یومِ یکجہتی کشمیر
نعیم اختر عدنان
ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر ؟
ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی 5 فروری کا دن اہل پاکستان کشمیری بھائیوں کے ساتھ اپنی حمایت اور یکجہتی کے اظہار کے لیے منا رہے ہیں۔حالانکہ اس مقصد کی خاطر ریاست پاکستان نے الگ سے ایک ’’ کشمیر کمیٹی‘‘ بھی بنا رکھی ہے۔ کبھی نوابزادہ نصراللہ خان جیسے لوگ اس کمیٹی کو رونق بخشتے، تو کسی زمانے میں مولانا فضل الرحمن تھے ۔ موجودالوقت کشمیر کمیٹی کے سربراہ شہریار آفریدی ہیں۔ جنہیں اور بھی غم ہیں محبت کے سوا کے مصداق دیگر جھمیلوں ہی سے فرصت نہیں ملتی۔ چنانچہ امور کشمیر سے ان کی دلچسپی کیونکر ہو سکتی ہے ۔کشمیر کے لوگ طویل عرصہ سے غلامی کی زندگی گزارنے اور ظلم و بربریت کی چکی میں پس رہے ہیں ۔ایک جانب وادی جنت نظیر کے خوبصورت لوگ ہیں جو غاصبوں ،لٹیروں، ملگ گیروں اور جارحوں کے پنجہ خونیں کا شکار ہیں تو دوسری جانب محکوم ومظلوم کشمیری مسلمانوں نے بے شمار اور لازوال جانی و مالی قربانیاں دیتے ہوے اپنی آزادی کی شمع کو اپنے خون سے روشن رکھا ہوا ہے ۔ ہندوستان کی تقسیم سے پہلے بھی اہل کشمیر ڈوگرا راج،سکھا شاہی اور برطانوی استعماری طاقتوں کے مظالم کا شکار رہے۔
پاکستان اور بھارت کے نام سے دو علیحدہ ممالک کے قیام کے بعد بھی کشمیری کے مسلمانوں کے مقدر کا ستارہ دمکنے چمکنے سے نہ صرف محروم ہی رہا بلکہ ان کے شب و روز مزید تاریک اور نا گفتہ بہ ہی رہے ۔جب سے برطانوی سامراج نے ریاست جموں کشمیر کو گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کیا تب سے اب تک کشمیری قوم اپنی آزادی کی جنگ لڑنے میں مصروف عمل ہیں ۔ علامہ محمد اقبال جو خود بھی کشمیری الاصل ہیں ،نے اہل کشمیر کی زبوں حالی پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوے ایک لافانی شعر کہا تھا ؎
دہقان وکشت و جُو و خیاباں فروختند
قومے فروختند چہ ارزاں فروختنداس وقت دنیا میں اگرچہ انسانی حقوق کا بہت شور ہے مگر عملاً مسلمانوں کو انسانی حقوق کے دائرہ کار سے باہر ہی رکھا جاتا ہے چنانچہ عراق ہو یا شام ،لیبیا ہویا میانمار فلسطین یا کشمیر ہر جگہ مسلمان اس شعر کا مصداق بن چکے ہیں۔
ہو گیا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو
مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے رازامت مسلمہ کے پاس ہر قسم کے مادی وسائل، افرادی قوت اور بہترین محل وقوع سمیت بہت کچھ ہے۔ جبکہ پاکستان تو اسلامی دنیا کی واحد اور دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بھی ہے ۔مگر مسلم ممالک اپنے مظلوم اور مقہور مسلمانوں کی نصرت واعانت کے لیے جہاد کا علم بلند کرکے انہیں ظالم و جابر اقوام کی غلامی سے نجات دلانے کے قرآنی فرمان ’’اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم کمزور مردوں ، عورتوں اور بچوں کو ظالموں سے نجات نہیں دلاتے ۔‘‘اس حکم الٰہی پر عمل کی بجاے مسلم دنیا کے حکمران طبقات اور اشرافیہ نے محض دنیاوی مفادات کی خاطر عالم کفر کی زلف گرہ گیر کے اثیر بن کر غلامی کی۔ زنجیروں ہی کواپنا زیور سمجھ لیا ہے ۔اسی صورت حال کی عکاسی کرتے ہوے انقلابی شاعر حبیب جالب نے کیا خوب عکاسی کی ہے ؎
تو کہ ناواقف آداب شہنشاہی تھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
تجھ کو انکار کی جرأت جو ہوئی تو کیونکر
سایۂ شاہ میں اس طرح جیا جاتا ہے
طبع شاہانہ پہ جو لوگ گراں ہوتے ہیں
ہاں انہیں زہر بھرا جام دیا جاتا ہےاس وقت جبکہ ہم کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں وطن عزیز میں قبلہ عمران خان کی حکمرانی قائم ہے جبکہ بھارت میں نریندر مودی براجمان ہے، اس عہد پُر اشوب میں کشمیر کی آزادی و خود مختاری کی منزل مزید دور بلکہ دشوار تر کردی ہے ۔چنانچہ کشمیر کی موجودہ صورت حال پر علامہ اقبال کے یہ دعائیہ کلمات ہی بر محل بھی محسوس ہوتے ہیں اور موزوں بھی
توڑ اس دست جفا کیش کو یا رب جس نے
روح آزادی کشمیر کو پامال کیا ہےاور
آج وہ کشمیر ہے محکموم ومجبور وفقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیربرصغیر کی تقسیم کے وقت ریاست جموں کشمیر پانچ اہم علاقوں پر مشتمل تھا جن میں( 1) وادیٔ کشمیر (2) جموں( 3)لداخ( 4)گلگت (5) بلتستان شامل ہیں۔ اس پورے خطہ کشمیر میں مسلمان آبادی 77 فیصدکی بھاری اکثریت کی حامل تھی مگر مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست کشمیر کا پاکستان سے الحاق نہ کیا اور بھارتی افواج نے کشمیر پر بزور طاقت قبضہ کرلیا ۔بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا تھا مگر اب اس نے کشمیر کی خصوصی ومتنازعہ حیثیت کو ختم کرکے کشمیر کو باقاعدہ بھارت کا حصہ بنا لیا ہے۔ بھارتی حکمرانوں نے قبل ازیں یہی گھنائونا کھیل حیدرآباد اور جونا گڑھ کی ریاستوں میں بھی کھیلا تھا۔ ریاست حیدر آبار پر فوج کشی کے ذریعےاسے بھارت میں ضم کردیا اسی طرح مغربی بھارت میں واقع ریاست جونا گڑھ پر بھی فوجی تسلط قائم کرکے اسے بھی کا حصہ بنا دیا گیا۔ اب آتے ہیں کشمیر کے بارے میں پاکستان کی زبانی کلامی مؤقف پر اگرچہ بانی ٔپاکستان قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا مگر پون صدی کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجودبحیثیت قوم ہم نے کسی پیش قدمی کی بجائے رجعت قہقر ی ہی کا مظاہرہ کیا ہے ۔اہل کشمیر کو اپنے ہی زور بازو اور اپنے ہی خون سے اپنی آزادی و خود مختاری کی منزل حاصل کرنا ہو گی۔ ان شاءاللہ آزادی کشمیر کی منزل ہے۔ ایک نہ ایک دن یہ تحریک آزادی ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوگی، مگربقول شاعر
سب نقش ہیں ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خُونِ جگر کے بغیرآخرمیں علامہ اقبال کا یہ جرأت مندانہ اور ولولہ انگیز پیغام انسانیت کے نام ہے
جس خاک کے ضمیر میں ہے آتش چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند
tanzeemdigitallibrary.com © 2025