزبیر لذو بلاء صادق
سمع ، سَجِیْتَہٗ کریم المشھد
كم غمرة قد خاضها لم يثنہ
عنھا طرادك ياابن فقع القردد
فاذھب فما ظفرت یداک بمثلہ
فیھن مضٰي ممن يروح و يغتدي
ان کے سابقہ تمام شوہر شہید ہوئے تھے اور یہ مشہور ہو گیا تھا کہ جسے شہادت کا درجہ پانا ہو وہ عاتکہ رضی اللہ عنہا سے شادی کرلے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے ان سے شادی کی خواہش ظاہر کی مگر انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ اے برادر نبی، میں آپؓ کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔
(Ali lbn Abi Talib (Vols:2) by Dr. Ali M.Sallabi)
پانچویں شادیحضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تو شادی نہیں کی البتہ ان کے بیٹے حسین بن علی رضی اللہ عنہا سے شادی کرلی۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ان سے تقریباً 25 برس چھوٹے تھے اور اتفاق یہ کہ واقعہ کربلا میں اکتوبر 680ء میں انہیں بھی شہادت نصیب ہوئی البتہ حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ان سے قبل ہی ہو چکا تھا۔
(Aishah, The Beloved of Mohammed)
وفاتحضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا کا انتقال 672ء میں ہوا۔
سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نے بظاہر کامیاب زندگی بسر کی لیکن یکے بعد دیگرے بڑے بڑے صدموں سے دوچار ہونا پڑا۔ انہیں اپنے باپ کی وفات اور خاوندوں کی شہادت کے صدمات سہنے پڑے، لیکن یہ اللہ کی مشیت اور اس کا فیصلہ تھا جس کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ ہر کسی کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کو برضا و رغبت تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ کائنات میں صرف اسی کا امر کار فرما ہے۔ اس کے حکم کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں یہ ارشاد ہے:
{وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَc} (التکویر) ’’اور اللہ رب العالمین کے چاہے بغیر تم (کچھ بھی) نہیں چاہ سکتے۔‘‘
اللہ تعالیٰ حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا اور دوسری صحابیات اور صحابہ کرام j پر اپنی رحمتیں برسائے اور انہیں اپنی خوشنودی سے نوازے۔ آمین یا رب العالمین
***
tanzeemdigitallibrary.com © 2025